خطاب:۔ مفتی خالدایوب مصباحی شیرانی میڈیا کی گستاخیاں اور ہمارا رد عمل ترتیب وپیش کش:۔ صادق رضاسالک
میڈیا کی گستاخیاں اور ہمارا رد عمل
احتجاجوں کی تعداد معقول ہونی چاہیے :۔ احتجاج اتنے زیادہ بھی نہ ہوں کہ عام شہریوں کو محسوس ہونے لگے: ایک معمولی واقعے کوبلاوجہ قدر طول دیا جا رہا ہے اورنہ ہی اتنی کم، یا اس قدرے بے حیثیت ہوں کہ حکومت سن بھی نہ سکے۔
اگر حکومت نے کسی احتجاج کی شنوائی کر لی ہے یعنی ایکشن لینے کا معقول ، یا ذمہ داروعدہ ہو چکا ہے
تو اب ہمیں ہاتھ دھو کر اس ایشوکے پیچھےہی نہیں پڑے رہنا چاہیے۔ کام، کام کےطریقے سے ہوتا ہے، بارہا ہمارا مدعا صرف وعدہ فردا سے حاصل ہو جا تا ہے۔
کیوں کہ جب کوئی ایشوقانون کے ہاتھ میں چلا جاتا ہے اوراس کے باجودعوام احتجاجوں سے باز نہیں آتی تو کبھی پولیس لاٹھیاں چارج کر دیتی ہے، آنسو گیس کے گولے داغے جاتےہیں، گرفتاریاں ہوتی ہیں اوراس کا انجام رسوائی ہوتاہے،احتجاج کا یہ طریقہ بھی ٹھیک نہیں کہ کسی کی عزت نفس مجروح ہو۔
ایسے موقعوں پر پولیس کے پاس ایک دل چسپ بہانہ یہ بھی ہوتا ہے کہ ہمیں اطمینان بخش انداز میں کام نہیں کرنے دیا جا رہا ہے، اس لیے ہم اس طرح کے اقدامات کے لیے مجبور ہیں۔
جذبات کا اعتدال کے ساتھ اتناہی استعمال ہو جتنی ضرورت ہے، باقی اپنے اضافی جذبات کو کسی مناسب وقت ضرورت کے لیے سینے میں دبا کر رکھا جائے تاکہ ان کا بر وقت اظہار کیا جا سکے۔
احتجاج کی زبان تکنیکی ہونی چاہیے:۔ احتجاج کرنےکے مختلف طریقے ہوتےہیں: تحریری شکل میں ایف آئی آر کروائیں، انتظامیہ یا ارباب اقتدار کو میمورنڈم دیں، زبانی طور پر عوامی احتجاج درج کرواتے ہوئی اسپیچ دیں، پریس کانفرنس کریں،ڈائرکٹ میڈیاکے ذریعے اپنا احتجاج درج کروائیں وغیرہ۔
احتجاج کا جو بھی طریقہ مناسب محسوس ہو، اپنائیں لیکن بہر صورت تحریر اور تقریر ہر دو کی زبان تکنیکی ہونی چاہیے۔ کیوں کہ یہاں بولنے اور لکھنے میں سارا کھیل صرف الفاظ کا ہوتا ہے، آپ کے جذباتی الفاظ میں بھی بھرپور سنجیدگی اور بلا کا احتیاط ہونا چاہیے۔ لفظ لفظ نپا تُلا ہو، آئین کے مطابق ہو، زبان ایسی تکنیکی ہو کہ جذبات کی صحیح ترجمانی بھی کر دے اور قانونی طور گرفت میں بھی نہ آئے۔
احتجاجوں کی لوکیشن تبدیل کریں احتجاج مختلف جگہوں پر ہونےچاہیے۔ ہم نے حالیہ احتجاج میں بھی یہ بات نوٹ کی ہے کہ ایک ہی شہر میں کئی ایف آئی آر کاٹی گئیں اور کئی کئی صوبے بھی ایسے ہیں، جہاں پورے پورے صوبے میں کوئی ایف آئی آر نہیں۔ ایسا نہیں ہوناچاہیے۔
اپنے احتجاجوں کو موثر بنانے کے لیے ان کا دائرہ وسیع کریں، اگر ایک جگہ کوئی احتجاج ہوچکا ہے تو دوبارہ اسی شہر میں دوسرا احتجاج کرنے کی بجائے، اس احتجاج کو توسیع دیں اور کسی نئے علاقے میں اپنی محنت اور اپنےذرائع سے احتجاج کروائیں۔ کیوں کہ جو احتجاج جتنے بڑے اور زیادہ شہروں میں ہوگا، جتنے بڑے پیمانے پر اورجتنے بڑے جغرافیہ میں ہوگا، وہ اسی قدرمؤثر مانا جائے گا۔ آپ جتنی زیادہ صوبائی حکومتوں کو بیدار کرنے کی کوشش کریں گے، احتجاج اتنا ہی دم دار ہوگا۔
ہر ضروری موقع پر احتجاج ہو ہر ضروری موقع پر احتجاج ہونا چاہیے۔ ایسا نہ ہو کہ صرف چند جذباتی ایشوز پر، یا جہاں سب لوگ احتجاج کررہے ہوں، وہاں ہم بھی احتجاج کا ایک حصہ بن جائیں، ورنہ ہمیں ایشوز سے زیادہ سروکار نہ ہو جیسے عام طور پر ہوتا ہے۔ ہمیں ایشوز کی حساسیت کو ملحوظ رکھنا چاہیے۔
در اصل احتجاج محض شوق نہیں،یاجذبات کا اظہار ہی نہیں، اس سے تہذیبیں بھی وابستہ ہیں اور غیرتیں بھی۔ یہ اس قدر
sensitive
کام ہے کہ بےپناہ صبر وتحمل اور دانش وری والا انسان ہی مستقلا کرسکتا ہے۔
آج کسی ٹی وی چینل نے گستاخی کی ہے، سوشل میڈیا اور یوٹیوب پر ہزاروں چینلز ایسےہیں، جن کا صبح سے شام تک مشغلہ ہی گستاخیاں کرنا ہے۔فیس بک پر ایک دن میں لاکھوں لوگ بدتمیزیاں کرتےہیں ۔ٹویٹر پر بھی یہ مذموم حرکت ہوتی رہتی ہے۔
اسی طرح انسٹاگرام اور دیگرسوشل میڈیائی پلیٹ فارمز پر آئے دن گستاخیاں ہوتی رہتی ہیں، در اصل جذبات کےمظاہرے کے یہ میدان ہیں، یہاں آئیے اور اصولوں کے دائرے میں کام کیجیے، اتنا کام ہے کہ شاید مستقل بورڈ تشکیل دے انجام دینا پڑے۔
اس موقع پر یہ بات بھی ذہن نشیں رکھنی چاہیے کہ صرف احتجاج کبھی مسائل کا حل نہیں ہوتے،احتجاجوں کے ساتھ ہمیں مسائل کا حل نکالنے کے لیے بھی کوششیں جاری رکھنا چاہیے۔
احتجاج کو کوریج دیں جب بھی احتجاج کریں تو میڈیا کوریج ضرور کریں۔ میڈیا کونظرانداز نہ کریں، اس سے بچنے کی کو شش نہ کریں، اس کا پا مردی اور احتیاط کے ساتھ سامنا کریں اور صحافیوں کے ساتھ بد تمیزی ہرگز نہ ہونے دیں تاکہ آپ کے احتجاج سے دوسرے لوگوں کو عبرت ملے۔ آپ کا احتجاج عام ہو اور ہوسکتا ہے کہ بہت سارے لوگ آپ کی آواز میں آواز ملانے والے بن جائیں اوران سب کے بیچ اس بات کا بھی اہتمام کریں کہ ظالموں تک آپ کی آواز ضرور پہنچے۔
احتجاج کے جدید ذرائع اپنائیں احتجاج میں سسٹم کےساتھ ساتھ جدید تکنیک کابھی مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔اب کے دور میں احتجاج کےپرانے طریقوں کا زمانہ لَد گیا ہے،آج احتجاج کے زیادہ مؤثر اور وسیع طریقے ایجاد ہوچکے ہیں،ان کا بہت بھلے سے استعمال ہونا چاہیے جیسے:
۔(الف) جدید طریقوں میں سب سے زیادہ مؤثر طریق احتجاج ٹویٹر ہے۔ ٹویٹر ایک انٹرنیشنل پلیٹ فارم ،ہے جو حدود وقیود سے بالا تر ہے، کسی ایک ملک، یا کمیونٹی کی جاگیر نہیں۔
ٹویٹر کا فائدہ یہ ہے کہ یہاں پر وی آی پی لوگ موجود ہوتےہیں اور اس وجہ سے احتجاج کرنے والوں کے احتجاج کی دھمک ڈائرکٹ بڑوں تک پہنچتی ہے۔ ٹویٹرپر بہت طول طویل باتوں کاموقع نہیں ہوتا، بہت کم الفاظ اور جامع انداز میں اپنی بات کہنی ہوتی ہے۔
ٹویٹر کا سب سے اہم فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اس کے ذریعےدنیا بھر میں موجود ہم خیال افراد ایک دوسرے سے مربوط ہو جاتےہیں۔ یہاں ہیش ٹیگ (#)ایک ایسا کوڈ ہوتا ہے، جوتکنیکی طور پر گلیوں کے چھوٹے سے احتجاجوں کو بھی انٹر نیشنل پلیٹ فارم دے سکتا ہے۔
ٹویٹر میں مینشن کے ذریعے احتجاج سے متعلقہ افراد، یا تنظیموں مثلا ارباب اقتدار، میڈیا ہاؤسیز، پریس کلب، ہیومن رائٹس سوسائٹیز وغیرہ کو راست طور پر اپنے خیالات و احتجاجات سے آگاہ کیا جا سکتا ہے۔
سماج کے تعلیم یافتہ حضرات کو یہ جدید طریق احتجاج ضرور اپنانا چاہیے اور نوجوانوں کو
trained way
میں آگے بڑھانا چاہیے۔
۔(ب) دوسرا جدید طریقہ ہے آن لائن ایف آئی۔ بہت سارے شہروں میں یہ سہولت آسانی سے دستیاب ہے لیکن کچھ علاقوں میں اتنے
systematic
انداز میں یہ کام نہیں ہوپاتا اور کئی بار اس میں شنوا ئی بھی نہیں ہوپاتی لیکن یہ بھی ہمارا کام ہے کہ ہم اس میں شنوائی کروائیں۔ مثال کے طور پر میں نے آن لائن ایف آئی آر درج کرنے کے لیے راجستھان پولیس ویب سائٹ وزٹ کی تو دیکھا کہ وہ ویب سائٹ اور ایپ
proper way
میں کام نہیں کررہی ہیں۔ میں نے راجستھان کے وزیر اعلی، نائب وزیر اعلی اور پولیس ڈی جی پی کو مینشن کرتےہوئے ٹویٹر کے ذریعے شکایت کی اور ان ذمہ داروں سے اس بات کامطالبہ کیاکہ آپ یہ فیسیلٹی
available
کروائیں کہ ہم آن لائن ایف آئی آر کاٹ سکیں۔
یہاں اس واقعے کے ذکرکرنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر کسی کام میں کوئی رکاوٹ آرہی ہے تو اس کی شکایت کرنا اور اس سسٹم کو درست کروانا بھی ہمارا کام ہے اور یہ کام ہم آسانی سے کرسکتےہیں لیکن عام طور پر یہاں آتے آتے ہماری روش مایوس کن ہو جاتی ہے اور یہی سب سے بڑی کم زوری ہوتی ہے۔
آن لائن ایف آئی آر ایک اچھا اور سستا طریقہ ہے۔ اس کے لیے نہ تو ہمیں تھانوں کے چکر لگانے پڑتےہیں، نہ کسی سے حجت بازی کرنی پڑتی ہے اور نہ ہی ذہنی طور پر بہت زیادہ ڈسٹربنس ہوتا ہے۔
۔(ج) احتجاجی ای میل بھیجنا بھی ایک بہتر اور مؤثر طریقہ ہو سکتا ہے جیسے اگر میڈیا ہاؤسیز بدتمیزی کررہےہوں تو پریس کلب آف انڈیا میں ای میل کے ذریعے شکایت کرسکتے ہیں۔ اسی طرح انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے کو بھی ای میل کرسکتےہیں، یا چاہیں اعلی حکام کو بھی میل کرسکتےہیں۔ فلم انڈسٹری میں ہونے والی بد تمیزیوں کے خلاف سینسر بورڈ کو شکایت کی جا سکتی ہے۔
کیا آپ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو مطالعہ کرنا چاہتے ہیں تو آڈر کریں کتاب گھر تک پہنچ جاے گی
آخری گزارش:۔ اب آخر میں بہت وضاحت کے ساتھ کہنا چاہوں گا کہ جوشخص/تنظیم شرافت کی زبان نہیں سمجھتی، ہمیں کیا ضد ہے کہ ہم اس کے ساتھ شرافت کے ساتھ ہی بات کریں۔ ہمیں بھی چاہیے کہ پولیٹکس کا جواب پولیٹکس سے دیں۔ اسلام اس بات کا قطعاً حامی نہیں کہ آپ کے گال پر کوئی ایک تھپڑ مارے تو آپ دوسرا گال پیش کردیں
یہ ظالم کی حوصلہ افزائی ہے اور اسلام ظالم کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا بلکہ اسلام کا بہت سادہ سا اصول ہے: نہ ظلم کریں گے، نہ ظلم برداشت کریں گے اوریہی ہمارا مزاج ہونا چاہیے۔ اگر کوئی ہمارے ساتھ بدتمیزی یا پولیٹکس کررہاہے تو ہمیں بھی پولیٹکس کرنے سے کوئی گریز نہیں ہونا چاہیے۔
اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ چوں کہ اس وقت ہمارے ملک کا میڈیا انتہائی بد عنوان اور ضمیر فروش ہو چکاہے۔ 24/ گھنٹے آپ کے ساتھ پولیٹکس کرتاہے، پہلے نشتر لگانے والی ہیڈ لائنس کے ذریعے آپ کا بی پی بڑھاتا ہے
پھر ڈیبیٹ کے ذریعے آپ ہی کے بندوں کو بلا کر ذلیل کرتا ہے،اور پھر آپ ہی کے دبے کچلے، گھسے پٹے یا اندر کے موضوعات کی غلط تشریح کر کے ان کو ہائی لائٹ کرتاہے۔
یعنی بھڑکانا، لڑانا بھڑانا، ڈسٹرب کرنا، ملک کے اصل ایشوزسے غیر ضروری مسائل کی طرف ذہن منتقل کرنا اور نفرتوں کی کھائیوں کو مزید گہرا کرنا، میڈیا کا مشغلہ ہو چکا ہے۔
ایسے میں اگرمیڈیا ہمارے ساتھ یہ متعصانہ برتاؤ کررہاہے تو ہمیں بھی یہ کرنا چاہیے کہ
wipro
اور ریلائینس جیسی بڑی کمپنیوں سے رابطہ کریں، جن کے
advertisements
ان چینلز پہ چلتے رہتےہیں اور ان پر پریشر
build-up
کریں کہ یہ میڈیا ہاؤسیز، جن کو آپ ایڈ دے رہےہیں، انتہائی بد عنوان ہو چکے ہیں، لہذا ملک کی سالمیت کے لیےان کو ایڈ دینا بند کریں۔ یہ ایسا سادہ سا علاج ہے، جو ہر کوئی ایک ای میل کے ذریعے کر سکتا ہے۔
اسی طرح جن چینلز کے بارے میں ہمیں یقین ہے کہ وہ بدتمیزی کرتےہیں، ہمیں چاہیے کہ ہم بر سر بازار بلکہ جمعہ کے خطبات کے ذریعہ ماحول سازی کر کے ان چینلز کی کیبل کاٹیں/ کٹوائیں اور اس طرح کی کاروائیوں کے وڈیوز بنابنا کر عام کریں تاکہ مزید ماحول سازی ہو اور نفرتوں کے سوداگروں کو معاشی مار کے ذریعے اینٹ کا جواب پتھر سے ملے۔ جو ڈش یہ سروس دیتےہیں، ہم ان کے مالکان پر پریشر
build-up
کر سکتے ہیں وہ نفرت انگیز چینلز دکھانا بند کریں۔
معاشی بائیکاٹ سب سے بڑا بائیکاٹ ہے جب کسی کے پیٹ پر لات پڑتی ہے،بڑے بڑے بدتمیزوں کی عقل ٹھکانے لگ جاتی ہے اور ایسے موقعوں پر شرافت کام نہیں دیتی بلکہ سیاست کا جواب سیاست سے دینا ہوتا ہے۔
اگر کوئی اخبار بدتمیزیاں کرتاہے، آپ نہ صرف اس کو خریدنا بند کردیجیے بلکہ پورے شہر میں ماحول بنائیے کہ لوگ اس کا بائیکاٹ کریں اور ہو سکے تو پورے علاقے میں اس کی رسائی ہی روک دیجیے۔
اگر کسی اخبار کی ایک دن میں سو/ دو سو کاپیاں بھی احتجاجاً بند ہوتی ہیں توآئندہ دس سال تک بدتمیزی کرنے سے پہلے دس بار سوچے گا۔ یہ وہ طریقے ہیں جن سے بڑی آسانی کے ساتھ بدتمیزوں کی عقل ٹھکانے لگائی جا سکتی ہے۔ کیوں کہ شرارتیں اس وقت سجھائی دیتی ہیں، جب پیٹ بھرا ہوتاہے، جب پیٹ پر لات پڑتی ہے، اچھے اچھوں کو اپنی حدوداربعہ معلوم ہوجاتی ہیں۔
عزیز دوستو! اگر ہم کچھ کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے آپ کو
practical
۔(عملی) بنانا ہوگا اور ہر موقع پر
defensive
۔(دفاعی) بننے کی عادت چھوڑنی ہوگی۔ کام نہ کر کے دشمنوں کوحملے کا موقع دینا اور پھر جواب دینے کی فکر میں رہنا، کارگر طریقہ نہیں۔
اہل اجمیر سے چند باتیں :۔ میں اس موقع پر بہت کھلے دل سے درگاہ اجمیر معلی کے مسندنشینوں کی بارگاہ میں اپنا درد رکھنا چاہوں گا۔
خدا کے بندو! آپ کے پاس مال وزر کی کمی ہے یا جگہ کی؟ آپ کے پاس
viewers
کی کمی ہے، یا پلیٹ فارم کی، کون سی چیز ہے جو آپ کے پاس نہیں؟ کیا آپ سرکار غریب نواز کے نام پر اپنا ایک چینل بھی قائم نہیں کرسکتے؟ کیا آپ کی حیثیت بس اتنی سی ہے کہ آپ کسی کے پتلے پھونکیں؟
خدارا! آپ اپنی حیثیت پہچانیں۔ آپ چاہیں تو پورے ملک کے مسلمانوں کو ایک مرکزیت عطا کرسکتے ہیں۔ آپ چاہیں تو ہندوستان کے مسلمانوں کا دھارا پلٹ سکتےہیں۔ آپ چاہیں تو ملک کا ڈائریکشن چینج کرسکتے ہیں۔ کیوں کہ سرکارغریب نواز کا آستانہ کوئی چھوٹی سی دکان نہیں ہے، اہل عقیدت کا مرکز ہے۔ بھارت کے بے تاج بادشاہ کا معین الدین حسن ہے۔ اس آستانے سے جو پیغام دیا جائے گا، وہ پورے ملک کا نقشہ پلٹ سکتا ہے۔
اگر اجمیر شریف کی درگاہ صوفی مشن والا اپنا کوئی چشتی چینل شروع کردے توآج بھی مسلمانوں کے درجنوں مسائل کا حل نکل سکتا ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ اہل خانقاہ کی غیرتیں بیدار ہوں گی اور وہ یہ کام کر گزریں گے۔
خانقاہیوں کے علاوہ مسلمانوں کا وہ سرمایہ دار طبقہ جسے اللہ تعالی نے نوازا ہے، اکیلے اکیلے یا پارٹنرشپ میں اس طرح کا آغاز کر سکتے ہیں۔ ہمیں تسلیم ہو یا نہ ہو، بہر صورت یہ اکیلا اقدام عصر حاضر میں مسلمانوں کے لیے بڑ ی راحت جان ثابت ہو سکتا ہے۔ ورنہ ہم ہمیشہ دفاعی پوزیشن میں رہیں گے اور دفاعی پوزیشن میں رہنے والے کی کام یابی کی ضمانت نہیں۔
امید ہے کہ ہم ان ٹوٹے پھوٹے الفاظ پر غور کرکے اسے میڈیا اور سوشل میڈیا پر اپلائی کریں گے اور گستاخوں کی گستاخیوں کا جواب دینا، اپنی زندگی کا ریگولر حصہ بنائیں گے۔ اللہ تعالی توفیق خیر سے نوازے۔ آمین۔
ان مضامین کا بھی مطالعہ کریں
اسلام میں ظلم کا مقام اور اسلام مخالف کی نت نئی سازشیں
آن لائن شاپنگ کے لیے ان لنکوں پر کلک پر کریں