Friday, November 22, 2024
Homeمخزن معلوماتہم اردو مزاح کے عہد یوسفی میں جی رہے ہیں

ہم اردو مزاح کے عہد یوسفی میں جی رہے ہیں

تحریر: شاہ خالد مصباحی ہم اردو مزاح کے عہد یوسفی میں جی رہے ہیں

ہم اردو مزاح کے عہد یوسفی میں جی رہے ہیں

قارئین کرام : آئیے اردو مزاح پر تبصرہ کرنے سے قبل لفظ یوسفی پر اپنی معلومات آپ قارئین احباب کے حوالے کر تا ہوں ۔ “عہد یوسفی ” سے مشتاق احمد یوسفی کے زمانے کی تعبیر کی جاتی ہے ۔ جن کی ولادت 4 ستمبر 1921ء / ریاست ٹونک میں ہوئی ۔

اردو کے بھارتی نزاد پاکستانی مزاح نگاروں میں آ پ کا شمار اول فہرست میں ہے ۔ لیکن ان کے ذاتیات کے متعلق سب سے زیادہ دلچسپ یہ شمار کرایا جاتا ہے کہ انہوں نے ہندوستانی ہونے کی باوجود بطور مزاح نگار خود کو پاکستانی کہلوانا زیادہ پسند کیا۔

اور ادبی حیثیت سے تقسیم ہند کے بعد بھارت کو جو نقصان ہوا ان میں مشتاق احمد یوسفی کا ہجرت کر جانا بھی نہایت درد سے لبریز رہا ۔

قانون دانی کا علم علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے حاصل کرکے عالم کی جملہ جہتوں میں اپنا ایک الگ مقام حاصل کیا جس کا لازمی نتیجہ قومی اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے صدر کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے ۔

حتی کہ سنہ 1999ء میں حکومت پاکستان کی جانب سے انہیں “ستارہ امتیاز” ملا پھر سنہ 2002ء میں پاکستان کا سب سے بڑا تعلیمی اعزاز “نشان امتیاز” سے نوازا گیا۔

اور جب بات کی جاتی ہے ان کے مزاج حقیقی کے متعلق تو اردو ادب کا مشہور مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی بڑے خوش مزاج ، ملنسار نستعلیق انسان نظر آتے ہیں ۔

لیکن ان کی خصوصیات کا ایک کڑوا پہلو یہ رہا کہ یہ بینکر ہونے کے ناطے عوامی اور تعلقات عامہ جیسی گراں قدر خصوصیت کو اپنے دامن میں جگہ نہ دے سکے۔ لیکن ان کی اس کمی کا اظہار پیش عوام نہ ہوسکا کیونکہ یہ لکھتے کم تھے لیکن معیار پر بڑی گہری نظر رکھتے تھے۔

جس کی شواہد عظیم ان کی کتاب “چراغ تلے (1961ء)خاکم بدہن (1969ء)زرگزشت (1976ء)آب گم (1990ء)شامِ شعرِ یاراں (2014ء)” خود ہیں ۔

متحدہ ہندوستان کا یہ مشہور مزاح نگار ، عالم کے خاکہ مزاحیت میں اپنی کہی گئی کہانیوں ، اقوال و فرمودات سے اردو مزاح میں آج بھی ایک علیحدہ حسن وجمال کی کشش کھینچ رہے ہیں۔

مختلف موضوعات پر مختلف الطبع کے پیش نظر ان کی کہی گئی کچھ اقوال پیش خدمت ہیں 

۔( ١) کچھ لوگ اتنے مذہبی ہوتے ہیں کہ جوتا پسند کرنے کے لیے بھی مسجد کا رخ کرتے ہیں

۔(٢) اسلام آباد درحقیقت جنت کا نمونہ ہے یہاں جو بھی آتا ہے حضرت آدم کی طرح نکالا جاتا ہے۔

۔(٣) عوام الناس سے مراد وہ عوام ، جن کا ناس ماردیا گیا ہو۔

۔(٤)دوزخ میں گناہ گار عورتوں کو ان کے پکائے ہوئے سالن زبردستی کھلائیں جائیں گے۔

۔(٥) جتنا وقت اور روپیہ بچوں کو مسلمانوں کے سائنس پر احسانات رٹائے میں صرف کیا جاتاہے ، اس کا دسواں حصہ بھی بچوں کو سائنس پڑھانے میں صرف کیا جائے تو مسلمانوں پر بڑا احسان ہوگا۔

۔(٦) ایک زندہ ،ذمہ دار اور مہذب معاشرے کی یہ پہچان ہےکہ اگر وہ کسی کے درد کا مداوا نہیں کر سکتا تو اس میں شریک ہوجاتا ہے۔

۔(٧) میرا خیال ہے کہ حالات حاضرہ پر تبصرہ کرتے وقت جو شخص اپنے بلڈپریشر اور گا لی پر قابو رکھ سکے ، وہ یا تو اللہ کا ولی ہے یا پھر وہ خود ہی حالات حاضرہ کا ذمہ دار ہے ۔

۔( ٨) انسان کوموت ہمیشہ قبل از وقت اور شادی بعد از وقت معلوم ہوتی ہے ۔

قارئین احباب
آپ نے دیکھا کہ ممتاز مزاح نگار نے مذہبی معاملات سے لے کر معاشرتی مسائل تک مزاج نگاری کے یوں جوہر دکھائے جس کی نظیر موجودہ دہائیوں میں پانا مشکل ہے ۔

بعض اوقات مزاح نگار صرف اور صرف چٹکلوں تک محدود اپنی فکر پیش کرتا ہے جو بس ہنس کر ختم کردیا جاتا ہے، چند لمحوں تک زینت سماعت بنی رہتی ہے اس کے بعد اس کا وجود ختم ہوجاتا ہے ۔

لیکن مشتاق احمد یوسفی نے اپنی فکروں اور ماحول کی عکاسی کرکے اردو مزاح نگاری کی جو خدمتیں کیں ۔ تاابد اس کا احسان تمام مزاح نگاروں پر رہے گا اور آنے والی قومیں ان مزاح پسند طبیعت،فکر اور حالات کی عکاسی کرنے والی جملوں سے اردو کی مزاح نگاری میں ایک حسن نایاب اور ترقی بے مثال قائم کرتی رہیں گیں ۔ اور اس کی کیفیت سرور اور فطرت ذوق سے حلقہ مزاح محظوظ ہوتا رہےگا۔

اب آئیے لفظ مزاح پر تعریفی بحث کرکے اس کے معنوی حیثیت کا اظہار کریں ، اور تاکہ مضمون کا خاکہ ذہنی دریچے میں بآسانی سما سکے ۔

ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کے حوالے سے یہ بات نقل کرتے ہیں ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں کہ : “عام طور پر ’’طنز‘‘ اور ’’مزاح ‘‘ کے الفاظ کو ملا کر بطور ایک مرکب کے استعمال کیا جاتا ہے، مگر یہ دو مختلف المعانی الفاظ ہیں۔ مزاح کے لفظی معنی ہنسی مذاق، جب کہ طنز کے معنی طعنہ یا چھیڑ کے ہیں”۔

وضح عبارت: یہ کہ ایسی تحاریر جو آپ کو ہنسنے پر مجبور کر دیں اور اس تحریر میں تنقید کو مزاح کا جامہ پہنا دیا جائے لیکن اس کے باوجود بھی قاری ہنسنے پر مجبور ہوجائے طنز و مزاح کہلاتی ہیں۔طنز و مزاح کی ایک مقبول صنف لطیفہ بھی ہے۔
( اردو وکیپیڈیا )

قارئین کرام : اب آئیے ان شخصیتوں کے اسما ذکر کریں جنہوں نے اپنی فکروں اور طبیعت فراح کی جولانیوں سے اردو ادب میں ایک فن کا آغاز کیا اور اپنی شب وروز کی محنتوں سے اس کے حسن میں اضافہ کیا ۔تاریخی اعتبار سے مقبول طنز و مزاح نگار کے نام یہ ہیں: عزیز نیسن ، مشتاق احمد یوشفی ، ابن صفی، ابن ریاض ، ابن انشا ، پطرس بخاری ، رتھ ناتھ سرشار ، شفیق الرحمٰن وغیرھم

بالآخر میں بڑے افسوس کے ساتھ ان سبھی کی تابناک خدمات کو دیکھتے ہوئے خراج عقیدت پیش کرتا ہوں کہ خاک میں کیا صورتیں ہوگی کہ پنہاں ہوگئیں

تحریر: شاہ خالد مصباحی سدھارتھ نگری

ان مضامین کا بھی مطالعہ کریں

دبستان اردو کے پہلے ادیب و مصنف مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی کے علمی آثار

ہندوستان میں مسلمان اور ان کی تہذیب وثقافت کی محافظ ان کی مادری اردو زبان

اردو ادب کےفروغ میں مدارس اسلامیہ کاکردار

ONLINE SHOPPING

گھر بیٹھے خریداری کرنے کا سنہرا موقع

  1. HAVELLS   
  2. AMAZON
  3. TATACliq
  4. FirstCry
  5. BangGood.com
  6. Flipkart
  7. Bigbasket
  8. AliExpress
  9. TTBazaar
afkareraza
afkarerazahttp://afkareraza.com/
جہاں میں پیغام امام احمد رضا عام کرنا ہے
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments

قاری نور محمد رضوی سابو ڈانگی ضلع کشن گنج بہار on تاج الشریعہ ارباب علم و دانش کی نظر میں
محمد صلاح الدین خان مصباحی on احسن الکلام فی اصلاح العوام
حافظ محمد سلیم جمالی on فضائل نماز
محمد اشتیاق القادری on قرآن مجید کے عددی معجزے
ابو ضیا غلام رسول مہر سعدی کٹیہاری on فقہی اختلاف کے حدود و آداب
Md Faizan Reza Khan on صداے دل
SYED IQBAL AHMAD HASNI BARKATI on حضرت امام حسین کا بچپن