آہ! نیم معذور پیکر عشق و عزیمت (بڑےغور سے سن رہا تھا زمانہ-تمھی سوگئےداستاں کہتےکہتے)۔
نیم معذور پیکر عشق و عزیمت
آج عاشقان مصطفیٰ کی دنیاسوگوارہے، شیدائیان رسالت کی آنکھیں اشک بارہیں، مسلمانان خوش عقیدہ کےدل بےچین وبےقرار ہیں
اس لیے کہ 4/ربیع الثانی شریف 1442ھ /19/نومبر20ء شب جمعہ قریب ساڑھے آٹھ بجے سفیر وشہید عشق رسول،ناموسِ رسالت کے نڈرا ور بےباک نقیب، امیرالمجاہدین قبلہ علامہ خادم حسین رضوی رحمۃ اللہ علیہ وفادارن رسول اللہ صلی الله علی وسلم کی دنیا سونی کرگیے
انّاللّہ وانّاالیہ رٰجعون
ایک باران کی سانسیں ٹھہر جانےکی خبر و حشت اثر نےاہل سنت کی جیسے سانسیں تھام دیں
تھوڑی دیر بعد سانسیں بحال ہونےکی اطلاع نےعاشقان رسول میں خوشیوں کی لہردوڑادی، لیکن قضائے الٰہی کو کون ٹال سکتا ہے؟
مرضی مولی ازہمہ اولیٰ
یقینی خبررحلت سے صف ماتم بچھ گئی
نبض جہاں ٹھہر گئی تیری وفات پر
سب روکےکہ رہے ہیں اےقائد تجھےسلام
۔(فریدی)۔
ان کا غم فرقت صرف پاکستانیوں ہی کو نہیں رلارہاہے بلکہ حق تویہ ہے کہ ان کے بچھڑنے کا قلق پوری امت کوتڑپارہا ہے، ناموس رسالت کی پہریداری اورسرحدمحبت کی چوکیداری نےانھیں ایسی آفاقیت بخشی کہ ملکی سرحدیں ان کی محبت و قبولیت کو قید کرنے میں یکسر ناکام ثابت ہوئیں
یہی وجہ ہے کہ آج ان کی فرقت کو ہر سنّی اپنا ذاتی نقصان محسوس کرتا ہے
تاعمرکی حفاظت ناموسِ مصطفیٰ
اے سنّیوں کے رہبرراشد تجھے سلام
ان کا دل غیرت عشق سے ایسامعمورومالامال تھاکہ گستاخان رسالت کے مقابلے کے وقت معذوری بھی انھیں روک پانے سےقاصر نظر آتی تھی
تحریک لبّیک یارسول اللہ کو ہر محاذ وسطح پر رکارڈ سازکام یابیوں کے افق تک پہنچانے والی وھیل چئیر پربیٹھی آپ کی ذات جب اعدا کوللکارتی تھی تو ہواؤں میں اڑ نےوالوں کےجگر کانپ اُٹھتے تھے
یقیناً آپ اسم بامسمّی “غلام وخادم حسین” تھےجس طرح شمشیر حسینی کی جھنکار یزیدیوں کی موت کاپیغام ہوتی تھی یوں ان کے صدقے علامہ خادم حسین رضوی جب نعرہ لبیک یارسول اللہ لگاکر باغیان رسالت پر رضوی برق تپاں کی صورت حملہ آور ہوتے تو گستاخان ‘قادیان و گنگوہ وفرانس تھرا اٹھتے تھے
دوسری طرف نام وناموس رسالت کے ذریعے بےتحاشا شہرت ودولت بٹورنے والے،مگر مسلسل گھناؤنی گستاخیوں پر بھی ناموس رسالت کی پہریداری سے کَنّی کاٹ کر یہودونصاری کی گود میں بیٹھ کر دادعیش دینےوالے ان کی شیرانہ غرّاہٹ کی تاب نہ لاکر دم دبا کے بھاگتے نظر آتے تھے
جب لوگ بازار فرنگ میں ایمان وضمیر کاسودا کرتے پھرتے تھےشیرحق ڈنکے کی چوٹ پر کہا کرتا “دشمنان دین کے پاس اتنی دولت نہیں کہ وہ عاشق رسول کا ایک جوتا تک خرید سکیں”۔
سچ ہے جو بازار مصطفی میں بک چکا ہو دنیاکی کوئی دولت اسے ہرگز نہیں خریدسکتی
آپ بازار طیبہ میں جب تھے بکے
پھر کوئی کیا لگائے گا دام آپ کا
جب گستاخان فرانس نے رسوائے زمانہ خاکے شائع ی اورحکومت فرانس نے اس کی حمایت کی، اسے فریڈم آف اسپیچ
(freedom of speach)
کے پردے میں لپیٹ کر حق بہ جانب قراردیا تو”آ پ تڑپ اٹھے وھیل چئیر پرسوار ہو کر چلے اور میدان میں ڈٹ گیے
اور لانگ مارچ و مسلسل صدائے حق واحتجاج کے ذریعے گستاخان زمانہ اور ان کے ہمنواؤں کے دنوں کا چین اور راتوں کی نیند حرام کرڈالی
حتّی کہ حکومت پاکستان ان کے مطالبوں کو ماننےاور گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوگئی،سچ ہے
دیوانگان عشق محمد کو دیکھ کر
تھرا اٹھی ہےگردش دوراں کبھی کبھی
بانہوں میں ہارڈالے ہیں ماہ ونجوم نے
گذراہےان حدوں سے مسلماں کبھی کبھی
وہ جاتے جاتے عشق نبی کی جوت جگاتا گیا، کہتارہا”دین کا کام کرکے جاؤ تاکہ جب قبر میں جاؤ توسرکار فرشتوں سے کہیں اسے چھوڑ دو یہ دین کی راہ میں بڑا دکھ اور تکلیف اٹھا کے آیا ہے
سونے دوآرام سے اس کو یہ تو میرادیوانہ ہے
وہ پوری زندگی نبی کی نبی کے لیے گذارکر بقول حضور تاج الشّریعہ علیہ الرحمہ
داغ عشق نبی لےچلو قبر میں
ہے یہ داغ لحد روشنی کے لیے
سو وہ اندھیری قبرکے لیےچراغ عشق نبی لے کر چلے اور خوشی خوشی وعدہ دیدار رسول کے لیے جان دے کر نقد انعام کے مستحق ہوئے
جان دیدو وعدہ دیدارپر
نقد اپنا دام ہو ہی جائے گا (اعلیٰ حضرت)۔
اب قبرمیں اترتے ہی اپنے محبوب کے جلوہ جہاں آراسے مستفیض ہوں گے طلعت زیبائے حبیب سے تاقیامت ان کی آرام گاہ مہکتی رہےگی
قبر میں لہرائیں گے تاحشرچشمے نورکے
جلوہ فرماہوگی جب طلعت رسول اللہ کی
یاالٰہی گور تیرہ کی جب آئے سخت رات
ان کے پیارے منہ کی صبح جانفزا کا ساتھ ہو
ان سے محبت وابستگی ہمیں ناموس رسالت پرمرمٹنے اوراپنا سب کچھ نچھاور کر دینے کا تقاضا کرتی ہے
الله پاک اپنے حبیب کے جلووں سے ان کی تربت روشن اور ان کے درجات بلند فرمائے اور ہمیں ان کے چھوڑے ہوے مشن پر چلنے کی توفیق مرحمت فرمائے
سوگوار
فقیر رضوی مجیب الرحمن مصباحی
جامعہ اہل سنت فخرالعلوم وقادری مسجد بلرام پور
ONLINE SHOPPING
گھر بیٹھے خریداری کرنے کا سنہرا موقع