تحریر: محمد جسیم اکرم مرکزی پورنوی یک طرفہ محبت اور لالچی کتا
یک طرفہ محبت اور لالچی کتا
سرور دیں کی محبت بیٹی ہے یعنی قدرت کی امانت بیٹی ہے
افسوس کے ساتھ مجھے لکھنا پڑ رہا ہے آج ہمارے معاشرے میں اچھائیوں میں تو اضافہ نہیں ہو رہا ہے پر برائیوں میں ترقی ضرور ہو رہی ہے عوام تو عوام بعض #خواص نے بھی دل کے ٹکڑے کرنے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی بس یوں سمجھیں اس نئے زمانے کے آدمی ادھورے ہیں صورتیں تو ملتی ہیں سیرتیں نہیں ملتی
جب بات پردہ میں ہو تو ہم سمجھتے ہیں شاید یہ معاملہ یہیں پر ختم ہو جائے گا اور ہم کوئی اس کا سخت رد عمل نہیں کرتے ہیں لیکن ہماری سوچ نے ہمیں دھوکے میں رکھا اور یہ بھیڑیے صفت انسان نے اپنا ناپاک قدم آگے بڑھانے میں ذرا بھی تأمل نہیں کیا
جب تکلیف غیروں سے پہنچتی ہے تو کاروائی کرنا آسان ہوتا ہے لیکن جب اپنے ہی اپنوں کے گلے گھونٹنے لگے تو پھر ایک چینخ نکالنا بھی حرام سمجھا جاتا ہے
بعض ایسے حضرات جن کو ہم اپنے لیے باعث فخر و مسرت سمجھتے تھے لیکن انھوں نے بھی ہمارا خیال نہیں رکھا اپنے سر پر محبت کی ٹوپی پہن کر اور چہرے پر عشق کا نقاب ڈال کر (دل پھینک عاشق بن کر) شریعت کا بھی لحاظ نہیں رکھا اورمن چاہا کلمات خبیثہ بکنا شروع کر دیا
آپ خود غور کیجئے کسی کو اگر باادب عزت دار انسان سمجھ کر گھر بلائیں اور اس کی عزت کے ساتھ ضیافت کریں پھر وہ کچھ دن بعد اسی گھر کے کسی شہزادی کو دیکھ کر محبت کا دعویٰ کر بیٹھے تو کیسا لگے گا اور بڑی بڑی بات کہنے لگے جیسے میں اس شہزادی کے بنا مر جاؤں گا پھر کتنا عجیب لگے گا (یہ سب سن کر آپ کو بھی عجیب لگتا ہوگا)۔
اس کا مطلب ہوا اگر کوئی خوب صورت شہزادی ہو تو کوئی بھی بھیڑیے صفت انسان آکر اس سے محبت کا دعویٰ کر دے گا اس شہزادی کی عزت کی فکر کئے بغیر ایسا ہی کچھ ایک بھیڑیے صفت انسان نے کیا جو سن کر دل پرملال ہو گیا قلم حرکت میں آگیا اور یہ مضمون سپرد قرطاس ہو نے لگا
جب شہزادی کو پتہ چلا فلاں شخص میرے بارے میں اس قسم کی باتیں کر رہا ہے تو شہزادی نے صاف لفظوں میں اس سے محبت اور شادی کرنے سے انکار کر دیا اور بہت فکر مند ہوئی کہ لوگ ہمارے بارے ایسی بات کیوں کہہ رہے ہیںلیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ لڑکا شہزادی کا انکار سن کر بھی اپنی بات پر اڑا رہا ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ شرمسار ہوتا اور ایسی باتوں کو سوچنا بھی گوارا نہ کرتا۔
آپ خود سوچئے جب شہزادی آپ سے شادی کا انکار کر دے تو کیا آپ کو شریعت اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ آپ اس سے زبردستی شادی کریں اس کے والدین کو تنگ کریں ہر گز نہیں ! شریعت بالکل اجازت نہیں دیتی بلکہ اس کی مذمت کرتی ہے لیکن افسوس کہ آج وہی بھیڑیے صفت انسان کہتا ہے اگر وہ مجھ سے شادی نہیں کرے گی تو میں اپنی جان دے دوں گا
اب کوئی اس احمق سے پوچھے کیا خود کشی کر کے جان دینا محبت کی دلیل ہے کیا کسی کی خوشی کا جنازہ نکال کر اپنی خواہشات کی تکمیل کی راہیں ہموار کرنا محبت کی دلیل ہے؟ ۔
اس احمق کو پتہ ہونا چاہیے اگر موت نہیں ہے تو خود کشی کرنے سے بھی موت نہیں آئے گی اور اگر موت آ گئی تو یہ اس کی بد نصیبی ہے کہ اس کی موت ہی خودکشی میں تھی نہ یہ کہ اپنی محبوبہ کہ محبت میں مرااور سب سے زیادہ شرم کی بات تو یہ ہے جب شہزادی نے شادی سے انکار کر دیا تو پھر بھی اس بات کی تشہیر کرنا سب کو بتانا کہ میں فلاں شہزادی سے شادی کروں گا یہ تو حماقت اور ہوس پرستی کی انتہا ہے !۔
معلوم ہے ! جب کوئی اس شہزادی سے پوچھے گا کہ تیری شادی فلاں سے ہوگی تو اس وقت اس شہزادی پر کیا گزرتی ہوگی؟ وہ کیا سوچتی ہوگی کہ کتنا گرا ہوا اور گھٹیا انسان ہے کہ انکار کے بعد بھی سب پر اپنی حماقت کا اظہار کر رہا ہے۔
اور شہزادی کے گھر والوں پر کیا بیتتی ہوگی ؟یعنی اپنی خواہشات کی تکمیل کے لئے کسی کی زندگی کو تباہ و برباد کرنے میں ذرا بھی شرم نہیں آتی صرف منھ کھولا اور جو آیا بول دیا
کیف و مستی میں یہ مدہوش زمانے والےخاک جانے غم و آلام کا عالم کیا ہے
جب وہ جناب کو نہیں چاہتی ہے
تو اس کی دو وجہ ہو سکتی ہے
یا تو وہ ہوس پرست انسان شہزادی کو اچھا نہیں لگتا ہے اگر ایسا ہی ہے تو پھر جسے بھیڑیے صفت انسان اپنے لیے آب حیات سمجھ رہا ہے وہ اس کے لئے زہرہلاہل ثابت ہو سکتا ہے
یا پھر وہ کسی اور سے محبت کرتی ہے (یہ دو وجہ اس دور میں عام ہے) تو اس صورت میں کباب میں ہڈی بننا لازم آئے گا جو ایک ذی عقل و شعور انسان کے لئے ہر گز زیب نہیں دیتا کہ بعد انکار بھی اسی طرف متوجہ ہوں اگر ہوتا ہے تو سمجھ لو کہ وہ ایک نفس پرست نا اہل انسان ہے جس کی مثال اس لالچی کتے کی طرح ہے جو دریا کے کنارے منھ میں روٹی لیے کھڑا پانی میں اپنی تصویر دیکھتا ہے اور پانی میں بنی ہوئی تصویر کو سمجھتا ہے
یہ کوئی دوسرا کتا ہے جس کے منھ میں ایک روٹی ہے اور یہ دریا کے کنارے کھڑا کتا اس روٹی کی لالچ میں بھونکنے لگتا ہے اور یہ روٹی بھی پانی میں گر جاتی ہے اور لالچی کتا بھوکا بھونکتا ہی رہ جاتا ہے اس کتے کو ملتا کچھ نہیں ہے بس جو تھا وہ بھی کھو دیتا ہے
ایسے ہی یک طرفہ محبت کرنے والا دل پھینک عاشق ہے جس کو صنم ملتا ہے اور نہ وصال صنم بس اپنی یک طرفہ محبت کی تشہیر کرتا ہے (سب کو بتاتا ہے) اور خود ہی سب کی نظر میں ذلیل و خوار اور بدنام ہو جاتا ہے ملتا کچھ نہیں ہے پر اپنی عزت وقار سب کھو بیٹھتا ہے
امید ہے ایسے یک طرفہ محبت کرنے والے انسان کو تھوڑی بھی غیرت ہوگی تو وہ ایسی حرکت سے باز آ جائے گا ورنہ “بے حیا باش ہر چہ خواہی کن “۔
بیٹیوں کی عزتیں پامال کی خود کو جو کہتے رہے “سردار ہم”۔
کون ہے جس نے دیا انصاف جی کہنے کو تو ہیں سبھی “سرکار ہم”۔
بیٹیاں سب سسکیاں لیتیں رہیں اور کرتے رہ گیے دیدار ہم
حق کی باتیں جب کہا ہم نے جسیم اپنوں میں بھی ہو گئے اغیار ہم
از قلم : محمد جسیم اکرم مرکزی پورنوی
9523788434
ان مضامین کو بھی پڑھیں
کنواریاں بیٹھیں لڑکیاں ذمہ دار کون؟
ONLINE SHOPPING
گھر بیٹھے خریداری کرنے کا سنہرا موقع