Tuesday, November 19, 2024
Homeحدیث شریفمسئلہ تکفیر کس کے لیے تحقیقی ہے قسط چہاردہم

مسئلہ تکفیر کس کے لیے تحقیقی ہے قسط چہاردہم

تحریر: طارق انور مصباحی کیرلا مسئلہ تکفیر کس کے لیے تحقیقی ہے قسط چہاردہم

مسئلہ تکفیر کس کے لیے تحقیقی ہے قسط چہاردہم

مبسملا وحامدا::ومصلیا ومسلما

کفرکلامی پراجماع کا مفہوم

اجماع کی متعددصور تیں ہیں
۔(1)اجماع کی مشہور قسم کسی شرعی وفقہی مسئلہ پرفقہائے مجتہدین کا اجماع ہے ۔ اس کاحکم یہ ہے کہ اگر شرائط ولوازم سے متصف کسی ایک مجتہدکا اتفاق اس امرپر نہ ہوسکا تواجماع منعقد نہیں ہوگا۔اس اجماع کا نام ((اجماع شرعی))ہے۔۔

۔(2)اجماع کی ایک قسم ارباب حل وعقد کا اجماع ہے۔ارباب حل وعقدکا اجماع ،تمام امت کے اجماع کے قائم مقام قراردیاجاتا ہے، جیسے حضرات خلفائے راشدین رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی خلافت پر حضرات صحابہ انصار ومہاجرین رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کا اجماع، امت مسلمہ کے اجماع کے قائم مقام قرار پایا، کیوں کہ تمام مسلمانوں کومدینہ طیبہ حاضر ہونا ایک مشکل امر تھا۔

بعض خلفائے راشدین کی بیعت خلافت کے وقت بعض صحابہ کرام کسی سبب سے حاضر نہ ہوسکے توبھی خلافت اجماعی قرارپائی اور عین موقع بیعت پرحاضر نہ ہونے کے باوجود خود ان غیرحاضرصحابہ کرام نے اس خلافت کوصحیح تسلیم کیا اور جنہیں موقع ملا ،انہوں نے بعدمیں بیعت بھی کی ۔یہاں ارباب حل وعقد کا اجماع کافی قرار پایا۔(رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین)۔

حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا انتخاب خود حضرت صدیق اکبررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ،پھر حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین سے بیعت لی ۔ خلافت فاروقی پرحضرات صحابہ انصار ومہاجرین رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کا اتفاق واجماع تمام امت مسلمہ کا اجماع واتفاق تسلیم کیا گیا۔

حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے بعدکی خلافت کے لیے چھ اکابرصحابہ کرام کو منتخب فرما کر حکم فرمایا کہ آپ حضرات اپنے درمیان سے کسی ایک کومنتخب فرمالیں۔ان چھ صحابہ کرام میں سےحضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا انتخاب ہوا،پھرارباب حل وعقدسے خلافت کی بیعت لی گئی ۔

حضرات خلفائے راشدین رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کی خلافت راشدہ پرارباب حل وعقد کے اتفاق واجماع کوتمام مومنین کی جانب منسوب کیا گیا، اور حضرات خلفائے راشدین رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کی خلافت کو اجماعی قرار دیا گیا۔

حضرات خلفائے راشدین رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی خلافت کے لیے تمام ممالک اسلامیہ کے مسلمانوں سے بیعت خلافت نہیں لی گئی تھی۔

اس طرح کسی اہم امرپر ارباب حل وعقدکے اجماع کوتمام مسلمانوں کا اجماع قرار دینا حضرات صحابہ کرام کے عہد مسعودسے متوارث ہے۔یہ آج کسی نے ایجاد نہیں کیاہے۔

اسی طرح کفر کلامی میں اکابرعلمائے متکلمین واکابرین علمائے اہل سنت وجماعت کااتفاق تمام اہل سنت کا اتفاق تسلیم کیا جاتا ہے ۔ عالم اسلام کے ہرایک عالم کے شخصی اتفاق کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ارباب حل وعقد کا اتفاق، تمام علما کا اتفاق تسلیم کیا جاتا ہے۔

حضرت صدیق اکبررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خلافت کے لیے حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا انتخاب فرمایا،پھر خلافت فاروقی پر ارباب حل وعقدکا اجماع واتفاق ہوگیا۔اسی طرح کفر کلامی کا فتویٰ ایک ماہر وصالح متکلم وعالم جاری کرے ،اور ارباب حل وعقدکا اتفاق ہوجائے ، یا خلافت عثمانی کی طرح چند صالح وماہر متکلمین کفر کلامی کا فتویٰ جاری کردیں اورارباب حل وعقد کا اس پراتفاق ہوجائے تواسے اجماعی کہنا صحیح ہو گا ۔

سارے جہاں کے علما کا شخصی طورپراتفاق یہاں مراد نہیں۔

چوں کہ کفر کلامی میں جہات محتملہ یعنی جہت کلام ،تکلم ومتکلم سے ہر قسم کا احتمال معدوم ہوتا ہے،خواہ احتمال بالدلیل یا احتمال بلادلیل ہو۔ایسی صورت میں کسی متکلم کا بلا سبب انکار بھی نا قابل قبول ہوگا ،وہ حکم ’’من شک فی کفرہ وعذابہ فقدکفر‘‘کے دائرہ سے مستثنٰی نہیں ہوسکے گا،کیوں کہ یہ مسئلہ اجتہادی نہیں ہے کہ کسی مجتہد کواپنے اصول اجتہاد وقوانین استنباط کی روشنی میں اختلاف کرنے کاحق حاصل ہو۔

کفر کلامی کا ایک ہی قانون ہے ،یعنی ہراحتمالی جہت سے ہرقسم کا احتمال معدوم ہوجانا ۔اگر اس متکلم کو کلام ، متکلم یاتکلم میں کسی قسم کا احتمال نظر آتاہے تو جس متکلم کے پاس احتمال معدوم ہو چکا ہے ،اس سے اس احتمال کا حل معلوم کرلے۔

کفر کلامی میں اس عہد کے اکابرمتکلمین کا اتفاق ہوگیا توامر اتفاقی واجماعی کہلاتا ہے ۔ اجماع فقہی وشرعی یہاں مراد نہیں۔اجماع شرعی میں ہرمجتہد کے اتفاق کواتفاق واجماع کہاجاتا ہے۔

یہاں فتویٰ میں اتفاق کی بات ہے کہ ارباب حل وعقدنے اس فتویٰ پر اتفاق کرلیا تو دیگرتمام علماکا فتویٰ پر اتفاق تسلیم کرلیا جائے گا ۔

رہی بات اعتقاد کی تو تمام مومنین پر لازم ہے کہ کافر کلامی کوکافر کلامی اعتقاد کریں ۔ایسا نہیں کہ علمائے کرام کا اعتقاد کا فی ہے ، یا فتویٰ دینے والے علما کا اعتقادکافی ہے۔

اب عوام یادیگرعلما کافر کلامی کو مومن صالح تسلیم کریں توکوئی اعتراض نہ ہوگا،بلکہ اعتقاد میں سب کو شامل ہونا ہوگا،جیسے حضرات خلفائے راشدین سے بیعت خلافت گر چہ ارباب حل وعقدنے کی ہے،لیکن ارباب حل وعقد کے اتفاق کے بعد تمام مومنین کولازم ہے کہ ان حضرات کواپنا خلیفہ تسلیم کریں اور بحیثیت خلیفہ ان حضرات کے احکام کی طاعت وفرماں برداری کرنی سب پرلازم ہوگی۔خواہ اس نے بیعت کی ہو،یابیعت نہ کی ہو۔ان کواپنا خلیفہ ماننا اورطاعت کرناسب پر لازم ہے۔

ایمان اجمالی وایمان تفصیلی کی بحث

اسلام میں داخل ہونے کے لیے ایمان اجمالی کافی ہے۔قبول اسلام کے وقت جن عقائد اسلامیہ کا تفصیلی علم ہے,ان کی تفصیلی تصدیق کرے اور باقی امور کی اجمالی تصدیق۔

ہاں،جب تفصیل معلوم ہوجائے تو ان تمام عقائد معلومہ پر ایمان لانا ضروری ہے۔اگر عقائد معلومہ کا انکار کرے گا تو منکر پر حکم شرعی عائد ہوگا ۔

اگر ضروریات دین کا انکار کرے گا تو کافر قرار پائے گا۔اگر ضروریات اہل سنت کا انکار کرے گاتومتکلمین کے یہاں گمراہ قرارپائے گا۔انکارکے اعتبارسے حکم شرعی نافذہوگا۔

اگرکسی نے کہا کہ جو کچھ عقائد مذہب اسلام میں ہیں ،ہم نے ان تمام کومانا تووہ مسلم ہے۔یہ اجمالی ایمان ہے ۔اب اس کو جن اسلامی عقائد کا تفصیلی علم ہے ۔ان کو تفصیلی طورپر ماننا ہوگا اورجب اقرار کا مطالبہ تو اقرار کرنا ہو گا۔ایمان اجمالی اور ایمان تفصیلی کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے۔

قال التفتازانی فی حد الایمان:(التصدیق بجمیع ما جاء بہ النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم اجمالًا کافٍ فی صحۃ الایمان-وانما یحتاج الٰی بیان الحق فی التفاصیل عند ملاحظتہا-وَاِنْ کَانَتْ عَمَّا لَاخِلَافَ فِیْ تَکْفِیْرِ الْمُخَالِف فیہا-کحدوث العالم-فَکَمْ مِنْ مؤمن لَمْ یعرف معنی الحادث والقدیم اصلًا ولم یخطرببالہ حدیث حشر الاجساد قطعًا-لکن اذا لاحظ ذلک- فلو لم یصدق،کان کافرًا)۔
(شرح المقاصد جلددوم:ص270)

قال السید السند الشریف الجرجانی فی تعریف الایمان:(التصدیق للرسول فیما علم مجیئہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بہ ضرورۃً-تَفْصِیْلًا فِیْمَا عُلِمَ تَفْصِیْلًا-واِجْمَالًا فِیْمَا عُلِمَ اِجْمَالًا- فَہُوَ فِی الشَّرْعِ تصدیقٌ خاصٌّ)۔
(شرح المواقف ص718)

توضیح : مذکورہ بالا تفصیل کے مطابق کافر کلامی کوکافر ماننا لازم ہے،یعنی اجمالی طورپریہ اعتقاد رکھنالازم ہوگا کہ جو کافرکلامی ہے ،یعنی قطعی طورپرضروریات دین کا منکر ہے،(تکفیرکلامی میں معتبرشرائط کے ساتھ) ، وہ کافر کلامی ہے۔

اب کسی خاص فردکے بارے میں کافر کلامی ہونے کا یقینی علم حاصل ہوجائے تو اس خاص فردکو کافر کلامی ماننالازم ہوگا۔

اگر کوئی شیطانی وسوسہ یا اپنے ضعف ایمانی کے سبب تسلیم نہ کرسکے تو اس پر شرعی حکم وارد ہوگا۔اگر تکفیر کلامی کے علم یقینی کے بعدانکار کرتا ہے تو اس کے کافر ہونے میں کوئی شک نہیں ۔

سوال: عرب وعجم کے وہ مسلمان جو اشخاص اربعہ کونہیں جانتے ہیں ، نہ ہی ان کی کفری عبارتوں سے واقف ہیں ،نہ ان کے خلاف فتویٰ کفرسے واقف ہیں توان کا کیا حکم ہے؟

جواب : جولوگ اشخاص اربعہ کونہیں جانتے ہیں،وہ اجمالی اقرارکے سبب ضرور مومن ہیں اورتفصیلی اقرار یعنی خاص کسی شخص کے کافر کلامی ہونے کا اعتقاداس وقت لازم ہوگا ،جب اس کواس خاص شخص کے کافرکلامی ہونے کایقینی علم ہوجائے ۔

واضح رہے کہ کفر کلامی پر اہل حق کا اتفاق ہی ہوگا،کیوں کہ ہرجہت قطعی بالمعنی الاخص ہونے کے بعد کفر کلامی کا فتویٰ جاری ہوتا ہے ۔جب یہاں کسی جہت میں احتمال ہوتا ہی نہیں توکسی عالم کو کسی جہت میں احتمال سمجھ میں آئے تو لامحالہ اسے ان علما سے دریافت کرنا ہوگا ، جنہوں نے فتویٰ کفر جاری کیا ہے۔

اسے مخالفت کا حق نہیں ہوگا ،کیوں کہ کافرکلامی کوکافر ماننا ضروریات دین میں سے ہے۔
یہ ممکن ہے کہ ایک ہی مفتی کفر کلامی کا فتویٰ جاری کرے ۔جب اس نے کفرکلامی کا صحیح فتویٰ جاری کیا ہے تولامحالہ تمام جہتیں ان کی نظر میں اصول وقوانین کی روشنی میں قطعی بالمعنی الاخص ہوں گی۔

اب ایسی صور ت میں کسی کواحتمال سمجھ میں آئے تواسے حکم کفرجاری کرنے والے مفتی سے رفع احتمال کی صورت دریافت کرنی ہوگی،مخالفت کی اجازت نہیں ہوگی,بلکہ مخالفت کرنے والے کے پاس حقیقت میں کوئی قابل قبول دلیل نہیں ہو سکتی۔

ظنیات میں جانب مرجوح کا احتمال رہتا ہے،کیوں کہ ظن غالب کا یہی مفہوم ہوتا ہے کہ مفہوم مخالف کی گنجائش باقی ہے ،اور قطعی بالمعنی الاخص کا مفہوم یہ ہے کہ جانب مخالف کی گنجائش بالکل ختم ہے اور کسی قسم کاوہاں احتمال بلادلیل بھی نہیں۔

تنہا ایک مفتی شرع بھی کفر کلامی کا فتویٰ جاری کرسکتا ہے ،پھر دیگر حضرات کو ان کے قول کی جانب آنا ہوگا ۔ اس کی مثال مانعین زکات کے برخلاف حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا حکم جہاد ہے۔

ابتدائی مرحلہ میں حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوشبہہ ہوا تو انہوں نے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے دریافت کیا۔حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جواب کوسن کروہ مطمئن ہو گئے ،اور حکم جہاد کوصحیح قراردئیے ۔

ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ چندعلمائے اسلام نے مشترکہ طورپرفتویٰ کفر جاری کیا ہو،جیسے مناظرہ کی مجلس میں متعدد علمائے کرام مشترکہ طورپر حکم جاری کرتے ہیں۔

اسی طرح سلاطین اسلام کے درباروں میں جب کفر وارتداد کے فیصلے ہوتے توعموماً علمائے اسلام کی ایک جماعت موجود ہوتی،تاکہ راہ ارتداد اختیار کرنے والے کے شبہات کا ازالہ کرسکیں اور راہ حق کی طرف اس کی ترغیب کرسکیں اور مل جل کر حکم شرعی بیان کریں اور خطا کے وہم سے بھی نجات حاصل ہو۔

سوال : اجماع فقہی میں تمام مجتہدین زمانہ کا اتفاق شرط ہے اور بعض اجماع میں محض ارباب حل وعقد کا اتفاق کافی ہے ۔ دونوں اجماع میںوجہ فرق کیا ہے؟

جواب :بعض اجماع ،یعنی جس میں تمام مومنین کے اجماع کی ضرورت ہوتی ہے ،وہاں ارباب حل وعقد کا اجماع کافی سمجھا گیا ، کیوں کہ تمام مومنین کا یکجا ہونا ایک مشکل امر ہے ،اسی طرح ہرایک کی رائے معلوم کرنا بھی مشکل امر ہے ،مثلاً خلافت کے وقت تمام مسلمانان عالم کا مدینہ طیبہ حاضر ہونا مشکل امر ہے،اسی طرح تمام کی رائے دریافت کرنا بھی مشکل امرہے۔اگر مسلمان چند علاقوں تک محدود ہوتے تویہ آسان ہوتا۔

حضرات صحابہ کرام کے انتخاب خلیفہ کو حق تسلیم کرلیا گیا ،کیوں کہ وہ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے صحبت یافتہ ، نزول قرآن کے شاہد وگواہ اوردیگر فضائل سے آراستہ تھے،اس لیے ان کا اتفاق ،تمام مومنین کا اتفاق تسلیم کرلیا گیا۔

اسی طرح کفرکلامی میں ارباب حل وعقد علما کا اتفاق کافی ہوگا ،کیوں کہ جہاں بھر کے علمائے متکلمین کا اجماع مشکل ہے۔یہ ارباب حل وعقد کا اتفاق اس لیے کہ فتویٰ تکفیر میں خطا کا احتمال باطل بھی ختم ہوجائے۔

رہی بات فقہاے مجتہدین کی توفقہائے مجتہدین کی تعداد ہمیشہ قابل شمار رہی ،پھر وہ سلسلہ بھی ناپید ہوگیا ۔حضرت امام احمدبن حنبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعد کسی کے مجتہدہونے پر اتفاق نہ ہوسکا ، گرچہ بعض کا دعویٰ سامنے آیا ،مثلاً داؤد ظاہر ی وغیرہ کا,لیکن یہ محض دعوی ہے۔کوئی گمراہ مجتہد نہیں ہو سکتا۔

حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کے درمیان قریباً بیس مجتہدین تسلیم کیے گئے ۔ قلیل التعداد جماعت کا ایک جگہ اجتماع بھی مشکل نہیں ،نہ ہی چند حضرات کی رائے معلوم کرنا مشکل تھا,لیکن مجتہدین کی قلت تعداد کے باوجود دو صدیوں بعد اجماع مجتہدین کو مشکل شمار کیا گیا۔

جب کہ علماے متکلمین کی تعداد مجتہدین کی طرح بہت قلیل نہیں تو ہر ایک کی رائے معلوم کرنا اور ان تمام کا اجماع کس قدر مشکل ہو گا۔اسی مشکل کے سبب ارباب حل وعقد کا اجماع کافی ہو گا۔

فقہ وعقائدودیگراسلامی کتابوں میں جہاں خلافت راشدہ پر اجماع کا ذکرآتا ہے ،ان مقامات پرارباب حل وعقد کے اتفاق کے کافی ہونے کی دلیل مرقوم ہوتی ہے۔

امام اہل سنت قدس سرہ نے اشخاص اربعہ کے کفر کلامی پر علمائے حرمین طیبین کے اتفاق کابار بار ذکر فرمایا ہے۔ دراصل علمائے حرمین طیبین کی جانب اس کی نسبت کرکے اسی اتفاق واجماع کی جانب اشارہ فرماتے ہیں۔

اما م اہل سنت نے ایک سوال کے جواب میں تحریر فرمایا
‘’دیوبندیوں کے عقائد تووہ ہیں ،جن کی نسبت علمائے حر مین شریفین نے بالاتفاق تحریر فرمایا ہے کہ ’’من شک فی عذابہ وکفرہ فقدکفر‘‘جوان کے اقوال پر مطلع ہوکر ان کے کفر میں شک کرے ،وہ بھی کافر ہے۔

ایسی جگہ تو یہ سوال کرنا چاہئے کہ رشید احمد گنگوہی واشرف علی تھانوی و قاسم نانوتوی اور محمودحسن دیوبندی وخلیل احمد انبیٹھی اور ان سب سے گھٹ کر ان کے امام اسماعیل دہلوی اوران کی کتابوں براہین قاطعہ وتحذیرالناس وحفظ الایمان وتقویۃ الایمان وایضاح الحق کوکیسا جانتے ہو؟۔

اورا ن لوگوں کی نسبت علماے حرمین شریفین نے جو فتوے دئیے ہیں ،انہیں باطل سمجھتے ہویاحق مانتے ہو؟

اوراگر وہ ان فتووں سے اپنی ناواقفی ظاہر کرے تو بریلی مطبع اہل سنت سے حسام الحرمین منگا لیجیے ،اور دکھائیے ۔اگربکشادہ پیشانی تسلیم کرے کہ بے شک علماے حرمین شریفین کے یہ فتوے حق ہیں توثابت ہوگا کہ دیوبند یت کا اس پر کچھ اثر نہیں،ورنہ علمائے حرمین شریفین کا وہی فتویٰ ہے کہ ’’من شک فی عذابہ وکفرہ فقد کفر‘‘ اس وقت آپ کو ظاہر ہوجائے گا کہ یہ شخص اللہ ورسول کوگالیاں دینے والوں کو کافر نہ جاننا درکنار ،’’علمائے دین و اکابرمسلمین ‘‘جانے ،وہ کیوں کر مسلمان ، پھر مسئلہ عرس وفاتحہ ،فرعی مسائل کااس کے سامنے ذکر کیا ہے۔فقط‘‘ ۔
(فتاویٰ رضویہ جلدیازدہم: ص55-رضا اکیڈمی ممبئ)

خلافت صدیقی پر اجماع اور تکفیر کلامی پر اجماع کے درمیان فرق

خلافت صدیقی کا ثبوت ارباب حل وعقد صحابہ کرام کے اجماع سے ہوا ۔جس امر کاثبوت صحابہ کرام کے اجماع قطعی منصوص سے ہو ، وہ قطعی بالمعنی الاعم اور ضروریات اہل سنت میں سے ہوتاہے۔

اس طرح خلافت صدیقی ضروریات اہل سنت میں سے قرارپائی ۔ تاویل فاسدکے ساتھ ضروریات اہل سنت کا منکر متکلمین کے یہاں گمراہ اورفقہاے احناف اوران کے مؤیدین کے یہاں کافر فقہی ہوتا ہے ۔

کافر کلامی کوکافر ماننا ضروریات دین میں سے ہے ۔ضروریات دین اجماعی ہوتی ہیں۔ضروریات دین کے اجماعی ہونے کا مفہوم یہ ہے کہ ہرایک کواسے ماننا فرض ہے ۔انکار کرنے والا دائرئہ اسلام سے خارج ہوتا ہے۔ اب جو لوگ کہتے ہیں کہ کفرکلامی کے صحیح فتویٰ کے بعدبھی دوسرے مفتی کو اختلاف کا حق حاصل ہے ، وہ لوگ ضروری دینی کے اجماعی ہونے کے منکرقرار پائیں گے۔

کفرکلامی کے فتویٰ میں اختلاف اسی وقت جائزہوگا ،جب فتویٰ غلط ہو۔ فتویٰ صحیح ہے تو اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں ۔اختلاف کرنے والا کافر ہے۔

تکفیر کلامی پر ارباب حل وعقد کے اجماع واتفاق کے اظہارسے محض اس فتویٰ کی صحت کا مؤکد ہونا ثابت ہوگا ،ورنہ اگر ایک ہی عالم نے کسی پر کفر کلامی کا صحیح فتویٰ جاری کیا ہے تو کسی کواختلاف کا حق نہیں ۔جب ملزم کا کفر کلامی ثابت ہوگیا تو اس کوکافر ماننا ضروریات دین میں سے ہو گیا ۔ اس کے کفر پر تمام مومنین کا اجماع واتفاق ہی ہوگا ۔

ارباب حل وعقد کوبھی یہ ماننا فرض ہے۔اس سے اختلاف کرنے والا دائرئہ اسلام سے خارج ہوگا ۔

ضروریات دین کے اجماعی ہونے کا مفہوم یہ ہے کہ اس پر تمام امت مسلمہ کا اجماع واتفاق ہوتا ہے۔ جس کو کسی ضروری دینی کا یقینی علم ہو، اس پر اس کوماننا فرض ہے۔

ضروری دینی کے منکر کا کافر ہونا ارباب حل وعقد کے اجماع سے ثابت نہیں ہوگا ،بلکہ ایسے شخص کا کافر ہونا ضروری دینی کے انکار کے سبب ہوگا ،اور ضروری دینی کے انکارکا کفر ہوناقرآن وحدیث اور اجماع متصل سے ثابت ہے،یعنی عہدرسالت سے تواتر کے ساتھ مروی ہے۔

اب یہ کہ فلاں شخص سے اس کفر کا صدور ہوا یانہیں ؟تکفیر کے شرائط متحقق ہوئے یانہیں ؟یہ تحقیق مفتی کی ذمہ داری ہے ۔ ارباب حل وعقد کے اجماع سے محض ان شرائط کے تحقق وثبوت کی تاکید ہوجاتی ہے،یعنی مفتی نے صحیح تحقیق پیش کی ہے ۔تاکید کا مفہوم یہی ہے کہ ثابت شدہ امرکی تقویت ہوجائے ۔نہ کہ کسی امر جدید کا اثبات وثبوت ہو۔اگر امر جدید کا اثبات ہوتوپہلی چیز کی تردید ہوگی ،نہ کہ تاکید۔

کسی جاہل کوکفریاکسی شرعی مسئلے کا فتویٰ دینے کی اجازت نہیں، لیکن اتنے غیرعالم مسلمانوں نے کسی کلمہ گوکو روزانہ بلا جبر واکراہ،اپنی خوشی سے، ہوش وحواس کی سلامتی کے ساتھ بت پرستی کرتے دیکھا،جتنی تعداد تواتر کے لیے شرط ہے ۔وہ بت پرست کلمہ گو نومسلم بھی نہیں ،نہ ہی غیر مخالط مسلمین ہے،بلکہ قدیم الاسلام ومخالط مسلمین ہے۔ مسلمانوں کی جماعت نے اسے بت پرستی سے منع کیا اور کہا کہ یہ کفر ہے۔

اسے اس بات کا یقین بھی ہوگیا کہ یہ کفر ہے ،لیکن وہ یہ کام محض قوم ہنود کوخوش کرنے کے واسطے ،یا کسی دنیاوی غرض کی خاطر انجام دیتا ہے ، جیسے اس کے پاس سونے چاندی کی دوکان ہے ۔اس کے خریدار زیادہ ترہنود ہیں،اس لیے قوم ہنود کوراغب کرنے اور انہیں خوش کرنے کے واسطے وہ اپنی دوکان ہی میں ایک چھوٹا سا بت رکھا ہواہے ،جیسے ہندولوگ اپنی دوکانوں میں بت رکھتے ہیں ،پھر وہ کلمہ گوشخص روزانہ اس بت کوپوجتا ہے ، جیسے ہندولوگ صبح وشام اپنی دوکان کے بت کوپوجتے ہیں ۔

اب ان غیر عالم مسلمانوں نے مفتی کے پاس آکر کہا کہ وہ کلمہ گوشخص روزانہ بت پرستی کرتا ہے ،جسے ہم لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں ،ہم لوگوں نے اسے کہا کہ یہ کفر ہے ،وہ اس بت پرستی کوکفر مانتا بھی ہے ،لیکن بت پرستی سے بازنہیں آتا ،کیوں کہ اس کے گراہک زیادہ ترہندوہیں ۔
وہ ہندؤں کوخوش رکھنے کے لیے ایسا کرتا ہے،لہٰذا وہ آدمی کافرہے،ہرگز مومن نہیں ہے۔

ہم لوگوں نے اسے کافرسمجھ کراپنی جماعت سے نکال دیا ہے اور کافر سمجھ کر اس کومسجد آنے سے روک دیا ۔اس کو اپنے قبر ستان میں دفن نہیں ہونے دیں گے۔اس کی نماز جنازہ بھی نہیں پڑھیں گے ،وغیرہ۔

یعنی خود ان غیر عالم مومنین نے ہی اس کلمہ گوشخص کوکافر سمجھا اورکافربتایا ۔ گرچہ ان غیر عالم عوام کو فتویٰ دینے کا حق حاصل نہیں ہے، لیکن یہاں شرائط تکفیر متحقق ہیں ،اس لیے مفتی کو اس کلمہ گوبت پرست کے کفر سے انکار کی کوئی صورت نہیں ۔اگر مفتی اس کے کفرکاانکار کرتا ہے تو مفتی خودکافرہے۔

دنیا بھر کے مسلمانوں میں سے جس کو اس بت پرست کلمہ گوکے حقیقی حال کا یقینی علم ہو،اس پر فرض ہے کہ اس کلمہ گوبت پرست کوکافر مانے۔عدم علم کی صورت میں معذور ہے

واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب والیہ المرجع والمآب

تحریر: طارق انور مصباحی

مدیر: ماہنامہ پیغام شریعت، دہلی

اعزازی مدیر: افکار رضا

www.afkareraza.com

مسئلہ تکفیر کس کے لیے  تحقیقی ہے ؟۔ گزشتہ تمام قسطوں کے لنک ملاحظہ فرمائیں

قسط اول

قسط دوم

قسط سوم

قسط چہارم

قسط پنجم

قسط ششم

قسط ہفتم

قسط ہشتم

قسط نہم 

قسط دہم

قسط یازدہم

قسط دازدہم

قسط سیزدہم

ONLINE SHOPPING

گھر بیٹھے خریداری کرنے کا سنہرا موقع

  1. HAVELLS   
  2. AMAZON
  3. TATACliq
  4. FirstCry
  5. BangGood.com
  6. Flipkart
  7. Bigbasket
  8. AliExpress
  9. TTBazaar

 

afkareraza
afkarerazahttp://afkareraza.com/
جہاں میں پیغام امام احمد رضا عام کرنا ہے
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments

قاری نور محمد رضوی سابو ڈانگی ضلع کشن گنج بہار on تاج الشریعہ ارباب علم و دانش کی نظر میں
محمد صلاح الدین خان مصباحی on احسن الکلام فی اصلاح العوام
حافظ محمد سلیم جمالی on فضائل نماز
محمد اشتیاق القادری on قرآن مجید کے عددی معجزے
ابو ضیا غلام رسول مہر سعدی کٹیہاری on فقہی اختلاف کے حدود و آداب
Md Faizan Reza Khan on صداے دل
SYED IQBAL AHMAD HASNI BARKATI on حضرت امام حسین کا بچپن