تحریر: ڈاکٹر قاضی حامد فیصل صدیقی استقبال ماہ رمضان المبارک
استقبال ماہ رمضان المبارک
رمضان المبارک کی آمد
آمد ہے رحمت و نور کی برسات جھما جھم ہونے کو ہے ابھی سے ہی ایمان والوں کے قلوب مسرت وشادمانی سے جھومنے لگے ہیں اور یہ صدقہ ہے اس نبی رحمت کا جس کی سیرت کو مسلمانوں نے اپنی زندگی کے لیے مشعل راہ بنایا ہے
ماہ رمضان آنے سے پہلے اس کی تیاری اور استقبال تو مدینے والے تاج دار کی سنت ہے کہ آپ ﷺ نے بڑی گرم جوشی سے اس ماہ کا استقبال کیا ہے بایں طور کہ دیگر مہینوں کے مقابل اس ماہ میں زیادہ عبادت وریاضت کے لیے مستعدی کا اظہار فرمایا ہے۔
اور اہل خانہ کو بھی اس ماہ کے استقبال کے لیے تیار فرمایاکرتے تھے
جیسا کہ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا بیان فرماتی ہیں (ترجمہ) جب رمضان المبارک شروع ہوتاتو نبی کریم ﷺ کمربستہ ہوجاتے اور جب تک رمضان گزر نہ جاتا آپ بستر پر تشریف نہ لاتے (شعب الایمان)۔
اس کے علاوہ اور بھی احادیث مبارکہ اس امر پردال ہے کہ مالک کونین آقا؟ ﷺ ماہ شعبان بلکہ رجب سے ہی رمضان کےاستقبال کےساتھ اس کے برکات و حسانات حاصل کرنے کےلیے تیار ہوجاتے، شدت سےاس کی آمد کا انتظار فرماتے۔
اوربارگاہ الہی میں دعائیں کرتے ”اَللّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِى رَجَبَ وَ شَعْبَانَ وَ بَلِّغْنَا رَمَضَان“ اے اللہ! ہمارے لیے رجب اور شعبان میں برکت عطا فرما اورہمیں رمضان کا مبارک مہینہ نصیب فرما۔( مجمع الزوائد وغیرہ)
الغرض استقبالِ رمضان حدیث سے ثابت ہے اور اس کی حکمت بھی سمجھ میں آتی ہے کہ رمضان المبارک کی برکات کو اپنے دامنِ ایمان وعمل میں سمیٹنے کا ایک مزاج اور ماحول پیدا ہو، کیونکہ جب دل ودماغ کی زمیں زر خیز ہوگی، قبولِ حق کے لیے اس میں نرمی اور لطافت پیدا ہوگی تو ایمان دل میں جڑ پکڑے گا‘ اعمالِ خیر کی طرف رغبت ہوگی اور شجرِ ایمان ثمر آور اور بار آور ہوگا ـ
رمضان المبارک کا استقبال ہم اس شان سے کریں کہ رمضان سے قبل ہی دنیاوی ضرورتوں سے فراغت حاصل کرلیں جیسے رمضان وعید کی ضروری اشیاءکی خریداری کرنا تاکہ رمضان المبارک میں بازار کی بھیڑکاحصہ بننے سے بچ سکیں اوربازارکی رونق بڑھانے کے بجائے گھرمیں سکون سے عبادت کرکے آخرت سنوارسکیں
جن احباب ورشتہ داروں سے ملناضروری ہو ان سے رمضان سے قبل ہی ملاقات کرلیں تاکہ رمضان میں یہ وقت بھی عبادت میں صرف ہوسکے سال گزشتہ کے مال کی زکوۃ کا حساب و کتاب پہلے سےہی کرلیں اگرچہ ادائیگی رمضان میں کریں (کہ باعث ثواب کثیر ہے)۔
اس کے علاوہ بھی ہر وہ کام جو رمضان میں آپ کو زیادہ عبادت کرنے سےروک سکتاہو اور پہلے سے کرلینا ممکن ہو تو بہتر ہے کہ ایسے تمام مشاغل سے اپنے آپ کوپہلے ہی الگ کرلیں یہی سنت مصطفٰی ومعمولات اولیا ہے
فضائل وبرکات سے بھرے ہوئے ماہ رمضان میں خود بھی دنیاوی کام کم کردیں اور اپنے نوکروں، خادموں کے بوجھ کوبھی ہلکاکردیں تاکہ وہ بھی اس ماہ کی برکتیں حاصل کرسکیں ، ایسے مالکوں کے لیے بشیر نذیر آقاﷺ نے مغفرت اور جہنم کی آگ سے آزادی کا مژدہ سنایاہے(عام کتب احادیث)
ہمارے اکابرین ،اسلاف اور بزرگان دین کا یہ معمول رہاہے کہ اس مہینہ کے ایک ایک لمحے کو اپنے لیے غنیمت تصور کرتے اور قرب الہی حاصل کرنے کےلیے از حد کوشش فرماتے قرآن کریم کی تلاوت، قیام اللیل، صدقہ وخیرات، اور مہینوں سے زیادہ اس ماہ میں کیا کرتے۔
امام اعظم اور امام شافعی علیھما الرحمہ تو پورے رمضان میں ساٹھ ساٹھ مرتبہ قرآن کریم ختم کیاکرتے تھے ـ اور پیارے آقا ﷺ اس ماہ میں چلتی ہواؤں سے بھی زیادہ سخاوت فرمایاکرتے تھے (یوں تو کبھی سائل نے آپ کے در پہ آکر ”لا“ سناہی نہیں)
شعر:
واہ کیاجود وکرم ہے شہ بطحا تیرا
نہیں سنتاہی نہیں مانگنے والا تیرا
فلہذا جب بزرگان دین نے اس ماہ مبارک کو صرف اور صرف عبادت وریاضت کےلیے خاص کیا اور دنیاوی مشاغل کم کرکے اس ماہ کے حسنات وبرکات حاصل کرنے میں منہمک رہیں توہم گنہ گاروں کو کس قدر اس کااحترام ، تلاوت قرآن ، ذکر واذکار اورصدقہ و خیرات کرنا چاہیے خود ہی محاسبہ کرلیں ـ
تومسلمانوں تیار ہوجائیں وہ ساعت، وہ گھڑی آنے والی ہے اپنے دامن کوگوہرمراد سے بھر لیں اور نیکیوں میں اضافہ کرکے توشۂ آخرت اکٹھا کریں، مذکورہ بالا طریقے پر استقبال ماہ رمضان کریں اور اکرام رحمان سے مالا مال ہوں
اللہ تعالی ہم سب کو اس ماہ مبارک میں سلامتی کے ساتھ داخل فرمائے اور اسےہمارے لئے خیروبرکت والا بنائے وعدہ الہی کے مطابق رزق میں خوب خوب برکتیں ہوں اور صحت وتندرستی کے ساتھ پورےماہ کے صوم وصلواۃ و امور حسنات اداکرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین
تحریر: ڈاکٹر قاضی حامد فیصل صدیقی
صدرقاضی گلبرگہ شریف کرناٹک