تحریر: محمد محسن امجدی مکرانوی اورنگ زیب عالمگیر ہندو دوست یا ہندو دشمن
اورنگ زیب عالمگیر ہندو دوست یا ہندو دشمن
عام طور سے جب اورنگ زیب عالم گیر کا نام اس دور میں لیا جاتا ہے تو ایک ہندو دشمن،متعصب اور مندروں کے توڑنے والے شخص کی صورت ذہن میں آتی ہے
اور ہندوستانی تاریخ میں ایک ظالم و جابر بادشاہ نظر آتا ہے۔لیکن کوئی ان حقائق کو جاننے کی کوشش نہیں کرتا کہ اورنگ زیب کی تاریخ کو ایک مسخ شدہ صورت میں کس نے پیش کیا اور اس کے پیچھے اس کے کیا مقاصد تھے
۔۲۹؍ جنوری،۱۹۷۷ میں جب ہندوستانی پارلیمنٹ کے اندر مشہور مجاہد آزادی اور سابق گورنر اڑیسہ، جناب ڈاکٹر بی،این،پانڈے نے انگریز مؤرخوں کی فتنہ پروازیوں و شر انگیزیوں پر اظہار خیال کرتے ہوئے
اورنگزیب کو بت شکن اور ہندو کش ہونے کے بجائے مندروں اور گردواروں کو جاگیریں اور عطیات دینے والا بادشاہ کی صورت میں پیش کیا تو تمام ارکان پارلیمنٹ پر سکتہ طاری ہوگیا اور کسی کے اندر ان کی مخالفت کی ہمت نہ ہوسکی۔
اس کے علاوہ مشہور امریکی مؤرخ
Andrey Truschke
نے بھی اپنی کتاب میں انگریز مؤرخین کی فتنہ پروری اور اورنگ زیب کی تاریخ کو مسخ کرنے کی سازش کا پردہ فاش بھی کیا ہے۔
اور شاید اسی اظہار حقیقت کی وجہ گذشتہ دنوں بی جے پی کے آٹی سیل والوں نے انہیں کافی ٹرول کیا۔ کیونکہ وہ اپنے مرشد انگریز کے نقش قدم
’’divide and rule‘‘
سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے۔ڈاکٹر بی،این، پانڈے کی کتاب ’’اورنگ زیب اور ہندو مندر‘‘ میرے ہاتھ لگی تو ارادہ کیا ایک مضمون کی شکل میں اس کا خلاصہ پیش کروںتاکہ ہماری نئی نسل نصابی کتابوں میں پڑھائی جا رہی تاریخ سے الگ ہوکر بھی تاریخ کو سمجھنے کی کوشش کرے۔
اورنگ زیب پر ہندو مخالف حکمراں ہونے کی الزام تراشی کرتے ہوئے اس فرمان کو بہت اچھالا گیا ہے جو فرمان بنارس کے نام سے مشہور ہے۔
یہ فرمان سب سے پہلی بار1911 میں ’’جنرل آف دی ایشیاٹک سوسا ئٹی آف بنگال‘‘ میں شائع ہوا۔تبھی سے مؤرخین اس کا حوالہ دیتے چلی آرہے ہیں
اس بات کو پس پشت ڈالٹے ہوئے کہ اس فرمان کی غرض و غایت کیا تھی۔انہوں نے اورنگ زیب پر یہ الزام تراشی بھی کی ہے کہ انہوں نے ہندو مندروں کی تعمیر ات پر پابندی عاید کردی تھی۔
در حقیقت یہ فرمان اورنگ زیب نے 15 جمادی الاولی 1065 ہجری (10مارچ (1659کو بنارس کے مقامی عہددار کے نام جاری کیا تھا جو ایک شکایت نامے کے سلسلے تھے
جسے ایک برہمن نے داخل کیا تھا جو کسی مقامی مندر کا نگراں تھا اور جسے کچھ لوگ ستا رہے تھے ۔
اس کا پس منظر یہ تھا ایک مقام پر دو قدیم مندآباد تھے ،اسی مقام پر بعض لوگوں نے تیسرا مندر بھی تعمیر کرنا شروع کر دیا، جس سے وہاں کے ہندوؤں میں باہمی اختلاف ہو ا، جب اس کا علم شاہ جہاں بادشاہ کو ہوا
تو بادشاہ نے دفع نزاع کی خاطر نئے مندر کی تعمیر پر پابندی عائدکردی۔ فرمان بنارس میں اسی سابقہ حکم کا اعادہ ہے،جب یہ معاملہ دوبارہ اٹھا تو اورنگ زیب نے اسی پرانے حکم کا اعادہ کیا۔اور فرمان بنارس جس کی بنیاد پر یہ الزام تراشیاں کی جاتی ہے کچھ اس طرح ہے
۔’’ابو الحسن کو معلوم ہونا چاہئے کہ ہماری فطری رحم دلی اور طبعی کرم کا تقاضہ ہے کہ ہماری مکمل انتھک قوت اور نیک ارادے عوام و خواص امیر و غریب کی فلاح و بہبود پر صرف ہو ، ہمارے موقر قانون کے تحت ہم نے فیصلہ کیا کہ قدیم مندروں کو منہدم نہ کیا جائے لیکن نئے مندروں کی تعمیر کی اجازت بھی نہ دی جائے ‘‘۔
(اس فرمان کے صرف اتنے حصہ کو پیش کرکے اورنگ زیب کی ذات کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے ، مگر اس کاپس منظر اور اس فرمان کے مکمل مضمون کو پیش نہیں کیا جاتا ہے ۔) اس کے آگے کا مضمون کچھ اس طرح ہے ۔
’’ہمارے عدل کے دوران ہمارے قابل اکرام و احترام دربار میں یہ اطلاع پہنچی ہے کہ کچھ لوگ بنارس اور اطراف کے ہندو باشندگان اور قدیم مندروں کے برہمن نگرانوں کے معاملات میں دخیل ہوکر انہیں ستا رہے ہیں ۔نیز وہ لوگ ان برہمنوں کو ان کے عہدوں سے بے دخل بھی کرنا چاہتے ہیں ۔ اور اس طرح کی دھمکیاں اس قوم کے لیے باعث اذیت ہیں ۔
لہذا ہمارا حکم شاہی یہ ہے کہ اس واضح حکم کے موصول ہوتے ہی فوری طور سے احکام صادر کیا جائے تا کہ مستقبل میں ان علاقوں کے رہنے والے برہمنوں اور ہندو باشندگان کے معاملات میں غیر قانونی طور سے مداخلت نہ کی جائے
اور نہ میں ان میں اضطراب پیدا کیا جائے تاکہ وہ حسب سابق اپنے عہدوں پر بحال رہ کر بشاشت قلب سے اپنی عبادات کر سکیں اور ہماری مملکت خداداد ہمیشہ ہمیش کے لیے بر قرار رہے ۔اس حکم نامے کو ’’ فوری تعمیل طلب تصور کیا جائے ‘‘
یہ پورا فرمان ڈٖاکٹر بی، این، پانڈے نے اپنی کتاب ’’اورنگزیب اور ہندو مندر‘‘ میں ذکر کیا ہے اور میرے پاس جو نسخہ ہے اس میں اصل فارسی فرمان کا مخطوطہ بھی موجود ہے
یہ خط صاف طور سے اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ اورنگ زیب نے مندروں کو توڑنے اور ان کی تعمیر پر روک کا کوئی حکم نہیں دیا تھابلکہ مروجہ دستور کی تصدیق کرتے ہوئے موجودہ مندروں کی توثیق کی اور مندروں کے انہدام کے خلاف غیر مبہم اور واضح احکامات صادر کیے تھے ۔
فرمان صاف طور سے اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اورنگ زیب دل سے چاہتے تھے کہ ان کی ہندو رعایا خوشی اور سکون کے ساتھ زندگی بسر کرے ،اور انہیں کسی طرح کی کوئی تکلیف نہ ہو ۔
مگر خیانت کو کیا کہیں ۔جو خط اورنگ زیب کے عدل اور اپنی رعایا سے محبت کوظاہر کرتا ہے اسی خط کے ادھورے مضمون کو پیش کرکے اورنگ زیب کو بدنام کیا جا رہا ہے ۔اس طرح کے بے شمار خطوط ملتے ہیں جو اورنگ زیب کے عدل و انصاف اور رعایا کے لیے ان کی محبت کو ظاہر کرتے ہیں ۔
اورنگ زیب کے لیے یہ بات ناقابل برداشت تھی کہ اس کی رعایا کے حقوق میں کوئی مداخلت کرے، چاہے وہ مجرم ہندو ہو یا مسلم وہ ہر ایک سے سختی سے پیش آتے ۔
اور انصاف کے معاملے میں وہ کسی کے مذہب کا اعتبار نہیں کرتے تھے۔ا ن فرامین میں سے ایک اس شکایت سے متعلق تھا جو اورنگ زیب کے دربار میں’’ جنگم جماعت ‘‘(ایک ہندو فرقہ)نے بنارس کے ایک مسلم باشندے بنام نذیر بیگ کے خلاف دائر کیا تھا ۔وہ فرمان کچھ ا س طرح ہے
۔’’محمد آباد، جو بنارس(صوبہ الٰہ آباد ) کے نام سے جانا جاتا ہے ،کہ علمبرداروں کو مطلع کیا جاتا ہے کہ حال میں ارجن مل اور جنگم جو پرگنہ بنارس کے مکین ہیں ،دربار شاہی میں حاضر ہؤے اور شکایت کی کہ نذیر بیگ نے جو بنارس کا باشندہ ہے ،ان کی پانچ حویلیوں پر بزور قبضہ کر لیا ہے جو قصبہ بنارس میں واقع ہیں
اس لیے حکم دیا جاتا ہے کہ اگر ان کا دعوی سچا ہو اور (مذکورہ حویلیوںپر) ان کے مالکانہ حقوق ثابت ہوجائیں تو نذیر بیگ کو ان حویلیوں میں داخل نہ ہونے دیا جائے ۔
تاکہ جنگم جماعت مستقبل میں ہمارے دربار میں شکایت کنندگان کی حیثیت سے پیش نہ ہو۔(فرما ن مورخہ ۱۶۷۲ء) ۔اس کے علاوہ سینکڑوں غیرمسلم ایسے ہیں جنہیں اورنگ زیب نے جا ئیدادوں کے پروانے عطا کیے جن میں سے کچھ ڈاکٹر بی ،این ،پانڈے نے اپنی اس کتاب میں ذکر کیے ہیں ۔آپ اس کی طرف رجوع کرسکتے ہیں۔
اس کے علاوہ جس بات کو لے کر اورنگ زیب پر ہندو دشمنی کا الزام لگایا جاتا ہے اور انہیں مندروں کو توڑنے والا کہا جاتاہے وہ بنارس کے وشوناتھ مندر کا انہدام ہے ۔
یہ بات صحیح ہے کہ اورنگ زیب عالمگیر نے اس مندر کے انہدام کا حکم دیا مگر اس کا پس منظر کیا تھا اور اس کے پیچھے کیا وجوہات تھی ان کو جاننا ضروری ہے ،کیونکہ جس طرح اورنگ زیب نے کچھ مندروں کے انہدام کاحکم دیا اسی طرح انہوں نے گولکنڈہ کی جامع مسجد کے انہدام کا بھی حکم دیا تھا ۔
ڈاکٹر بی، این ،پانڈے نے وشوناتھ مندر کے انہدام کا جو پس منظر بیان کیا ہے اسے جاننا ضروری ہے وہ لکھتے ہیں ۔
’’وشوناتھ مندر کا قصہ کچھ اس طرح ہے کہ بنگال جاتے ہوئے اورنگ زیب جب بنارس کے قریب گذرا تو ان ہندو راجاؤں نے جو اس کے حشم و خدم میں سے تھے اورنگ زیب سے بنارس میں ایک روز قیام کی درخواست کی تاکہ ان کی رانیاں گنگا میں اشنان ،اور وشوناتھ دیوتا کی پوجا کرسکیں ۔
اورنگ زیب فورًا راضی ہو گیا اور ان کی حفاظت کے لیے بنارس تک ۵ میل کے راستے پر فوج کی ٹکڑیوں کو تعینات کر دیا۔ رانیاں پالکیوں میں سوار تھیں ،وہ گنگا اشنان سے فارغ ہوکر وشوناتھ مندر پوجا کے لیے روانہ ہو گئیں ۔
پوجا کے بعد سوائے’’ کچھ‘‘ کی مہارانی کے تمام رانیاں واپس آگئیں ۔ مہارانی کی تلاش میں مندر کی پوری حدود چھان ڈالی گئیں لیکن اس کا پتہ نہ چل سکا ۔
اورنگ زیب کو اس واقعہ کی اطلاع ملی وہ سخت ناراض ہوا اور اس نے اپنے اعلی عہدداروں کو رانی کی تلاش میں بھیجا، بالآخر وہ گنیش کیمورتی کے پاس پہونچے جو دیوار میں نصب تھی اور اپنی جگہ سے ہلائی جا سکتی تھی ،اس کو حرکت دینے پر وہاں انہیں کچھ سیڑیاں نظر ائیں جو کسی تہہ خانہ میں جاتی تھیں
وہاں انہوں نے ایک وحشت ناک منظر دیکھا کہ رانی کی عزت لوٹی جا چکی تھی اور وہ زاروقطار رو رہی تھی ۔
یہ تہہ خانہ وشوناتھ دیوتا کی نششت کے عین نیچے واقع تھا ۔ اس پر تمام راجاؤں نے غضب ناک ہوکر سخت احتجاج کیا چوں کہ جرم نہایت قبیح تھا اس لیے راجاؤں نے مجرموں کو سخت سزا دینے کا مطالبہ کیا ۔
اورنگ زیب نے حکم دیا چونکہ وہ مقدس جگہ ناپاک ہو چکی ہے اس لیے وشوناتھ کے بت کو وہاں سے ہٹا کر کسی اور جگہ منتقل کر دیا جائے ،مزید یہ کہ مندر کو زمین بوس کر دیا جائے اور مہنت کو گرفتار کرکے سخت سزا دی جائے ۔
ڈاکٹر بی ،ایل گپتا کے دستاویزی ثبوت کی بنا پر’’ ڈاکٹر پٹا بھی سیتا رمیہ ‘‘جو پٹنہ میوزیم کے سابق مہتمم ہیں انہوں اس کا ذکر اپنی مشہور تصنیف (پر اور پتھر)میں کرتے ہوئے اس واقعے کی توثییق کی ہے‘‘۔
یہ پورا اقتباس ڈاکٹر بی این پانڈے کی اسی کتا ب سے ماخوذ ہے جس سے آپ حقیقت حال کا اندازہ لگا سکتے ہیں ۔ کیوں کہ اگر اورنگ زیب ہندؤں کا دشمن تھا اور مندروں کو توڑنے والا تھا تو پھر سینکڑوں مندروں کو اس نے جاگیریں اور انعامات سے کیوںعطا کیے ؟۔
اس کے علاوہ انہوں نے کچھ مسجدوں کے انہدام کا بھی حکم دیا تو ظاہر ہے جن مساجد اور مندروں کو توڑنے کا حکم دیا ان کی سیاسی وجوہات تھیں ،مذہبی منافرت کی وجہ سے انہوں نے ایسا نہیں کیا ۔
گوہاٹی کے مندروں کو اورنگ زیب نے بڑی بڑی جاگیروں سے نوازا اور وہ فرامین آج بھی ان مندروں کے خزانہ میں محفوظ ہیں ۔اسی طرح کا ایک خط گوہاٹی کے امانند مندر کے پجاری کے پاس سے برآمد ہوا جسے بھی ڈاکٹر بی ،این،پانڈے نے اس کتاب میں پورا نقل کیا ہے۔
اسی طرح اجین کے مہاکالیشور مندر کے لیے اورنگ زیب نے بڑی بڑی جاگیریں سرکاری خزانہ کی طرف سے دینے کے علاوہ وہاں کے کوتوالی کو حکم دیا کہ روزانہ چار سیر گھی سرکاری خزانہ سے مندر کے دیے کے لیے مہیا کرایا جائے ۔جس کو تحقیق کے ساتھ اس کتاب میں اصل فارسی خط کے ساتھ ذکر کیا گیاہے۔
اسی طرح عام طور سے مؤرخین اس بات کا ذکر کرتے ہیں کہ احمد آباد میں ناگر سیٹھ کا تعمیر کردہ چتنامن مندر مسمار کر دیا گیا ،لیکن اس حقیقت سے کئی کاٹ جاتے ہیں کہ یہ وہی اورنگ زیب جس نے شترنجے اور آبو کے مندروں کی تعمیر کے لیے اسی ناگر سیٹھ کو زمین عطا کی تھی
اس زمین کے علاوہ آس پاس کے علاقوں کی ساری آمدنی اور پہاڑوں کی تمام لکڑیاں اور دوسرے ذرائع مندر کے لیے مختص کر دیے تھے
اس کے علاوہ گرنار اور آبوجی کے مندروں کے خرچ کے لیے بڑی بڑی جاگیریں اور عطیات ا نہیں دیے تھے ،یہ تمام فرامین اصل متوں اور مخطوطات کی فوٹو کے ساتھ اس کتاب میں ڈاکٹر بی، این ،پانڈے صاحب نے اپنی اس کتاب میں جمع کیے ہیں ۔
اس کے علاوہ بھی اورنگ زیب سینکڑوں مندروں کو عطیات دیے جن کے شواہد اب بھی موجود ہیں
اس بات کا اعتراف ہر ایک کو ہے کہ سب سے زیادہ ہندو سیناپتی جس مغل بادشاہ کی فوج میں تھے وہ اورنگ زیب عالمگیر تھا۔
ان تمامشواہد کے باوجود اورنگ زیب کو ظالم و جابر اور ہندو دشمن سمجھنا کہاں کا انصاف ہے یہ کسی عقلمند کی سمجھ سے بالاتر ہے ۔
جب سے ملک میں زعفرانی پارٹی اقتدار میں آئی ہے ملک کے مسلم حکمرانوں کو بدنام کرنے کی ایک منظم تحریک چلائی جا رہی ہے ، مگر ہماری غلطی یہ کہ ہم ان کی تاریخ کو جاننے کے لیے انہیں انگریزوں کی کتب کو سامنے رکھتے ہیں جو ’’بانٹوں اورحکومت کرو ‘‘ کے فارمولے پر عمل کرکے اپنی حکومت یہاں جمائے ہؤے تھے ۔
اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ آنکھ بندھ کرکے فلموں اور لکھی ہوئی غلط تاریخوں پر اعتماد کرنے کے بجائے تحقیق اور چھان بین سے کام لیں۔اورنگ زیب کے بارے لوگوں کی رائے سن کر ی شبلی کا یہ شعر ہی زبان پر بار بار آتا ہے کہ
تمہیں لے دے کے ساری داستاں میں یاد ہے اتنا
کہ عالم گیر ہندو کش تھا ، ظالم تھا ، ستمگر تھا
تحریر: محمد محسن امجدی
ریسرچ اسکا لر علی گڑھ
mohsinmohsin68075@gmail.com
اورنگ زیب عالم گیر: اور مجدد اسلام
ان مضامین کو بھی پڑھیں
موجودہ حالات میں مسلمانوں کی ترقی ضرورت و پلان
وجودہ حالات میں ہندوستانی مسلمانوں کی از سر نو تعمیر و ترقی کے لیے ایک جامع منصوبہ بندی
موجودہ حالات میں مسلمانوں کے تحفظ و بقا کے لیے جدید لائیحہ عمل کی تشکیل
آزمائش کا زمانہ ہے امت کو بچانا ہے
تحفظ ناموس رسالت ﷺ مسلمانوں کا اولین فریضہ