تحریر: محمد محسن احسانی مصباحی بھائیوں کی انواع و اقسام مطالعہ قرآن کی روشنی میں
بھائیوں کی انواع و اقسام مطالعہ قرآن کی روشنی میں
اللہ سبحانہ تعالی نے انسانوں کو ایک ماں باپ سے پیدا فرمایا تاکہ وہ فطری اور اصلی طور پر ایک دوسرے کے بھائی ہوں ایک ماں باپ سے ہونے کا ذکر اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے سورہ حجرات میں فرمایا ہے ـ
ارشاد ربانی ہے: یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّ اُنْثٰى ترجمہ: اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اورایک عورت سے پیدا کیاـ (حجرٰت: ۱۳)
مرد سے مراد حضرت آدم علیہ السلام اور عورت سے مراد حضرت حوا رضی اللہ تعالی عنھا ہیں یعنی یہی حضرات ہمارے ماں باپ اور اصل ہیں اور ہم سب ایک دوسرے کے لیے بھائی بھائی ہیں ـ
اور چوں کہ اہل ایمان اپنے اصلی ماں باپ کے دین اور طریقے پر ہیں، ان کی راہ سے ہٹے نہیں اور ماں باپ کی روایتوں کے امین ہیں لہذا قرآن پاک نے انھیں واضح طور پر فرمایا
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ
مسلمان مسلمان بھائی ہیں ـ ایمان سے محروم بھائی
کافر بھی اگر چہ انھیں نفوس قدسیہ کی اولاد سے ہیں مگر ایمان سے محرومی کے باعث رشتہ حقیقی سے منقطع کر دیے گئے کیوں کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے یہاں رشتہ ایمان سب سے قوی تر ہے، یہ نہیں تو کچھ نہیں ـ
اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام سے ان کے بیٹے کے بارے میں فرمایا:۔
قَالَ یٰنُوْحُ اِنَّهٗ لَیْسَ مِنْ اَهْلِكَۚ-اِنَّهٗ عَمَلٌ غَیْرُ صَالِحٍ فرمایا اے نوح وہ تیرے گھر والوں میں نہیں بے شک اس کے کام بڑے نالائق ہیں (نوح: ۴۶) یعنی جب وہ اہل ایمان نہیں تو پھر تمھارا ان سے خون کا رشتہ بھی کوئی معنی نہیں رکھتا ـ
اسی بات کو اللہ سبحانہ تعالیٰ نے سورہ توبہ اور مجادلہ میں صراحت کے ساتھ ارشاد فرمایا:۔
سورہ توبہ میں ارشاد ربانی ہے:۔
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْۤا اٰبَآءَكُمْ وَ اِخْوَانَكُمْ اَوْلِیَآءَ اِنِ اسْتَحَبُّوا الْكُفْرَ عَلَى الْاِیْمَانِؕ-وَ مَنْ یَّتَوَلَّهُمْ مِّنْكُمْ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ(۲۳) اے ایمان والو اپنے باپ اور اپنے بھائیوں کو دوست نہ سمجھو اگر وہ ایمان پر کفر پسند کریں اور تم میں جو کوئی ان سے دوستی کرے گا تو وہی ظالم ہیں۔
اور سورہ مجادلہ میں فرمایا:۔
لَا تَجِدُ قَوْمًا یُّؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ یُوَآدُّوْنَ مَنْ حَآدَّ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ لَوْ كَانُوْۤا اٰبَآءَهُمْ اَوْ اَبْنَآءَهُمْ اَوْ اِخْوَانَهُمْ اَوْ عَشِیْرَتَهُمْؕ ” تم نہ پاؤ گے ان لوگوں کو جو یقین رکھتے ہیں اللہ اور پچھلے دن پر کہ دوستی کریں ان سے جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول سے مخالفت کی اگرچہ وہ اُن کے باپ یا بیٹے یا بھائی یا کنبے والے ہوں” ـ
اور اگر کوئی بے ایمان بھائیوں سے محبت کرے یا انھیں دوست بنالے اور ارشاد ربانی کو پس پشت ڈال دے تو اس کا انجام بہت بھیانک ہے ـ
سور توبہ کی مذکورہ بالا آیت کے بعد ہی یہ آیت ہے:۔
قُلْ اِنْ كَانَ اٰبَآؤُكُمْ وَ اَبْنَآؤُكُمْ وَ اِخْوَانُكُمْ وَ اَزْوَاجُكُمْ وَ عَشِیْرَتُكُمْ وَ اَمْوَالُ نِ اقْتَرَفْتُمُوْهَا وَ تِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَ مَسٰكِنُ تَرْضَوْنَهَاۤ اَحَبَّ اِلَیْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ جِهَادٍ فِیْ سَبِیْلِهٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰى یَاْتِیَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖؕ-وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ۠(۲۴)
۔” تم فرماؤ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری عورتیں اور تمہارا کنبہ اور تمہاری کمائی کے مال او ر وہ سودا جس کے نقصان کا تمہیں ڈر ہے اور تمہارے پسند کے مکان یہ چیزیں اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں لڑنے سے زیاد ہ پیاری ہوں تو راستہ دیکھو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لائے اور اللہ فاسقوں کو راہ نہیں دیتا”۔
خلاصہ کلام یہ کہ کبھی بھائی ایمان سے محروم بھی ہو سکتا ہے اور اس کا حکم بالکل واضح بیان کر دیا گیا ہے ـ
اب رہ گئے اہل ایمان تو ان میں چند طرح کے بھائی ہو سکتے ہیں:۔
یوسف علیہ السلام کے بھائی جیسے بھائی
یو سف علیہ السلام کے بھائی کیسے تھے قرآن پاک سے پوچھیے ـ
جب حضرت یعقوب علیہ السلام سے یوسف علیہ السلام نے اپنا خواب بیان کیا کہ انھوں نے گیارہ ستاروں اور سورج چاند کو اپنا سجدہ کرتے ہوا دیکھا ہے تو یعقوب علیہ السلام سمجھ گئے کہ آپ کی شان بلند و بالا ہونے والی ہے اور نبوت کے ساتھ ساتھ بادشاہی سے بھی نوازے جانے کے لیے مختص کر دیے گئے ہیں ـ
پھر جب آپ کو اپنے دوسرے بیٹوں کا خیال آیا تو اسی وقت نصیحت فرمائی:۔
قَالَ یٰبُنَیَّ لَا تَقْصُصْ رُءْیَاكَ عَلٰۤى اِخْوَتِكَ فَیَكِیْدُوْا لَكَ كَیْدًاؕ (یوسف: ۵) کہا اے میرے بچے اپنا خواب اپنے بھائیوں سے نہ کہنا کہ وہ تیرے ساتھ کوئی چال چلیں گے ـ
یعنی ممکن ہے کہ آپ کے بھائی آپ سے حسد کرنے والے ہوں اور وہ جلن میں آپ کو بڑا سے بڑا نقصان پہنچائیں لیکن بالآخر وہی ہوتا ہے جو مرضی مولیٰ ہوتی ہےـ آپ اگر صابر رہیں اور عفو و در گذر سے کام لیں جیسا کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے کیاـ
سورہ یوسف میں ہے:۔ قَالَ لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْكُمُ الْیَوْمَؕ-یَغْفِرُ اللّٰهُ لَكُمْ٘-وَ هُوَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ(۹۲) کہا آج تم پر کچھ ملامت نہیں اللہ تمہیں معاف کرے اور وہ سب مہربانوں سے بڑھ کر مہربان ہے۔
تو وہ وقت آتا ہے کہ ان کا حسد کافور ہو جاتا ہے اور نہ صرف یہ کہ وہ آپ کے فضل کے معترف ہو جاتے ہیں بلکہ آپ کے سامنے سر تسلیم بھی خم کر دیتے ہیں ـ جیسا کہ یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے کیا: قَالُوْا تَاللہِ لَقَدْ اٰثَرَكَ اللّٰهُ عَلَیْنَا وَ اِنْ كُنَّا لَخٰطِـٕیْنَ (۹۱) بولے خدا کی قسم بے شک اللہ نے آپ کو ہم پر فضیلت دی اوربے شک ہم خطاوار تھے۔
وَ خَرُّوْا لَهٗ سُجَّدًاۚ اور وہ سب اس کے لیے سجدے میں گرے ـ
لیکن خیال رہے کہ ایسی صورت حال میں تکبر یا خود پسندی بالکل بھی غالب نہ آئے بلکہ فضل الٰہی کا معترف ہونا چاہیے ـ
جیسا کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے عرض کی تھی:۔
وَ قَالَ یٰۤاَبَتِ هٰذَا تَاْوِیْلُ رُءْیَایَ مِنْ قَبْلُ٘-قَدْ جَعَلَهَا رَبِّیْ حَقًّاؕ-وَ قَدْ اَحْسَنَ بِیْۤ اِذْ اَخْرَجَنِیْ مِنَ السِّجْنِ وَ جَآءَ بِكُمْ مِّنَ الْبَدْوِ مِنْۢ بَعْدِ اَنْ نَّزَغَ الشَّیْطٰنُ بَیْنِیْ وَ بَیْنَ اِخْوَتِیْؕ-اِنَّ رَبِّیْ لَطِیْفٌ لِّمَا یَشَآءُؕ-اِنَّهٗ هُوَ الْعَلِیْمُ الْحَكِیْمُ(۱۰۰) رَبِّ قَدْ اٰتَیْتَنِیْ مِنَ الْمُلْكِ وَ عَلَّمْتَنِیْ مِنْ تَاْوِیْلِ الْاَحَادِیْثِۚ-فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ- اَنْتَ وَلِیّٖ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِۚ-تَوَفَّنِیْ مُسْلِمًا وَّ اَلْحِقْنِیْ بِالصّٰلِحِیْنَ(۱۰۱)۔
اور یوسف نے کہا اے میرے باپ یہ میرے پہلے خواب کی تعبیر ہے بے شک اسے میرے رب نے سچا کیا اور بے شک اس نے مجھ پر احسان کیا کہ مجھے قید سے نکالا اور آپ سب کو گاؤں سے لے آیا بعد اس کے کہ شیطان نے مجھ میں اور میرے بھائیوں میں ناچاقی کرادی تھیبے شک میرا رب جس بات کو چاہے آسان کردے بے شک وہی علم و حکمت والا ہے۔
اے میرے رب بے شک تو نے مجھے ایک سلطنت دی اور مجھے کچھ باتوں کا انجام نکالنا سکھایا اے آسمانوں اور زمین کے بنانے والے تو میرا کام بنانے والا ہے دنیا اور آخرت میں مجھے مسلمان اٹھا اور ان سے ملا جو تیرے قربِ خاص کے لائق ہیں ۔
نوٹ : حضرت یوسف علیہ السلام کے تمام بھائیوں نے توبہ کر لی تھی اور سب کے سب اولیاء اللہ ہوئے ـ الحمد للہ
قابیل جیسا بھائی
اللہ تعالیٰ سورہ مائدہ میں ارشاد فرماتا ہے:۔
وَ اتْلُ عَلَیْهِمْ نَبَاَ ابْنَیْ اٰدَمَ بِالْحَقِّۘ-اِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ اَحَدِهِمَا وَ لَمْ یُتَقَبَّلْ مِنَ الْاٰخَرِؕ-قَالَ لَاَقْتُلَنَّكَؕ-قَالَ اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰهُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَ(۲۷)لَىٕنْۢ بَسَطْتَّ اِلَیَّ یَدَكَ لِتَقْتُلَنِیْ مَاۤ اَنَا بِبَاسِطٍ یَّدِیَ اِلَیْكَ لِاَقْتُلَكَۚ-اِنِّیْۤ اَخَافُ اللّٰهَ رَبَّ الْعٰلَمِیْنَ(۲۸)اِنِّیْۤ اُرِیْدُ اَنْ تَبُوْٓءَاۡ بِاِثْمِیْ وَ اِثْمِكَ فَتَكُوْنَ مِنْ اَصْحٰبِ النَّارِۚ-وَ ذٰلِكَ جَزٰٓؤُا الظّٰلِمِیْنَۚ(۲۹)فَطَوَّعَتْ لَهٗ نَفْسُهٗ قَتْلَ اَخِیْهِ فَقَتَلَهٗ فَاَصْبَحَ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ(۳۰)فَبَعَثَ اللّٰهُ غُرَابًا یَّبْحَثُ فِی الْاَرْضِ لِیُرِیَهٗ كَیْفَ یُوَارِیْ سَوْءَةَ اَخِیْهِؕ-قَالَ یٰوَیْلَتٰۤى اَعَجَزْتُ اَنْ اَكُوْنَ مِثْلَ هٰذَا الْغُرَابِ فَاُوَارِیَ سَوْءَةَ اَخِیْۚ-فَاَصْبَحَ مِنَ النّٰدِمِیْنَ(۳۱)
اور انہیں پڑھ کر سناؤ آدم کے دو بیٹوں کی سچی خبر جب دونوں نے ایک ایک نیاز پیش کی تو ایک کی قبول ہوئی اور دوسرے کی نہ قبول ہوئی بولا قسم ہے میں تجھے قتل کردوں گا کہا اللہ اسی سے قبول کرتا ہے، جسے ڈر ہے۔ بیشک اگر تو اپنا ہاتھ مجھ پر بڑھائے گا کہ مجھے قتل کرے تو میں اپنا ہاتھ تجھ پر نہ بڑھاؤں گا کہ تجھے قتل کروں میں اللہ سے ڈرتا ہوں جو مالک سارے جہان کا۔
میں تو یہ چاہتا ہوں کہ میرا اور تیرا گناہ دونوں تیرے ہی پلہ پڑے تو تو دوز خی ہوجائے اور بے انصافوں کی یہی سزا ہے۔تو اس کے نفس نے اسے بھائی کے قتل کا چاؤ دلایا تو اسے قتل کردیا تو رہ گیا نقصان میں۔ تو اللہ نے ایک کوّا بھیجا زمین کریدتا کہ اسے دکھائے کیونکر اپنے بھائی کی لاش چھپائے بولا ہائے خرابی میں اس کوے جیسا بھی نہ ہوسکا کہ میں اپنے بھائی کی لاش چھپاتا تو پچتاتا رہ گیا۔
ایسے موقع پر ہابیل کا موقف اختیار کرنا چاہیے کہ اپنے ہاتھ گناہوں سے نہ رنگے جائیں بلکہ سامنے والے یعنی ایسے بھائی کو اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے اور خود تقوی اختیار کرتے ہوئے گناہ و ظلم یا ظلم کا بدلہ لینے سے بچا جائے ـ
موسیٰ علیہ السلام کے جیسا بھائی
موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کے پاس تبلیغ کے لیے جانے سے پہلے اپنے رب کے حضور جو دعائیں مانگی تھیں ان میں ایک یہ بھی تھی:۔
سورہ طٰهٰ میں ہے:۔
وَ اجْعَلْ لِّیْ وَزِیْرًا مِّنْ اَهْلِیْۙ(۲۹)هٰرُوْنَ اَخِیۙ(۳۰)اشْدُدْ بِهٖۤ اَزْرِیْۙ(۳۱)وَ اَشْرِكْهُ فِیْۤ اَمْرِیْۙ(۳۲) اور میرے لئے میرے گھر والوں میں سے ایک وزیر کردے۔ وہ کون میرا بھائی ہارون۔ اس سے میری کمر مضبوط کر۔ اور اسے میرے کام میں شریک کر۔
اور ایسا ہی ہوا کہ موسیٰ علیہ السلام کی دعا سے حضرت ہارون علیہ السلام کو نبوت عطا کر دی گئی ـ
یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے اپنی مدد اور سہارے کے لیے اپنے بھائی کو منتخب فرمایا اور بارگاہ الٰہی میں مخلوق میں سب سے بڑے عہدے اور منصب بلکہ یوں کہیے کہ اپنے عہدہ نبوت جیسا عہدہ ان کے لیے بھی طلب فرمایا ـ جو ایک سچے اور محبت کرنے والے بھائی کی نشانی ہوتی ہے ـ
یہی بات میرے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمائی ہے:۔
لَا یُؤمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی یُحِبَّ لِأَخِیْهِ مَا یُحِبُّ لِنَفْسِهِ (بخاری، کتاب الایمان) ” تم میں کا کوئی شخص اس وقت مومن کامل نہیں ہو سکتا جب تک اپنے بھائی کے لیے وہی پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے ـ
بلکہ اس حوالے سے اللہ سبحانہ وتعالی نے موسیٰ علیہ السلام کی ایک اور خاص بات ذکر فرمائی ہے ـ
سورہ قصص میں ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے عرض کی:۔
وَ اَخِیْ هٰرُوْنُ هُوَ اَفْصَحُ مِنِّیْ لِسَانًا اور میرا بھائی ہارون اس کی زبان مجھ سے زیادہ صاف ہےـ
یعنی موسیٰ علیہ السلام نے کھلے دل سے اپنے بڑے بھائی حضرت ہارون علیہ الصلوة والسلام کی تعریف کی اور ان کی خوبی وصفت کمال کو تسلیم کیا ـ
ہم سب کے لیے سبق ہے کہ ہمارا کوئی خونی یا دینی بھائی اگر ہم سے کسی بھی معاملے میں بہتر ہے تو ہم اسے کھلے دل سے مانیں اور بلا وجہ حسد و جلن یا عناد میں مبتلا نہ ہوں ـ
غالباً اسی لیے میرے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپس میں مل جل کر رہنے اور بغض و حسد سے دور رہنے کے لیے جس رشتہ کا حکم ارشاد فرمایا وہ بھائی کا ہی رشتہ ہےـ
مکمل حدیث پاک ترجمہ کچھ یوں ہے:۔
” اپنے آپ کو بد گمانی سے بچاؤ کہ بدگمانی بد ترین جھوٹ ہے، ایک دوسرے کے ظاہری اور باطنی عیب مت تلاش کرو، حرص نہ کرو، حسد نہ کرو، بغض نہ کرو، ایک دوسرے سے رو گردانی نہ کرو اور اے اللہ کے بندو بھائی بھائی ہو جاؤ (مسلم: کتاب البر والصلة والآداب، باب تحریم الظن والتجسس) اللہ تعالیٰ ہمیں ایسا ہی بنائے
آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
محمد محسن احسانی مصباحی
مقیم حال: ملاوی، سنٹرل افریقا
ان مضامین کو بھی پڑھیں
رکوع کی تسبیح کا ایک اہم مسئلہ