عرس امجدی کے موقع پر خصوصی تحریر
سرکار صدرالشریعہ علیہ الرحمہ کی ادبی خدمات دوسری قسط تحریر: آصف جمیل امجدی قسط اول پڑھنے کے لیے کلک کریں
ہندوستان پر انگریزوں کی حکومت ہوئی اور کانگریسیوں نے پورے ملک میں مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کردیا تو جگہ جگہ فجر میں قنوت نازلہ پڑھی جانے لگی۔اس پر 1347ھ میں حضرت صدرالشریعہ نے حضرت شارح بخاری سے یہ رسالہ(التحقیق الکامل فی حکم قنوت النوازل) املا کرایا۔
پوری حیات تدریس و تصنیف اور خدمت دین میں صرف کرنے کے باوجود آپ سے بیعت و ارادت کا سلسلہ بھی جاری رہا، ہندو بیرونی ہند آپ کے کثیر تعداد میں خلفاء و مریدین ہوئے۔
آپ کے مریدین میں کثیر تعداد میں علمائے دین اور عمائد ملت تھے۔ حضرت کی یہ خصوصیت تھی کہ کسی غیر عالم کو خلافت نہیں دی، آپ کے خلفا کے اسماء یہ ہیں۔ حضرت حافظ ملت مولانا شاہ عبد العزیز محدث مرادآبادی، محدث اعظم پاکستان مولانا سردار احمد قادری رضوی پاکستانی، خیر الاذکیاء مولانا غلام یردانی اعظمی، شیخ العلماء مولانا غلام جیلانی اعظمی، مولانا سید شاہ عبدالحق گجہڑوی، مبارک پوری، مولانا قاری مصلح الدین پاکستانی، شارح بخاری علامہ مفتی محمد شریف الحق امجدی، مفتی ظفر علی نعمانی بانی دارالعلوم امجدیہ کراچی پاکستان وغیرھم ہیں۔
صدر الشریعہ نے پہلی بار1337ھ/1919ء میں فریضہ حج کی ادائیگی کے لیے حرمین شریفین کا سفر فرمایا اور دوسری بار 1367ھ/1948ءمیں حرمین طیبین کی زیارت اور حج کے ارادے سے گھر سے بریلی شریف اور وہاں سے مفتی اعظم مولانا محمد مصطفی رضا قادری کے ہمراہ بمبئی تشریف فرما ہوئے۔ طبیعت پہلے ہی سے سخت خراب تھی۔ بحری جہاز کے چھوڑنے کا وقت آیا، تو آپ دوسرے عالم سے لو لگا رہے تھے۔ حضور مفتی اعظم تشریف لائے اور پھر روتے ہوئے تنہا جہاز پر قدم رکھا اور ادھر ان کے رفیق سفر نے رفیق اعلیٰ سے ملاقات فرمائی۔ دوشنبہ ٢/ذیقعدہ 1367ھ مطابق 6/ستمبر1948ء تاریخ وصال ہے۔ آیت کریمہ ” ان المتقین فی جنت و عیون” سے تاریخ وصال برآمد ہوتی ہے۔ آپ کی مزار مبارک قصبہ گھوسی ضلع مئو میں ہے جو مرجع خلائق ہے۔
صدرالشریعہ کی نثر نگاری
صدرالشریعہ کثیر التصانیف تو نہیں تھے مگر ان کی ایک عظیم کتاب “بہار شریعت” اتنی عظیم ہے کہ جس کی نظیر نہیں۔ یوں تو انہوں نے امام ابو جعفر طحاوی (م321ھ) کی معرکۃ الآرا تصنیف “شرح معانی الآثار” پر حاشیہ لکھنے کا کام شروع کیا تھا مگر کام کی زیادتی کی وجہ سے یہ سلسلہ ایک جلد کے نصف تک ہی محدود رہ گیا آگے نہ بڑھ سکا۔
مختصر نگاری
حضرت صدر الشریعہ کی تحریر میں مختصر نگاری کا وصف بدرجہ اتم پایا جاتا ہے آپ کی مختصر عبارت مسئلہ کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کئے ہوئے ہوتی ہے اوریوں لکھنے اور پڑھنے والے دونوں کا وقت بھی بچ جاتا ہے اور مسئلہ تلاش کرنے میں دشواری بھی نہیں ہوتی ہے۔ ذیل میں ایک مختصر مگر جامع فتویٰ کی جھلک پیش کی جاتی ہے۔ بعد نمازِ پنجگانہ جمعہ وعیدین عموما مسلمان مصافحہ کرتے ہیں اس میں کوئی حرج نہیں لیکن بعض لوگ اسے ناجائز اور مذموم بدعت بتاتے ہیں۔ صدرالشریعہ سے بعد نماز جمعہ و عید نصافحہ کے متعلق پوچھا گیا کہ یہ جائز ہے یا ناجائز تو آپ نے ایک جامع اور مختصر جواب یوں ارشاد فرمایا: “مصافحہ جائز اور حدیث سے اس کاجواز مطلقاً ثابت ہے۔ نماز کے بعد عید کے دن مصافحہ کرنا اسی مطلق میں داخل ہے، اپنی طرف سے مطلق کی تقیید باطل۔”
توجہ فرمائیے اور اس اختصار و جامعیت کی داد دیجیے۔ اس فتویٰ میں اصل حکم بھی مذکور ہیں دلیل بھی، ضابطہ بھی اور مانعین جواز کا رد بھی۔ مفتی غلام یاسین امجدی رقمطراز ہیں کہ: ” حضرت نے اردو زبان پر احسان فرمایا لطف تو یہ ہے کہ شروع سے لے کر 17/ حصص تک (بہارشریعت) دیکھ جائیے کہیں طرز تحریر میں تبدیلی نہ ملے گی۔ مشکل سے مشکل مسائل آسان اور ایسی محیط عبارت میں تحریر فرمائے ہیں کہ اگر عبارت سے کوئی لفظ تبدیل کر دیا جائے تو بسا اوقات مفہوم بھی تبدیل ہو جاتا ہے۔
سادہ نگاری
صدر الشریعہ علیہ الرحمہ کی تحریر میں ہمیں ایسی نثر ملتی ہے۔ جس میں سادگی کا حسن، بے ساختگی کی جاذبیت اور تسلسل کی لطافت جگہ جگہ ملتی ہے۔ جو سپاٹ پن، بےکیفی اور تھکا دینے والی گنجلک، بے ترتیبی سے شکن آلود نہیں ہوتی۔ ایک مقام پر مصیبتوں اور آفتوں پر صبر کی خوبصورت تلقین کرتے ہوئے فرماتے ہیں کی بیماری بھی ایک بہت بڑی نعمت ہے اس کے منافع بے شمار ہیں اگرچہ آدمی کو بظاہر اس سے تکلیف پہنچتی ہے مگر حقیقتاً راحت و آرام کا ایک بہت بڑا ذخیرہ ہاتھ آتا ہے۔ یہ ظاہری بیماری جس کو آدمی بیماری سمجھتا ہے حقیقت میں روحانی بیماریوں کا ایک بڑا زبردست علاج ہے۔ حقیقی بیماری امراض روحانیہ ہیں کہ یہ البتہ بہت خوف کی چیز ہے اور اسی کو مرض مہلک سمجھنا چاہیے۔
منظر نگاری
منظر نگاری بھی تاثراتی نثر کا خاص جز ہیں جس کی قوت تاثیر سے مخاطب خود کو فراموش کرکے اسی ماحول میں پہنچا ہوا محسوس کرتا ہے۔ جس کی تصویر کھینچ دی گئی ہو۔ حضرت نے بھی ہمیں ایسے یادگار جملے عطا کیے ہیں جسے پڑھنے کے بعد یقینی طور پر خود فراموشی کا عالم طاری ہوجاتا ہے جو یقینا آپ ک قوت تحریر کا نادر نمونہ ہے۔ وقوف عرفات کے وقت انسان کی دلی کیفیت کیا ہونی چاہیے اس کی منظر نگاری حضرت کے قلم سے ملاحظہ کریں:
“سب ہمہ تن صدق دل سے اپنے کریم مہربان رب کی طرف متوجہ ہوجائیں اور میدان قیامت میں حساب اعمال کے لیے اس کے حضور حاضری کا تصور کریں نہایت خشوع و خضوع کے ساتھ لرزتے، کانپتے، ڈرتے، امید کرتے، آنکھیں بند کیے گردن جھکائے دست دعا آسمان کی طرف سر سے اونچا پھیلائے، تکبیر و تہلیل و تسبیح و لبیک و حمد وذکر و توبہ و استغفار میں ڈوب جانے کی کوشش کرے کہ ایک قطرہ آنسوؤں کا ٹپکنے کی دلیل اجابت و سعادت ہے۔ورنہ رونے کا سا منہ بنائے کہ اچھوں کی صورت بھی اچھی۔ اثناۓ دعا و ذکر میں لبیک کی بار بار تکرار کرے۔ آج کے دن دعائیں بہت مقبول ہیں۔” منظر نگاری کی یہ ایک عمدہ مثال ہے۔ بہارشریعت کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کی عبارت سلیس ہے جس کو ہر طبقہ کا اردو داں سمجھ سکتا ہے۔
یہ اس کی فصاحت کی دلیل ہے اور عبارت کے اندر جو معانی و مطالب پوشیدہ ہیں اس کی اعلی بلاغت پر دلیل ہے۔ اس کی عبارت خشو و زوائد سے پاک ہے۔ اور قاری اسے پڑھتے وقت نہ مزید توضیح کی ضرورت محسوس کرتا ہے اور نہ ہی الجھن۔ یہی وجہ ہے کہ جب سے اس کی تصنیف ہوئی ہے آج تک ہر طبقہ میں مقبول رہی ہے۔ اس سے استفادہ عوام بھی کرتے ہیں اور علماء و طلبہ بھی۔ اگر اردو میں کوئی دوسری فقہی تصنیف نہ ہوتی تو ہم دوسرے ادب کے مقابلے میں بہار شریعت کو پیش کر سکتے تھے اور ہمارا مذہبی ادب کسی سے کم درجہ نہ رکھتا ہے۔ (بحوالہ بیسویں صدی میں امام احمد رضا)
آصف جمیل امجدی
[انٹیاتھوک،گونڈہ]
(مضمون نگار روزنامہ شان سدھارتھ کے صحافی ہیں)