حافظ ملت تعلیمی ماحول میں
حافظ ملت کی حیات و خدمات پر متعدد جہات سے نظر جاتی ہے ،اور ہر اعتبار سے وہ بلند پایہ قابل اتباع اور پیس رؤوں کے لیے مشعل راہ نظر آتے ہیں ، اور ہر پہلو کا تقاضا ہوتا ہے کہ اسے اجالے میں لایا جاۓ اور اس سے کتاب فیض و نور کا سامان کیا جاے ، گویا:
ز فرق تا بقدم ہر کجا کہ می نگرم
کرشمہ دامن دل می کشد کہ جا این جاست
لیکن تمام گوشوں اور شعبوں سے بآسانی و باختصار عہدہ برآ ہونے کی بروقت کوئی صورت ذہن میں نہیں آتی اس لیے میں نے درس گاہی ماحول میں ان کے کردار وعمل پر نظر ڈالنے کی کوشش کی ہے ،اگر چہ وہ صرف اسی ماحول کے پابند نہ تھے ۔
ان کی خانگی زندگی ، شہری زندگی ، عابدانہ زندگی ، دعوتی و تبلیغی زندگی ، سیاسی زندگی وغیرہ ہر ایک پر بسط و تفصیل سے لکھنے کی ضرورت ہے ۔ تعلیمی ماحول میں انھیں تین طرح سے دیکھا جاسکتا ہے:
(۱) بحیثیت استاد و مدرس
(۲) بحیثیت صدرالمدرسین
(۳) بحیثیت صدر مجلس عاملہ و سر براہ اعلی (بحیثیت طالب علم کہیں ضمنا بیان کروں گا اسی کو ستنقل سمجھیں)
بحیثیت مدرس :
ایک مدرس کا فریضہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے وقت کا پابند ہو، متعلقہ اسباق پوری ذمہ داری سے پڑھاۓ ، نصاب کی تکمیل کرے ، کتاب کے مضمون کو دل نشین اور موثر طور پر طلبہ کے ذہن میں اتارے، طلبہ کی علمی ترقی ،اخلاقی بندی عملی میدان میں کام یابی اور دینی وعملی خدمات میں فعالی کے لیے کوشاں رہے ۔ اور ان کے ذہن وفکر ، قلب و مزاج ، اخلاق و کردار ہر ایک کی اصلاح کے ساتھ انھیں مردانِ کار کی صف میں نمایاں مقام پر لا کھڑا کر دے۔
پابندی اوقات:
حافظ ملت کو ہم نے ہمیشہ دیکھا ہے کہ جب وہ مبارک پور تشریف فرما ہوتے ، ٹھیک وقت پر مدرسہ تشریف لاتے اور آتے ہی کام میں لگ جاتے تضیع اوقات اور خوش گپیوں کے لیے ان کی عام زندگی میں بھی کوئی خانہ ہے تھا، تعلیمی اوقات میں اسے کب روا ر کھتے ۔
طلبا بھی وقت پر در س گاہ میں حاضر ہو جاتے اور تین چار منٹ تاخیر بھی حضرت پر سخت گراں گزرتی ۔ ایک بار مدارک شریف کے سبق میں ہم لوگ تین چار منٹ کی تاخیر سے پہنچے تو سخت برہم ہوۓ اور باز پرس فرمائی کہ ، دیر کیوں کی ؟ جواب کسی کے پاس نہ تھا اس لیے کہ کسی ضروری کام میں مصروفیت یا کوئی معقول عذر تو تھا نہیں جسے پیش کر سکتے ، چار منٹ کا وقفہ ان کی درس گاہ کے سامنے ہی بیکاری میں گذرا تھا۔
میں نے تو سمجھا نہ کوئی اس سوال کا جواب دے گا نہ اس کے بغیر حضرت سبق پڑھائیں گے ،اور آج یوں ہی واپس جانا ہو گا۔ خیر ہمارے ایک رفیق درس ( مولانا نصیر الدین صاحب کو آخر بات سمجھ میں آگئی۔ عرض کیا ”معاف فرمائیں آئندہ ایسانہ ہو گا۔ اتنا سننے کے بعد حضرت کا چہرہ بدل گیا، ” ہاں کہا اور سبق شروع کرادیا، ایسے ہی ایک بار ملاحسن کے درس میں مولانا حافظ عبدالرؤف صاحب علیہ الرحمہ کے یہاں تاخیر ہوگئی تھی، انھوں نے بھی اس کا بڑا سخت نوٹس لیا۔ بس یہی دو اتفاق ایسا ہوا اور سخت تنبیہ سے دو چار ہونا پڑا۔ اس سے ظاہر ہے کہ ان ذمہ داراساتذہ کو نہ اپنے وقت کا ضیاع گوارا تھا، نہ طلبا کے وقت کی بربادی وہ دیکھ سکتے تھے ۔
ان حضرات کا بڑا ز بر دست مجاہدہ یہ تھا کہ ادارہ کے غیر تعلیمی کاموں کو ہمیشہ غیر درسی اوقات میں ہی نپٹانے کی کوشش کرتے تھے ۔ خواہ اس کے لیے جو بھی صعوبت جھیلنی پڑے ، مگر اسباق کا ناغہ گوارا نہ تھا۔
طریقہ تعلیم :
حافظ ملت کا طریقہ درس یہ تھا کہ کسی طالب علم سے پہلے عبارت پڑھواتے عبارت خوانی میں کوئی غلطی ہوتی تو اس پر تنبیہ فرماتے ۔ کوئی بڑی غلطی ہوتی تو بہت خفا ہوتے ، عبارت خوانی کے بعد پورے سبق کی ایک مختصر اور جامع تقریر کرتے ، اس تقریر سے بہت سے اعتراضات اور شکوک و شبہات کا جواب بھی ہو جاتا۔اس کے بعد عبارت کا سلیس ترجمہ حسب موقع توضیح و تنبیہ کے ساتھ مکمل کر دیتے۔ اگر کوئی طالب علم کوئی سوال کر تا تو بہت مختصر الفاظ میں تشفی بخش جواب دے دیتے ، جو کتاب پڑھاتے پوری مہارت اور ذمہ داری سے اس کا حق ادا کرتے ۔ اور جو سوال ہوتا فوراً اس کا جواب بھی دیتے
ایک بارخود فرمایا: “کبھی زادھار نہ رہا بعد میں اس کی وضاحت فرمائی کہ ایسا ہو تا ہے کہ طالب علم نے کوئی ایسا سوال کر دیا جس کا معقول اور تشفی بخش جواب مدرس کے ذہن میں نہیں تو کہ دیتا ہے کل بتاؤں گاحضرت نے فرمایا کہ میرے یہاں کل بتاؤں گا والا معاملہ کبھی نہ ہوا
اس استحضار اور مہارت کے پس منظر میں وہ بتاتے کہ دور طالب علمی میں میرا طریقہ یہ تھا کہ جتنے اسباق پڑھنے ہوتے سب مطالعہ میں حل کر تا ،اس کے متعلق اعتراضات و جوابات پر غور کر تا ، پھر درس گاہ میں حاضری ہوتی اوروہاں جو بتایا جاتا بغور سنتا، جو سوال ذہن میں ہو تا اگر درس سے اس کا جواب حل نہ ہوا تو پوچھ کر جواب حاصل کر ہر پر روزانہ ہر سبق کا اعادہ اور اس کی تکرار رفقاے درس کو کراتا، پھر آئندہ سال وہ اسباق نیچے والی جماعت کے طلبہ کو بطوراده و تکرار پڑھاتا، اس طرح ہر کتاب اور ہر سبق پڑھنے ہی کے زمانے میں متعدد بار نظر سے گزر چکا ہے دو بار مطالعہ و درس کے طور پر ، اور دو بار تکرار اور پڑھانے کے طور پر ۔
ان کے درس میں اصلاح و تربیت کا عنصر بھی کار فرما ہوتا، اور علمی نکات کے ساتھ عمل کے جذبات بھی طلبہ میں منتقل کرتے ، فکری اور اعتقادی رسوخ اور پختگی بھی ان کا مطمح نظر ہوتا ، اسلام کی صداقت ،اہل سنت کی حقانیت ، منکرین اسلام کی بے ثباتی اور گمراہ فرقوں کا بطلان وہ بڑے موثر، مدلل اور واشگاف طور پر بیان فرماتے ۔
تکمیل نصاب کی فکر :
درسی تقریر کے ایجاز اور جامعیت کے باعث تقریری جلسوں سے متعلق ناغوں کے باوجود ان کے یہاں مقدار تعظیم زیادہ ہوتی ، خصوصاً بخاری شریف کی دونوں جلد میں ہمیشہ ختم کراتے اور یہ ختم بھی اس طرح نہ ہو تا جیسا کہ بعض درس گاہوں کا رواج ہے کہ محض عبارات احادیث کی قراءت ہو جاتی اور کسی نے پوچھ لیا تو بتادیا گیا، ورنہ عبارت خوانی ہی پر درس مکمل ہو گیا۔ بلکہ حافظ ملت ہر سبق کی مناسب اور جامع تقریر کرتے ، بخاری کے آخری پاروں میں جہاں احادیث محمود سابقہ پاروں میں بار بار گزری ہوئی ملتی ہیں کم از کم تر جمعۃ الباب سے حدیث کی مناسبت اور تطبیق چند لفظوں میں ضرور بتادیتے۔
حاضری پر نظر :
طلبا، خصوصاً پڑھنے والے طلبا کی حاضری پر بھی نظر رکھتے ۔ ایک بار جمعرات کے بجاے جمعہ کی صبح کو گھر جارہاتھا، جوں ہی گیٹ کے قریب ہوا حافظ ملت سے ملاقات ہوگئی، نہ معلوم کس ضرورت سے اس دن جمعہ کو مدرسہ تشریف لانا ہوا فرمایا، آج جا رہے ہو تو پھر کل؟ میں نے عرض کیا رات کو مشقی بزم میں شرکت کے پیش نظر کل نہ جاسکا اس وقت ہم چند رفقائے درس عنوانات کے تحت تقریر وتحریر کی مشقی بزم چلاتے تھے اور ذمہ داری کی وجہ سے رکنا پڑا دوسرے دن سنیچر کو میں گھر سے بہت سویرے چلا ، سواری تو دن میں بھی کبھی ملتی کبھی نہ ملتی اتنی صبح سویرے
ملنے کا تصور بھی نہ تھا، اس لیے ابراہیم پور چھوڑ کر ایک دوسرے شارٹ راستہ سے چلا ، پہلی گھنٹی حضرت ہی کے یہاں تھی ، عبارت خوانی کے دوران پہنچ گیا، سبق کے بعد حضرت نے سراٹھا کر دیکھا تو مجھے موجود پایا، اور بہت خوش ہوئے ۔ یوں بھی ناغے کی عادت نہ تھی ۔ مبارک پور کے پورے تین سالہ ایام تعلیم میں کل غیر حاضری نہیں دن سے زیادہ نہ ہوگی جس میں دو تین دن کسی ضرورت کے تحت اور باقی سخت علالت کے تحت ہے ۔
صلاحیتوں سے آگاہی کا شوق:
حافظ ملت کو اس کی بھی فکر ہوئی کہ طالبہ میں اچھی صلاحیت پیدا ہو اور صلاحیت کا جائزہ لینے کے دو موقعے ہوتے تھے امتحان ششماہی جو دارالعلوم کے مدرسین لیتے اور امتحان سالانہ جس کے لیے ہمیشہ ماہر و متبحر علما کا انتخاب کیا جاتا۔ حضرت صدرالشریعہ علیہ الرحمہ کی تشریف آوری ضروری تھی ، بعض اساتذہ یہ چاہتے کہ ان کے زیر تدریس کتابیں صدرالشریعہ کے یہاں امتحان کے لیے نہ جائیں اس لیے کہ دوران امتحان اگر طلبا نے اچھے جوابات نہ دیے تو وہ پوچھتے کس کے یہاں پڑھا ہے اور پھر وہیں مدرس کو طلب کر کے فرماتے کیا پڑھایا ہے ؟ کوئی ٹھکانے کا جواب دینے والا نہیں ۔
مگر حافظ ملت کی کتابیں صدرالشریعہ کے یہاں جاتیں اور خود انھیں طلبا کے جوابات سننے کا شوق ہوتا ، تاکہ طلبا کی صلاحیت کا بھی اندازہ ہو اور اس کی روشنی میں آئندہ تدریس و تربیت کی ارتقائی راہ بھی متعین ہو، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انھیں صرف ڈیوٹی نبھانے اور کسی طرح وقت گزارنے سے مطلب نہ تھا، بلکہ وہ ایک بلند مقصد ، وسیع میدان عمل اور عظیم تعلیم و تربیتی نظریے کے تحت اس شعبے کے ایک بیدار مغز اور متحرک و فعال رکن کی حیثیت سے جادہ پیا تھے ۔
طلبا کی ہم دردی وغم گساری:
انفرادی طور سے بھی طلبہ کو تحصیل کمال کی راہیں بتاتے اور اجتماعی طور سے بھی ان میں تعلیم و عمل کا شوق بیدار رکھتے ۔ طلبہ کے شہری و خانگی حالات، ثروت و غربت ،ضرورت و حاجت کا بھی اندازہ رکھتے اور ایک شفیق باپ کی طرح ان کی بعد روی غم گساری بھی فرماتے، بعض طلبہ کی پوری کفالت بھی اپنے ذمہ لے لیتے جس کی کچھ تفصیل ایک دوسرے مضمون میں لکھ دیا ہوں۔
رجحانات سے آگاہی اور مناسب رہ نمائی: طالبہ مختلف ذوق در جحان کے حامل ہوتے ہیں، بعض کو شعر و سخن سے ذوق ہوتا ہے ، بعض تقریر و خطابت کے دل دادہ ہوتے ہیں ، بعض تجوید وقراءت کی مہارت چاہتے ہیں۔ بعض تصنیف و تحریر کا شوق رکھتے ہیں۔ عام مدرسین کو ان رجحانات و خواہشات کا اندازہ نہیں ہو تا مگر حافظ ملت کی نگاہ ایسی باریک بیں اور ذہن اتنا دور رس تھا کہ کسی نہ کسی گوشے سے ان رجحانات کو بھانپ لیتے اور زمانۂ طالب علمی میں تو شاعری سے منع کرتے لیکن باقی شعبوں لیے حوصلہ افزائی اور مناسب رہ نمائی سے نواز تے ، مقصد یہ تھا کہ طلبا کی صلاحیتوں کو صحیح رخ پر لگایا جائے ہر میدان کے آدمی پیدا کیے جائیں۔
حوصلہ افزائی:
آج تمام ماہرین تعلیم و تربیت کا اس پر اتفاق ہے کہ مار پیٹ کر پڑھانے اور زدوکوب کے ذریعہ سدھارنے کا طریقہ فرسودہ ہی نہیں ، مصر اور غلط بھی ہے ۔ بچوں کی نفسیات کا جائزہ لیا جائے، تعلیم و درستی سے ان کے انحراف کے اسباب معلوم کیے جائیں ۔اوران اسباب کا علاج کیا جاۓ جن سے فاسد صورت رونما ہورہی ہے ۔ طلبہ کے فکر ومزاج کومی ماحول میں ڈھالا جاۓ اور اجتماعی و انفرادی طور پر ہر ایک کے لیے مناسب تدابیر عمل میں لائی جائیں ۔ وہ خودہی اچھی روش پر آجائیں گے اور میدان عمل کے فعال رکن بن سکیں گے ۔
ان تدابیر میں طلبہ کومایوسی و پست ہمتی ے بہانے اور ان کے حوصلے بڑھانے کو بڑی اہمیت دی گئی ہے ۔ حافظ ملت کی زندگی میں حوصلہ افزائی کے شواہد بڑی کثرت سے ملیں گے ، بعض کم فہم لوگوں کو ان کے ہمت ف کلمات سے اپنے بارے میں غلط منبی بھی پیدا ہو جاتی ۔ اور بعض جان بوجھ کر بھی مناسب فائدہ اٹھانے کی راہ ٹالتے۔
مگر بالغ نظر اور بلند حوصلہ افراد ہمیشہ اس کا مطلب یہی سمجھتے کہ حضرت یہ اس لیے فرمارہے ہیں کہ ہم کچھ کرتے رہیں اور کسی لائق بنیں ۔ تاہم اس کا عام فائدہ یہ ہو تاکہ کوئی مایوسی کا شکار نہ ہو تا، اور محنت و عمل کے جذبات کو بانی توانائی ملتی اور یہ خیال قطعا نہ ہو تا کہ نہ میں کسی لائق ہوں نہ ہو سکتا ہوں۔ دراصل یہ تصور ہر ترقی کی راہ میں بہت بزرگی رو کاوٹ ہے جب کہ ہمت و حوصلہ ترقی کا بہت مضبوط زمینہ ہے ۔ ،
جوہر آشنائی:
دوسری چیز یہ ہے کہ ہر انسان میں کوئی خوبی اور کوئی کمال بھی ہوتا ہے ،ہرشخص کی کوئی انفرادی خصوصیت اور اس کا کوئی خاص درجہ بھی ہو تا ہے ۔ وہ چاہتا ہے کہ میری خوبی سے لوگ آشنا ہوں ، میرے درجہ اور کمال کا اعتراف کم از کم میرے مخلص و مہربان افراد کی زبان سے ادا ہو۔ مگر انسان کی انفرادی خوبی کا پتہ لگانا، اس کے خاص درجہ سے آگاہ ہونا، اس کے بعد سینے میں اتنی وسعت ، زبان میں اتنی بلاغت کہ مناسب انداز والفاظ میں اس خوبی و رتبہ کا اظہار بھی ہو، بڑی دقت نظر اور وسعت ظرف والوں ہی کا حصہ ہے ، اور اس خصوص میں حافظ ملت کا مقام بہت بلند ہے۔ میں بڑی سچائی کے ساتھ یہ عرض کر تا ہوں کہ حافظ ملت کا کمال یہ تھا کہ وہ راکھ کے ڈھیر سے بھی سونے کے ٹکڑے چن لیتے تھے اور ہمارا کمال یہ ہے کہ سونے کے ڈھیر میں بھی راکھ کے ذرے دیکھ لیتے ہیں ، اور ان ہی کو کریدتے ہوۓ نظر آتے ہیں ۔
ان کا یہ عجب کمال تھا کہ ہر شخص کا خاص جوہر وہ پہچان لیتے ،اس کی خوبیوں سے آگاہ ہو جاتے اور دادو تحسین سے بھی نوازتے ، طلبا کے حسن وقبح سے بھی وہ آشنا ہوتے اور غلطیوں کی اصلاح، خوبیوں کی تحسین دونوں ہی میں ان کا انداز کچھ ایسا نرالا تھا کہ اس سے فائد ہی ہوتا، نقصان نہ ہوتا۔ کیوں کہ تحسین اگر مناسب بر حل نہ ہو تو بے سلیقہ زجر و توبیخ کی طرح وہ بھی مضر بن جاتی ہے ، حکمت واعتدال ہر عمل کا جزو اعظم ہے ۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ اپنے بچوں اور اپنے طلبا کے معاملے میں عموماً لوگ افراط و تفریط کے شکار ہیں ، کچھ لوگ انھیں خود روپودوں کی طرح ” بے ہنگم “ بڑھنے کے لیے بالکل ہی آزاد چھوڑ دیتے ہیں ۔
اور کچھ لوگ اس قدر قید و بند ، تخویف و شہد میں اور ضرب و کرب سے گزارتے ہیں کہ ان کی صلاحیت ، ان کے طبعی رجحانات اور مناسب رعایت و آزادی کا بھی پاس ولحاظ نہیں رکھتے، حافظ ملت کے یہاں اس باب میں بھی حکیمانہ اعتدال نظر آتا ہے ۔
شخصیت کی دل آویزی:
طالب علم کی اصلاح و تربیت میں معلم کی شخصیت کو بڑا دخل ہوتا ہے ، معلم کے افکار واطوار اور اخلاق و کردار سے طالب علم کا متاثر ہونا فطری بات ہے ، حافظ ملت کی شخصیت علم و تقوی کی جامع ، اخلاص وبے نفسی کی حامل ، تواضع و خودداری سے مرصع ، دین و علم کی ترویج واشاعت کے بے کراں جذبات سے لبریز تھی ، جس کا اثر ان کے تلامذہ پر بھی پڑا، خواہ کوئی ان کے کمال کو نہ پہنچے اور ان کے محاسن کا جامع نہ ہو سکے ،لیکن ہر ایک کے سامنے ایک آئیڈیل اور مثالی شخصیت کا نقشہ ضرور رہتا، اور اسے بہر حال یہ سوچنا پڑتا کہ علم دین کی راہ میں قدم رکھا ہے اور نیابت رسول کا منصب حاصل کرنے کی تڑپ ہے تو شخصیت ایسی ہی دل آویز اور علمی وعملی کمالات و محاسن کی جامع بنانا ہوگی۔ جبھی بجاطور سے عالم دین اور نائب رسول شمار ہو سکتے ہیں اور نہ درخت بے برگ یا شجر بے شمر سے زیادہ کوئی حیثیت نہ ہوگی ۔ آج نئی نسل میں جو بے راہ روی در آئی ہے ، اس میں مناسب تعلیم و تربیت کے فقدان کے ساتھ علماے سو کی کمزوریوں کوتاہیوں بلکہ اس سے بھی آگے بے باکیوں اور بے حیائیوں کا بھی بہت بڑا داخل ہے۔ حفظنا الله والمسلمين من شرورهم.
(۲) بحیثیت صدرالمدرسین:
صدرالمدرسین کا عہدہ بڑا نازک اور اس کی ذمہ داریاں بڑی پیچیدہ ہوتی ہیں ۔ لیکن حافظ ملت کی عملی زندگی سے آخری سات سال کو چھوڑ کر سارا عرصۂ حیات اسی عہدہ کے ساتھ گزرا ہے ۔ صدرالمدرسین کو ایک طرف مجلس انتظامیہ کی ہدایت اور احکام کے تحت مدرسین و طلبہ کو کار بند بنانا پڑتا ہے دوسری طرف مدرسین و طلبا کے مطالبات ضروریات کی طرف انتظامیہ کو متوجہ کرنا ہوتا ہے ، تیسری طرف مدرسین وطلبا کی نگرانی اور ان کے کاموں میں درستی و ترقی لانا علمی وعملی فضا قائم کرنا اورتعلیمی ماحول کو موثر و فعال بنانابھی اس کا اہم فریضہ ہوتا ہے ،اور کسی مدرس و طالب علم کی خامیوں سے متعلق سب سے پہلے اسے نوٹس لینا اور جواب دہ ہونا بھی پڑتا ہے ، مگر ہم دیکھتے ہیں کہ حافظ ملت نے ان پر پیچ ذمہ داریوں کو بڑی خوش اسلوبی اور کامیابی سے نبھایا ہے بلکہ اپنے فرض سے زیادہ انھوں نے کام کیا ہے ۔ دارالعلوم کے تعلق سے عوامی ارتباط میں انتظامیہ سے زیادہ حافظ ملت کا کر دار رہا ہے ۔ اور اشرفیہ کی ملک گر شہرت ، نیک نامی اور مسلمانوں کے اندر اشرفیہ کے لیے جذبہ ایثار و تعاون کی فراوانی میں حافظ ملت کی مساعی جمیلہ اور ان کی دل آویز شخصیت کا بہت بڑا دخل ہے ۔
دار العلوم اشرفیہ کی تعمیر کے موقع پر مسلمانان مبارک پور کا جوش و حوصلہ حافظ ملت کی مخلصانہ جدو جہد کا ہی ثمرہ ہے ،اساتذہ کا انتخاب بھی لیاقت وصلاحیت کی بنیاد پر ہوتا۔ اور حافظ ملت کے خلوص و محنت کا اثر سب پر پڑتا اور بھی اپنے فرائض ذمہ داری سے انجام دینے کی کوشش کرتے ۔
طلبا کے اندر علمی و عملی اسپرٹ تیز کرنے کے لیے وہ ہر دو تین ماہ بعد ایک آدھ گھنٹے کے لیے انھیں جمع کر کے خطاب کرتے یہ خطاب بڑا موثر ہوتا ، اور ” از دل خیزد ، بر دل ریزد کا عکس صاف دکھائی دیتا، اس میں عموماً جو کچھ وہ بیان فرماتے اس کا مفہوم اور حاصل حسب ذیل ہو تا۔
اشرفیہ میں قابل اساتذہ کا ایک متحرک و فعال کارواں جمع ہے جن کی یہ یہ خصوصیات اور خوبیاں ہیں۔ اور مدرسین کے ناموں کے ساتھ ان کے کمالات بتاتے اور یہ حافظ ملت کا خاص فن تھا کہ وہ ہر شخص کے قرار واقعی فضل و کمال سے خود بھی آشنا رہتے اور دوسروں کو بھی آشنا کراتے ) اس کے بعد فرماتے کہ ان سے اکتساب فیض اور تحصیل کمال تمھارا فریضہ ہے ،تم نے طلب علم کی راہ میں قدم رکھا ہے تو اسی میں منہمک رہنا چاہیے ، اور اپنا وقت برباد نہیں کرنا چاہیے، ایک تاجر اپنی تجارت کے فروغ اور دولت کے حصول کے لیے دن رات ایک کر دیتا ہے ۔
کبھی سر پر بوجھ بھی لاد کر چلتا ہے اور کبھی سخت سست بھی سنتا ہے ۔ ذلت بھی اٹھاتا ہے مگر اپنے مقصد اور اپنے کام سے دست بردار نہیں ہوتا ، ایک درزی اپنے کام کی تعمیل کے لیے ہر وقت لگا رہتا ہے ۔ دکان دار صبح بیٹھ جاتا ہے تو شام کو اٹھتا ہے کھانے سے اور راحت وآرام سے بھی بے پروا ہو جاتا ہے ، بنکر اپنی بنائی کے کام میں لگارہتا ہے اور ہر طرح کی زحمت و صعوبت برداشت کرتا ہے ۔ جب سب کام والے اپنے کام میں بھر پور دل چسپی اور محنت سے لگے رہتے ہیں تو پھر کیاوجہ ہے کہ طالب علم اپنے کام سے غافل رہے ، اور اپنا وقت برباد کرے۔ دینی طلبا پر مجھے افسوس ہے کہ یہ تحفظ وقت کا خیال نہیں رکھتے۔
ایک بار میں کلکتہ کی ایک بلڈنگ میں ٹھہرا ہوا تھا، قریب کے کمرے میں ایک بنگالی طالب علم کا قیام تھا۔ وہ کچھ دیر سوتا اور پھر اٹھ کر پڑھنے لگتا، رات بھر زیادہ تر اس نے پڑھتے ہوۓ ہی وقت گذارا، اسے اپنی تعلیم سے اس قدر لگن اور اس کے لیے اتنی محنت تھی تو ہمارے طلبا میں ایسی لگن اور محنت کیوں نہیں آتی ۔انھیں بھی اپنی تعلیم سے شغف، اپنے مقصد کے ساتھ اخلاص، اپنے وقت کی قدر شناسی ، اپنے کام سے دل چسپی ہوناچاہیے ( اس مضمون کو بھی متعدد شواہد و واقعات کے ذریعہ مزید مؤثر انداز میں بیان کرتے۔)
علم کے بعد عمل کی ترغیب پر آتے تو فرماتے :
عالم کتنا ہی قابل کیوں نہ ہو اگر اس میں عمل نہیں تو وہ نہ عنداللہ مقبول ہو سکتا ہے اور نہ عند الناس۔
ایک مقرر رد وہابیہ میں تقریر کر رہے تھے اور ٹھوس دلائل مضبوط شواہد اور دل نشیں انداز بیان کے ساتھ بولتے جارہے تھے ، تقریر بڑی کام یاب ہوئی ۔ تقریر ختم ہوتے ہی ایک شخص مجمع سے اٹھا اور کہا مولانا ذرا اپنے سر کے بال تو دیکھیے دیکھا تو سر پر انگریزی بال تھا، دوسرا کھڑا ہوا اور اس نے کہا مولانا ذرا اپنا پاجامہ تو دیکھیے، پاجامہ ملنے سے نیچے تھا۔ ان کے اعتراضات سے مولانا کی تقریر کا جواب تو نہ ہوا ، جو حقائق انھوں نے بیان کیے وہ غلط تونہ ہو گیے ۔ مگر ان کی ذاتی اور عملی خامیوں کی وجہ سے ان کی تقریر بے اثر ہوگئی۔
ہم نے صدرالشریعہ سے علم سیکھا اور عمل بھی سیکھا، ہر بات وہ بتاتے نہ تھے ۔ ہم نے توانھیں دیکھ دیکھ کر سیکھا ہے ، انھیں عمامہ باندھتے دیکھا تو عمامہ باندھنا سیکھ لیا،انھیں سر جھکاکر وقار سے چلتے ہوۓ دیکھا تو چلنا سیکھ لیا، انھیں کھاتے ہوئے دیکھا توکھانے کا طریقہ سیکھ لیا(ظاہر ہے کہ یہ وہی کہ سکتا ہے جو خود علم و تقوی کا جامع اور سنت نبوی کا پابند ہو۔ان کا مقصد یہ تھا کہ تلمذ اور شاگردی کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے علم کے ساتھ ہمارا کردار وعمل بھی حاصل کرو، اور علم وعمل کے جامع بنو، جب ہی تم خدا اور رسول کی خوش نودی اور اپنی دینی خدمات کے میدان میں کام یابی و کامرانی سے ہم کنار ہو سکتے ہو اس طرح کی تقریروں کا اثر یہ ہوتا کہ طلبا میں ایک علمی وعملی لہر پیدا ہو جاتی ۔ اور کھیلنے والوں میں بھی کچھ سیکھنے ، کچھ کرنے کا جذبہ بیدار ہو جاتا۔
و طلبا کو خارج بھی کرتے تھے مگر حتی الامکان ان کی اصلاح کی کوشش کرتے ، اور اس طرح نہیں کہ معاف کر کے علی حالہ چھوڑ دیا کہ طالب علم کے لیے ایسا ماحول اور ایسے اسباب فراہم کرتے کہ وہ صحیح روش پر آجاۓ اور بیکارہونے کے بجاے کام کا آدمی بن جائے. وہ ادارہ کی کام یابی کے لیے مدرسین میں اتحاد و اتفاق اور ہر ایک کے اعزاز و اکرام کو ضروری سمجھتے تھے ،اوران کے زمانے میں یک جہتی یا کم از کم رواداری اور انس والفت کی فضا برابر دیکھنے میں آتی ۔
طلبا کی ضروریات کے معاملہ میں بھی بہت حساس تھے۔اور ایسا نہیں کہ جب طالب علم ان کے پاس درخواست لے کر آۓ اور بار بار تقاضا کرے جبھی اس کی ضرورت پر غور و خوض ہو بلکہ کسی طرح بھی حافظ ملت کو ضرورت کا علم ہو جانا کافی تھا۔ اس کے بعد وہ از خود اس کی تکمیل کی طرف فوراً توجہ کرتے ، فیصلہ میں دیر اور کام میں ٹال مٹول تو وہ جانتے ہی نہیں تھے ، جو کرنا ہوتا فوراً کرتے اور باسلیقہ و صائب اور مکمل طور پر کرتے ۔ یوں ہی جو ان کی راے ہوتی اس کے دو ٹوک اظہار سے بھی ان کے لیے کوئی مانع نہ تھا اس میں ان کے فہم و تدبر کا بھی دخل تھا اور جرات واستقامت کا بھی ، پیرایۂ بیان کی ندرت و بلاغت کا بھی اور عدل پسندی اور صاف گوئی کا بھی۔
اگر مطبخ سے متعلق کسی خرابی کا علم ہوا تو فوراً ذمہ داروں کو اس کے تدارک کی طرف متوجہ کرتے ، دوسری کسی پریشانی کا پتہ چلا تو فوراً اس کے ازالے کی کوشش کرتے ، ایک بار قحط کی وجہ سے کنوؤں کا پانی بہت کم ہو گیا۔ طلبا کی ضروریات کے لیے دارالعلوم میں ایک ہی کنواں تھا، جو صبح دو گھنٹوں میں خالی ہو جاتا، اور پھر کیچڑ آنا شروع ہو جاتی ، طلبا مسجدوں میں جاتے تو وہاں بھی لوگوں کی ترش روئی اور سخت کلامی کا سامنا کرنا پڑتا۔
اس صورتِ حال کا ایک بار یوں ہی مولانا شمس الحق صاحب مرحوم نے حافظ ملت سے ذکر کر دیا۔ حضرت نے سن لیا اور مولانا کے جانے کے بعد ناظم اعلی کو بلایا۔ اور ان سے ضرورت و پریشانی بتانے کے ساتھ ہی فرمایا کہ آپ ٹیوب ویل لگوائیے ۔ ناظم اعلیٰ نے قبول کر لیا، اگر چہ بعد میں مولانا شمس الحق صاحب سے خاصی افسردگی کے ساتھ فرمایا کہ آپ کی وجہ مدرسے کا اتنے ہزار روپیہ خرچ ہورہا ہے ۔ خیر ٹیوب ویل لگا اور بہت سی صعوبتوں کا خاتمہ ہوا۔ اسی طرح طلبا کی شرارتوں کا محض انھیں علم ہو جانا کافی تھا، پھر وہ خود ہی ان کی سز او اصلاح کی فکر کرتے ، اور فضا کو علمی وعملی رخ سے پاکیزہ و بہتر بنانے میں ذرابھی تغافل و بے پروائی روا نہ رکھتے ۔ اور اگر شکایات بیجا و مبالغہ آمیز ہوتیں تو ان کا جواب بھی متانت و سنجیدگی کے ساتھ خود ہی دے کر معاملہ رفع دفع کر دیتے۔
(۳) بحیثیت سر براہ اعلیٰ :
1970 ء میں وو مجلس انتظامیہ کے صدر اور ادارہ کے سربراہ اعلیٰ کی حیثیت سے منتخب ہوئے ، مگر ان کے اوپر اس منصب کا کوئی جاہ و جلال نظر نہ آیا انھوں نے بارہا فرمایا کہ ” میں کل بھی ادارہ کا خادم تھا اور آج بھی ادارہ کا خادم ہی ہوں. “
جہاں تک منصبی ذمہ داریوں کی انجام دہی کا سوال ہے میں سمجھتا ہوں کہ موجودہ الجامعۃ الاشرفیہ کی فلک بوس عمارت ، اس کی تاحد نظر وسیع و عریض زمین ، اس کی نوع بہ نوع عمارتیں سب حافظ ملت کے منصب صدارت کا عطیہ ہیں۔ وہ بڑی تیزی کے ساتھ اپنے منصوبوں کو عملی شکل دینا چاہتے تھے ، مگر کوئی بھی بڑا کام متحرک وفعال رفقائے کار کی تن دہی اور سرگرمی کے بعد ہی پورا ہوسکتا ہے ۔ انھوں نے جامعہ کی عمارت بننے کے بعد ہی لائبریری کو مستقل حیثیت دی ۔ اس کے لیے مولانا عبد المبین نعمانی جیسے باخبر ، ملت کے درد مند ، علم وفن کے شیدا اور متحرک وفعال شخص کو لائبریرین مقرر کیا، مولانا نے دیکھتے دیکھتے کتابوں کے گودام کو ایک باضابطہ لائبریری میں تبدیل کر دیا اور اس کی ثروت و ترقی کے لیے سرگرم عمل ہو گئے۔
باضابطہ شعبہ تجوید قائم کیا اور اس کے لیے اپنے احباب کے انتخاب پر شیخ القراء قاری محب الدین صاحب کی خدمت میں ایک عالم کو بھیج کر تجوید کی تکمیل کرائی، اسی طرح جامعہ کا ترجمان ماہ نامہ اشرفیہ “ جاری کیا اور مولانا بدرالقادری کو بلا کر اس خدمت پر لگایا پھر خود اس کی توسیع و اشاعت کے لیے سرگرم رہے ۔
سنی دارالاشاعت حضرت مولانا عبد الرؤف صاحب علیہ الرحمہ کے اچانک انتقال سے بے یارو مددگار ہو چکا تھا، اس کے لیے مفتی عبد المنان صاحب عظمی کو منتخب کیا ، انگریزی تعلیم کے لیے ماسٹر آفتاب احمد صاحب کو جو جامعہ ملیہ دہلی میں کام کر رہے تھے بلا کر اشرفیہ کا استاد مقرر کیا، طلبا میں عربی لکھنے بولنے کی مہارت پیدا کرنے کے لیے مولانا یاسین اختر اعظمی اور مولانا افتخار احمد قادری کی خدمات حاصل کیں ، ان کی یہ بھی خواہش تھی کہ جامعہ ازہر سے رابطہ قائم کیا جائے ، اور وہاں کچھ لوگوں کو بھیج کر تعلیم دلائی جائے ، پھر اشرفیہ میں ان کی خدمات حاصل کی جائیں ، اس سلسلے میں علامہ ارشد القادری نے برطانیہ جاتے ہوۓ ازہر کے ذمہ داران سے ملاقات کر کے کچھ سلسلہ جنبانی بھی کی مگر کام آج تک مؤخر ہی ہو تا جارہا ہے۔
یہ سب داخلی اور معنوی طور پر اشرفیہ کو سنوار نے اور بڑھانے کی کوششیں تھیں ، جو شاید عام لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل ہوں ،ظاہری طور پر تعمیرات کے سلسلے میں انھوں نے باوجود پیری ضعیفی کے ملک بھر کے دورے کیے اور اشرفیہ کو لوگوں کی امیدوں کا مرکز اور دلوں کی دھڑکن بنا دیا، اسے کون نہیں جانتا۔
وہ مدرسین کی ضروریات اور ان کی پریشانیوں سے باخبر تھے ، انھوں نے خود عمر کا بیش تر حصہ اسی دشت کی سیاحی میں گزارا تھا گر چہ انھوں نے اپنے استاذ کے حکم کے مطابق ادارے کا کام ہمیشہ خدمت کی نیت سے کیا اور تنخواہ کی کمی بیشی سے کوئی مطلب نہ رکھا نہ کبھی اضافہ تنخواہ کی درخواست ارکان عالیہ کی خدمت میں گزاری لیکن وہ جانتے تھے کہ سات سات ماہ اور گیارہ گیارہ ماہ تک تنخواہیں موقوف رہنے سے مدرسین پر کیا گزری ، دوسرے مدرسین کے اضافوں کی فکر سے بھی وہ غافل نہ ہوتے ، نہ ہی کبھی کوئی منفی رویہ اختیار کرتےسر براہ اعلیٰ ہونے کے بعد وہ بلا درخواست اضافہ کی راہ نکالتے ۔
ایک بار حضرت کی مجلس میں لوگوں نے اپنے کاروبارکی پریشانی اور گرانی کی زیادتی کا تذکرہ کیا جیسا کہ عموماً ایسے موقعوں پر ہوتا ہے کہ ہر شخص اپنی پوری لسانی و فکری صلاحیت کے ساتھ آٹا، دال ، چاول، سوت ، ریشم، مسرائز کا بھاؤ اور بازار کا اتار چڑھاؤ بتانے لگتا ہے اور کوئی گوشہ تاریک نہیں چھوڑنا چاہتا، حضرت کے سامنے بھی لوگ بیان کرتے رہے اور حضرت یہ ساری باتیں بڑی متانت اور درد مندی سے سنتے رہے ، بتانے والوں میں زیادہ تر مجلس عاملہ کے ارکان ہی تھے ، آخر میں فرمایا کہ جب گرانی کا یہ حال ہے تو مدرسین کی تنخواہوں میں اضافہ ضروری ہے ، دوسرے دن میٹنگ طلب کی اور بغیر کسی درخواست اور تحریک کے تمام مدرسین کی تنخواہوں میں اضافہ کر دیا، کسی رکن میں اختلاف کی مجال بھی نہ تھی کیوں کہ ایک دن پہلے خود ہی سب کچھ سنا چکے تھے ۔
یہ واقعہ حضرت نے ایک موقعے پر خود مجھ سے بیان کیا۔ مولانا یاسین اختر صاحب بتاتے ہیں کہ ہم لوگ بہت سی پریشانیوں اور بے التفاتیوں کا شکار رہتے مگر حضرت کی مجلس میں پہنچتے توان کا ایک ہی جملہ ہمارے سارے غم والم کافور کر دیتا۔ وہ فرماتے: اشرفیہ آپ کا ہے ، آپ کو رہنا اور کام کرنا ہے۔
31 مئی 1976ء کو ان کا وصال ہوا تو پورے مبارک پور ہی نہیں پورے ملک میں افسردگی اور غم واندوہ کی لہر دوڑ گئی ،اشرفیہ کے در و دیوار کی پژمردگی اور اداسی کا کیا حال رہا ہو گا اس منظر کو اشرفیہ کی فضا میں سانس لینے اور شب و روز گزار نے والے حساس شاعر نے دیکھا اور محسوس کی تواسے الفاظ کے قالب میں اس طرح ڈھالا ہے:
سہمی سہمی سی فضا ہے تھر تھراتا ہے جگر
رہ نماے ملت آسامیاں جاتا رہا
سوز و جذب اندروں سے جس کے اٹھتا تھا دھواں
قوم کا غم خوار وہ قلب تپاں جاتا رہا
گلستان جامعہ پر چھا گئی پژمردگی
خون دل سینچنے والا کہاں جاتا رہا
جامعہ کا ذرہ ذرہ کر رہا ہے یہ سوال
ہائے اختر میرا وہ محسن کہاں جاتا رہا
بحوالہ: مقالات مصباحی ، صفحہ: 391