کورنا وائرس بیماری ہے عذاب ہے اور آزمائش بھی ہے اور یہ کرونا قدرت و فطرت سے ٹکراو کا نتیجہ حیات و موت اللہ رب العالمین کے دست قدرت میں ہے لیکن انسان ان چیزوں کو بھی اپنے بس میں کرنے کی سعی ناکام میں لگا ہوا ہے اب توبہ و استغفار کر لو اور قدرت سے ٹکر لینابند کردو۔
کرونا قدرت و فطرت سے ٹکراو کا نتیجہ ہے
سرزمینِ چین کے ‘ووہان’ شہر میں پَنَپتی ہے اور قدم بہ قدم آگے کی طرف بڑھتی چلی جاتی ہے یہاں تک کہ عالمگیر سطح پر رونما ہو کر اپنے آہنی پَنجوں سے پورے انسانی معاشرے کو یرغمال بنا لیتی ہے۔
اسی پر بس نہیں ہوتا بلکہ مزید ترقی کے منازل طے کرتی چینی مصنوعات میں سے اب تک کی سب سے انوکھی اور ثابت شدہ شئے ہے جس نے ہر کس و ناکس کو دہشت و وحشت میں مبتلا کرنے کے بعد ہَمہ جہت طریقوں پر اپنے پھیلاؤ کو برقرار رکھنے میں اور اپنے آبائی وطن، ملکِ چین کی سرحدوں کو عبور کرتی ہوئی چہاردانگِ عالم میں چھلانگ لگا کر باہری دنیا پر اپنی گرفت مضبوط سے مضبوط تر کرتی چلی گئی۔
اور یکے بعد دیگر ممالک میں پہنچ کر وہاں کے عوام و خواص کو گھروں میں محبوس و محصور کرنے میں کامیاب ہوئی جس سے کہ ضروریات زندگی کے حصول میں مگن اور روز مرہ زندگی کے اصول و ضوابط کے پابند ان تمام اشخاص کو اس بات کا اندازہ لگانے میں ذرا بھی تردُّد نہ رہا ہوگا جو سمجھتے تھے کہ یہ دنیا ان کے دَم سے قائم و دائم ہے۔
جب انہیں یک لَخت جھٹکا لگا ہوگا اور ان کی بھاگتی دوڑتی زندگی کی گاڑی کا پَہِیا اچانک ہی تھم سا گیا ہوگا اور انہیں ایسا محسوس ہوا ہوگا جیسے طفلِ کمسِن جب پہلے پہل کھڑے ہو کر چلنے کی کوشش میں چند قدم چلتا ہے اور دھمّ سے گِر جاتا ہے یہی کچھ صورتحال اس وقت وائرس زدہ ممالک و بلدیہ کی دیکھنے میں آ رہی ہے۔
ادھر جو لوگ اس خطرناک وائرس کی چپیٹ میں آ کر موت کے منہ میں چلے گئے ہیں ان کی دِل دوز اموات کی خبروں کو سن کر عوام کا ایک بڑا طبقہ بھے بھیت اور ڈرا سہما گھروں میں مقید ہو چکا ہے۔
موت و حیات کے بیچ تڑَپتے انسانی جسموں کے خوفناک مناظر کو اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرتے لوگوں کو جب اس بات کا پختہ یقین ہو گیا کہ ہر طرف اسی وائرس کی واہی تباہی مچانے والی خبروں کا چرچا ہے تو انہیں اس بات کا بھی احساس ہوتا چلا گیا کہ اگر معاملہ واقعی ایسا ہے تو صدیوں بعد آنے والا پہلا حادثاتی واقعہ ہوگا جو بِلا تفریقِ ملک و ملت پوری انسانیت کو اپنے تلخی بھرے نرغے میں لے لیگا اور حکومت و مذہب کے مابین کسی بھی طرح کی تفریق کئے بغیر آگے بڑھتا چلا جائےگا۔
وہ جسے بھی اپنی خوراک کا نِوالہ بنائےگا بحیثیتِ آدم زاد بنائےگا، دین و مذہب، ملک و ملت، حکومت و سلطنت اور علاقہ و عُرفِیّت سے اسے کوئی سروکار نہ ہوگا۔
یہی وجہ ہے کہ اس وقت بڑے بڑے ممالک کے سربراہان، ظالم و جابر حکمراں، طاقت و اقتدار کے نشہ میں مست رہنے والے لیڈران اور نانِ شبینہ کے احتِیاج مندوں سے لےکر فٹپاتھ کنارے اور روڈ پر پڑے رہنے والے اپنی سُدھ سے بھی بےخبر رہنے والے انسانوں کے جسموں تک اس کے زہریلے اثرات پہنچنے کے آثار نمایاں ہونے لگے۔
مسلمان اپنی ہی عبادت گاہ سے خوف کھانے لگا
تو یَکایَک کھلبلی مچا دینے والی یہ “کرونا وائرس” نامی بیماری اس وقت اپنی بھرپور جلوہ نمائی کے ساتھ اپنے عکسِ حقیر کا مظاہرہ کرا رہی ہے اور اس کی اس غیر اِرادتِی حالت کو دیکھ کر؛ بقولِ شاعر
“دیا رنج بتوں نے تو خدا آیا کے مِصداق پورا کرۂ ارض ایشیا و یورپ اس کی سنگینی سے تھرتھر کانپنے لگا۔
ہر سمت ہَلچل مَچی ہوئی ہے اور افرا تفری کا عالَم یہ ہے کہ حکومتی سطح پر کی جانے والی عوامی ناکہ بندی اور جنتا کرفیو کی پرواہ کئے بغیر لوگ اپنے محفوظ مقامات کی طرف چل پڑے ہیں۔
ملک گیر پیمانے پر انارکی اور بد امنی پھیلی ہوئی دیکھی جا سکتی ہے اور لوگ کیسے بھوکے پیاسے ننگے پاؤں ننگے سر میلوں کا سفر پیدل طے کرنے پر مجبور ہیں؟۔
مائیں اپنے لختِ جگر کو سینے سے چِمٹائے اور باپ اپنے نورِ نظر کو کاندھے پر اُٹھائے اپنی اپنی منزل کی طرف رواں دواں دکھائی دے رہے ہیں، جدھر نظر دوڑاؤ انسانی سروں کا ہجوم نظر آ رہا ہے، اس دوران مرکزی و ریاستی حکومتیں “لاک ڈاؤن” کی مکمل پاسداری کرنے اور اسے کامیاب کرنے کی اپیلیں تو کرتی نظر آ رہی ہیں مگر ان کے درد کا درماں نہیں کر رہی ہیں۔
خیر یہ تو رہا بیماری اور اس سے پیدا ہونے والی صورتحال کا منظر نامہ ! اصل چیز یہاں جو سوچنے والی ہے وہ یہ ہےکہ: انسانی معاشرے کو اس وبا کا سامنا کیوں کر کرنا پڑا؟۔
کیا اس وبا کے افزائش میں جو عوامِل و وُجوہات ہیں وہ قدرتی ہیں یا انسانی ذہنوں کی کارستانی اور تخریب سازی کار فرما ہے؟
تو اس سلسلے میں یہی کہا جا سکتا ہےکہ اس کا ایک اہم سبب بالواسطہ یا بلاواسطہ قدرت سے ٹکرانا ہے۔
اسے اور آسان الفاظ میں اس طرح بھی کہہ سکتے ہیں کہ ایک لمبے عرصے سے انسان قدرت کو ہَرانے کی کوشش و جستجو میں تھا۔
اور اس کام کے لئے کہیں تو تہذیب و تمدن کے نام پر فَواحِش و مُنکرات کا بازار گرم کیا جا رہا تھا، کہیں نرم گرم جِسموں کی رعنائیوں تَلے صِنفِ نازک کی تذلیل کی جا رہی تھی۔
کہیں کلچر و ثقافت کے نام پر شراب و شباب کی بےہَنگم منڈیاں سَجا کر لَبا لب مےنوشی کے دھندے سے زمین کے سینے کو چاک کیا جا رہا تھا تو کہیں آزادی نِسواں کے خودساختہ دامِ فریب میں عورتوں کو پھنسا کر ان کے جسمِ نزاک کو عُریانیت و فحاشی کی دلدل میں مست دنیا داروں کی خواہش کو مزید پروان چڑھانے اور ان کے سَروں سے شرم و حیا کی چادر و عُبا کو کھینچ کر تمام غیر فطری حدوں سے انہیں گزارا جانے لگا تھا۔
بنتِ حَوّا کو نائٹ کلبوں اور ہوٹلوں میں رہائش پذیر نِکمّے افراد کی گودوں میں بیٹھا کر اور عیش و عشرت کے دِل دادہ اور رَسیَاؤں کی شب گزاری کا تسکینی سامان بنا کر جب پیش کیا جانے لگا تو ان کی یہ نازیبا حرکات اور انسانی فطرت سے کِھلواڑ کرنا یقیناً اللہ کے غیض و غضب کو بھڑکانے اور اس کے عذاب کو سامنے سے دیکھنے کےلئے کافی ہو جانے لائق تصادم تھا۔
حیا باختہ مناظر کی منظر کشائی اس حد تک کی جانے لگی کہ اس دوران ان کے ذہن و خیال سے قدرت کا اِنتقام اور اللہ کا جاہ و جَلال نَسیاً مَنسیا ہو کر رہ گیا اور وہ اس بات کو فراموش کر بیٹھے کہ اس نِظامِ کائِنات کو لےکر چلنے والی ایک ایسی ہستی بھی ہے جو اس دنیا کو گناہوں کی چُرمُراہٹ سے چور ہوتے اور پراگندہ ہوتے دیکھ رہی ہے۔
کورونا وائرس بیماری یا عذاب الہی
اور بدطینت و بد قماش لوگوں کو متنبہ کر رہی ہے کہ ابھی وقت ہے سنبھل جاؤ اور ابھی موقع ہے اپنے تمام برے اعمال و افعال سے باز آ جاؤ؟۔
مگر نہ تو از خود انہوں نے اس کی طرف دھیان دیا اور نہ ہی توجہ مبذول کرانے والے کی بات پر غور و فکر کیا اور آج اس کا بھیانک نتیجہ سب کے سامنے ہے۔
اب جبکہ اس کی طرف سے پکڑ اور گرفت کا وقت آ پہنچا تو سب کے سب لوگ ایک معمولی کیڑے اور جرثومے کی دریافت میں ناکام و نامُراد دکھائی دے رہے ہیں اور حیران و پریشان کھڑے ایک دوسرے کا منھ تک رہے ہیں۔
حالانکہ یہ سب وہ لوگ ہیں جنہیں ایجادات کی دریافت کرنے اور اپنی سائنس و ٹیکنولوجی پر بڑا فخر تھا، جو اپنی ترقی و ایجادات کے بلند و باگ اعلانات سے انسانیت کے کاندھے پر اپنے احسانات کا جُوا رکھ کر ماسِواء اپنے پوری انسانی برادری کو حقیر و ذلیل شمار کر رہے تھے اور دیگر اَقوام و مِلل کو کمترین سمجھی جانے والی اشیاء کی فہرست میں شمار کرتے نہیں تھکتے تھے۔
آج جب یہ وبا و بلا تَھمنے سے بھی نہیں تَھم پا رہی اور رکنے سے نہیں رُک رہی ہے تو اسی تکبر و گھمنڈ کے نشے میں چور دنیا کو ایک ذاتِ واحد کی طاقت و قدرت پر یقین اور ہر طرح کے اسباب کو پیدا کرنے والے یعنی حقیقی مُسببُ الاَسباب کی طرف نظریں دوڑانے اور دعا و مناجات کرنے جیسی باتوں کا خیال دل میں پیدا ہو رہا ہے۔
اور ایک ذاتِ واحد کی وحدانیت کا اقرار کرنے اور ایک نبی ﷺ کی رسالت کا یقین کرنے والوں کی پاکیزہ اور راہنما اصولوں کے ساتھ گزاری جانے والی زندگی کی طرف دنیا ٹِک ٹِکی باندھے کھڑی ہے اور اس وبائی مصیبت سے نجات حاصل کرنے کی اپیلیں کر رہی ہے۔
جس سے یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ انسانی معاشرے کا تحفظ اور اس کا فروغ صرف اور صرف اسلام کے سایۂ عُطوفت میں رہ کر ممکن ہے، اس کے علاوہ سب دھوکہ ہے۔
محمد قاسم ٹاندوی
mdqasimtandvi@gmail.com