ہمارا ملک عزیز ہندوستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کورونا نامی بیماری سے متاثر ہے اور اس بیماری سے چٹکارہ پانے کے لیے پوری کوشش کر رہے ہیں لیکن ہمارے کا میڈیا اس کو ہندو مسلم کا رنگ دے کر اپنی روٹی سینکنے میں لگا ہے اسی لیے دانشمندوں نے کیا کہ کورونا کی طرح میڈیا وائرس سے بھی بچیں
کورونا کی طرح میڈیا وائرس سے بھی بچیں
ان دنوں پورا ملک کورونا وائرس کے خلاف متحد ہو کرجنگ لڑ رہاہے۔ اس میں کیا ہندو کیا مسلم ، سکھ اور عیسائی سبھی برادری کے لوگ اس وبائی مرض سے خوف زدہ اور پریشان ہیں۔کئی لوگ اس کی لپیٹ میں آکر لقمہ اجل بھی ہوچکے ہیں۔
صرف بھارت ہی نہیں بلکہ اس مہلک وائرس کی وجہ سے پوری دنیا میں ہزاروں اموات ہوچکی ہیں اور بھی بھی سیکڑوں لوگ زندگی اور موت کی کش مکش میں ہیں۔ پورے طور پر بھارت لاک ڈاؤن کی صورتِ حال میں ہے۔
عوام نے اپنے آپ کو اپنے گھروں میں قید کرلیا ہے۔ ایک طرف ملک کے ایسے تشویش ناک اور خطرناک حالات ہیں، جن سے ہر کوئی جوجھ رہاہے اور دوسری طرف ملک کی بدنامِ زمانہ گودی میڈیا ملک میں نفرت و عصبیت کی مسموم فضا ہم وارکر رہی ہے، مسلمانوں کے تئیں اپنی دشمنی اور تنگ نظری کو ظاہر کررہی ہے۔
نماز جمعہ سے بھی محروم کیا بھول ہوئی از الحاج حافظ محمد ہاشم قادری صدیقی مصباحی
کورونا وائرس کو فرقہ وارانہ رنگ دے کر اور اسے مسلمانوں سے جوڑ کر حالات کو اور مزید سنگین بنارہی ہے۔
کس قدر افسوس اور حیرت کی بات ہے کہ چند دنوں سے تمام میڈیائی چینل ہاتھ دھوکر تبلیغی مرکز نظام الدین کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ اسے اتنا بڑا ایشو بنا دیا گیا ہے کہ یہ سلسلہ کسی قدر تھمنے کا نام نہیں لے رہاہے۔
کبھی اس کے تار طالبان سے جوڑ رہے ہیں تو کبھی آئی ایس آئی ایس سے۔ جو اینکر جس طرح چاہ رہا ہے، تبلیغی جماعت کے بارے میں اناپ شناپ بک رہاہے۔ میڈیا کے ان سخت
رویوں سے ہمیں لگتا ہے کہ یہ با قاعدہ مسلمانوں کو عالمی سطح پر بدنام کرنے کی ایک پلانگ اور گھنونی سازش ہے۔
ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ جو کچھ مرکز نظام الدین میں ہوا، اس کا ذمہ دار پولس انتظامیہ ہے یا پھر مرکز کے ذمہ داران۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ ایسے نازک اور المناک حالات میں بھی میڈیا کو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کا موقع اور شوشہ ہاتھ لگ ہی گیا، جس سے وہ پورے ملک میں مسلمانوں کے خلاف فرقہ وارانہ ماحول پیدا کر رہی ہے۔
کورونا وائرس کے ملک میں داخل ہونے کے بعد دانشور حلقوں میں یہ قیاس آرائیاں کی جارہی تھیں کہ اس وائرس کو یقیناً مسلمانوں سے جوڑا جائے گا اور حکومت کی تمام خامیوں، ناکامیوں اور کمیوں پر پردہ ڈالا جائے گا۔ تبلیغی مرکز نظام الدین کے واقعے پر میڈیا کے ان پروپیگنڈوں اور ناپاک منصوبوں نے ان قیاس آرائیوں کو سچ کر دکھایا اور پوری میڈیا کا اصل چہرا ملک کے سامنے آگیا۔
یہ سچ ہے کہ جب سے ملک میں زعفرانی حکومت برسرِ اقتدار آئی ہے، یہاں کی میڈیا کا رخ مسلمانوں کے تئیں سخت ہوگیا اور وہ ملک میں ہندو-مسلم فرقہ واریت کو جنم دینے لگی۔ میڈیا نے ہر موقع پر مسلمانوں کو اپنی زہریلی زبان سے دکھ پہنچایا، برادران وطن کے سامنے انہیں کئی ایک معاملوں میں موردِاِلزام ٹھہرایا۔
حد تو یہ ہے کہ کئی بے قصوروں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچاکر ہی دم لیا، جس کی کئی ایک زندہ مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ میڈیا کے ظلم و ستم کا نشانہ بننے والے ایسے سیکڑوں مسلمان ہیں، جو محض مسلمان ہونے کی وجہ سے سزائیں کاٹ رہے ہیں۔ اس طرح کی سیکڑوں مثالیں موجود ہیں، جس سے میڈیا کا سیاہ کردار سامنے آتا ہے۔
حال آں کہ دیکھا جاے تو میڈیا کا کام حقائق کا انکشاف کرنا، سچی خبریں دکھانا اور عوام کی آواز بننا ہے. لیکن میڈیا نے یہ سب کاموں اور ذمہ داریوں سے سرموے انحراف کیا ہوا ہے اور حکومت کی گودی میں جا بیٹھی ہے۔ میڈیا کو جمہوریت کا چوتھا ستون ہونے کا ایک اہم درجہ اور اعزاز بھی حاصل ہے۔ اسے دنیا کی سب سے بڑی طاقت کے طور پر بھی دیکھا جاتا ہے۔
لیکن آج جمہوریت کا چوتھا ستون چاروں شانے چت ہوچکا ہے ۔ وہ اپنی اہمیت و وقعت گنوا بیٹھا ہے۔ لوگوں کا میڈیا کے اوپر سے وثوق و اعتماد اٹھ چکا ہے۔
آج کا میڈیا لوگوں کے لیے کورونا وائرس سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہورہاہے۔ اگر اسے میڈیا وائرس کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔اسی طرح این ڈی ٹی وی کے بے باک صحافی رویش کمار کی زبان میں گودی میڈیا بھی کہا جاسکتا ہے۔
جب ملک کی میڈیا بکاؤ اور ضمیر فروش ہوچکی ہو اورخاص طور سے مسلمان اس کی ناانصافیوں اور زیادتیوں کا شکار ہوں تو ایسے میڈیائی ہتھکنڈے کے دور میں رہبران و دانشورانِ قوم و ملت کی مزید ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں کہ وہ ایسے ہوش ربا حالات میں کشتیِ امت کو منجھدار سے بچار کر کسی طرح ساحل تک نکال لائیں اور انہیں حالات کے خطرات سے آگاہ کریں۔
حالات کی سنگینی اور بے چینی کو دیکھتے ہوے ہم یہاں چند معروضات پیش کررہے ہیں۔امیدِ واثق ہے کہ ان پر غورو خوض کیا جاے گا اور عملی جامہ پہنانے کی سعیِ بلیغ کی جاے گی۔
۔1-ایسے ناگفتہ بہ حالات میں ہمیں تبلیغی جماعت سے لاکھ اصولی اور نظریاتی اختلافات ہونے کے باوجود سمجھ داری اور ہوش مندی سے کام لیتے ہوے میڈیا کی سازشوں سے بچیں۔
۔2-سوشل میڈیا پر غلط بیانات اور تحریریں وائرل کرنے سے مکمل طور پر گریز کریں اور طاغوتی طاقتوں کے سامنے اپنی کمزوریوں کو ظاہر نہ کریں، بلکہ یہ وقت ہے کہ ہم ملکی، ملی اور سماجی مفادات کی خاطر بنامِ مسلمان اتحاد و یک جہتی کا مظاہرہ کریں اور فسطائی طاقتوں کو ناکام بنائیں۔
۔3- ہمارے علما و مقررین احتیاطی انداز میں تقاریر کریں، جذبات سے مغلوب ہوکر کوئی ایسی بات نہ کریں جوملک مخالف یا کسی کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے والی ہوں۔
خیال رہے کہ انڈیا ٹی وی پر ہمارے علما و مقررین کے خلاف ایک طرح کی منصوبہ بند مہم چلائی جارہی ہے، جس میں ان کی تقاریر کو قطع و برید کرکے پیش کیا جارہاہے اور مسلم عوام کو علما سے متنفر اور برادرانِ وطن کو مشتعل کیاجارہا ہے۔ لہذا ایسے ناگزیرحالات میں اور بھی زیادہ ضروری ہوجاتا ہے کہ بہت زیادہ محتاط رہیں اور اپنی بات سلیقے سے رکھیں۔
۔4- مسلم نوجوان طبقے کو چاہیے کہ حالات کی سنگینی کو سمجھتے ہوے کوئی ایسا کام نہ کریں، جو میڈیا والوں کو شہہ فراہم کرے اور پھر پوری قوم کٹہرے میں کھڑی ہو۔
۔5-ساتھ ہی ساتھ مسلم بحث کاروں کا بھی کلی طور پر بائکاٹ کریں، جو میڈیا ہاؤسیز میں جاکر اسلام اور مسلمانوں کی جگ ہنسائی کا سبب بنتے ہیں۔
۔6-اب مسلم تنظیموں اور اداروں کو حالات سے سبق سیکھ کر جگہ جگہ ایسے تعلیمی، تحقیقی اور صحافتی ادارے قائم کرنا چاہیے جہاں ایسے افراد تیار کیے جائیں، جو نیشنل اور انٹرنیشنل میڈیا میں جاکر قوم کی بے باک ترجمانی اور نمائندگی کرسکیں۔
۔7-قوم کے ان مخیر حضرات کو اس جانب اپنی عنانِ توجہ منعطف کرنے کی ضرورت ہے، جو اعراس، اجتماعات اور فضول کی تقریبات پر پانی کی طرح پیسہ بہاتے ہیں۔
۔8-اہلِ مدارس کو بھی اس پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ وہاں بھی ایسے شعبے قائم کیے جائیں، جہاں طلبا دینی میدانوں کے ساتھ ساتھ عصری میدانوں کے بھی شہسوار بن کر ابھریں۔
۔9- اسی طرح قوم کے پڑھے لکھے اور صحافت و میڈیا سے جڑے افراد کو بھی چاہیے کہ وہ عالمی سطح پر اپنی باتیں پہنچانے کے
لیے نیوز پورٹل اور یوٹیوب چینل بنائیں اور پوری مستعدی و تیاری اور نہایت ہی بے باکی کے ساتھ قوم و ملت کے مسائل و معاملات کو پوری دنیا کے سامنے رکھیں۔
۔10-ایسے ہی اب وقت آگیا ہے کہ جتنی بھی دینی، ملی، سماجی اور فلاحی تنظیمیں ہیں، وہ سب اپنے مشترکہ تعاون سے ایک میڈیا
ہاؤس کا قیام عمل میں لائیں اور ایسے ضمیر فروش میڈیائی دور میں قومِ مسلم کی صحیح سمت رہ نمائی کا فریضہ سر انجام دیں اور پوری دنیا کو حقائق و معلومات سے آگاہی بخشیں۔
یقیناً اس سے ہمارے سماج اور معاشرے پر بھی مثبت اور خوش آئند اثرات و نقوش مرتب ہوں گے اور مستقبل قریب میں ہمارے پاس اس فیلڈ کے ماہر اور بے باک صحافی پیدا ہوں گے، جو یہودیوں اور بھگوا داریوں کےمقابلے سدِ سکندری ثبت ہوں گے
تحریر محسن رضا ضیائی
پونہ مہارا شٹر
رابطہ 9921934812
محترم جناب محسن رضا ضیائی کا دوسرا خوبصورت مضمون موجودہ ملکی حالات اور ہماری ذمہ داریاں