کرونا جب تک ملک ہدنوستان سے باہر تھا تو ایک بیماری تھی لیکن جب ملک عزیز میں آیا تو ہندو مسلم ہوگیا لیجئے یہ مضمون پڑھیئے اور اپنی معلومات میں اضافہ کریں تبلیغی جماعت کورونا اور میڈیا
تبلیغی جماعت کورونا اور میڈیا
ذرائع کے مطابق چین کے ” ووہان” شہر سے پیدا ہونے والا کورونا وائرس تقریبا پوری دنیا کو اپنی چپیٹ میں لے چکا ہے، اور اس وقت وہ ممالک بھی کورونا کی مار سے دوچار ہیں ۔
جنہیں اپنی ترقی پر نشہ وگھمنڈ تھا ؛ اور پوری دنیا جنہیں اپنے قدموں میں نظر آتی تھی، جیسے ہی کورونا وائرس چین سے نکل کر دوسرے ممالک پہنچا ، ویسے ہی وہاں کی حکومتوں نے دفاعی انتظامات میں دن رات ایک کر دیے۔
پوری دنیا میں دوائی تیار کرنے کے معاملے میں دوسرے نمبر پر آنے والا ملک،” اٹلی”کورونا کی مار برداشت نہیں کر پایا ، اور اپنے کئی ہزار شہریوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے تڑپ تڑپ کر جان دیتے ہوئے دیکھ کر اپنی بے بسی پر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا ۔
اس کے علاوہ اور بھی کئی بڑے اور سپر پاور ممالک اس وائرس سے گھبرا گئے، اور ان کے تمام دفاعی انتظامات دھرے کے دھرے رہ گئے؛ کرونا ہے کیا؟ کہاں سے آیا؟ کیوں آیا؟۔
ان سب سوالات کے دانشوران نے متفرق جوابات دیے ہیں ، اور اپنے اپنے ملک کی عوام کو مطمئین کرنا چاہا، لیکن اس کورونا نامی بھوت کا ڈر لوگوں کے دلوں میں اس قدر گھس چکا تھا کہ ان کے لئے ہر طرح کی تسلی ناکام ثابت ہوئی ۔
کورونا کی طرح میڈیا وائرس سے بھی بچیں
اس معاملے کو لے کر ہراہل علم نے اپنی رائے رکھی کسی نے اسے یہودی، تو کس نے اسے چینی سازش کا نتیجہ بتایا؛ تو کسی نے اس جرم کا گھاتک مجرم امریکہ کو بتایا، صرف اسی پر اکتفا نہیں ہوا بلکہ کسی نے اس کو امریکہ کی چین کے خلاف سرد جنگ بتا کر تاریخ کا ایک اور دور یاد کرا دیا
تو کسی نے اس کو مکمل عذاب الہی بتایا ، کچھ اہل فہم نے تو فورا اس کا علاج بھی بتا دیا؛ اپنے اپنے مذہب اور اعتقادات کے مطابق کسی نے تو اس کا علاج قرآن مقدس اور احادیث مصطفوی میں تلاش کر لیا
تو کسی نے اس کا رام باڑ علاج گائے کے پیشاب اور اس کے گوبر میں ڈھونڈھ نکالا ، توکوئ یہ کہتا ہوا نظر آیا کہ کرو نا کا علاج صرف ہمارا مسیحا ہی کرسکتا ہے۔
غرض یہ کہ اس بیماری یا اس وائرس کو ہر اہل خرد نے اپنے اپنے زاویہ نگاہ سے دیکھا اور دنیا کو اس سے بچنے کا نسخہ بتایا
قطع نظر اس تحقیق کے کہ یہ واقعی کوئ وائرس ہے، یا اتنا ہی مہلک وائرس ہے ،جتنا کے عالمی میڈیااور ملکی میڈیا اس کو بنا کر کےپیش کر رہا ہے، ہر کسی نے اس کا علاج و نسخہ دنیا کے سامنے پیش کردیا ۔
اب ظاہر سی بات ہے کہ کرو نا پوری دنیا کی سیر و تفریح کرے اور ہمارے پیارے ملک بھارت میں نہ آئے یہ کیسے ممکن ہے، لہذا کرونا چھونے کے راستے ہمارے ملک میں بھی داخل ہوگیا۔
بس پھر کیا تھا کرو نا کے داخلے کے بعد ہمارے ملک میں بھی ایک عجیب سا ماحول بن گیا، اور ماحول بھی اتنا خطرناک کے آدمی ذرا سی چھینک اور کھانسی سے تھر تھر کانپنے لگا۔
اگر میں بات کرو اس مرض کی ضرر و نقصان کے بارے میں تو میں اسے اول وقت سے ایک عام طرح کا وائرس مان رہا ہوں، اور اس بات کا قائل میں تنہا نہیں ہوں، بلکہ کئی اہل خرد بھی اس بات کے مدعی ہیں۔
جیسے ڈاکٹر بشوروپ چودھری، برازیل کے پریسیڈنٹ “جیئر بولسونارو” میکسکو کے,” اینڈریس” نکارگئو کے پریسیڈینٹ، “جوس ڈینل ” نے کرونا وائرس کے خطرناک ہونے کا انکار کیا ہے، اور ساتھ ہی اسے میڈیا کا دھوکا قرار دیا ہے اور پھر اس کی خطرناکی کو آپ اس بات سے بھی سمجھ سکتے ہیں ، کہ کرونا سے مرنے والوں کی تعداد عام امراض سے مرنے والوں کے مقابلے میں کہیں کم ہے ۔
میں اگر اب تک کی بات کروں تو بھارت میں مرنے والوں کی تعداد پچاس کے قریب ہے اور تقریبا دو ہزار لوگ اس سے متاثر ہیں؛ جبکہ عام امراض جیسے ہارٹ اٹیک، کڈنی پرابلم، کینسر ،اور اس کے علاوہ امراض سے مرنے والوں کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔
بہرحال اب یہ تو ہمارے ملک کی حکومت اور اس کی زیر سایہ پروان چڑھتی میڈیا کا کارنامہ ہے ، کہ اس نے ایک عام وائرس کو ایٹم بم سے زیادہ خطرناک ثابت کردیا ۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ جس طرح اس وائرس کو خطرناک ثابت کیا گیا ، تو کیا اسی طرح ہماری حکومت نے اس سے چھٹکارہ حاصل کرنے کے لیے کوئی دوائی تیار کی ہے ؟ ۔
سوچنے والی بات یہ ہے کہ جب دنیا میں دوسرے نمبر پر دوائی تیار کرنے والا “اٹلی” اس کی تین چار ماہ میں دوائی تیار نہ کر سکا ، تو ہماری ایجنسیاں جو دوائی تیاری کے معاملے میں ایک سو دو نمبر پر آتی ہیں وہ اس کی دوائی تین چار ماہ میں کیسے تیار کر سکتی تھیں؟۔
قربان جاؤں اپنے ملک کے نہایت قابل اور زیرک پردھان منتری مودی جی پر کے انہوں نے اس سے لڑنے کے لیے پہلے تو جنتا کرفیو لگایا، اور پھر فوراً اکیس دن کے لاک ڈاون کا اعلان کردیا، اور سختی سے یہ حکم نامہ جاری کردیا کہ جو جہاں ہیں وہیں رہیں۔
اب ظاہر سی بات ہے کہ پردھان منتری جی کے حکم نامے کی خلاف ورزی کون کرسکتا تھا لہذا جو جہاں تھا وہیں کا وہیں رک گیا، اس کے فورا بعد ہمارے قابل عزت پردھان منتری نے دوسر حکم نامہ بشکل نسخہ نایاب یہ دیا کہ تمام بھارتی اپنے اپنے گھروں میں تالی اور تھالی بجائیں، اور ان دو طاقتوں سے کرونا کو سرحدوں پر نکال دیں۔
لیکن افسوس اس وقت یہ نسخہ بھی کچھ موثر ثابت نہیں ہوا ، اب لاک ڈاؤن میں جو لوگ جہاں تھے وہ وہیں کے وہیں ٹھہر گئے تھے، کچھ لوگ ایسے تھے جن کے پاس اکیس دن کا
سامان خوردونوش تھا۔
لیکن اکثر لوگ ایسے بھی تھے کہ جو دن میں صبح سے شام تک محنت و مزدوری کر کے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھرتے تھے، اس اچانک لاک ڈاون سے وہ دو تین دن تک تو بھوکے پیاسے لڑتے رہے، اس کے بعد وہ بھوک و پیاس سے جنگ ہار گئے، اور اپنی جانوں سے ہاتھ دھونے لگے ؛ اور بھوک کی وجہ سے مرنے والوں کی تعداد تیزی سے بڑھنے لگی۔
ایسے وقت میں ہمارے ملک کی حکومت دو دھاری تلوار پر چلنے کے مثل ہو گئ ، اگر مزدوروں کو ایسے ہی بھوکا رکھتی تو بھوک سے مر جاتے، اور اگر پھنسے ہوئے لوگوں کو ان کے گھر واپس جانے کی اجازت دیتی، تو حکومت کا لاگو کیا ہوا لاک ڈاؤن ختم ہو رہا تھا اور لاک ڈاؤن کا ختم ہونا مطلب کرونا کا پورے ملک میں پھیلنا۔
حکومت خود تو اپنے قانون کی خلاف ورزی نہیں کرسکتی، لہذا یہ افواہ مشہور کرائی کہ جو لوگ جہاں کہیں پھنسے ہوئے ہیں وہ اپنے اپنے گھروں کو واپس چلے جائیں، یہ افواہی اعلان سننے کے بعد لوگ اپنے اپنے گھروں کے لیے نکل پڑے۔
خود ملک کی راجدھانی دہلی میں ایک جن سیلاب آ گیا، جو دہلی سے اپنے آبائی وطنوں کو لوٹنا چاہتا تھا، بس اڈوں پر آکر انہیں صرف مایوسی ہی ہاتھ لگی کیونکہ یہاں ان کو ان کے گھروں تک پہنچانے کے لیے کوئی انتظام نہیں کیا گیا تھا ۔
اب وہاں سے کچھ لوگوں نے مجبورا پیدل ہی سفر شروع کر دیا، کسی کو” سو “کلو میٹر دور جانا تھا تو کسی کو” دو سو “پانچ سو” کلومیٹر کا سفر طے کرنا تھا, غرض یہ کے اس پیدل سفر کی وجہ سے آگرہ کے ایک غیر مسلم کی گھر پہنچتے پہنچتے راستے میں ہارٹ اٹیک سے موت ہو گئ
تو وہیں بہار پہنچنے والے ایک شخص کو تیز رفتار ماروتی نے کچل دیا اور اس کی بیوی روڈ پر چیختی چلاتی رہی لیکن اب رونے سے کیا ہوتا، جو ہونے کا تھا وہ تو ہو چکا تھا۔
اتنا ضرور ہے کہ اگر ہمارے نہایت عقلمند وزیرک پردھان منتری اچانک لاک ڈاون نہ کرتے بلکہ چار پانچ دن یا ایک ہفتے کا وقت دیتے تو ممکن تھا ہمارے ملک کے غریب اور مزدور اس طرح بھوک و سفر کی صعوبتوں سے نہ مرتے ، بلکہ وہ اس دیے ہوئے وقت میں 21 دن تک کا انتظام کر لیتے اور اس طرح ان کی زندگی ضائع نہیں ہوتی۔
لیکن یہ غریب مزدور تو صرف ووٹ لینے کے لیے ہیں باقی ان کی حقیقت ایسی کہاں کہ انہیں انسانوں والے حقوق حاصل ہو
سوچنے کی بات یہ ہے کہ مودی جی کےلاگو کیے ہوئے لاک ڈاون کا سب سے زیادہ پالن کرنے والے یہی غریب مزدور ہیں، باقی یوگی جی تو لاک ڈاون میں بھی ایودھیا میں شیلا نیاس کے لیے اپنے عزیز و اقرباء کے ساتھ پہنچ گئے تھے۔
اور صرف یہی نہیں بلکہ شیوراج سنگھ چوہان جی ایم پی کے منتری پد کی شپت لینے کے لئے کئ سو لوگوں کی موجودگی میں چلے جاتے ہیں، اور اس کے ساتھ بی بی جے پی ورکر ماسک لگا کر پارٹی کرتے نظر آتے ہیں؛ یہ ایک الگ بات ہے کہ ان صاحبان اقتدار کے خلاف کوئی زبان نہیں کھول سکتا اور کمزور طبقہ کے آدمی کو فورا قانون کی خلاف ورزی کرنے والا مجرم قرار دے دیا جاتا ہے۔
کورونا کی روک تھام، اور اس کی وجہ سے ملک کو ایکس دن کا لاک ڈاؤن کرنے کے ساتھ ساتھ تصویر کا ایک دوسرا رخ بھی ہے، اور وہ یہ کہ جب سے زمام اقتدار بی جے پی کے ہاتھوں میں گئی ہے، تب سے ملک عزیز بھارت میں مسلمانوں کے خلاف کے خلاف سازشوں کا دشمنی کا ایک بدترین دور شروع ہوا۔
سرعام مسلمانوں کو قتل کیا گیا، ہر برائی کو گھما پھرا کر مسلمانوں کے سروں پہ تھوپا گیا کہیں مسلمانوں کو طلاق کے نام پر بد نام کیا گیا تو کہیں حلالہ، اور نکاح کے نام پر طعنہ زنی کی گئی ، کہیں مسلمان کو داڑھی ٹوپی اور گائے کے نام پر مارا گیا، تو کہیں جہاد کے نام پر مسلمان کے خون کو بہایا، گیا
لیکن بے غیرتی اور بدتمیزی کی حد تو اس وقت ہوگئ جب مسلمانوں کو کورونا کے نام پر بھی ملک کا غدار ثابت کرنے کی سعی کی گئی ، اور مسلسل کی جارہی ہے؛
جس کی تازہ مثال ہمارے سامنے مسلمانوں کی ایک نمائندہ تنظیم تبلیغی جماعت ہے، گذشتہ کئ روز سے مسلسل تمام چینلز کی صرف ایک ہی سرخی ہے ” تبلیغی جماعت” تبلیغی جماعت”۔
کسی نے کہا کہ تبلیغی جماعت آئ کورونا ساتھ لائ، کسی نے کہا تبلیغی جماعت کے پاس کرو نا بم ہے، تو کسی نے اتنی نفرت کا اظہار کیا کہ اسے مسلمانوں کا کرونا جہاد بتادیا ۔
بزرگوں نے درست ہی فرمایا “بےحیا جو چاہے وہ کرے ” جبکہ میڈیا کا کام ہے عوام تک سچ پہنچانا ، لیکن یہاں تو کچھ اور ہی کھیل کھیلا جارہا ہے۔
جبکہ سچ یہ ہے کہ جس دن لاک ڈاون ہوا تھا اسی وقت سے سے تبلیغی جماعت کے منتظمین نے کیندر سرکار، دہلی سرکار ، اور نظام الدین، پولیس تھانے کے ایس ، ایچ، او ، کو الگ الگ درخواست دے کر اپنی پریشانی سے آگاہ کیا تھا اور فورا بروقت مدد مانگی تھی۔
اور یہ بھی بتایا تھا کہ مرکز نظام الدین میں اس وقت بارہ سو کے قریب تبلیغی جماعت کے لوگ موجود ہیں، لیکن افسوس نہ کیندر سرکار نے اور نہ عام حکومت نے اور نہ ہی پولیس نے اس معاملے کو چستی کے ساتھ لیا ۔
بلکہ بالکل گونگے بہرے بنے رہے اور دو چار دن کے بعد مرکز میں موجود لوگوں کو کرو نہ کا مریض بتا دیا اور پھر شروع ہوئ گندی سیاست ، یہ بات انتہا ئی حیرت ناک ہے کہ چین میں پیدا ہونے والا کرونا وائرس پوری دنیا میں سیروتفریح کے بعد جب بھارت پہنچا تو موقع ملتے ہی وہ مسلمان بھی ہوگیا۔
اور اس کی آڑ پکڑ کر ہمارے ملک کے میڈیا نے ملک میں رہنے والے باعزت مسلمانوں کو دل بھر کے بد نام کیا، گویا ملکی میڈیا نےیہ ثابت کرنے کی پوری پوری کوشش کی کہ جیسے بھارت میں کورونا وائرس مسلمانوں کی وجہ سے پیدا ہوا ہے، یا چین سے مسلمان اس وائرس کو لے کر آئے ہیں۔
بہرحال وقت کے تقاضوں کے مدنظر میں تمام تر اختلافات کے باوجود تبلیغی جماعت کے ساتھ کھڑا ہوں ، اور بنام مسلمان تمام مکاتب فکر کے لوگوں سے التماس کرتا ہوں کہ وہ بھی تبلیغی جماعت کے ساتھ ہورہی نا انصافی کے خلاف آواز بلند کریں تاکہ مستقبل میں آپ یا آپ کی جماعت تختہ دارتک جانے سے بچ جائے ۔
اللہ تعالی سے دعا کرتا ہوں کہ پروردگار ہمارے ملک کے مسلمانوں کی حفاظت فرمائے آمین آمین آمین
ایم ایم رہبر۔۔۔
قصبہ چمروہ ضلع رامپور یوپی
رابطہ
تم جیسا چاہتے تھے ویسا ہی ہو رہا ہے
دیوبندیوں اور وہابیوں کے چالیس کفریہو گمراہ کن عقائد ونظریات