تحریر محمد قمر انجم قادری فیضی رحمتوں برکتوں اور گناہوں کو جلا دینے والا مہینہ رمضان المبارک کی آمد ہونے والی ہے لیکن اس کورونا نے تباہ مچا رکھا ہے اس مضمون کو پڑھیں کورونا بحران اورآمد رمضان المبارک
کورونا بحران اور آمد رمضان المبارک
ایسے وقت میں جب پوری دنیا کوروناوائرس کی لپیٹ میں آ چکی ہے اور ایک لاکھ سےزائد افراد اس وائرس سے ہلاک ہو چکے ہیں، کسی شخص میں وائرس کی تشخیص ہوناکسی ڈراونےخواب سےکم نہیں
اورشایداس بارایساہورہاہےکہ رمضان المبارک کوروناوائرس اور لاک ڈاؤن کےوقت پڑرہاہے۔
یہ بدلتےہوئےحالات کےتیورہیں،ویسےاس بارکا رمضان المبارک عالم اسلام کے مسلمانوں کے لئےمزید آزمائش بھراہوگا،
رحمتوں برکتوں،رفعتوں،بخششوں وپاکیزہ متبرک اورمقدس مہینےکا آغاز ہونے والا ہے یہ ماہ بڑی برکتوں، اور رحمتوں والامہینہ ہے، روزےکابینادی مقصد تقوی کاحصول کرناہے تقوی کےحصول کےلئےصرف کھانےپینےسےپرہیزکرناکافی نہیں ہے بلکہ ہرقسم کےگناہوں سے بچنےکی شعوری کوشش بھی مطلوب ہے۔
روزہ رکھ کر ہم اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ چیزوں سےبھی اللہ تعالیٰ کےحکم کےمطابق پرہیزکرتےہیں، توجوکام پہلے بھی ممنوع ہیں ان سےاجتناب کرنا زیادہ انسب وضروری ہے، تاکہ مومن ان سے پرہیزکرنےکاعادی ہوجائے، روزہ ایسی عبادت ہےجو انسان کےنورانی روحانی جسمانی اورعرفانی فائدےکےلئے مقررکی گئی ہے ۔
یہ اللہ تعالیٰ کی ایسی رحمت ہے جسکوحاصل کرنے کے بعد اللہ تعالی آخرت میں بھی عظیم انعام واکرام سے نواز تا ہے ۔آج کے اس دورکشاکش اور نفسی نفسی کےعالم میں انسانیت، اخلاص، اتحاد ایک دوسرےسےبحث کرنےکاجذبہ، سب حالات کےگرداب میں نظر آتےہیں، عصرحاضر کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے انسان محض ایک مشین بن کر رہ گیاہے اور ایک بیمارروح کےساتھ زندگی گزارنے پرمجبور ومقہورہے جس میں سکون قلب، نہ قناعت دل، انسان محض حرص وہوس کا غلام بن کررہ گیاہے جس کانتیجہ یہ ہے کہ ہر انسان کی روح کسی نہ کسی طورپر معصیت اور گناہ کی آلائش سے آلودہ ہے ایسے خطرناک اور پُرفتن دورمیں اسلام ہی ایک ایسا ذریعہ ہے جوانسان کو انسان رکھنےمیں اہم رول ادا کرتاہے ،جس سے انسان کےقلوب واذہان کو سکون میسرہوتی ہے۔
حضرت سلمان فارسی رضی المولی تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نےشعبان کےآخری دن ہمارےسامنےخطبہ فرمایا، کہ اے لوگو ایک بہت بڑےمہینہ تم پرسایہ ڈالنےوالاہےجو بڑا بابرکت اور عظمت ورفعت والا مہینہ ہے۔
اس میں ایک ایسی رات ہے جوہزار مہینے کی راتوں سے بھی افضل وبہترہے، خداوندقدوس نے اس مہینےکےروزے فرض قراردئےہیں، اور اس رات کی عبادت کی عظمت ورفعت بہت عظیم الشان ہے جو شخص اس مہینے میں اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور اسکی رضاحاصل کرنے کے لئے نفل عبادت کرےتواسکاثواب اتناہی ہوتاہے جتنارمضان المبارک کےمہینےکےسوادوسرے مہینوں میں فرض کا ہے، اورجوشخص اس مبارک ومسعودمہینےمیں فرض ادا کرے گا تو اسکاثواب اتناہےجتنارمضان المبارک کےسوادوسرے مہینوں میں ستر70فرض اداکرنےکاملتاہے،
یہ مہینہ صبرکاہے، اورصبر کاثواب جنت ہے. یہ مہینہ غمخواری کرنےکاہےیہ ایسا مہینہ ہے جس میں مومن کارزق کشادہ کر دیا جاتا ہے جوشخص اس مہینے میں کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرائےتووہ اسکےلئے گناہوں کےبخشش مغفرت کا سبب ہوتاہے اور دوزخ کی آگ سےنجات کاذریعہ اور روزہ دار کےثواب کےبرابراس کابھی ثواب ملتاہےاور اس سے روزہ دارکےثواب میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی ہے۔
صحابہءِ کرام نے حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کیا، یارسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ہم سب کے پاس اتنا سامان نہیں ہے کہ ہم اس سے روزہ داروں کو افطارکرائیں، آپ نے فرمایا کہ یہ ثواب اللہ تعالیٰ اس شخص کو بھی عطافرماتاہے جوپانی کا ایک گھونٹ، یا کھجورسےکسی کاروزہ افطار کرائے۔
اور جوشخص روزہ دار کوپیٹ بھرکرکھاناکھلائےتو اس کو اللہ تعالیٰ میرے حوض کوثر سےایساسیراب فرمائےگا، کہ پھرکبھی اسکو پیاس نہ لگےگی، یہاں تک کہ وہ جنت میں جائےگا اس مہینہ کی ابتداء میں رحمت ہے اور درمیان میں مغفرت اور آخرمیں دوزخ سے نجات،
رمضان المبارک کا وہ مبارک ومسعودنیز مقدس ومتبرک مہینہ آنےوالاہے وہ مہینہ جسےاللہ تبارک وتعالیٰ اور رسول خدا صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم پر ایمان رکھنےوالےنیک بندےاللہ تعالی کی عبادت و اظہار اطاعت کےلئےوقف رکھتےہیں جس میں تیس دن رزےرکھےجاتےہیں جس میں بقیہ گیارہ مہینوں سےبھی کہیں زیادہ برائیوں اور معصیتوں سےبچنےاور نیک کام کرنے کا زیادہ سےزیادہ اہتمام کیاجاتاہے۔
جس میں حاجت مندوں ،غریبوں فقیروں بےسہاروں، لاچاروں مجبوروں کی مددکرنااور ناداروں کی اعانت کرنےکاجذبہ اپنےعروج پر ہوتاہے جس میں پوری فضائے کائنات پر تقدیس اور پاکیزگی کی روح پروراور فرحت وانبساط انگیزکیفیت چھائی رہتی ہے، آخراس مہینےکو اتنی فضیلت وعظمت، بلندمرتبہ اور غیرمعمولی رفعت کیوں حاصل ہے؟؟۔
حق تعالی ہمارےدلوں کےحالات کو جاننےوالاہے وہ سمیع وبصیرہےعالم الغیب والشھادہ ہے ، خدائے تعالیٰ کو معلوم تھاکہ رمضان کی فضیلت،اہمیت برکت، رفعت، اور اہمیت کےمتعلق میرے بندوں کےقلوب واذہان میں یہ سوال ضرور پیدا ہو گا، اسلئے اپنی شان ربوبیت و شان الوہیت کے مظاہرےنیز اپنی کریمی رحیمی کےدرمیان اس سوال کاجواب عنایت فرمادیاکہ۔
ائے میرے بندو! ہم اس ماہ رمضان المبارک کو یہ خصوصیات اور فضیلت وعظمت اس لئے عطاکئے، کیونکہ یہی وہ مبارک اور مقدس مہینہ ہےجس میں میں نے اپنی حاکمیت اور ربوبیت کا سب سے بڑا انعام اپنے بندوں کو عطا کیا اور اسکی ہدایت ورہنمائی کےلئے پاک دستوراور ضابطہء حیات سےنوازاجس کا نام قرآن ہے۔
کھائی والوں کا واقعہ ہمارے لیے درس عبرت
دنیا کی راحتیں اور جنت کی ابدی نعمتیں کس کے لئے ہیں؟؟ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ حضرت عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے درِ رحمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے دیکھا کہ سلطانِ کونین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ایک بوریئے پر آرام فرما رہے ہیں ، سرِ اقدس کے نیچے چمڑے کا تکیہ ہے جس میں ناریل کے ریشے بھرے ہوئے ہیں اور جسم مبارک پر بوریئے کے نشانات نقش ہو گئے ہیں۔ یہ حال دیکھ کر سیدنا فاروق اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ رو پڑے۔
سرورِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے رونے کا سبب دریافت کیا تو عرض کیا کہ’’ یا رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، قیصر و کسریٰ تو عیش وآرام میں ہوں اور آپ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے رسول ہو کر اس حالت میں۔ نبی رحمت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ۔
اے عمر! رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ، کیا تمہیں پسند نہیں کہ ان کے لئے دنیا ہو اور ہمارے لئے آخرت ۔حضرت جابر بن عبداللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ایک دن سرکارِ عالی وقار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ حضرت فاطمۃُ الزہراء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کے گھر تشریف لے گئے، آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا اونٹ کے بالوں سے بنا موٹا لباس پہنے چکی میں آٹا پیس رہی تھیں ،
جب نَبِیُّوں کے سلطان صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ان پر نظر پڑی تو آنکھوں سے سَیلِ اشک رواں ہو گیا ، رحمت عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’دنیا کی تنگی و سختی کا گھونٹ پی لو تاکہ جنت کی ابدی نعمتیں حاصل ہوں۔
حضرت ثابت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ایک مرتبہ پانی طلب فرمایا تو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو شہد کا پیالہ پیش کیا گیا،آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اس پیالے کو اپنے ہاتھ پر رکھ کر فرمایا ’’اگر میں اسے پی لوں تو اس کی مٹھاس چلی جائے گی لیکن اس کا حساب میرے ذمےباقی رہے گا۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے تین مرتبہ یہ بات ارشاد فرمائی، پھر وہ پیالہ ایک شخص کو دے دیا اور اس نے وہ شہد پی لیا۔ حضرت ابن ابی ملیکہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ُ فرماتے ہیں۔
۔ ’’حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اپنے سامنے کھانا رکھا ہوا تھا ، اس دوران ایک غلام نے آکر عرض کی : حضرت عتبہ بن ابی فرقد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ دروازے پر کھڑے ہیں۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے انہیں اندرآنے کی اجازت دی۔جب حضرت عتبہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ آئے تو حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اس کھانے میں سے کچھ انہیں دیا۔
حضرت عتبہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اسے کھایا تو وہ ایسا بد مزہ تھا کہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اسے نگل نہ سکے۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی : اے امیر المؤمنین! رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہُُ ، کیا آپ کو حواری نامی کھانے میں رغبت ہے تاکہ آپ کی بارگاہ میں وہ کھاناپیش کیا جائے حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا ’’کیا وہ کھانا ہر مسلمان کو مُیَسَّر ہے ؟۔
حضرت عتبہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی: خدا کی قسم! نہیں۔ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا ’’اے عتبہ ! تم پر افسوس ہے ، کیا تم یہ چاہتے ہو کہ میں دُنیَوی زندگی میں مزیدار کھانا کھاؤں اور آسودگی کے ساتھ زندگی گزاروں۔حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا ’’ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے میں نے اپنے نیک بندوں کے لئے وہ نعمتیں تیار کر رکھی ہیں کہ جنہیں نہ کسی آنکھ نے دیکھا ،نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی آدمی کے دل پر ان کا خطرہ گزرا۔
حضرت سہل بن سعد ساعدی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پُر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جنت کی اتنی جگہ جس میں کَوڑا رکھ سکیں دنیا اور جو کچھ اس میں ہے سب سے بہتر ہے لَایَغُرَّنَّكَ :تجھے ہرگز دھوکہ نہ دے۔
شانِ نزول:مسلمانوں کی ایک جماعت نے کہا کہ کفار ومشرکین اللہ عَزَّوَجَلَّ کے دشمن ہیں لیکن یہ تو عیش و آرام میں ہیں اور ہم تنگی او رمشقت میں مبتلا ہیں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔
اور انہیں بتایا گیا کفار کا یہ عیش و آرام دنیوی زندگی کا تھوڑا سا سامان ہے جبکہ ان کا انجام بہت برا ہے۔ ے بھائی آپ دس منٹ دھوپ میں کھڑے ہوجائیں ، اس کے بعداُسے ہمیشہ کیلئے ائیر کنڈیشنڈ بنگلہ دیدیا جائے اور دوسرے شخص کو دس منٹ سائے دار درخت کے نیچے بٹھا نے کے بعد ہمیشہ کیلئے تپتے ہوئے صحرا میں رکھا جائے تو دونوں میں فائدے میں کون رہا؟ یقینا پہلے والا ۔ مسلمان کی حالت پہلے شخص کی طرح بلکہ اس سے بھی بہتر ہے اور کافروں کی حالت دوسرے شخص سے بھی بدتر ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اس ماہ مبارک کی عزت وتکریم کرنےکی توفیق بخشے، اور زیادہ سےزیادہ توبہ واستغفار اور نمازونفل اور صدقہ خیرات کرنے کی توفیق رفیق بخشے، آمین ثم آمین