تحریر :جاوید اختر بھارتی (سابق سکریٹری یوپی بنکر یونین)۔ غریب بنکر مزدور بھکمری کا شکار
غریب بنکر مزدور بھکمری کا شکار
آج بہت سے موضوعات پر مضامین لکھے جارہے ہیں، اخبارات میں شائع ہورہے ہیں، پڑھے جارہے ہیں لیکن یہ ایک ایسا مضمون ہے جو روزی روٹی سے متعلق ہے، ذریعہ معاش سے متعلق ہے۔
جس کا سیدھا تعلق پیٹ سے ہے، کنبے کی کفالت سے ہے، بوڑھے ماں باپ کی خدمت سے ہے، بچوں کی تعلیم و تربیت سے ہے اور آج سب کچھ خطرے میں ہے تو ناچیز نے ضرورت محسوس کی کہ حالات حاضرہ پر مبنی غریب محنت کش مزدور بنکروں احوال سے بھی زمانے کو روشناس کرایا جائے۔
یہ پوری طرح واضح رہے کہ بنکروں نے بھی اپنے حقوق کے لئے آواز بلند کرنا شروع کردیا تھا لیکن کرونا وائرس کی وجہ سے بنکروں نے بجلی مسائل پر مبنی تحریک کو جون تک ملتوی کردیا ہے لیکن موجودہ حالات میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے غریبوں اور محنت کش مزدور بنکروں کے سامنے بھوک کا مسئلہ پیدا ہورہا ہے۔
بھوک بیماری کا کوئی مذہب نہیں ہوتا
ہم مانتے ہیں کہ حکومت و انتظامیہ نے جہاں لاک ڈاؤن کیا ہے وہیں عوام کے لئے بہت ساری سہولیات کا انتظام بھی کیا ہے لیکن اس سہولیات کا فائدہ اصل حقداروں تک نہیں پہنچ رہا ہے اور بالخصوص بنکر مزدور تو پوری طرح حکومت کی سہولیات سے محروم ہے تو حکومت کو ایسا نظام قائم کرنا چاہئے کہ ہر طبقے کو ہر سہولیات فراہم ہوسکے۔
ملک اس وقت بڑے نازک مرحلے سے گزر رہا ہے کرونا جیسے جان لیوا وائرس نے پوری دنیا کو زد میں لے رکھا ہے اور کرونا وائرس سے جنگ لڑنے کے لیے ہمیں ذات اور مذہب سے اوپر اٹھ کر آپسی اتحاد و اتفاق قائم کرنا ہوگا، نفرت کا جواب محبت سے دینا ہوگا اور پوری طرح احتیاطی تدابیر پر عمل بھی کرنا ہوگا اور کسی بھی وبا سے بچنے کیلئے احتیاطی قدم اٹھانا اور اس پر عمل پیرا ہونا مذہب کا حصہ ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم لاک ڈاؤن کا پوری طرح احترام کریں، احتیاطی اقدامات پر عمل کریں اور صاف شفاف معاشرے کی تشکیل میں نمایاں کردار ادا کریں قطعی طور پر لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی نہیں ہونا چاہیے بلکہ گھروں میں عبادت کریں اور عالم انسانیت کیلئے دعا کریں لاک ڈاؤن کی وجہ سے یقیناً پریشانی ہے لیکن ایک پریشانی برداشت کرکے بڑی آفت و بلا سے نجات حاصل ہو سکتی ہے یعنی انفرادی تکلیف سے اجتماعی راحت مل سکتی ہے تو ہمارے اوپر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم موقع کی پریشانی و مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے صبر کریں
آج کے اس پر الم ماحول میں کچھ اللہ کے بندے ہیں جو اپنی وسعت کے مطابق غریبوں کی مدد کررہے ہیں اور اس کیلئے کچھ ضابطہ متعین کئے ہوئے ہیں اب دوسرے لوگوں کا بھی فریضہ ہے کہ اسی نظام کو تقویت پہنچائیں تاکہ غریبوں کی مدد کرنے میں اور آسانی ہو سکے۔
ہمیں نام و نمود سے کوسوں دور رہتے ہوئے سچے دل سے غریبوں کی مدد کیلئے ہمہ وقت تیار رہنا ہوگا تاکہ بھوک سے کسی شخص کی موت نہ ہونے پائے اور ہمیں تو دینی تعلیم دیگئی ہے کہ اپنا پیٹ بھرنے سے پہلے پڑوسیوں کے حالات کو دیکھو کہ اس کے گھر کے چولہے میں آگ جلی ہے کہ نہیں، اس کے بچے کھانا کھائے ہیں کہ نہیں بنکروں کے سامنےایکبار پھر شدید بحران پیدا ہو گیا ہے۔
آخر غریب مزدور بنکر کس سے اور کیسے مقابلہ کرے لاک ڈاؤن پر تو عمل کرہی رہا ہے کرونا وائرس کا کیسے مقابلہ کرے، پیٹ کی بھڑکتی ہوئی آگ کو کیسے بجھائے، اپنے کنبہ کی پرورش کیسے کرے پاور لوم کے ذریعے کپڑے کی صنعت ہی تو ایک ایسا روزگار ہے جو اپنے دم پر کھڑا ہے ایک ایک دو دو پاورلوم لگا کر لوگ اپنے بال بچوں کی تعلیم و تربیت، علاج، کھانا پینا، سب کچھ کرتے تھے۔
پاور لوم ایک ایسا درخت ہے جس میں سے بیشمار ساخیں نکلی ہوئی ہیں کوئی ڈیؤٹی کرکے، کوئی کانٹی بھرکے، کوئی تہی لگاکے، کوئی مہتاگیری کرکے، کوئی بوٹی کاٹ کرکے کوئی مقادمی کرکے اپنے خاندان کی کفالت کرتا ہے حکومت تو پہلے ہی سے غریب بنکروں کو کچھ بھی نہیں دے رہی تھی صرف اعلان کرتی تھی اور حکومت کے اعلان کے مطابق بنکروں کو ملنے والی سہولیات حکومت ہی بتا سکتی ہے۔
کہ کون سے بنکروں کو ملتی ہے غریب بنکروں کے سامنے پہلے ہی سے روزی روٹی کے لالے پڑے تھے اور حال میں کرونا وائرس اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے بنکروں کی کمر ہی ٹوٹ گئی تانے بانے والی اشیاء ختم ہوگئی پاور لوم کا چکہ جام ہونے لگا بلکہ یہ کہئیے کہ بلا تیاری کے لاک ڈاؤن کی وجہ سے پاورلوم کا چکہ جام ہوگیا اور مزدوروں کی سانسوں کے رکنے کا سلسلہ بھی کب شروع ہوجائے کچھ کہا نہیں جاسکتا ۔
آج بنکر طبقہ خون کے آنسو رو رہا ہے آخر زندہ رہنے کے لیے کونسا قدم اٹھائے چند دنوں میں رمضان ہے پھر تہوار ہے اور ابھی سے روزی روٹی کا ذریعہ ٹھپ ہے آج حکومت بہت ساری سہولیات کا اعلان کررہی ہے لیکن ایک بھی سہولت کہیں نظر نہیں آتی۔
آخر حکومت کیوں نہیں ایسا قدم اٹھاتی کہ سیدھے سیدھے بنکروں کو ہی فائدہ ملے آج کے اس بحرانی دور میں بنکر مزدور کس سے اپنی روداد غم بیان کرے کون سننے والا ہے بنکروں کی چوکھٹ پر کوئی نہیں آتا تسلی دینے کے لیے آج کے حالات ایسے ہیں کہ بنکروں کے سامنے اندھیرا ہی اندھیرا ہے دوسروں کا تن ڈھکنے والا بنکر آج اپنا تن ڈھکنے کا انتظام کرنے سے محروم ہونے کی صورت میں ہے ۔
ان بنکروں میں بھی دو طبقہ ہے ایک طبقہ پاور لوم پر ڈیوٹی کرکے اپنے گھر کا خرچ چلاتا ہے اور دوسرا طبقہ اپنے گھر میں دو چار پاورلوم لگاکر مزدوری کی شکل میں مٹیریل لاکر چلاتا ہے اور جو کپڑا تیار ہوتا ہے تو جہاں سے مٹیریل لیتا ہے وہیں دیتا ہے تو اس کو فی ساڑی کے اعتبار سے مزدوری ملتی ہے۔
اور آج اسی طبقے کی حالت سب سے زیادہ خراب ہے بلکہ بنکروں کا یہی دونوں طبقہ بھکمری کے دہانے پر کھڑا ہے بس سانس کی ڈوری ٹوٹنا باقی ہے اور اب تو یہی تشویش ہوتی ہے کہ کرونا وائرس کے بجائے کہیں لوگ بھوک سے نہ مرنے لگیں۔
فی الحال انکی خوشحالی کی کوئی صورت نظر نہیں آتی اور بنکروں کی بستی میں کوئی ذمہ دار شخص نہیں آتا نہ کوئی وزیر، نہ کوئی سکریٹری، نہ کوئی ڈائریکٹر، نہ کوئی آفیسر ہی وجہ ہے کہ آج ہر بنکر مزدور اپنی آنکھوں سے آنسو بہاتے ہوئے کہتا ہے کہ بنکروں کا پرسان حال کوئی نہیں۔
بنکروں کی آواز اٹھانے والا کوئی نہیں، بنکروں کی آواز میں آواز ملانے والا کوئی نہیں، بنکروں کو کبھی بجلی بحران کا سامنا، کبھی بجلی کی اضافی شرح کا سامنا، کبھی پاسبک رد ہونے کے نتیجے میں زبردست مشکلات کا سامنا غرضیکہ ایک ایک مصیبت نو نو ہاتھ کی اخر کیسے ان سارے مسائل کا حل ہو۔ بجٹ میں بھی حکومت بنکروں کا کوئی ذکر نہیں کرتی اور بنکروں کے اندر سیاسی بیداری بھی نہیں ہے بنکروں کا کوئی سیاسی نمائندہ بھی نہیں ہے یعنی ہر اعتبار سے آج بنکر طبقہ تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے۔