نعیم الدین فیضی برکاتی،ریسرچ اسکالر رانی پور،پورندرپور مہراج گنج(یو۔پی)۔ کورونا اور بھوک مری دونوں سے جنگ ضروری ہے
کورونا اور بھوک مری سے جنگ ضروری
اس وقت پورا دیش کورونا کی مار اور اس کے بھیانک انجام سے لرزہ بر اندام ہے۔ہر طرف کورونا کی باتیں ہو رہی ہیں۔تقریبا دو سو ملکوں میں اس بیماری نے اپنے پیر جمالیے ہیں۔سپرپاور کہے جانے والے ممالک بھی اس کی زہریلی ہوا سے نہ کہ صرف خوف زدہ ہیں بلکہ اس بھیانک اور لاعلاج مرض کے سامنے اپنے سارے ہتھیار اور ٹیکنالوجی ڈال دیے۔
تمام متاثرہ ممالک اس مہلک وبا ئی مرض سے اپنے شہریوں کو محفوظ رکھنے کے لیے طرح طرح کی تدبیریں اور حفاظتی راستے اختیار کر رہے ہیں۔ہمارے وطن عزیز بھارت میں بھی یہ خطرناک بیماری اپنا پاؤں بہت تیزی کے ساتھ پھیلا رہا ہے۔ابھی تک بھارت میں تقریبا پانچ سو اموات ہو چکی ہیں جب کہ پندرہ ہزار لوگ اس وبا کی چپیٹ میں ہیں۔
متاثرہ افرادکی تیزی اور اس بیماری کی وجہ سے واقع شدہ اموات کو مد نظر رکھتے ہوئے حکومت کی طرف سے لاک ڈاون کے ایام میں مزید انیس دن کی توسیع کر دی گئی ہے۔جس کی وجہ سے عام لوگوں کے لیے زندگی گزارنا بہت مشکل ہوتا جارہا ہے۔ بھارت میں اب تک کورونازدہ لوگوں کی تعداد چودہ ہزار سے تجاوز کر چکی ہے اور اس سے مرنے والوں کی گنتی چار ہزار تک پہنچ چکی ہے۔جو ملک کے لیے ایک سنگین مسئلہ بنتا جارہاہے۔
ملک بندی کی وجہ سے جہاں ملک کی معاشی و اقتصادی حالت بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے وہیں پر اس بیماری کی وجہ سے ملک کا غریب طبقہ اپنے زندگی کے بنیادی سازوسامان کے لیے ترس رہا ہے۔اخبارات اور دیگر ذرائع ابلاغ کی وساطت سے ملک کے مختلف مقامات سے دل دہلا دینے والی خبریں دیکھنے اور سننے کو مل رہی ہیں۔
ایک وقت کے کھانے کے لیے دہاڑی مزدور دو دو تین تین گھنٹے لائنوں میں کھڑا ہونے پر مجبور ہیں۔اس کے باوجود بھی انہیں بھر پیٹ کھانامیسر نہیں ہوتاہے۔اسی وجہ سے گھر سے باہر کمانے والے مزدوروں میں اضطراب اور بے چینی صاف طور سے محسوس کی جاسکتی ہے۔
ایک افواہ پر ہزاروں مزدوروں کا باندرا ریلوے اسٹیشن پر جمع ہونا جہاں اس بات کی تصدیق کرتا ہے وہیں پر مفلس اور تنگ دست مزدوروں کی حکومت پربے اعتمادی اور زندگی جینے کے لیے لازمی چیزوں کی عدم حصولیابی کی غمازی بھی کرتاہے۔
محترم وزیر اعظم صاحب!یقینا آپ کے خطاب کے مطابق معمراور کسی بیماری سے متاثر افراد کازیادہ خیال کرنا اور انہیں کورونا سے بچانا ہم سب کی ذمہ داری اور دیش کے لیے بہت ضروری ہے مگرکیا ان مزدوروں اور بے یارومددگار افراد کو بھوک اور اضطراب و بے چینی کی کیفیت سے نکالنا ضروری نہیں؟انہیں اس مصیبت اور پریشانی سے نکالنا کس کی ذمہ داری ہے؟۔
ظاہر ہے اگر ان کے پاس کام نہیں ہوگا تو کمائی نہیں ہوگی۔پھر وہ کیسے اپنا پیٹ بھریں گے اور کس طرح روم، بجلی اور پانی وغیرہ کا بل جمع کریں گے۔اسی وجہ سے وہ پیدل چل کر گھر آنے کو مجبور ہیں۔مرتا کیا نہیں کرتا۔
روٹی کپڑا اور مکان انسان کی بنیادی ضرورتوں اور روز مرہ استعمال میں آنے والی چیزوں میں سے ہیں،اس کے بغیرکوئی بھی شخص زندگی نہیں گزار سکتا ہے۔مگر اس ملک بندی میں گھر سے دور روزی روٹی کی حصولیابی کے لیے سرگرداں افراد تینوں چیزوں سے محروم ہیں۔
وزیر اعظم نے اپنے کسی خطاب میں نہ تو ان غریبوں کے تئیں ہمدردری جتاکر کر ان کے حق کی بات کہی اور نہ ہی ان کے بنیادی ضرورتوں کی فراہمی کو یقینی بنایا۔یہ ہمارے ملک کی بد قسمتی ہے کہ یہاں ہمیشہ سے ہی غریبوں کو ان کی بنیادی ضروریات سے محروم رکھا جاتا ہے۔
موجودہ طرزسیاست اور میڈیاکے نفرتی رول ماڈل کی روشنی میں کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتاہے کہ ان کی غریبی اور لاچاری ان کو انسانیت ہی کے ضمرے سے خارج کر رہی ہے جس کی وجہ سے وہ قسم قسم کی مصیبتوں اور پریشانیوں سے نبردآزما ہیں۔
حکومت کی طرف سے راحت پیکیج کا اعلان ضرور ہواہے۔جو ملک کے لیے ایک اطمینان بخش اور راحت کن بات ہے۔مگرسوال یہ ہے کہ اس کو غریبوں تک پہنچانے کے لیے حکومت کی طرف سے کیاکوئی لائحہ عمل تیار کیا گیا؟ گھر سے دور لوگوں کو،جن کے پاس راشن کارڈ وغیرہ نہ ہوں،ان تک راشن اور دیگر حکومتی اسکیموں کو کیسے پہنچایا جائے۔اس کے لیے منصوبہ بندی کی گئی؟۔
روزانہ اخبارات راشن تقسیم کرنے والوں (کوٹے دار) کی بے راہ روی،لوٹ پاٹ اور گھپلے بازی کے واقعات سے بھرے ہوتے ہیں۔جیسے انہیں قانون کاڈر ہے نہ آخرت میں جواب دہی کی فکر۔وہ دھڑلے کے ساتھ غریبوں کے حق پر ڈاکہ زنی کرتے ہیں اور اعتراض کرنے پر سب و ستم سے کام لیتے ہیں اور اول فول بھی بکتے ہیں۔
متعلقہ افسران سے شکایت کرنے پر بھی ان کے اوپر ذرہ برابر فرق نہیں پڑتابلکہ مکمل دلیری کے ساتھ حکومتی کارندوں کی ملی بھگت سے حسب معمول اپنا پرانا لاگ الاپتے ہیں اور ہر گھر سے پانچ دس کلو کٹوتی کرکے راشن تقسیم کرتے ہیں۔
حالاں کہ حکومت کی طرف سے بار بار یہ اعلان کیا جاچکاکہ کوئی بھی غریب بھوکا نہ سونے پائے حتی کہ بغیر راشن کارڈ اور آدھار کارڈ کے بھی ہر فرد کو بغیر کسی بھید بھاؤ کے راشن مہیا کرایا جائے۔
مگر ان کرپشن اور لوٹ گھسوٹ کے پجاریوں کے اوپر اس حکومتی فرمان سے بھی جوں تک نہیں رینگتی۔میری حکومت سے گزارش ہے کہ اس معاملے میں افسران کے ذریعے کوٹے داروں کی بے راہ روی اور ان کی کھلم کھلا لوٹ پاٹ کی روک تھام کے لیے مناسب جانچ کرائی جائے اور قصور وار پائے جانے پرانہیں کیفر کردار تک پہنچانے کا کام کیا جائے تاکہ حاجت مندوں کی مدد کے تعلق سے حکومت کی منشا پوری ہو سکے اور غریب طبقے کواس کا حق مل سکے،جس سے اس کی زندگی کی روانی میں تھوری آسانی ہو۔
وزیر اعظم نے ‘جان ہے تو جہان ہے’ کو تبدیل کر کے ‘جان بھی اور جہان بھی’کا منتر دیا۔مگر اس سے غریبوں اور مزدوروں کی زندگی پر کیا کوئی بدلاؤ آیایااس سے ان کی زندگی میں کوئی فرق نظر آیا؟۔
یقینا یہاں کے باشندوں کی جان رہے گی تبھی جہان بنے گا۔ملک کا ایک ایک فردبیش قیمت ہوتا ہے۔ہر ایک کی جان بچانا حکومت کے اولین فرائض میں سے ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق اگراس معاملے میں حکومت نے عدم توجہی سے کام لیا تو اس ملک بندی میں دس کروڑ افراد بھوک مری سے اپنی جان گنوا سکتے ہیں۔بھارت کے معاشی اور اقتصادی صلاح کار کا ماننا ہے کہ اس برے حالات میں بھوک مری سے لوگوں کو بچانے کے لیے اور ان کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے حکومت کو عوام کے لیے سرکاری خزانے کھول دینا چاہیے۔مگر حکومت ہے کہ پارلیمنٹ کی تعمیر نو کے لیے بجٹ منتخب کرنے پر آمادہ ہے۔کیجیے جناب!۔
مگر ترجیحات کے پیش نظر حالیہ مشکل حالات میں ضرورت مند افراد کے زندگی کی روانی اور اس کی تحفظ وبقا کے لیے بھی ایک مناسب بجٹ تیار کریں جن سے بھوک اور فاقہ کشی سے بلکتی اور سسکتی آہوں کو چین اور سکون بہم پہنچاکر چپ کرایا جا سکے۔اس پر حکومت کوسنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔تبھی جان ہے تو جہان ہے کا نعرہ شرمندہ تعبیر ہوسکے گا۔
کورونا کی طرح بھوک بھی ایک بیماری ہے جو لوگوں کوبے بس اور مجبور محض بنا دیتی ہے۔بھوکوں کے سامنے آپ بہترین شاعری،جادوئی اور کرشمائی خطاب، ہمدردی اور نصیحت کی باتیں بھی بیان کریں تووہ ان چیزوں کو زیادہ دیر تک سننے کے لیے تیار نہیں ہوتے ہیں۔بھوک کے سامنے زندگی کا کوئی فلسفہ کام نہیں کرتا۔
بھوک کو برداشت کرنا بہت ہی مشکل کام ہے۔بھارت میں اس بیماری کی وجہ سے مزید بھوک اور افلاس کی شرح میں اضافہ ہوگا۔بھوک کی شدت کے بارے میں ویسے بھی بھارت 117ممالک میں سے 102ویں نمبر پر ہے۔
یہ بات بھی صحیح ہے کہ بھوک اور افلاس کورونا سے زیادہ موذی مرض ہے۔یقین جانیں!اگر اس بیماری سے ہم نے لوگوں کو بچا لیا تو کورونا سے جنگ بھارت کے لیے بہت آسان ہوگا۔
دوسری طرف اس مہاماری سے مرنے والوں کی تعداد کو دیکھا جائے اور معاشی اور اقتصادی صلاح کاروں کی تشویشناک باتوں پرسنجیدگی سے غور کیا جا ئے تو یہ معلوم ہوگا کہ ہم بھارت کے لوگوں کو کورونا اور بھوک مری دونوں سے جنگ لڑنا ضروری ہے۔
کورونا کو بھگانا ہے ہر فرد کو ذمہ دار بننا ہے
عورتوں کے حقوق قرآن و سنت نبویکی روشنی میں
نعیم الدین فیضی برکاتی،ریسرچ اسکالر
رانی پور،پورندرپور مہراج گنج(یو۔پی)۔
mohdnaeemb@gmail.com