تحریر نعیم الدین فیضی برکاتی لاک ڈاون مدارس اسلامیہ اور ہماری ذمہ داریاں
لاک ڈاون مدارس اسلامیہ اور ہماری ذمہ داریاں
کرونا کے تیزی سے ہوئے خطرات اور اس کے حالیہ قہر کو دیکھتے ہوئے لاک ڈاؤن کی تیسری بار توسیع ہوچکی ہے۔سماجی دوری کو بحال کرنے کے لیے فیکٹریاں بند ہیں۔کارخانوں میں تالے لٹکا دیے گئے ہیں۔آمد ورفت کا نظام ٹھپ پڑا ہے۔
اس بیماری نے کمی اور بیشی کے ساتھ سب کو متأثر کیا ہے۔تاہم دہاڑی مزدورکی زندگی سب سے زیادہ اثر انداز ہوئی ہے۔گاؤں دیہات سے لے کر شہر بازار تک ہر کوئی کورونا کے درد سے کراہ رہا ہے۔بازاروں میں سناٹا پسرا ہوا ہے۔بڑی بڑی کمپنیاں اورکارخانے ماتم کدہ میں تبدیل ہو چکے ہیں۔سرمایہ دار اور تجاراپنی بربادی اور زبوں حالی کے قصے سنا رہے ہیں۔
اس خطرناک وبا نے صرف انسانیت ہی پر اپنے زہرآلود پنجے نہیں گاڑے بلکہ اس کی وجہ سے ملکی معیشت میں بھی بھاری گراوٹ آئی ہے۔پہلے ہی نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کی مار سے بسمل کی طرح تڑپڑا رہی زخمی معیشت کو اس بیماری نے آئی سی یو میں لا کر کھڑا کر دیاہے۔آٹو سیکٹر پہلے ہی سے بحرانی حالات سے دوچار ہے۔ڈاٹا کے مطابق بے روزگاری نے پچھلے پینتالیس سال کا ریکارڈ توڑ کر پڑھے لکھے سند یافتہ نوجوانوں کو پکوڑے بیچنے پر مجبور کردیا ہے۔
دوسری طرف نظر اٹھاکر دیکھیں تو معلوم ہوگاکہ اس کی چپیٹ میں فلاحی اور دینی ادارے بھی آگئے ہیں جواپنی بربادی کے مرثیہ پڑھ کر عوام اور دیگر صاحب ثروت مخیر حضرات سے تعاون اور امداد کی اپیل کررہے ہیں۔
اب ایسے حالات میں جہاں حکومت کی ذمہ داری ملک کی بدتر معیشت کوپھر سے پٹری پر لانے اور پڑھے لکھے نوجوانوں اور مزدوروں کو روزگار مہیا کرانے کی ہے وہیں پر اہل خیر کی دینی اور اخلاقی ذمہ داری ملک کے سب سے بڑے اقلیتی طبقہ کے افراد کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کی ہے۔
دراصل معاملہ یہ ہے کہ رمضان المبارک ہی کے مہینہ میں تمام مدارس اپنے پورے سال کے اخراجات کا نتظام کرتے ہیں،جس کے لیے مدارس کے اساتذہ اور محصلین حضرات چندہ کی غرض سے ہندوستان کے مختلف بڑے بڑے شہروں اور صوبوں کا رخ کرتے ہیں،جہاں مخیر اوردولت مند حضرات سے ملاقات کرکے زکوۃ وعطیات کے رقوم وصول کر کے لاتے ہیں اور پھر ان پیسوں سے مدرسوں میں تعلیم حاصل کرنے والے غریب ونادار طلبا وطالبات کے پورے سال کے قیام وطعام اور طبی سہولیات کے ساتھ ساتھ ان کے کتابوں وغیرہ کا بندبست کیا جاتا ہے۔
مگر اس مرتبہ لاک ڈاؤن اور کاروبار بند ہونے کی وجہ سے ان کے وجود پر بھی خطرات کے بادل منڈلانے لگے ہیں،جس کی وجہ سے اہل مدارس اپنے مدرسے کے لیٹر پیڈ پرامداد نامہ لکھ کر صاحبان مال وزر سے آن لائن بینکنگ کی وساطت سے امداد وتعاون کی گوہار لگارہے ہیں۔
دور حاضر میں مدارس کی اہمیت اور افادیت سے کسے انکار ہو سکتا ہے۔دینی مدارس ومکاتب کا وجود اس مادیت زدہ اور پر فتن دور میں ناگزیر ہے۔یہی وہ مدارس ہیں جوغیروں کی ہزارہا الزام تراشیوں اور بے بنیاد تہمتوں کے باوجود اپنے فیکٹریوں سے لاکھوں کی تعداد میں افراد تیار کرکے مساجد ومدارس کوبھیجتے ہیں جہاں یہ جاکر دین متین کی خدمت کا فریضہ بحسن وخوبی انجام دے رہے ہیں۔
لوگوں کو اسلامی رنگ میں رنگتے ہیں اور اصلاح ورہنمائی کا کام کرتے ہیں۔اسلام کے خلاف اٹھنے والی تحریکوں اور پروپیگنڈہ کی پرزور مذمت کرکے ان کے مسکت اور دندان شکن جواب کا اپنے دار الافتا اور مدرسوں میں پیٹھ کر حل تلاش کرتے ہیں۔
یوم مزدور اور اسلام پورا مضمون ضرور پڑھیں
یہ بات کہنے میں ذرہ برابر بھی ہچکچاہٹ نہیں ہونی چاہیے کہ موجودہ دور میں جہاں دینی مدارس اسلام کے قلعے،ہدایت کے سرچشمے اوردین کی نشر و اشاعت کا بہترین پلیٹ فارم ہیں،وہیں پر یہ فلاحی،اصلاحی اور تعلیمی مراکزبھی ہیں جہاں تشنگان علم وحکمت کوسیراب اور بامراد کیا جاتا ہے۔
یہ بات بھی بالکل درست ہے کہ دین اسلام اورعقیدہ توحید ورسالت کی حفاظت وصیانت تعلیمات دینیہ پر منحصر ہے۔جس قوم میں دینی تعلیم اور اسلامی تربیت کا نظام اہل دین ودانش کے زیر نگرانی چلتا ہے،وہ قوم اپنے دین وایمان کے معاملے میں نہ صرف راسخ اور متصلب ہوتی ہے بلکہ اس کے اندر اخلاص اور للہیت کی خوشبو بھی بدرجہ اتم محسوس کی جاسکتی ہے۔
یہ بات ذہن نشیں رہنی چاہیے کہ ایمانیات،عبادات،معاشرت،معاملات اور اخلاقیات وسماجیات الغرض زندگی کے کسی بھی شعبے کو اسلامی تعلیمات و نقوش کے بغیر گزارناناممکن ہے۔علاوہ ازیں اس کے بغیر نہ ہم اپنی زندگی کا نظام باقی رکھ سکتے ہیں اور نہ ہی سماجی اور معاشرتی ترقی کی طرف کوئی مثبت قدم بڑھانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں،گویا ہم سب کی کامیابی اس کی بقا وتحفظ میں مضمر ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ہم سب کو امت مقروء بنایا ہے۔ہم کو پہلا سبق اللہ جل مجدہ الکریم نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی اقرأ سے دیا،جس سے تعلیم کی اہمیت وضرورت کا اندازہ ہوتا ہے۔
قرآن پاک اور حدیث مبارکہ میں متعدد مقامات پر علم کے سیکھنے اور اسے فروغ دینے کے متعلق احکامات موجود ہیں،جن میں سے میں یہاں چند کا تذکرہ کرنا بجا سمجھتا ہوں تاکہ اس ناقص تحریر کو بابرکت اور مدلل بنا سکوں۔اللہ تعالیٰ قرآن حکیم میں فرماتا ہے:۔
ترجمہ:پڑھیے!اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا۔پیدا کیا اس نے انسان کو ایک خون کے لوتھڑے سے۔ پڑھیے!آپ کا رب بڑا کریم ہے جس نے علم سکھایا قلم کے ذریعہ۔اس نے انسان کو ہر اس چیز کا علم دیا جو وہ نہیں جانتا تھا۔(العلق)۔
ترجمہ:تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور جن کو علم عطا ہوا ہے،اللہ ان کے درجات بلند فرمائے گا اور جو عمل کرتے ہو اللہ اس سے با خبر ہے۔(المجادلہ)۔
ترجمہ:اے میرے رب!مجھے علم میں زیادتی نصیب فرما!(سورہ طہ)۔
دوسری جگہ عالم کی عظمت کوبیان کرتے ہوئے یوں بیان فرماتاہے
اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم آپ فرما دیجیے!کہ علم رکھنے والے(عالم) اور علم نہ رکھنے والے(جاہل)برابر نہیں ہوسکتے ہیں۔نصیحت تو وہی حاصل کرتے ہیں جو عقل والے ہیں۔(سورۃ الزمر)۔
حدیث پاک میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر مسلمان پر علم سیکھنے کو فرض قرار دیا ہے اور علم دین حاصل کرنے والوں اور پڑھانے والوں کو سب سے بہترین گروہ بتایا ہے۔
حدیث پاک میں ہے:۔
علم دین کا حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔(ابن ماجہ)۔
دوسری حدیث میں ہے :۔ جو بچہ علم دین حاصل کرنے کی خاطر گھر سے باہر نکلا وہ گھر لوٹنے تک اللہ کے راستے میں ہے۔(ترمذی)۔
حدیث میں ہے:۔ اللہ جس شخص سے بھلائی کارادہ فرماتا ہے اسے دین کی سمجھ عطا فرماتا ہے۔(بخاری)۔
ترجمہ:، تم میں سے سب سے بہتر وہ شخص ہے جو قرآن کاعلم سیکھے اور پھر اسے دوسروں کو سکھائے۔(بخاری)۔
متذکرہ قرآنی آیات اور احادیث سے جہاں علم دین کی اہمیت وضرورت آشکار ہوتی ہے وہیں پر علم دین سیکھنے اور سکھانے والوں کوشدت کے ساتھ ابھارا گیا ہے اور تعلیم وتعلم کا فریضہ انجام دینے والوں کو خیر امت کہا گیا ہے۔کیوں کہ علم دین ہی سے احقاق حق اور ابطال باطل کا فریضہ انجام دیا جاتا ہے،اسی سے رب کائنات کی معرفت اور رسول ونبی کی رسالت ونبوت کی پہچان ہوتی ہے،اسی کے ذریعہ صحابہ کرام کی عظمت کا جام پلایا جاتا ہے اور اسی سے بزرگوں کا ادب و احترام اور چھوٹوں پر شفقت کرنے کا سبق ملتا ہے۔
اخیر میں ایک مرتبہ پھر میں اہل اسلام کو ان کی عظیم ذمہ داری کا احساس دلانا چاہتا ہوں کہ براے کرم!دینی مدارس کی ضرورت و اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے ان کی طرف توجہ فرمائیں،اور اسلام کی نشر واشاعت میں ہر طریقے سے حتی المقدور شریک وسہیم بنیں۔
ان گزارشات کے ساتھ مدارس کے منتظمین،اساتذہ اور طلبہ سے مؤدبانہ التماس ہے کہ وہ صرف اور صرف ضرورت مند طلبہ ہی کو زکوۃ وعطیات سے تعلیم اور دیگر سہولیات فراہم کرائیں۔مالداراورزکوۃ دینے والے والدین کے بچوں کے استعمال میں ہر گزہرگززکوۃ کے پیسوں کونہ لائیں۔
کیوں کہ وہ محض مدرسوں میں پڑھنے کی وجہ سے اس کے مستحق نہیں ہیں۔ایسے بچوں کی نشان دہی کرکے ان سے فیس کا مطالبہ کریں اور انہی کے پیسوں سے ان کے تعلیم وتربیت کا بندوبست کریں۔
ناظمین حضرات کسی قسم کے احساس کمتری کا شکار نہ ہوں اور نہ ہی کسی منفی خیال کو خاطر میں لائیں۔کسی طرح کی مایوسی کو قریب بھٹکنے نہ دیں۔پورے اعتماد اور حوصلے کے ساتھ قادر المطلق کی ذات پر بھروسہ رکھیں۔یقیناہر سختی کے بعد آسانی ہے۔
نعیم الدین فیضی برکاتی
ریسرچ اسکالر
رانی پور،پورندر مہراج گنج(یوپی)۔
mohdnaeemb@gmail.com
رابطہ نمبر:9682232585