Friday, November 22, 2024
Homeمخزن معلوماتبہترین مسلمان کی پہچان حدیث کی روشنی میں

بہترین مسلمان کی پہچان حدیث کی روشنی میں

     تحریر:   محمد مجیب احمد فیضی بلرامپوری بہترین مسلمان کی پہچان حدیث کی روشنی میں

بہترین مسلمان کی پہچان حدیث کی روشنی میں


خالق کائنات کا بے پناہ احسان ہے کہ اس نےفطرت اسلام اور امت محمدیہ میں ہم سب کو پیدا فرما کر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی و پکی غلامی نصیب فرمائی۔ اور اس امت کو  بہترین اور امت وسط کے لاجواب خطاب سے نوازا۔  اگلی اور پچھلی تمام امتوں میں اس نے امت محمدیہ کو سب سے بہتر  (مسلمان) امتی قرار دیا۔  چنانچہ اللہ عزوجل قرآن حکیم  میں ارشاد فرماتا ہے ۔ کنتم خیر امۃ اخرجت للناس  الایۃ۔ ترجمہ۔ تم بہترین امت ہو جسے لوگوں کے لئے منظر عام پر لایا گیا۔ (القرآن)۔
اور ایک مقام پر یوں ارشادفرماتا ہے۔ وکذلک جعلنکم امۃ وسطالتکونوا شہداء علی الناس ویکون الرسول علیکم شہیدا۔ ( القرآن) ترجمہ۔اورایسے ہی  ہم نے تم سب کو امت وسط بنایاتاکہ تم لوگوں پر گواہ ہو جاؤ اور رسول ہوں گے تم پر گواہ۔

لیکن افسوس !  مسلمانوں کے لئے رب کی طرف سے  عطا کردہ اتنی بڑی اہمیت و خصوصیت کے باوجود بھی اس رنگ برنگ دنیا میں کچھ نام نہاد مسلمان ایسے بھی ہیں جن کے نزدیک اسلام کا معیار فقط مسلم گھروں  مسلم معاشروں میں پیدا ہو جانا ہے ۔ یا پھر مسلمان ہو نے کے لئے صرف مسلم سماج میں پیدا ہوجانے ہی کو  کافی سمجھتے ہیں ۔

 آج قوم  مسلم کی بدعملی دیکھ کر رونا آتا ہے۔ دنیا کی کوئی ایسی برائی نہیں جس سے یہ قوم  محفوظ و مامون ہو۔ ہر برائی میں سبقت قدمی کرتے ہوئے پیش پیش رہتی ہے۔ فواحشات کی انجام دہی کے لئے بڑی سی بڑی مشکلات کا بھی یہ قوم  سامنا کر لیتی ہے۔ دوسروں کو تکلیف پہونچانے میں بھی  یہ  قوم ہمیشہ کوشاں رھتی ہے۔ 

مگر مذہبی دنیا  میں عملی میدان میں تقوی  ودینداری میں  ایک دم کورا۔  جبکہ برائی کی دنیا میں۔ میں۔۔۔۔۔ شراب نوشی  ۔۔۔۔سودخوریفحاشی ۔۔۔۔ عیاشی۔۔۔۔  زنا کاری۔۔۔۔  دلالی  مکاری۔۔۔ ظلم  ۔۔۔دغا  وغیرہ   گویا   ہر طرح  کی  خبائث میں ہمیشہ  ملوث و سرگرداں  رہتا ہے۔ 

 ویسے تو ہر دور میں بروں کے باالمقابل اچھوں کی تعداد  ہمیشہ کم  رہی ہے ۔ بدعملوں کے بہ نسبت باعملوں کی فہرست ہمیشہ مختصر رہی ہے ۔ بروں کے افراد کچھ زیادہ ہی رہے۔ بہ نسبت اچھوں کے۔ بعض تو ایسے بھی ہیں جو اسلام ومسلمان کے نام پر  ایک سیاہ دھبے کے مانند ہیں۔ اپنی غیر مناسب حرکتوں سے اسلام ومسلمان دونوں کے بدنامی کا باعث بنتے ہیں ۔ جس سے قوم مسلم قدم قدم پر لوگوں کے طعن و تشنیع کا شکار ہوتی ہے۔اسے غیروں کے سامنے ذلیل و رسوا ہونا پڑتا ہے۔ ایسے ہی لوگوں کو لے کر اسلام ومسلمانوں پہ لوگوں کو اعتراض کرنے کا موقع ملتا ہے۔ 

شوال کے نفلی روزے اس مضامین کوپڑھ کر  اپنے احباب کو شئیر کرنا نہ بھولیں رمضان کا تیسرا عشرہ جہنم سے آزادی

آج کا مسلمان مسلمان سے دشمنی و عداوت کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ ذاتی اختلافات کو لیکر ایک دوسرے کے خون  پیا سے ہو جاتے ہیں۔ قیام وطعام تک بند ہونے کے ساتھ کئی کئی سالوں تک بات چیت بند رہتی ہے۔  کبر وانانیت تو ان کی پہچان سی ہو گئی ہے۔   ماضی کے پاکیزگی کا تصور باالکل محواور ختم ہو چکا ہے۔ زمانۂ ماضی میں ان کی ہر ایک اداء مثالی ہواکرتی تھی ۔اپنے تو اپنے اغیار بھی ان کے کردار و گفتار کو دیکھ کر  اپنی زندگیاں سدھار لیا کرتے تھے۔

کیا اسلام کا یہی نظریہ  اور درس حیات ہےکہ مسلمان مسلمان سے ہی محفوظ نہ رہے۔ بھائی بھائی کے ظلم وستم کا مسلسل نشانہ بنتے رہے۔ مسلمان مسلمان کے لیے سب وستم سے گریز نہ کرے ۔
کیا یہی اس کے سنہرے اصول و قوانین ہیں۔ کہ اپنے کمزور بھائیوں کو ستایا جائے۔ انہیں سماج کا دبا کچلا افراد تسلیم کیا جائے۔ کیا اسلام کایھی معیار ہے۔
نہیں ہر گز نہیں اسلام میں نہ ایسی چیزیں ہیں اور نہ مذہب اسلام کسی کو  اس کا بڑھاوا اور  اجازت دیتا ہے۔

چنانچہ ! حدیث مبارکہ میں حضور رحمت عام صلی اللہ علیہ وسلم نے امن وشانتی اور اخوت ومحبت اور آپسی کدورتوں اور نفرتوں کے خاتمے کا  درس دیتے ہوئے فرمایا ۔المسلم اخو المسلم۔ (الحدیث)۔
ایک مسلمان اسلامی نقطۂ نظر سے دوسرے  مسلمان کا بھائی  ہے۔  مذکورہ حدیث شریف کے اس چھوٹے سے ٹکڑے میں پوری عالم انسانیت کے لئے اتحادواتفاق کی بڑی ہی خوبصورت مثال موجود ہے۔ جس پر امت مسلمہ کو خلوص کے ساتھ عمل کرنا چاہیئے۔ اور ایک مقام پر یوں ارشاد  فرمایا ہے کہ ایک مرتبہ اللہ کے رسول سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی نے پوچھا یارسول اللہ   ای المسلمین خیر۔  
سب سے بہتر مسلمان کون ہے ۔آپ نے فرمایا المسلم من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ( بخاری)ترجمہ۔سب سے بہتر مسلمان وہ ہے کہ جس کے زبان اور ہاتھ سے اس کے دوسرے مسلمان بھائی محفوظ وسلامت رہیں۔

چنانچہ حکیم الامت مفتی احمد یار خاں نعیمی رحمۃاللہ علیہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ زبان اور ہاتھ کو اس لیے خاص کیا گیا کیوں کہ انسان دوسرے کو تکلیف پہونچانے کے لیے سب سے پہلے اور سب سےزیادہ انہیں دونوں سے استفادہ اور انہیں کا سہارا لیتا ہے۔
اور ایسے ہی ایک اور مقام پر مزید ارشاد فرمایا کہ لایؤمن احدکم حتی یحب لاخیہ مایحب لنفسہ۔۔ (بخاری)۔تم  میں سے اس وقت تک کوئی کامل الایمان مسلمان ہو ہی نہیں سکتا جب تک کہ وہ  اپنے بھائیوں کے لئے وہی نہ پسند کرنے لگے جو اپنے لئے  پسند کرتا ہو۔
  یعنی اپنے  دینی بھائی کے لئے وہی  پسند  کرے جو اپنے لئے پسند کرے۔ یعنی کامل الاسلام ہونے کے لئے  اپنے دینی بھائیوں کا خیر خواہ ہونا ہوگا۔محبت سے ان کو گلے لگانا ہوگا  ۔مصائب و آلام کے ہر موڑ پر انہیں سنبھالنا ہوگا۔  ان کی مصیبتوں کے ہر موڑ  پر مدد کرنی ہوگی۔ ان کی منجدھارے میں معیشت کی ڈگمگاتی ہوئی کشتی کو ساحل نجات تک پہونچانا ہوگا۔


مذکورہ بالا حدیث مبارکہ  سے ان شقی القلب مسلمانوں کو درس لینا چاہیئے جو برادران اسلام کو ظلم وستم خوف وہراس سب وستم  ذلت وحقارت  کا نشانہ بنانے اور کمتر دکھانے اور انہیں ذلیل ورسوا کر نے کے لئے شب وروز انتھک محنت کرتے ہیں۔
  عھد نبوی میں مواخاۃ کی ایک مثال
جب مکہ کے  سرکش ظالموں نے اسلام  مسلمانوں پر ظلم وزیادتی کر کے سرکار دوعالم  صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے جاں نثار صحابہ پر مکہ کی سر زمین تنگ کردیا اور جینا اجیرن کردیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ عزوجل کی رضا و خوشنودی کے خاطر  دین حق کی تحفظ وبقاءاور سربلندی کے لئے چند رفقاء کے ساتھ ہجرت فرمائی۔

نبی ﷺ کا اشارہ  پاتے ہی مہاجرین جن کی تعداد  تاریخ کے اوراق میں پینتالس یا اونچاس  بتائی جاتی ہے) انتہائی بے سروسامانی اور کم مائے گی کی حالت میں اپنے اہل وعیال کو چھوڑ کر جان ایمان کی معیت میں یہ پاکباز مہاجرین  مدینۃ المنوره بغرض ہجرت کوچ کر گئے۔

ہم انصار کے ان پاک جماعت کی عظمتوں رفعتوں اور بھائی چارگی کو سلام پیش کرتے ہیں۔ کیوں کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ انصار نے مہاجرین کی دلجوئی مہمان نوازی غمخواری وملنساری  وغیرہ  کرنے میں  کوئی کسر نہیں چھوڑی۔لیکن مہاجرین دوسروں پر بوجھ بن کر زیادہ دیر تک زندگی گزر بسر کرنا پسند نہیں کرتے تھے ۔کیوں کہ وہ سب محنت و مشقت کرکے اپنے دستوبازو کی  کمائی کے خوگر اورعادی تھے۔

اس لئےمہاجرین کی پریشانی دور کرنے اور ان کے لئے مستقل ذریعۂ معاش انتظام  کرنے کی ضرورت تھی۔چنانچہ مصطفی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن مسجد نبوی کی تعمیر کے بعد حضرت انس رضی اللہ عنہ کے مکان پر تمام انصار و مہاجرین کو جمع فرمایا نبوی اشارہ پا کر چمنستان نبوت کے سارے پھول اکٹھا ہو گئے۔ پیغمبر اسلام حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کو مخاظب کرتے ہوئے فرمایا یہ مہاجرین تمہارے بہائی ہیں۔اور پھر انصار و مہاجرین میں سے دو دو اشخاص کو بلا بلا کر فرماتے گئے کہ یہ اورتم  دونوں بھائی بھائی ہو ۔ تم اور یہ آج سے بھائی بھائی ہو۔

 اور پھر رفتہ رفتہ  میرے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم  کا یہ مجازی رشتۂ اخوت فرمانا حقیقی رشتۂ اخوت میں بدل گیا۔ ان کے معاشی ذرائع کا صحیح  اسباب وحل فرماتے ہوئے دونوں جماعت کے مابین عقد مواخاۃ فرمادیا۔جس سے مہاجرین کی تنہائی کی وحشت بھی دور ہوگئی اورپھر انصار بھی  اپنے تئیں ذریعۂ معاش کے متعلق  مہاجرین کےمدد گار ہو گئے۔ 

اے کاش انصار کے جذبۂ ایثار پر پوری کائنات نثار ہوجائے  مہاجرین کے سامنے انصار نے اپنے اپنے گھروں کی ساری چیزیں رکھ دی یہ کہتے ہوئےکہ فرمان مصطفوی کے مطابق آپ ہمارے بھائی ہیں۔  اس لیے  میرے گھر کی تمام چیزوں میں برابر کے شریک ہیں۔ آدھا میرا ہے اور آدھا آپ کا ہے۔ اس طرح کے بھائی چارگی کا تصور اسلام اہل اسلام  کو چھوڑ کر کہیں دیکھنے اور سننے کو نہیں ملتی۔

اورحد ہوگئ جب حضرت سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ مہاجر کے بہائی قرار پائے اور ان کے پاس دو بیویاں تھیں۔حضرت سعد بن ربیع نے حضرت عبدالرحمن بن عوف سے کہا میری دونوں بیویوں میں سے جسے آپ پسند فرمائیں میں اس کو طلاق دے دوں اور آپ نکاح کر لیں۔ یہ تھا ان پاک حضرات کا اسلامی جذبہ ارو مذہبی ایثار جو ہمارے لیے اسوۂ حسنہ کی حیثیت رکھتا ہے۔

لیکن یاد رکھیں! انصار کا یہ ایثارا یک  ایسا بے مثال شاہکارتھا۔جس کی مثال اقوام عالم کی تاریخ میں مشکل سے ہی ملےگی۔مگر ان  پاک باز مہاجرین نے جو طرز عمل اختیار کیا وہ بھی ایک قابل تقلید کارنامہ ہے۔حضرت سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ کی اس مخلصانہ پیشکش کو سننے کے بعد حضرت عبدالرحمن بن عوف نے فرمایا یہ مال ومتاع اہل وعیال سب کچھ آپ کو مبارک ہو۔

مجھے فقط آپ بازار کاراستہ دکھا دیجئے حضرت سعد بن ربیع نے آپ کو بازار  قینقاع کا راستہ دکھا دیا۔ حضرت عبدالرحمن نے  بازار سے کچھ گھی اور پنیر خرید کر شام تک بیچتے رہے۔اور پھر اسی طرح روزانہ آپ بازار جاتے رہے۔ تھوڑے ہی عرصہ میں آپ کے پاس اتنا سرمایہ اکٹھا ہو گیا کہ آپ نے شادی کرکے اپنا گھر بسا لیا۔اور پھر بارگاہ نبوت میں حاضر ہوئے نبی ﷺ نے پوچھا اے عبدالرحمن آپ نے اپنی  بیوی کو کتنا مہر دیا ؟ ۔آپ نے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ  پانچ درہم سونا برابر ارشاد فرمایا   اللہ تمہیں خوب برکتیں عطا فرمائے ولیمہ کرو اگر چہ ایک ہی بکری ہو۔ ( بخاری )۔

مذکورہ بالا تمام احادیث مبارکہ کی ضو بار کرن میں یہ بات تو صاف طور پر واضح اور روز روشن کی عیاں ہو جاتی ہےکہ۔ دوسروں کو تکلیف دینا ایک قبیح جرم   ہونے کے ساتھ   بہت بڑا گناہ بھی ہے۔ جس پاک وصاف مذہب میں راستے سے تکلیف دہ چیزوں کے ہٹانےکو صدقہ کہا گیا ہو   ۔     أماطۃ الاذی عن الطریق صدقۃ ۔  وہ پاک مذہب بھلا دوسروں کو تکلیف دینے کی اجازت کب دے ہی سکتا ہے۔

لیکن افسوس کہ  ہمارے سماج کے عصیاں شعار گناہوں میں شرابور  مسلمان نے اسلام کے اس خوبصورت حکم کو اس طرح پس پست ڈال دیا ہےکہ جو اپنے آپ میں کافی حد تک شرم ناک اور افسوس ناک ہے۔   فرامین رسول ﷺ پرعمل کرتے ہوئے ہر مسلمان اپنے تئیں معشرے میں ایک دوسرے کی مدد کریں۔ چھوٹوں پر شفقت اور بڑوں کی عزت کریں۔ کسی پر ظلم وستم نہ ڈھائیں ا۔ور نہ کسی کو کوئی ایذاء و تکلیف پہونچائیں۔

ایک دوسرے کے سکھ دکھ میں برابر کے شریک رہیں۔نرمی وسنجیدگی کا بھر پور  مظاہرہ کریں۔ اللہ تعالی فرامین رسول کی ضو بار کرن میں زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے آمین 

تحریر:   محمد مجیب احمد فیضی بلرامپوری

سابق استاذ/دارالعلوم اہل سنت فیض الرسول براوں شریف ۔

رابطہ نمبر۔ 8115775932

Amazon   Flipkart  Havelles

afkareraza
afkarerazahttp://afkareraza.com/
جہاں میں پیغام امام احمد رضا عام کرنا ہے
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments

قاری نور محمد رضوی سابو ڈانگی ضلع کشن گنج بہار on تاج الشریعہ ارباب علم و دانش کی نظر میں
محمد صلاح الدین خان مصباحی on احسن الکلام فی اصلاح العوام
حافظ محمد سلیم جمالی on فضائل نماز
محمد اشتیاق القادری on قرآن مجید کے عددی معجزے
ابو ضیا غلام رسول مہر سعدی کٹیہاری on فقہی اختلاف کے حدود و آداب
Md Faizan Reza Khan on صداے دل
SYED IQBAL AHMAD HASNI BARKATI on حضرت امام حسین کا بچپن