تحریر آصف جمیل امجدی شادی کے بعد کی زندگی (ایک لمحہ فکریہ) ۔
شادی کے بعد کی زندگی
کہاں کب قسمت کس سے ملا دیتی ہے
ہم کو گماں بھی نہیں ہوتا
ملنے والا ہماری زندگی کو سزا بناتا یے یا جنت یہ ہماری قمست اور ہماری زندگی میں آنے والے اس شخص کی نیت پہ ہوتا ہے
سوچو تو دو اجنبی
دو الگ الگ جگہ پہ پیدا ہوئے
الگ جگہ پہ سانس لی
الگ جگہ پہ پرورش ہوئی
اپنی زندگی کے الگ الگ خواب دیکھے
بچپن سے جوانی تک کا سفر کیا
ایک دوسرے کو کبھی دیکھا تک نہ ہو
اور پھر خدا کی لکھی ہوئی قسمت
اپنا کھیل کھیلتی ہے
اور وہ دو اجنبی ہمسفر بن جاتے ہیں
ایسی ایک داستاں لے کے آیا ہے شہزادہ آپ کے لیئے
منصور دوسرے شہر میں سانسیں لے رہا تھا
وہ اپنی زندگی میں مگن تھا
ماں باپ نہیں تھے صرف دو بھائی تھے
منصور بڑا تھا چاچا چاچی نے پالا تھا
منصور ایک نیک دل لڑکا تھا چاچا چاچی بہت بھلے تھے
منصور نے ماں باپ کا پیار تو نہیں دیکھا تھا
لیکن وہ خواب دیکھتا تھا اس ہمسفر کا جو کبھی اس کی زندگی میں آئے گی اور اس کے سب درد ہر تنہائی کو ختم کر دے گی
دوسری طرف
شیزا جو ماں باپ کی لاڈلی بیٹی تھی
اس کے کوئی بڑےخواب نہیں تھے
وہ منچلی سی لڑکی
باپ کی عزت کا تاج
وہ لڑکی
بھائی کی جان تھی
ماں کی دلاری
وہ عام سی لڑکی گھر کے کام کرنا
ماں باپ کا غرور تھی وہ
نہ کبھی کوئی خواہش کی نہ کبھی کسی کی تمنا تھی
اسے اگر کچھ برا لگتا تھا اس دنیا میں تو وہ محبت تھی
وہ نکاح سے پہلے محبت کرنے کو گناہ سمجھتی تھی
وہ ایسی لڑکی تھی اس زمانے میں جو محبت سے زیادہ حیا کو ترجیح دیتی تھی
اس زمانے میں یہاں ہر کسی کا ماضی ہے
یا محبت میں جکڑی کسی نہ کسی کا خواب ہے
کوئی ناول پڑھ کر کسی کی محبت کا طلبگار ہے
تو کوئی ڈراموں سے متاثر ہوئی محبت میں تڑپ رہی ہے
شیزا محبت کو غلط نہیں سمجھتی تھی
لیکن وہ محبت کے بھیانک انجام سے ڈرتی تھی
وہ باحیا لڑکی وہ خدا سے دعا مانگا کرتی تھی
یا خدا مجھے کوئی اچھا ہمسفر دینا
لڑکیاں بہت نازک ہوتی ہیں
وہ سب کچھ ہونے کے باوجود ایک ایسے مقام پہ پہنچ جاتی ہیں جہاں ان کو کسی کے نام کا سہارا لینا پڑتا ہے
لڑکی جیسے اپنے نصیب سے خوفزدہ رہتی ہے
ویسے ہی ایک لڑکا بھی درد میں ہوتا ہے
کہ کہیں کوئی ایسی نہ مل جائے جسکی خواہشات میری اوقات سے زیادہ ہوں
جو مجھے میرے ہی سامنے شرمندہ نہ کر دے
بات ساری قمست کی ہوتی ہے
بات ساری سمجھنے کی ہوتی ہے
قبول ہے کہہ لینے سے اگر کوئی رشتہ بن سکتا تو کبھی عدالتوں میں طلاق نامے لیئے مرد ۔عورت ایک دوسرے کو برا بھلا نہ کہہ رہے ہوتے
شادی کرنا اور پھر ایک دوسرے کو سمجھنا
ایک دوسرے کے اچھے برے کو سمجھنا
خاموشی کو سمجھنا
سخت لہجوں کو اپنی محبت کے پھولوں میں لا کر مہکا دینا ہی ایک رشتہ حقیقی ہوتا ہے
شیزا اور منصور کا رشتہ بھی یوں بننا تھا
قمست خدا نے ان دونوں کی لکھ دی تھی
وہ دونوں اجنبی….. بڑوں کی رضامندی سے
ہمسفر بن گئے
دونوں کی شادی ہو گئی
منصور کچھ خوف زدہ تھا شیزا ایک خوبصورت لڑکی تھی اسکی آنکھوں میں ایک عجیب سے چمک تھی
پہلی رات تھی شیزا نے دیکھا منصور کچھ پریشان سا ہے
شیزا نے کہا کیا بات ہے آپ کچھ پریشان سے لگ رہے ہیں
منصور مسکراتے ہوئے کہنے لگا شیزا بیگم بات کچھ یوں ہے…… کہ
میں نہ شرما رہا ہوں آپ سے
شیزا نے مسکراتے ہوئے کہا
لو کر لو بات شرما کیوں رہے ہو
اب تو آپ میرے شوہر ہیں
منصور نے کہا ہاں وہ تو ٹھیک ہے
لیکن مجھے پھر بھی آپ سے شرم آ رہی ہے
شیزا نے کچھ حوصلہ دیا
اور کہا چلو میرے پاس اور بتاو کیا گفٹ لے کر آئے ہو میرے لیئے
منصور نے کیا گفٹ کا تو پتا ہی نہیں تھا مجھے
ہاں ایک چیز وعدے کے طور پہ دوں گا کہ کبھی تمہاری ان چمکتی آنکھوں میں کوئی آنسو نہ آنے دوںگا اداسی نہ آنے دوں گا
شیزا اور منصور محبت کے بندھن میں بندھے جا رہے تھے
یہ وہ محبت تھی جو حقیقی محبت تھی
اس محبت میں فریب نہیں تھا
اس محبت کو پلکوں پہ سجایا جانا تھا
منصور بن ماں باپ کے پروان چڑھا تھا وہ اپنا زیادہ تر کام خود کرنے کا عادی تھا
اب جبکہ شیزا ہمسفر بن کر آ چکی تھی پھر بھی وہ اپنے کپڑے پریس کرتا
شیزا نے ایک دن کہا منصور اب آپ نہ کیا کرو کام مجھے کہا کرو میں ہوں نہ….. اب تمہارے لیئے
منصور نے مسکرا کر کہا میری جان کیا فرق پڑتا ہے بھلا میں کروں یا تم کرو
شیزا نے کہا منصور پھر بھی میری جان اچھا نہیں لگتا نا
منصور نے شیزا کی گال پہ دونوں ہاتھوں سے چٹکی کاٹی اور کہنے لگا….. میری جان جیسے تم کہو
شیزا نے محسوس کیا منصور بہت محبت بھرا دل رکھتا ہے
وہ خدا سے شکر ادا کرنے لگی
ایک دن منصور آفس سے تھکا ہارا گھر آیا
کام کا بوجھ بہت زیادہ تھا اس لیئے وہ دن بھر کھانا نہ کھا سکا
گھر آیا تو شیزا ٹی وی پہ کوئی شو دیکھ رہی تھی
منصور نے سلام کیا……..(الـــــــــلام علیکم پیاری)۔
اور کہا شیزا میری جان جلدی سے کھانا لگاؤ مجھے بھوک لگی ہوئی ہے
شیزا نے کہا کیوں؟؟؟؟ آج آپ نے لنچ نہیں کیا کیا ؟
منصور نے کہا نہیں!
پیاری آج مصروف رہا بہت میں
کپڑا چینج کر کے آتا ہوں
تم کھانا لگاؤ
شیزا نے کھانا لگایا وہ پاس بیٹھ گئی
منصور نے کہا شیزا آپ کھانا بہت مزے کا بناتی ہو
شیزا گلاس میں پانی ڈال رہی تھی
منصور نے پہلا نوالہ لگایا کھانے کا اور کھانسنے لگا
شیزا نے پوچھا کیا ہوا منصور
منصور نے مسکرا کر کہا کچھ نہیں
منصور آرام سے کھاتا رہا دن بھر کا بھوکا تھااس نے آرام سے کھانا کھایا
منصور نے کھانا کھایا اللہ کا شکر ادا کیا
کچھ سبزی پلیٹ میں بچ گئی
شیزا نے کہا آپ کا بچا ہوا میں کھا لوں گی
منصور مسکرانے لگا کمرے میں جاتے ہوئے بولا کھانا کھا کر میرے لیئے چائے بنا دینا
آج کا کھانا بہت مزے کا تھا شیزا
شیزا نے پہلا لقمہ لگایا….. تو کھانسنے لگی
منصور کھانے میں تو اتنی زیادہ مرچیں تھیں اور آپ نے کھا کیا کھانا
آپ نے بتایا کیوں نہیں مجھے
منصور میں نے آج لاپرواہی کیسے کردی؟؟؟؟
آپ سارے دن کے بھوکے تھے آپ نے کیسے کھا لیا؟؟ منصور
میں مسکرا کر کہا میری جان کیا ہو گیا ہر روز اتنا مزے کا بناتی ہو اگر آج مرچیں تیز ہوگئی تو کیا ہوا بھلا
میں تم کو گالی یا تھپڑ ماروں کیا
تم بیوی ہو میری…… غلام نہیں…….
شیزا کی آنکھوں میں آنسو آ گئے
منصور آ ئی لو یو(I Love You)
وہ منصور کے سینے سے لگ گئ
یااللہ تیرا شکر ہے مجھے اتنا سمجھنے والا ہمسفر دیا ہے
شیزا روتے ہوئے کہنے لگی منصور آپ مجھے گالی دیتے
تھپڑ بھی لگا لیتے…. مجھ پہ چلا بھی لیتے
تو میں کیا کہہ لیتی آپ کو
منصور نے کہا میری جان تم نے میرے گھر کو جنت بنایا یے
جو کام میں پہلے خود کرتا تھا وہ سب تم کرتی ہو
میرے آنے سے پہلے کھانا بنا کے رکھتی ہو میں تھک جاوں تو میرا سر دباتی ہو
میں پریشان ہوں تو مجھے محبت سے پوچھتی ہو مجھے حوصلہ دیتی ہو
میں بیمار ہو جاوں تو میرے لیئے میری پسند کا سب کچھ مجھے اپنے ہاتھوں سے کھلاتی ہو
میرے لیئے فکرمند رہتی ہو
میں گھر لیٹ آوں تو اداس ہو جاتی ہو
تو میری جان!۔
میں کیا اتنا کم ظرف ہوں…. کہ ایک دن تم کھانے میں مرچیں تیز کر دو اور میں تم کو گالی دوں تم کو تھپڑ ماروں
تم میری ہمسفر ہو میری جان میری غلام نہیں ہو
شیزا نے زور سے منصور کو سینے سے لگا لیا
کہنے لگی منصور آپ جسیے ہمسفر خدا قمست والوں کو دیتا ہے
منصور شیزا کا خیال اپنی جان سے بھی زیادہ رکھتا تھا
وہ شیزا کے ساتھ مل کر گھر کے کام بھی کرتا
شیزا نے کبھی منصور کو اوقات سے بڑھ کر خواہش نہ کی تھی
ایک دن کسی شادی پہ جانا تھا منصور نے کہا شیزا چلو کچھ شاپنگ کر لو
شیزا نے کہا نہیں میری جان مجھے کچھ شاپنگ نہیں کرنی
منصور نے کہا ارے کیوں بھلا شادی پہ جانا ہے
شیزا نے کہا میری جان شادی پہ جانا ہے تو کیا ہوا چلیں گے شادی پہ
شاپنگ کرنا ضروری تو نہیں
شیزا سمجھتی تھی منصور کے حالات کچھ ٹھیک نہیں ہیں وہ کیوں بوجھ بنے اپنے شوہر پہ کیوں اپنے شوہر کو پریشان کرے
منصور بھی سمجھ گیا تھا کے شیزا میرے حالات کو سمجھتی ہے اس لیے شاپنگ پہ نہیں جانا چاہتی
شادی کے دن گزر گئے پرانے کپڑوں سے ہی وقت پاس کر لیا
لیکن شیزا نے اپنے گھر کا خیال رکھا اپنے شوہر کے وسائل کا خیال رکھا
یوں وہ ایک دوسرے کو سمجھ کر لوگوں کی پرواہ کیئے بنا اپنا گھر آباد کیئے رکھا
جتنی شیزا سمجھدار تھی اس سے زیادہ منصور شیزا کا خیال رکھتا تھا
منصور جو کماتا شیزا کو دیتا
شیزا نے اپنے شوہر کی کمائی کا سمجھداری سے استعمال کرکے اپنے گھر کو کبھی کسی کا مقروض نہ ہونے دیا
یہی تو ہوتی ہے محبت
یہی تو ہوتی ہے شادی
یہی تو ہوتے ہیں ہمسفر
ان کے ہاں اولاد ہوئی بچوں کو اچھا پڑھا رہے ہیں ایک دوسرے کو سمجھ کر ایک دوسرے کی خوشیوں میں درد میں ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر خوشگوار زندگی کا انتحاب کر کے جنت سی زندگی گزار رہے ہیں
کچھ شہزادیاں ہوتی ہیں جو شیزا کی طرح اپنے شوہر کا گھر آباد کرتی ہیں اور کچھ شہزادے ہوتے ہیں جو منصور کی طرح کے مرد جو انا سے زیادہ اپنی ہمسفر کی قدر کرتے ہیں…..
درخواست:— میری بہن ہاتھ جوڑ کر آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ “شادی کے بعد شیزا بن کے اپنے شوہر کا سہارا بننا…….
میرے بھائی آپ سے بھی ہاتھ جوڑ کر عرض کرتا ہوں کہ”شادی کے بعد منصور بن کر اپنی بیوی کا خیال رکھنا….. میرے بھائی! جس باپ کی لڑکی کو محسنِ انسانیت (صلی اللہ علیہ وسلم) کی عظیم سنت پر عمل کر کے اپنے نکاح میں لئے ہو….(یہ کہتے ہوئے پلک بھیگی جارہی ہے) کہ خدا کے واسطے اس بیچاری کو غلام نہ بنانا…… خدارا غلام نہ بنانا …. کبھی نہ بنانا غلام میرے بھائی!۔
+91-9161943293
+91-6306397662