تحریر محمد حشم الدین رضا مصباحی ، حالات اور ماحول سے بے خبری ٹھیک نہیں
حالات اور ماحول سے بے خبری ٹھیک نہیں
یہ بات کون نہیں جانتا کہ 1857 ء ہندی مسلمانوں کے لیے سخت ابتلاء و آزمائش کا دور تھا ۔ اسلام و مسلمین برطانوی سامراجیت کی زد پر تھے وہ وطن عزیز ہندوستان سے مسلمانوں کو نیست و نابود اور مذہب اسلام کو جڑ سے اکھاڑ دینا چاہتے تھے ۔
لیکن اس وقت مدارس اسلامیہ ہی کے پروردہ مجاہدینِ اسلام نے اپنی جان پر کھیل کر ظالم و جابر برطانوی حکومت کے خلاف علم جہاد بلند کیا اور اسلام و مسلمین کا تحفظ کیا تھا ۔
مذہب اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے ، یہ دین فقط خانقاہوں ، مساجد و مدارس تک محدود ہونے کے لیے نہیں آیا بلکہ شریعت اسلامی میں روز قیامت تک آنے والا تمام مسائل موجود ہے
مزید پڑھیں شادی کے بعد کی زندگی
یاد رکھیے! ہمارے اسلاف نے سلطنتیں بنائیں ، قاضی القضاۃ بنے ،عہدے حاصل کیے اور ساتھ ساتھ اپنے فرائض و واجبات بلکہ مستحبات کی بھی رعایت کی ، بیک وقت اجتماعی مسائل کے فرائض بھی انجام دیتے لیکن عصر حاضر میں اس کا فقدان نظر آرہاہے
ہماری فکر لاغر و کمزور ہو چکی ہے ہمارے معاملات اسلاف کے معاملات سے میل نہیں کھاتے یہ ملی مسائل میں سرگرمی دیکھانے سے با لکل غافل و عاری ہیں ، وطن عزیز ہندوستان کے آزاد ہونے کے بعد علماے اہل سنت کی ملی مسائل میں سرگرمیاں کسی نہ کسی حد تک ضرور رہی ہے ، لیکن جہد مسلسل اور بھر پور قابل اثر اجتماعیت کے فقدان کی وجہ سے یہ کوشیشیں بے اثر ثابت ہوئیں ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ جماعت اہل سنت میں اعراس ، مذہبی جلسوں اور کانفرنسوں میں وہ جوش و خروش ملتا ہے جو عام ملی مسائل میں دور دور تک نظر نہیں آتا ۔
اس کے بہت سارے اسباب ہیں ان میں (١)ہم جس جماعت کی نمائندگی کررہے ہیں ان میں اندھی عقیدت رکھنے والوں کی تعداد آسمان دنیاکے تاروں کی مانند ہے (٢) جماعت اہل سنت میں باہم ارتباط و رابطے کا فقدان ہے (٣) موجودہ خانقاہوں کے اکثر سجادہ نشیں اور ملی تنظیموں کے سربراہان دین سےدور ، کم فہم اور مفاد پرست ہیں ان کو اجتماعی مسائل سے کوئی دل چسپی نہیں ہے اور اگر کسی کو دل چسپی ہے تو وہاں ڈیل کرنے کی صلاحیت نہیں ہے ۔
آج جب کہ ہر مذہب اور ہر مکتبۂ فکر کے اربابِ حل عقد اپنے حقوق و مسائل کی بار اٹھانے میں سرگرداں نظر آرہے ہیں ، اس تناظر میں جماعت اہل سنت کو بھی ملی و اجتماعی مسائل کے حل کے لیے کوئی نہ کوئی ٹھوس قدم اٹھانا چاہیے ، کیوں کہ ملک ہندوستان کی تمام قوموں کی تہذیب و ثقافت ، رہن سہن اور تعلیم و تربیت وغیرہ ایک دوسرے سے اس قدر خلط ملط ہے کہ اگر ہم اتحاد و اتفاق کے پلیٹ فارم پر یکجا نہ ہوۓ اور ہمارے اوپر اب تک غفلت اور بے توجہی کا شامیانہ لگا رہا تو بڑی آسانی کے ساتھ ہمارے ہی لوگ ہم سے رابطہ توڑ کر دوسروں کے پاس چلے جائیں گے
اور ہماری تعداد آٹے میں نمک سی ہوجائے گی ، کیوں کہ ملک ہندوستان کے ہر شخص کے لیے اجتماعی مسائل ہیں ۔ صرف عقیدت کی بنیاد پر سب کو ساتھ رکھنا ایک مشکل امر معلوم ہورہاہے جماعت اہل سنت کا یہ ایک بہت بڑا نقصان ہے جس کی تلافی صدیوں تک ممکن نہیں ۔
مزید پڑھنے کے لیے کلک کریں جہیز سماج میں ڈسنے والا زہریلا ناگ
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ان مسائل کے حل کے لیے جماعت اہل سنت کا ایک پلیٹ فارم ہو جہاں سے ان مسائل کا حل تلاش کیا جائے ، علما کو چاہیے کہ وہ اپنی حتی المقدور کوشیشیں کریں اور عصر حاضر کے اجتماعی مسائل کے احکام اپنی قیمتی اوقات سے اخذ کرنے میں صرف کریں ، علما کو حالات حاضرہ کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وابستگی رکھنی چاہیے
تاکہ امت مسلمہ کو مغربی تہذیب و تمدن یا پھر دین کے کسی اور نظام کے سامنے کاسئہ گدائی نہ پھیلانا پڑے اس کے لیے علماے اہل سنت سیرت نبوی اور علوم دینیہ کو مد نظر رکھ کر تحقیق کے لیے افق دریافت کریں تاکہ ہم یہ آواز بلند کر سکیں کہ :۔
یہ مہر تاباں سے کوئی کہ دے کہ اپنی کرنوں کو گن کے رکھ لے میں اپنے صحرا کے ذرے ذرے کو خود ہی چمکانا سکھا رہا ہوں
محمد حشم الدین رضا مصباحی
سیتامڑھی (انڈیا)۔
موبائل نمبر 8887602415
واٹس ایپ نمبر 7654168100