محمد مجیب احمد فیضی علم ہی سے قدر ہے انسان کی
علم ہی سے قدر ہے انسان کی
ویسے تو ہر دور میں تعلیم کی ضرورت واہمیت رہی ہے خاص کر اس پر آشوب اور پر فتن دور میں یہ اور بات ہے کہ بعضوں نے انتہائی لگن اور اپنی انتھک کوشش اور محنت وکاوش سے اس کو حاصل بھی کیا اور بےشمار مردہ دلوں کو زندگی کی سوغات بھی پیش کیا,جبکہ بہتیروں نے تضیئع اوقات اور لاابالی پن کا اظہار کرتے ہوئے اس کو گنوا دیا۔
لیکن اس کی ضرورت اور اس کی اہمیت وافادیت سے کسی کو بھی انکار نہیں۔ لیکن !جہاں تک تعلیم کا معاملہ ہے تو یہ ایک ایسا سرمایہ ہے جو بانٹنے سے کبھی کم نہیں ہوتا, بلکہ مزید بڑھتی ہے۔زمانہ شاہد ہے کہ جب چیزیں زیادہ ہوتی تو بڑی سستی اور بے وقعت و بےقدر معلوم ہوتی ہیں۔البتہ علم جب کسی فرد میں زیادہ ہوتی ہے تو وہ سستی نہیں بلکہ مہنگی ہوتی ہے ۔
اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اقوام وافراد کی ترقی کا انحصار علم وتعلیم پر ہے اسی لئے معاشرہ اپنی نظام تعلیم پر ہمیشہ غوروخوض کرتا رہتا ہے۔بچپن میں بڑے بوڑھوں سے اکثر سنا کرتا تھا کہ” بیٹا ہنر (علم) ہی وہ لاجواب دولت ہے جس میں نہ کوئی بٹوارہ ہے اور ناہی کوئی حصے دار۔علم وہ نور ہے جس کی ضو بار کرن میں انسان صحیح اور غلط کی تمیز بآسانی کر لیتا ہے۔تعلیم ہی وہ واحد ہتھیار ہے جس سے ایک غیر درست اور بگڑے ہوئے معاشرے کو سدھارا جا سکتا ہے۔
بڑے بڑوں نے علم کو نور اور جہالت کو تاریکی سے تشبیہ دیا ہے۔بغیر تعلیم کے انسان کاالمیت ہے۔بلکہ جس طرح کالی رات میں بغیر روشنی کے چلنا جسم وجان کے خطرہ ہے ویسے ہی زندگی کی پٹری پر بغیر علم کے چلنا ایمان کے لئے خطرہ ہے۔زمانے کی تاریکیاں علم ہی کے بدولت دور ہوئی۔اور فرمان مصطفوی میں اس جانب ترغیب بھی مجود ہے۔
چنانچہ! احادیت نبوی میں اس کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے حضور رحمت عالم نور مجسم صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں ارشاد فرمایا ” طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم ومسلمۃ” ترجمہ:یعنی علم کا حاصل کرنا ہر مسلمان مردوعورت پر فرض ہے۔(ابن ماجہ) مصطفی جان رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق حصول علم کے سلسلے میں دونوں برابر ہیں۔
یعنی جتنا مردپر ضروری ہے عورت پر اس سے کم بھی نہیں۔ اور ایسےہی ایک مقام پر اس کی ضرورت واہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے ارشاد فرمایا: ” اطلبوالعلم ولو کان باالصین ” ترجمہ:علم حاصل کرو اگر چہ چین تک جانا پڑے ( الحدیث) یعنی مقصد , ہدف, (علم) کے خاطر اگر تمہیں دور دراز مقامات اور ان مقامات میں مصائب وآلام کا اگر سامنا کرنا پڑے تو خندہ پیشانی سے قبل کرلو لیکن حرف شکایت زبان پر نہ لاؤ ۔
حصول علم میں بڑی سے بڑی پریشانی لاحق ہو صبر کرتے ہوئے رب کی ذات پر بھروسہ رکھو۔اس امید اور حوصلے کے ساتھ کہ اے “معطئ حقیقی تو دافع البلاء ہے حصول علم میں مری تمام تر رکاٹوں کو درگزر اور دور فرما۔ حالانکہ کسی چیز کے متعلق کہنا جتنا آسان ہوتا ہے حاصل کرنا اتنا ہی مشکل۔ شاید اسی کی عکاسی کسی نے کیا خوب کیا تھا۔
اے علم ترے خاطر ہم کیا سے کیا بنے
منگتا بنے فقیر بنے ار کیا بنے
چنانچہ علم کا حاصل کرنا اتنا آسان نہیں جتنا لوگ سمجھتے ہیں۔ہمارے بڑے بوڑھوں نے (بزرگوں) نے اس کے حصول کے لئے کچھ اصول رکھے ہیں۔
معاف کیجئےگا !!! ان میں سے کوئی بھی شرط مفقود ہونے کی صورت میں آپ” اضاع العمر فی طلب المحال” کے صحیح مصداق ہونے کے ساتھ ضیاع وقت کے مجرم بھی۔ اور وہ یہ ہیں
یا اخی لن تنال العلم الا بستۃ
سانبیک عن تفصیلھا ببیان
ذکاء ,وحرص واجتھاد , وبلغۃ
وارشاد استاذ وطول زمان
(ازھارالعرب )
ترجمہ:اے مرے بھائی تو سوائے چھ چیزوں کے علم کو ہر گز نہیں پاسکتا,عنقریب اس کی تفصیل میں ایک وضاحت سے کروں گا
ذہانت, لالچ (حرص تعلیم ) انتھک محنت, اور زادراہ, استاذ کی رہنمائی,اور ایک لمبا زمانہ۔ جی! ہاں حصول علم کے لئے ان چھوؤں کا ہونا ضروری ہے۔
اے کاش!!! طالبان علوم دینیہ و عصریہ اس پر دل جمعی کے ساتھ عمل کرتے۔
مزید پڑھیں حصول علم سے انسان کا وقار بلند ہوتا ہے
دینی تعلیم کی فقط ایک مثال
میرے عزیز ! یہ تو طے ہے کہ ایک دانا بینا ہستی اور ایک غیردانا بینا دونوں برابر نہیں ہو سکتے ۔آئیے اپنے اس دعوے کی مزید توثیق تائید کے لئے آسمانی کتاب یعنی قرآن مجید سے حوالہ پیش کروں تب تو مزا آئے۔چنانچہ باری تعالی قرآن حکیم میں ارشاد فرماتا ہے ” قل ھل یستوی الذین والذین لایعلمون ” (القرآن)۔
ترجمہ:اے نبی آپ فرمادیجئے” کہ پڑھے لکھے( ڈگری ہولڈر)اور ان پڑھ یہ دونوں برابر نہیں ہو سکتے”
آئیے اس تناظر میں ایک چھوٹی سی مثال کے ذریعہ دینی تعلیم اور طالبان علوم نبویہ کا مقام ملاحظہ کرتے ہیں۔مکتب کی تعلیم کے بعد آپ کا اپنا بچہ کسی دینی درسگاہ میں داخلہ لیتا ہے ۔تقریبادس سال کی سعئ پیہم کے بعد والدین کریمین کی دعائیں رنگ لائیں۔جیسا کہ زمانے کا دستور ہے حیثیت بدلنے سے احکام بدل جاتے ہیں بعینہ ویسے ہی ایک متعلم معلم کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔
ایک طالب علم وارثین علوم نبویہ کا سچا اور پکا وارث بن جاتا ہے ۔ ایک مہمان رسول نائب رسول بن کر اسلام اہل اسلام کے لئے الفت ومحبت کی لاجواب سوغات پیش کرتا ہے۔ اعزہ اقربا محبین ومعتقدین میں خوشیوں کی ایک لہر دوڑنے لگتی ہے۔فارغ ہو کر اپنے اہل وعیال میں گھر آیا۔روز کی طرح آج بھی موذن نے صدائے توحید بلند کیا۔ بندگی کی سوغات لے کر رب کی بارگاہ میں اپنی جبین نیاز کو خم کرنے خانۂ خدا میں باپ بھی پہونچا بیٹا بھی پہونچا۔ آنکھوں میں خوشیوں کے آثار لے کر باپ امام صاحب کی بارگاہ میں عریضہ پیش کرتا ہے۔
امام صاحب آپ تو میرے فرزند ارجمند کو شروع ہی سے جانتے ہیں بلکہ مکتب کی تعلیم تو آپ نے ہی دیا تھا۔میری دلی تمنا ہے کہ سارے مقتدیوں کو آپ تو روز نماز پڑھاتے ہیں ذرا سا آج میرے بیٹے کو بھی اجازت دیں کہ مصلئ امامت کو سنبھالے۔مجھے بڑی خوشی ہوگی۔
امام صاحب نے کہاکہ کیوں نہیں بھائی باالکل مکتب کی تعلیم تو میں نے ہی دیا تھا۔ آپ کا بیٹا قرآن اچھا پڑھتا ہے۔ تجوید کی رعایت کرتا ہے۔بڑا پیارا لہجہ ہے اس لئے میری بھی خواہش ہے کہ آج مصلئ امامت یہی سنبھالے۔بڑا پیارا منظر تھا باپ کی تمنا بھی پوری ہو رہی تھی اور ایک مشفق استاذ کی خواہش بھی۔وارث انبیاء کا حق ادا کرتے ہوئے بحیثیت مقتداء آگے بڑھتا ہے۔ تکبیر تحریمہ کی شکل میں رب کی کبریائ کرتے ہوئے ہاتھوں کو ناف کے نیچے باندھ لیتا ہے۔
اب ایک وارث انبیاء کا مقام ملاحظہ کریں !! مزا آئے گا امام مقتدا کی حیثیت سے آگے اور سارے نمازی مقتدی کی حیثیت سے پیچھے۔ باپ بھی پیچھے,دادابھی پیچھے,استاذ بھی پیچھے,پیر صاحب بھی پیچھے, لیکن نیت کرتے وقت سب یہی کہتے ہیں” پیچھے اس امام کے” میں نے اس دینی رہنما کے باپ سے پوچھا “باپ کی تعظیم بیٹےپر واجب ہے ناکہ بیٹے کی تعظیم باپ پر” ذرا آگے کیا بڑھ گیا تو کیا ہوا۔ ایک کام کریں آپ نماز میں اس کی رعایت نہ کریں۔ بلکہ باپ ہونے کی حیثیت سے آپ ایک منٹ پہلے رکوع کریں,یا اس سے دو منٹ پہلے سجدہ کریں۔ یہی بات میں نے استاذ اور پیر صاحبان سے بھی کہی۔سب نے بیک زباں ہو کر کہا ” بحکم فقہاء کسی کی نماز نہیں ہوگی” ۔
وارث علوم نبویہ پر بلاوجہ طعن وتشنیع کرنے والے ,انہیں حقیر ذلیل سمجھنے والے میرے متشدد ومتعصب عزیزو! سوچنے اور غور کرنے کا مقام ہے۔ ہم انتھک کوششوں کے باوجود بغیر تعلیم نبوی کے اپنے ہی محلے کی مسجد کے امام کی طرح نہیں ہوسکتے۔ یارو!جس امام کی طرح ہم ہو نہیں سکتے اس امام کی عظمت شریعت مطہرہ کے نزدیک کتنا مہتم باالشان اور بلند وبالا ہوگا یہ ہم سوچ بھی نہیں سکتے۔تعجب بالائے تعجب! دنیا بھر کی رپوٹیں بتا رہی ہیں “کہ مسلمان تعلیمی امور میں کتنا پیچھے ہے” مسلمانوں کا تعلیمی بہت ڈاؤن ہے
امت مسلمہ کو اس پر غور و خوض کرکے اس شعر کا مصداق بننا چاہئیے کہ,شعر
اب ہواؤں کو برا کہنے سے کچھ نہیں ہوگا
اپنے حصے کا دیا خود ہی جلانا ہوگا
ہائے افسوس!جس مذہب میں وحی کی شکل میں قرآن کی پہلی آیت “اقراء “نال ہوئی ہو,اس مذہب کے ماننے والے تعلیم میں اتنا پیچھے افسوس کا مقام ہے۔جبکہ تعلیم یافتہ, ڈگری ہولڈروں کی تعلیم ہی کی وجہ سے ہمیشہ قدر رہی۔علم کے ذریعہ انسان کی قدر کبھی گھٹتی نہیں بلکہ سچ تو یہ ہے کہ علم ہی سے قدر ہے انسان کی وہی انسان ہے جو جاہل نہیں۔
اللہ رب العزت ہم سب کو تعلیم نبوی کی روشنی میں شریعت حقہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔
سابق استاذ / دارالعلوم اہل سنت فیض الرسول براؤں شریف
رابطہ نمبر :8115775932