ازقلم: محمد عبدالمبین نعمانی قادری معاشرے کے بگاڑ پر انوکھی نشتر کاری (انصاف کی بات)۔۔
معاشرے کے بگاڑ پر انوکھی نشتر کاری
خاکدان گیتی پر بسنے والے منصف مزاج انسانو! مندرجہ ذیل سطور جن کو ابھی میں نے سپرد قلم کیا ہے، صرف میرے دل کی آوازاور زبان و قلم کے نقوش ہی نہیں بلکہ انصاف وحقیقت کے ایسے بکھرے ہوئے جواہرات ہیں کہ جن کو ہر وہ انسان جس کے اندر انصاف اور حقیقت پسندی کی کچھ بھی رمق باقی ہوگی وہ انھیں قبول کرنے کے لیے مجبور ہوگا کیوں کہ ع
حقیقت خود کو منوا لیتی ہے مانی نہیں جاتی ۔
اسلامی فلسفہ اخلاق کے اصول و مبادی پر دنیا کے مفکرین کا اضطراب مُسلسل
ہم دیکھ رہے ہیں کہ پوری پوری آبادی اور قومیں بہت بڑے پیمانے پر اور بڑی ہی تیزی سے ان بدترین اخلاقی جرموں کا مظاہرہ کر رہی ہے جن کو ہمیشہ سے انسانیت کے ضمیر نے انتہائی نفرت و حقارت کی نگاہ سے دیکھا ہے،، بے انصافی، بےرحمی، ظلم و ستم، جور و استبداد،حق تلفی، جھوٹ، دغا، مکر، بدعہدی، خیانت، بےشرمی، نفس پرستی، استحصال اور ایسے ہی دوسرے جرموں کو محض انفرادی جرائم نہیں قرار دیا جاسکتا، بلکہ یہ سب قومی بداخلاقی کی حیثیت سے ظاہر ہو رہے ہیں۔
دنیا کی بڑی بڑی قومیں اجتماعی حیثیت سے وہ سب کچھ کر گزرتی ہیں جن کا ارتکاب کرنے والے افراد ابھی تک ان کے یہاں جیلوں میں ٹھونسے جاتے ہیں۔لیکن ان بڑی قوموں کو سزا دینے والا کوئی نہیں۔بنی اسرائیل میں بھی یہی ہوتا تھاکہ بڑے جرم کریں تو چھوڑ دیا جاتاتھا اور چھوٹے جرم کریں تو ان کوسزا دی جاتی تھی۔اسلام اس کاسخت مخالف ہے۔اسی لیے ایک مرتبہ پیغمبر اسلام ﷺ نے فرمایا: فاطمہ بنت محمد بھی چوری کرے گی تواس کا بھی ہاتھ کاٹا جائے گا۔آج پھر دور جاہلیت پلٹ آیاہےاور انسان اپنےکو اپنے ترقی یافتہ اورمہذب کہےجانےکے باوجود چھوٹے بڑے میں فرق کررہاہے۔ اور اس سلسلے میں حکومتیں ناانصافی کارویہ اختیار کرتی نظر آتی ہیں۔
ہر قوم نے چھانٹ چھانٹ کر عظیم جرائم کا ارتکاب کرنے والوں،قتل وخون کی وارداتیں اپنانےوالوں کو اپنا لیڈر اور سربراہ بنا لیا ہے اور ان کی قیادت میں حق تلفیوں اور بدکاریوں کی کوئی مکروہ سے مکروہ قسم ایسی نہیں رہ گئی ہے جس کا کھلم کھلا اور وسیع پیمانے پر وہ ارتکاب نہ کر رہی ہوں۔ہر قوم دوسری قوم کے خلاف جھوٹی باتوں کی اشاعت بھی کر رہی ہے، اور ہر جماعت آپس میں بھی متعصبانہ تصادم کا شدید طور پر شکار ہے۔تو انصاف کےدروازوں تک بھلاکیسے رسائی ہوسکےگی۔
زبان کی تباہ کاریاں پورا مضمون پڑھ شیئر کتنا نہ بھولیں
اس کو آج کے دور میں ایک حق کی حیثیت سے دیکھا جارہا ہے۔انسانیت کا پورا جسم اخلاقی طور سے سڑ گیا ہے۔آج سے قبل قمار بازی کے اڈے قحبہ خانے اور شراب خانے اخلاقی گراوٹ کے سب سے نچلے طبقے میں گنے جاتے تھے ، اب تو ہم جدھر نگاہ اٹھا کر دیکھتے ہیں یہی سب اخلاقی زوال کا قعر عمیق نظر آتا ہے۔
قومی پارلیمنٹس اسمبلیاں اور وزارت خانے عدالتوں کے ایوان اور وکالت خانے پریس اور نشریات کے دیگر ذرائع کالج اور یونیورسٹیاں بینک اور صنعتی کارخانے تجارت کی منڈیاں سب کے سب اخلاقی پستی کے شدید تر شکار ہیں جن کا ان ذلت آمیز قہر سامانیوں سے چھٹکارا نہایت ہی دشوار نظر آرہا ہے۔ انتہائی افسوس کی بات ہے کہ علم جو ایک عطیہ خداوندی اور انسانی جوہر عزیز ہے آج ملک و قوم اور انسانیت کی تباہی و بربادی کے لیے اس کااستعمال ہو رہا ہے اور وہ انسانی صفات جنہیں بہترین اخلاقی مقام حاصل ہے مثلاً شجاعت و بسالت، ایثار و قربانی، فیاضی و اولوالعزمی اور بلند حوصلگی وغیرہ آج ان کو بھی بداخلاقی اور انسانیت سوز تخریبی کارناموں کی بھینٹ چڑھا دیا گیاہے۔
یہ امر بدیہی ہے کی انفرادی برائیوں کے پایہ تکمیل کو پہنچ چکنے کے بعد ہی اجتماعی اور معاشرتی خرابیاں جنم لیتی ہیں، آپ کسی انجمن یا کمیٹی کے بارے میں آج اس بات کا تصور نہیں کر سکتے کہ اس کے اکثر کارکنان نیک خصلت اور بہترین کردار کے حامل ہوں گے،اسی وجہ سےاس کا مجموعی نتیجہ بدکرداری کی شکل میں سامنے آتا ہے
چنانچہ دیکھا یہ جا رہا ہے کہ نوع انسانی تمام ملی ثقافتی اور تہذیبی و تمدنی ترقیات کے باوجود ایک گہرے اخلاقی تنزل کی طرف انتہائی سرعت سے رواں دواں ہے، ان ساری بے جا ہنگامہ آرائی کے اسباب و علل اور اصول و مبادی پر جب غور کیا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ ساری انسانی آبادی جو اپنے اندر ایک متمدن صورت کی حامل ہے جس میں سلطنتوں کو چلانے والے وزراء، فوجوں کو چلانے والے جنرل، انسانوں کے مابین نزاعی معاملات میں فیصلہ صادر کرنے والے جج، معاملات انسانی کی بہتر سے بہتر تشکیل کے لیے قانون سازوں کی جماعت، انسانوں کو علم و شعور سے آشنا کرنے والے اتالیق، انسان کے معاشی ذرائع کو کنٹرول کرنے والے تُجَّار، صنعت گاھوں اور عمارتوں کو بیش از بیش ترقیات سے نوازنے والے انجینیر سبھی شامل ہیں
ان کے پاس بھلائی اور اخلاقی تعمیر کا کوئی تصور نہیں ہے بلکہ مذکورہ ہر ایک فرد اور گروہ اپنا الگ الگ معیار رکھتا ہے، اور ایک ہی متمدن ماحول میں رہتے ہوئے بھی ہر ایک کا رخ الگ الگ مقصود کی طرف پھرا ہوا ہے ۔کوئی نفسانی و جسمانی خواہشات کی تکمیل میں جو خوشی محسوس کرتا ہے اسی کو منتہائے مقصود تصور کرتا ہے کوئی اپنے اقتدار و حکومت کے نشے میں چور ہو کر عوامی بھلائی کا سبز باغ دکھاتا ہے اور اسی کو اخلاقی اور انسانی بھلائی کی بنیاد تصور کرتا ہےاور پھر اسی کے تحت وہ انسانی سوسائٹی میں ایک موزوں نظام اخلاق کی تعمیر کی بات سوچ رہا ہے اب ہر عقلمند انسان اس کے متعلق خود ہی سوچ سکتا ہے کہ اس طرح معاشرے کی تعمیر و ترقی بھلا کیسے ہو سکتی ہے۔
یہ ساری بدنظمی اور تَشتُّت جس کا میں نے ابھی خاکہ پیش کیا ہے محض بحث و مباحثہ اور علمی مقالہ نویسی تک ہی محدود نہیں بلکہ فی الواقع دنیا کے تمدن و تہذیب میں جو لوگ دخیل ہیں خواہ وہ کسی بھی عہدے پر ہوں بحیثیت کارکردگی، یہ سب خیر و شر اور صحیح و غلط جاننے کے لیے اپنے اپنے طور پر انہیں ماخذوں کی طرف رجوع کر تے ہیں جن کی طرف ان کاذہن نارسا رہنمائی کرتا ہے ،یہاں تک کہ جن چیزوں کو دنیا میں ہمیشہ سے جرم اور گناہ سمجھا جاتا رہا ہے آج کسی نہ کسی گروہ کی نگاہ میں وہ بھی خیر ہے یا مطلق خیر نہیں تو اضافی حیثیت سے ان کو خیر کے مقام میں لانے کی سعی کی جاتی ہے۔یہی وجہ تو ہے آج قحبہ خانوں،شراب خانوں ،قماربازی کےاڈوں کو لائسنس فراہم کیےجاتےہیں۔
اس کے برعکس جن بھلائیوں کو ہمیشہ سے انسان خوبی سمجھتا رہا آج ان میں سے اکثر کو حماقت اور مضحکہ نیز انسانی پستی اور تنگ نظری سے تعبیر کیاجاتا ہے ۔پہلے بھی جھوٹ بولاجاتا تھا مگر معیار ِاخلاق، سچائی ہی کو مانا جاتا رہالیکن آج کے فلسفوں نے جھوٹ کو سچ بنا دیا ہے اور جھوٹ بولنا ایک فن تصور کیا جانے لگا ہے نیز جھوٹے ہی کو معاشرے میں معیاری زندگی گزارنے کا مستحق قرار دیا جا رہا ہے ۔
مذکورہ بحرانی کیفیات پر نظر ڈالنے کے بعد ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس کا حل کیا ہے کونسے ایسے اصول و مبادی اختیار کیے جائیں جن سے اعلی اخلاقی کردار کی تعمیر ہوسکے، بلاتامل اس کا جواب یہ دیا جاسکتا ہے بلکہ یہی جواب ہے کہ اعلیٰ اخلاقی تعمیر کے لیے صرف وہی بنیاد صحیح اور قابل اعتناہے جو ہمیں اسلامی فلسفہ اخلاق میں نظر آتی ہے
کیوں کہ یہی خالق کائنات کا بخشا ہوا نظام حیات ہےاور بلاشبہہ اسلام ہی کے اندر اخلاق کے ایسے اصول پائے جاتے ہیں جن کے ہوتے ہوئے دنیا کے دیگر دانشوروں اور قانون سازوں کے بنائے ہوئے چند روزہ اصول و قوانین کو نا قابل اعتناسمجھنا ضروری ہے، ورنہ دنیا کے ان مفکرین اور قانون سازوں کو کوئی ایسا فطری قانون بنانا چاہیے جو انسانی فطرت سلیم کے عین مطابق ہو اور ایسا نہ ہو کہ کسی کے ذہن و فکر کے مطابق ہو اور کسی کے مخالف اور عقل سلیم اسے قبول کرنے کو کسی طرح تیار نہ ہو ،بلکہ اکثر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ موافقت کرنے والے بھی عرصہ قلیل کے بعد اپنے ہی متعینہ خطوط کو مسترد کر دیتے ہیں
غرض اس رد و قبول اور موافقت وناموافقت کا استمرار ،ساری دنیا کو اس بات کا چیلنج دے رہا ہے کہ آج کے اس ترقی یافتہ دور میں بھی جب کہ انسان اپنے علم و ادراک کی قوتوں کو صرف کرکے چاند تک رسائی حاصل کر چکا ہے اسلام ہی کے دامن میں پناہ لے کر اخلاقی قدروں کو پا سکتا ہے ورنہ فلک نشین سیاروں پر ترقی کے محلات ہمیں اس وقت تک بلند نہیں کر سکتا جب تک کہ اسلامی بنیادوں پرہم اپنے اخلاقی نظام کو درست نہ کرلیں۔
آج ہم مسلمان خوداخلاقی پستی کے شکار ہیں تودوسروں کو کیا کہیں تاہم کوشش کرنا اپنا کام ہے ۔آج مسلمانوں کو انفرادی طور پر اپنے اخلاق درست کرنے کی ضرورت ہے ۔ہمیں چاہیے کہ ہر ایک سے خندہ پیشانی کے ساتھ ملیں ۔ سب سے پہلے اہل و عیال کی اصلاح کی فکر کریں ۔ان کے اخلاق و کردار درست کریں، اور آپسی معاشرتی مسائل کے ٹھیک کرنےپر بھر پور توجہ دیں۔اہل و عیال کو آزاد ہرگز نہ چھوڑیں۔پھر پڑوسیوں سے اچھا سلوک کریں۔چاہے مسلم ہوں یا غیر مسلم ۔پھر رشتہ داروں قرابت داروں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئیں۔زکوٰۃ حساب سے نکالیں۔مستحقین میں تقسیم کریں، خاص طور سے ان کا خیال کریں جو مانگنے کے عادی نہیں نہ ان کے اندر مانگنے کی ہمت ہی ہے۔رشتہ داروں کو بھی زکوٰۃ کی رقم دیں اگر وہ مستحق ہوں۔
عریانیت ایک بڑا ناسور ہے
عریانیت معاشرے کا سب سے بڑا ناسور ہے ۔اس پر ضرور قدغن لگائیں ۔اور یہ کام اپنے گھر سے شروع کریں۔پھر ہو سکے تو پاس پڑوس والوں کو بھی نرمی سے سمجھائیں۔اور ان کو بتائیں کہ عزت چلی جاتی ہے تو واپس نہیں آتی ۔جوان بچیوں کو اسکولوں میں بھیجنے سے پہلے ہزار بارسوچیں اور سمجھیں اور پوری پردے کی پابندی اور وقت کی پابندی کے ساتھ ہی جانے دیں اور ہر وقت کڑی نظر رکھیں تاکہ کسی بھیانک صورت حال کا سامنا نہ کرنا پرے ۔اپنی بہو بیٹیوں کودروازوں اور بالکنیوں پربیٹھنے سےروکیں۔بازاروں میں گھومنےپھرنے سے بھی منع کریں،مرد مارکیٹ جائیں،عورتوں پر پابندی لگائیں۔
آج ایک گروپ ایسا پیداہو چکا ہے جو صرف نام کا مسلمان ہے بلکہ اسلام کو بدنام کرنے والا ہے مثلاً بہت سےبہ نام ِ مسلم افراد یہ کہتے نظر آرہے ہیں کہ
۔(۱)جسم کا معاملہ ہمارا ہے اس کو ہم اپنے اختیار سے جس قدر چاہیں چھپائیں اور جس قدر چاہیں کھلا رکھیں۔اس سلسلے میں کسی کو کچھ بولنے کی ضرورت نہیں ۔ہاں کیوں نہیں نام مسلمان ہے تو اسلام کو بولنے کی ضرورت ہے ۔یہ غیر اسلامی بولی اس وقت بہت عام ہورہی ہے ۔ایسا لگتا ہے کہ یہ لوگ بھول چکے ہیں کہ ہمارا جسم خدا کا ہے اس پر خدا اور رسول کی حکومت چلے گی ۔اگر ایسا ہوتا کہ یہ جسم آپ کا ہے تو ذرا مرتے وقت اپنا اختیار دکھا دیں۔ کہ یہ جسم میرا ہے ابھی مرنا نہیں چاہتا ،اے موت مجھ سے پرے ہٹ ۔
ظاہر ہے کوئی بھی ایسا نہیں کر سکتا نہ اس سلسلے میں کوئی اختیار کا مدعی ہے ۔تو جسم کی ستر پوشی کے بارے میں کہاں سے حق مل گیا کہ اس کو کوئی اپنا جتائے ۔اور جیسی چاہے بےحیائی کا مظاہرہ کرے ۔اس کو ایک مثال سے سمجھنے کی کوشش کریں کہ آدمی کسی کے کارخانے میں کام کرنے جاتا ہے تو اس کارخانے کے اصول اور اس کے مالک کا پابند رہتا ہے ۔
اپنی مرضی سے اس میں کچھ الٹ پھیر کرنےکی اس کو اجازت نہیں ہوتی ۔جو حکم ہوتا ہے اسی کے مطابق کام کرنا پڑتا ہے ۔ اس جسم کا بھی ایک مالک ہے اور وہی اس کا خالق ہے ۔ لہٰذا اس کو بھی اس خالق ومالک کا پابند بنانا ضروری ہے ۔ لہٰذا مذکورہ بالا جملہ انتہائی درجے کی ناحق شناسی اور حماقت پرمبنی ہے۔اوریہ ایک طرح کی بدخلقی بھی ہے۔
وجود زن سے ہے تصور کائنات میں رنگ
ٹی وی کی تباہ کاریاں
ٹی وی اوراس سے متعلق آلات کےذریعے جو بےحیائی اور بدکرداری کا سیلاب آیا ہے ۔اس نے تومعاشرے کو اور بھی زیادہ بگاڑ دیا ہے ۔نوجوان نسل تیزی سے اس کے ذریعے بدچلن اورخراب ہو رہی ہے ۔بہت کم لوگ ہیں جو ٹی وی اور ویڈیوکا صحیح اور ضروری استعمال کرتے ہیں۔اس کے برے اثرات اخلاق وکردار پر بھی پڑے ہیں او ر بےحیائی کو بھی فروغ ملا ہے ۔
آج ان آلات کو معاشرے سے الگ کرنا بھی ایک امر دشوار ہے۔اب دین دار اور صلح پسند حضرات جس قدر ہو سکے اصلاح کی کوشش کریں۔نوجوانوں کو دین دار بنائیں ۔ خوف آخرت دلوں میں پیدا کریں۔ بزرگوں کی روش پر چلنے کی تاکید کریں۔آخرت کےعذاب ثواب پر توجہ مرکوز کرائیں۔ خدا کے غضب سے ڈرائیں۔ دینی تعلیم سے آئندہ نسلوں کو ضرورآراستہ کریں۔عصری تعلیم میں بھی آگے بڑھنے کی تاکید کریں۔ تاکہ اس جہان رنگ و بو میں اپنا وقار بحال کر سکیں۔اپنی معاشی ضرور تیں پوری کرتے ہوئے دنیامیں خوش حال زندگی گزار نے کی راہ ہموار کر سکیں۔
مسلمانوں کو اپنی اخلاقی قدریں اجاگر کرنے کے لیےمعاشرے سے بداخلاقی ،بدکرداری ، شراب نوشی، قمار بازی(جو ا اور سٹے بازی )گالی گلوج ، چوراہوں پر فضول وقت گزاری کرکے زندگی برباد کرنے کی عادتِ بد کو دور کرنا ہوگا ،اس کے لیے باضابطہ اور منظم طور پر تحریک چلانی ہوگی۔صرف زبانی وعظ سے کام نہیں چلے گا۔اس کے لیے بھر پور جذبہ جہاد کی ضرورت ہے تب کہیں جاکرہماری نسلیں اصلاح پذیر ہو سکیں گی۔
ذیل میں کچھ اور ضروری امورہیں جن پر روشنی ڈالناضروری سمجھتا ہوں۔
نقلی سامان
نقلی سامان بنانا اور اس کو بیچنا،گھٹیا سامان بنانااور اچھا بتا کر مارکیٹ میں فروخت کرنا،حتیٰ کہ ڈپلی کیٹ دوائیں بناکر کمیشن بڑھا کر ان کو بازار وں میں لانااور بیمار انسانوں کی زندگی سے کھیلنا، نہایت بدترین جرم اور پرلے درجے کی بداخلاقی ہے ۔ چیک کرنے والوں اور ان کی چوری کرنے پکڑنے والوں کوایسی کمپنیاں ڈھیروں رشوت کی رقم دے کر انھیں خاموش کردیتی ہیں۔رشوت سےحکومتیں تک خاموش ہوجایا کرتی ہیں کہ اقتصادی چور ان کی بھی منہ بھرائی کردیتے ہیں۔یہ وبا تو آج بہت عام ہے ۔ اس کے خلاف بھی تحریک چلانے کی ضرور ت ہے۔ایسے معاملات میں کمپنیاں بھی مجرم ہیں اور دوکان داربھی۔
پھلوں اور سبزیوں کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے کھاد کی بھرماراور انجکشن کے ذریعے پھلوں اور سبزیوں کو جلد اگانے انھیں مارکیٹ میں لاکر پیسے کمانے کی فکر نےانسانی جسموں کوموسوم کرکےرکھ دیاہے۔حکومتیں اس جرم سے آنکھیں میچ رہی ہیں،اوران جسمانی صحت کےسوداگروں کو کھلی چھوٹ دے رہی ہے۔
ملازمت میں خیانت
واضح رہے کہ ملازمت مسلمان تو مسلمان اگر کسی غیر مسلم کی بھی ہو تواس کے ساتھ انصاف کرنا لازم ہے۔ملازمت میں خیانت کسی کی بھی جائز نہیں ۔اخلاق ، دیانت داری اور ذمہ داری کا تقاضا تو یہی ہے کہ ملازمت سرکاری ہو یا غیر سرکاری ، تعلیمی ہو یا کاروباری ہر ایک میں وقت کی پابندی ،حسنِ عمل،اور مخلصانہ جد و جہد کا بھر پور خیال رکھا جائے ۔کسی عہدے پر مامور ہیں تو ہرگز رشوت نام کی کسی چیز کی ہوا بھی نہ لگنے دیں ۔رشوت کے ایک ایک پیسے کو جہنم کی آگ تصور کیاجائے کہ حرام ہے ۔حدیث پاک میں آیا ہے کہ ” رشوت دینے والے اور لینے والے دونوں جہنمی ہیں “۔ دوسری حدیث میں آیا “حرام سے جو بدن پرورش پاتا ہے اس کے لیے جہنم کی آگ بہتر ہے “مسلمانوں کو چاہیے کہ پاکیزہ اصولوں کی پابندی کریں اوردنیا وآخرت دونوں جہان میں سرخرو ہوں۔
ملازمت کےدوران
غیر حاضر رہ کر حاضری بناناجھوٹ ہے ۔مکر وفریب بھی اور ان دنوں کی تنخواہیں حرام وناجائز۔مسلمانوں کو بطور خاص ایسی حرکتوں سے باز رہنا چاہیے ۔تاکہ خود بھی جہنم کی آگ سے بچیں اور ان کی یہ روش دوسرو ں کے لیے نمونہ بھی بنے ۔اس کے لیےتصور آخرت کو ذہن و دماغ اور احساس میں بسانا ضروری ہے ۔اگرفکر آخرت نہیں ، خدا کاخوف نہیں تو آدمی سب کچھ کر سکتا ہے ۔
اسی لیے سرکار دوعالم ﷺ نے فرمایا ” تقویٰ(پرہیزگاری اور خدا کا خوف ) ہر چیز کی جڑ ، بنیاد ہے “۔ اللہ عزوجل سے ہمیں اپنے لیےاخلاق عالیہ ، حسن عمل اور دیانت داری کی دعابھی کرتے رہنا چاہیے تاکہ ان امور خیر پر کاربندرہنے کا جذبہ بھی بیدار ہو اورخداتعالیٰ کی طرف رحمت سےتوفیق بھی نصیب ہو اور دوسرے بھائیوں کی اصلاح کی فکر بھی پروان چڑھے۔
کہنےکو تو بہت کچھ ہے ، اتنی ہی باتوں پر عمل ہو جائے تومیں سمجھتا ہوں کہ بداخلاقی ، بدکرداری ، بے حیائی کا جنازہ نکل سکتا ہے۔مسلسل جد و جہد کی ضرورت ہے ، امر بالمعروف و نہی عن المنکر(نیکیوں کی دعوت ، برائیوں سے روکنا)کو اپنا شعار بنا لینا اوراسے زندگی کے مقاصد میں شامل کر لینا ہوگا۔
از: مفتی محمد عبدالمبین نعمانی قادری
دارالعلوم قادریہ، چریاکوٹ
ضلع مئو،(یوپی)۔
9838189592