تحریر: آصف جمیل امجدی قلم کار کیسے بنیں ایک تجزیاتی مطالعہ
قلم کار کیسے بنیں
میرا یہ مشورہ ان احباب کے لیے ہے جو لکھاری و قلم کار بننے کا بیکراں جزبہ دل کے نہا خانوں میں رکھتے ہیں، پھر بھی یہ کام ان سے نہیں ہو پاتا… آخر ایسا کیوں؟ حالانکہ اس دور میں نئے قلم کاروں کا ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی جادوئی ہوا چل پڑی ہے ـ سوشل میڈیا پر دیکھا جائے تو حد نگاہ تک مختلف النوع تحریروں کی شادابی ہی شادابی نظر آتی ہےـ
سب سے پہلے تو آپ کو اپنے اندر سے ڈر،خوف وغیرہ اس طرح کے جتنے بھی منفی جرثومے ہیں اسے جڑ سمیت نکال کر پھینکنا ہوگاـ
دہکتا معاشرہ اور جہیز سماج کو ڈسنے والا زہریلا ناگ کا ضرور مطالعہ کریں
آپ کے پاس جملے کی کمی نہیں ہے کیونکہ ضخیم سے ضخیم کتابیں حفظ ہیں ـ اور یہ بات دعوے کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ آپ کے دماغ میں بے شمار لفظوں اور جملوں کی کائی لگی ہوئی ہےـ
بس آپ کو سب سے پہلے جس پر لکھنا ہے اسکے مواد کا مطالعہ کرنا ہوگا اور اپنی پوشیدہ صلاحیتوں کو دھیرے دھیرے ہی سہی لیکن ضرور عمل میں لانا ہوگا ـ مشقت تو بہت کچھ اٹھانی پڑے گی، جیسے کہ جب آپ پہلی بار کوئی تحریر لکھ لیں گے تو مارے خوشی کے اپنے دوست و احباب تک بھیجنا شروع کردیں گے
اس کے بعد اس انتظار میں رہیں گے کہ ابھی میرا دوست پڑھ کر کچھ تأثر دیگا لیکن ندارد، کئی بار تو تأثر ایسا ملتا ہے کہ دل مرغِ بسمل کی طرح تڑپ کر رہ جاتا ہےـ پھر بھی آپ کو ہمت و جرأت سے کام لینا ہے، کیونکہ اپنی دیرینہ خواب کی خوبصورت تحریروں کی عمارت کھڑی کرنی ہےـ اس کے بعد اس قدر آپ کو خوشی محسوس ہوگی کہ اس کا بدل ملنا مشکل ہوجائے گا ـ
یہ میرا اپنا ذاتی تجربہ ہے ـ قلم کار بننے کے اور بھی طریقے ہوسکتے ہیں، لیکن سب جاکر مطالعے کی دہلیز پر ہی سر پٹکتے ہیں ـ جب آپ مطالعہ کریں تو تحریر کے ساتھ ساتھ صاحبِ مصنف کے اندازِ تحریر پر بھی عمیق نگاہ رکھیں ـ
وجود زن سے ہے تصور کائنات میں رنگ
مطالعے میں زیادہ تر ماہنامے، رسائل اور اس وقت کے نئے قلم کاروں کی تحریروں کو رکھیں ، ان شاءاللّٰہ جلد ہی دیرینہ خواہش پوری ہوگی اور آپ ایک عمدہ نئے قلم کار بن کر سطحِ قرطاس و قلم پر ابھریں گے ـ
آصف جمیل امجدی