Sunday, October 20, 2024
Homeمخزن معلوماتبرہمنوں کی مضبوط سیاست بھارتیوں کمزور سیاست

برہمنوں کی مضبوط سیاست بھارتیوں کمزور سیاست

تحریر طارق انور مصباحی (کیرلا) برہمنوں کی مضبوط سیاست بھارتیوں کی کمزور سیاست

برہمنوں کی مضبوط سیاست

 برہمن اپنی قلت تعداد(ساڑھے تین فیصد ) کے باوجود بھارتی سیاست پر قابض ہیں،اوران کی سیاست میں استقلال وپائیداری ہے۔ کبھی برہمن قوم کانگریس کے جھنڈے تلے پورے ملک پر قابض رہی، اور ابھی بی جے پی کوآگے بڑھا کر ملک پر قابض ہے۔ دیگر قوموں کی کثرت تعداد کے باوجود ان کی سیاست ناپائیدار اور غیر مستحکم کیوں ہے؟

 اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ برہمن قوم صرف قیادت اپنے پاس رکھتی ہے اوربہت سے اعلیٰ عہدے بھی غیروں کوسپر د کردیتی ہے،اس سے دوسری قوموں کویہ سمجھ میں آتا ہے کہ یہ لوگ ہمارے خیر خواہ ہیں۔ملک کی آزادی کے لیے کسی برہمن کولیڈر نہیں بنایا گیا،بلکہ ایک گجراتی بنیا موہن داس کرم چند گاندھی کو افریقہ سے بلاکر لیڈر بنایا گیا،تاکہ کسی کو یہ شک بھی نہ ہوسکے کہ برہمن اپنی قیادت قائم کرنا چاہتے ہیں۔

بی جے پی کی لگام آرایس ایس کے پاس ہے،لیکن ایک اوبی سی (نریندرمودی)پرائم منسٹر اور ایک غیرہندو بنیا (امیت شاہ:جینی)ہوم منسٹر ہے۔آرایس ایس کی متعدد ملک گیرذیلی تحریکوں کے سربراہ غیر برہمن ہیں۔بی جے پی کی صدارت بھی غیربرہمنوں کوسپرد کردی جاتی ہے۔کانگریس گئی،بی جے پی آئی۔بھارتی سیاست کا سفربرہمن سے برہمن تک کا ہوا۔ 

جب یادو قوم نے پارٹی بنائی تواکثر اعلیٰ عہدے یادو پریوار کے پاس رہے۔دلتوں نے پارٹی بنائی تو اکثراعلیٰ عہدے دلتوں کے پاس رہے۔مسلمانوں نے پارٹی بنائی تواکثر اعلیٰ عہدے مسلمانوں کے پاس رہے۔ایسی صورت میں دیگر برادری اور دیگر قوم کے لوگوں کویہ محسوس ہوتا ہے کہ ہمیں صرف اس پارٹی میں اس لیے قبول کیا گیا ہے،تاکہ ہماری برادری اورہماری قوم کاووٹ اس پارٹی کوملتا رہے۔آخرکار وہ لیڈر اعلیٰ عہدہ نہ ملنے کے سبب مایوس ہوجاتا ہے۔ 

بعض لوگ جداہوکراپنی پارٹی بنالیے۔بعض کوجہاں ترقی اورفائدہ نظرآیا،ادھر نکل گئے۔ ہمارا نظریہ متحدہ سیاست کا ہے۔ خاص کر مسلمانوں کومتحدہ سیاست کی جانب مائل ہونا چاہئے، کیوں کہ ملک میں ہماری تعداد کم ہے۔ ہم اسی وقت دیگر سیاسی نظریات پر غالب آسکتے ہیں جب برہمنی انداز سیاست کواپنائیں۔

مول نواسی اقوام کی سب سے بڑی سماجی تحریک ”بام سیف“بھی ایس سی،ایس ٹی،اوبی سی اور مائناریٹی کمیونٹی کی متحدہ سیاست کی حامی ہے،جس میں سب کو مساوی ومناسب حقوق دئیے جائیں۔ بام سیف اور بہوجن سماج پارٹی کو کانشی رام نے بنایا تھا۔ مایا وتی کی غلط سیاست کے سبب بام سیف اب بہوجن سماج پارٹی کی حمایت نہیں کرتی۔موقع مناسب دیکھ کر بھیم آرمی کے چیف چندر شیکھر آزاد نے ایک سیاسی پارٹی (آزاد سماج پارٹی)بنالی اور آبادی کے تناسب سے حصہ داری کا اعلان بھی کردیاہے۔

مجھے ابھی مسلمانوں کے سیاسی مستقبل سے زیادہ مسلمانوں کی جان ومال کے تحفظ کی فکر ہے۔بام سیف اوربھیم آرمی کے مقامی لیڈروں سے مسلمان اپنے روابط بڑھائیں۔بی جے پی کے عزائم خطرناک ہیں۔

بام سیف کے چیف وامن میشرام نے کئی بار اعلانیہ اپنے خطاب میں کہاکہ بھارت کے مسلمان ہمارے خاندان کے لوگ ہیں،یعنی مول نواسی ہیں۔مسلمانوں کا ڈی این اے اور ہمارا ڈی این اے ایک ہی ہے۔ اگر باہر سے کچھ مسلمان آئے بھی تھے توتقسیم کے وقت سب پاکستان چلے گئے۔

 اب مول نواسی قوموں کے تعلیم یافتگان ہندو دھرم کوترک کرکے بودھ مت کی طرف مائل ہوچکے ہیں۔ بام سیف کا دائرۂ اثر جیسے جیسے بڑھتا جائے گا، امید ہے کہ مول نواسی قوموں کے دلوں میں برہمنوں نے جومسلم دشمنی بٹھا رکھی ہے،وہ بہت حدتک کم ہو جائے گی۔ہاں، مول نواسی قوموں میں بہت سے لوگ مسلم دشمن رہیں گے،اورآرین قوم تو ہرغیر آرین کے سرپر سوار ہی رہتی ہے۔ 

ان سب حالات کو مدنظررکھ کر ہی اب بھارتی سیاست میں وسیع اور پائیدار کامیابی کی امید رکھی جا سکتی ہے۔جو لوگ بلبلہ کی طرح ابھرنے اورپھر فنا ہوجانے کو ترجیح دیتے ہیں،ان کو خاص قوموں کی ناپائیدار سیاست کا رخ کر لینا چاہئے۔مستحکم سیاست وہی ہے جوبرہمنوں نے اپنائی ہے کہ صرف قیادت ان کے ہاتھ میں ہوتی ہے اور پھر اعلیٰ عہدے بھی وہ غیروں کو تقسیم کردیتے ہیں۔ 

برہمن سب کو اپنا غلام بھی سمجھتے ہیں اوران سے منسلک دیگر قومیں انہیں اپنا بھگوان اور بادشاہ گر بھی مانتی ہیں۔اگر کسی سے مخالفت کا خوف ہوتو برہمن اسے اپنا داماد بھی بنالیتے ہیں۔ جب بیٹی کا پیار ملے گا توکوئی اس کے پریوار کی مخالفت کیسے کرے گا۔ 

منوواد کے مشہور مخالف دلت لیڈر ڈاکٹر امبیڈکرکی دوسری بیوی برہمن تھی۔بہت سے مغل سلاطین کوبھی برہمنوں وراجپوتوں نے داماد بنا لیا تھا۔یہی حال یہودیوں کا ہے۔شیرفلسطین یاسر عرفات کی ایک بیوی یہودی تھی۔

 الحاصل متحدہ سیاست پر غور وفکر کیا جائے۔برادریانہ سیاست کی تباہی نظروں کے سامنے ہے۔ متحدہ سیاست کے نظریہ کے سبب میں سیاسی میدان میں علماوفقہا کو متحرک رکھنا چاہتاہوں،تاکہ وہ حسب ضرورت قوم مسلم کی شرعی رہنمائی فرماتے رہیں۔ خلافت کمیٹی میں جو علما شریک تھے،وہ متحدہ پلیٹ فارم پرنہ قوم کی شرعی رہنمائی کرسکے،نہ ہی خود کومحفوظ رہ سکے۔شعائر کفر اورکفریہ نعروں کے دلدادہ بن گئے۔

اس مضمون کو بھی پڑھیں کیا مسلم بادشاہوں نے جبراً  غیر مسلموں کو مسلمان بنایا

دین ہی اصل ہے

 لیکن دین وایمان انسانی قلوب میں محفوظ ایک امانت ہے،اس لیے انسانوں کی جان ومال،عزت و عصمت،ان کی معیشت وخوش حالی،حسب موقع مالی تعاون ودیگر فلاحی امورپر بھی توجہ دینی چاہئے۔ دین بھی بچائیں اور اہل دین کو بھی۔ مسجد کا تحفظ بھی کریں اورنمازیوں کی بھی حفاظت کریں۔فکر وسیع ہوتی جائے گی تودائرۂ عمل اوروسائل ترقی پذیر ہوتے جائیں گے۔

۔ 1853 میں ہنومان گڑھی اوربابری مسجد سے متعلق پہلاہندومسلم فسادہواتھا۔حکمت الٰہی کہ جس بابری مسجد تنازعہ کے نام پر 1853 سے آج تک یعنی قریباً دو صدی تک برہمنوں نے مول نواسی اقوام کو اپنی مٹھی میں دبائے رکھا۔ اب اسی کے بطن سے”ساکیت نظریہ“ جنم لے چکا ہے۔ ایودھیا کو ”ساکیت“بنانے کی تحریک مول نواسی قومیں شروع کرچکی ہیں۔تاریخوں میں ہے کہ اشوک سمراٹ کے زمانے میں ساکیت (اجودھیا)بدھ دھرم کا ایک بڑا مرکز تھا۔وہاں بہت بڑا بودھ ویہار (بودھوں کا مذہبی مقام)تھا۔

ساکیت نظریہ  فروغ پاتے ہی موریہ سلطنت کی یادیں مول نواسی اقوام کے ذہن میں تازہ ہوجائیں گی۔یہ بھی ممکن کہ برہمن قوم اشوک سمراٹ کو بھگوان کا اوتار یا برہمن قوم کا فرد بنا ڈالے۔

جب 1500   ق م میں آریہ قوم بھارت آئی توایک مدت بعدبھارت کی مقامی حکومتوں پرقابض ہوگئی اورملک کو”منوواد راشٹر“ (برہمن راشٹر)بنادیا۔600 قبل مسیح تا 550 قبل مسیح شودروں کے نند خاندان کی حکومت مگدھ میں قائم ہوئی،جس نے منوواد کو اکھا ڑ پھینکا۔

 برہمنوں نے اس کے خلاف ایک سازش تکشلا(پاکستانی پنجاب) میں رچی،اور اس حکومت کوختم کرنے کے واسطے نند خاندان کے ایک باغی فرد چندرگپت موریا(340 ق م-298 ق م) کا انتخاب کرکے اسے قوت دی، اور نند سلطنت کوشکست دے کر موریہ حکومت قائم کی گئی،اور پھر بھارت برہمن راشٹر بن گیا۔

چندرگپت کوفتح دلانے میں اس کے برہمن وزیر چانکیہ کا اہم کردارتھا۔چندرگپت کا پوتا راجااشوک سمراٹ نے بدھ دھرم اختیار کرلیا اور بھارت بدھ راشٹر بن گیا۔

موریہ سلطنت بھارت کی سب سے بڑی سلطنت تھی۔اس نے تمام بھارتی علاقوں کواپنے اندر شامل کر لیا تھا۔اس سلطنت کا خاتمہ 185 ق م میں ہوا۔موریہ سلطنت کے بعد مغلیہ سلطنت اورانگریزوں کے عہد میں بھارت کا رقبہ وسیع ہوا۔مغلوں نے بھارت کو ”سونے کی چڑیا“ بنایا اورانگریز بھارتی دولت کولوٹنے آ پہنچے، اور بھارت کو ٹکڑے کرکے واپس چلے گئے۔

منوواد کے خلاف مہاویر(599ق م-527 ق م)نے جین مذہب اور کچھ مدت بعد گوتم بدھ(480 ق م-400 ق م) نے بدھ دھرم کی بنیادرکھی۔بدھ مذہب کو تعجب خیز حدتک فروغ ملا۔ اسی عہدمیں بھارت میں موریہ خاندان کامہاراجا”اشوک“ (304 ق م-232 ق م)بدھ مذہب قبول کرچکا تھا،اسے دیکھ کربھارتی راجاؤں اور حکمرانوں نے بھی بدھ مذہب قبول کر لیا اوربھارت”بدھ راشٹر“ بن گیا۔اشوک نے چین،جاپان،لنکا،مصر،شام،یونان ودیگر ملکوں میں بد ھ مذہب کی تبلیغ کے لیے مبلغین کوبھیجا۔بدھ مذہب کی تبلیغ کے لیے کتابیں بھی لکھوائی۔اب ملک میں ”سناتن دھرم“(ہندودھرم) کازور ختم ہوچکاتھا۔ 

اشوک کا دارالسلطنت پاٹلی پتر (پٹنہ) تھا۔

 اشوک سمراٹ کے بعد رفتہ رفتہ بھارت میں طوائف الملوکی پھیلتی گئی،اور مختلف علاقوں کے راجاؤں نے خودمختاری اختیار کرلی۔ برہمنوں نے بدھ مذہب کے اثرات کوزائل کرناشروع کیا۔موریہ خاندان کے آخری راجا: برہ درتھ  کو اس کے برہمن سپہ سالار پشیا متر شنگ   نے  185 ق م میں قتل کرکے مرکزی حکومت پر قبضہ کرلیا۔اب شنگ حکومت یعنی برہمنی حکومت قائم ہوئی۔ 

اس نے بدھسٹوں پر بہت ظلم کیا، اور برہمن وادکوفروغ دیا۔بودھوں پر اس کا ظلم وستم تاریخوں میں مشہور ہے۔راجابرہ درتھ کو پشیا متر شنگ نے داماد بنالیا تھا، تاکہ مکمل بھروسہ رہے۔یہ سلسلہ قدیم ہے۔ اکبر بادشاہ کو اپنی بیٹی دے کر اسلام دھرم کو نیست ونابود کر نے ”دین الٰہی“ایجادکیا۔

 الحاصل یہ ممکن ہے کہ”ساکیت نظریہ“ فروغ پاتے ہی ملک بھر میں ہندو مت کمزور ہوجائے اور برہمن واد کو پسپا ہونا پڑے۔ موریہ سلطنت کے آخری راجا کو قتل کرکے ایک برہمن:پشئے متر شنگ نے حکومت پر قبضہ کیا، ساکیت کوایودھیا بنایا اور ہندومت کو دوبارہ فروغ دیا تھا۔بدھ ازم کوبھارت سے ملک بدر کیا اورمول نواسیوں کے قتل وغارت گری کا بازار گرم کیا۔بام سیف کے چیف نے برہمنی تحریروں کے حوالوں سے ثابت کیا کہ یہی پشئے متر شنگ ہی رام ہے۔دراصل معتبرتواریخ رام کے وجودپر خاموش ہیں۔

چوں کہ”ساکیت نظریہ“برہمنوں کے ذریعہ مول نواسی قوم کی حکومت اور افراد وعوام کی تباہی،ان پر سخت ظلم وجبر،بدھ مت کی بربادی اورمول نواسیوں کودوبارہ غلام بنائے جانے کی وسیع تاریخ کواپنے دامن میں سموئے ہے،اس لیے ممکن ہے کہ بھارتی تاریخ ایک نیا باب رقم کرے،اورمنوواد کو کئی صدیوں کے لیے دفن کر دے۔    ع/    آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا

طارق انور مصباحی (کیرلا)۔ 

ایڈیٹر:ماہنامہ پیغام شریعت (دہلی) ۔

Amazon   Havelles   Bigbasket   Flipkart

afkareraza
afkarerazahttp://afkareraza.com/
جہاں میں پیغام امام احمد رضا عام کرنا ہے
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments

قاری نور محمد رضوی سابو ڈانگی ضلع کشن گنج بہار on تاج الشریعہ ارباب علم و دانش کی نظر میں
محمد صلاح الدین خان مصباحی on احسن الکلام فی اصلاح العوام
حافظ محمد سلیم جمالی on فضائل نماز
محمد اشتیاق القادری on قرآن مجید کے عددی معجزے
ابو ضیا غلام رسول مہر سعدی کٹیہاری on فقہی اختلاف کے حدود و آداب
Md Faizan Reza Khan on صداے دل
SYED IQBAL AHMAD HASNI BARKATI on حضرت امام حسین کا بچپن