Saturday, October 19, 2024
Homeمخزن معلوماتاصحاب لوح و قلم کی ناقدری

اصحاب لوح و قلم کی ناقدری

 از محمد اشرف رضا قادری اصحاب لوح و قلم کی ناقدری 

اصحاب لوح و قلم کی ناقدری

 اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو مختلف قسم کے علوم وفنون اور بہت سی حکمتیں اور ہنر ودیعت فرمائے۔مدارس اسلامیہ کے فارغین بھی نوع بہ نوع کمالات اور خو بیوں سے آراستہ ہیں۔ کوئی میدان خطابت کے شہسوار ہیں توکوئی مفتی ومحقق ہیں ۔کوئی شعرو شاعری میں ید طولیٰ رکھتے ہیں توکسی کو رب تعالیٰ نے لوح وقلم کی مہارت عطا فرمائی ہے۔

کسی کو درس وتدریس کا جوہر ملا تو کوئی امامت وخطابت میں کا میابی کا سفر طے کر رہے ہیں۔ہر طبقے کے متعدد افراد ناقدری کے شکار ہیں ،لیکن قلمکاروں کی اکثریت کو اس مشکل کا سامنا ہے۔

ارباب تحریر کو ان کی قلمی خدمات پر عموماً کسی قسم کا معاوضہ بھی نہیں دیا جاتا ۔وہ بلا کسی اجرت ونذرانے کے محض خدمت دین یا قومی خدمات کے نام پر اپنا تحریری سلسلہ جاری رکھتے ہیں۔بہت سے عمدہ محررین کے مضامین ورسائل شائع بھی نہیں ہو پاتے ۔

جن قلم کاروں کی تحریریں شائع ہوتی ہیں تو کبھی ناشر وپبلشر احسان بھی جتاتے ہیں ،حالاں کہ صاحب تحریر کو ناشر وطابع کی جانب سے کوئی بدل خدمت بھی نہیں دیا جاتا ۔ جو تحریر انہوں نے رقم کی ہے ،وہ فی سبیل اللہ دینی خدمت ہوتی ہے۔ایسی صورت میں نا شر وپبلشر کا احسان جتانا بھی عجب محسوس ہوتا ہے۔

بسا اوقات اصحاب لوح وقلم پر یہ بھی الزام آتا ہے کہ کسی حرص وطمع میں فلاں کی مدح سرائی میں وہ رطب اللسان ہوئے ،حالاںکہ کسی کی سوانح نگاری یا کسی کے حیات نامہ کی ترتیب وتدوین کے وقت صاحب سوانح کے اوصاف حسنہ کا بیان لازمی طورپر کرنا ہوتا ہے۔ان کی حیات کے مختلف گوشوں کو صفحات قرطاس پر منتقل کرنا ہوتا ہے۔

 کبھی یہ الزام بھی عائد کیا جاتا ہے کہ مؤلفین اپنی کتابوں کی اشاعت کے لیے اہل ثروت سے کثیر رقم وصول کرتے ہیں اور بہت سی رقم اشاعت کے بعد بھی ان کے پاس محفوظ رہتی ہے ۔اس طرح اصحاب قلم نے حصول زر کی ایک صورت نکالی ہے۔ معترضین کا یہ خیال بھی غلط ہے

کیوں کہ ایک کتاب کی اشاعت پر اگر پچاس ہزار روپے خرچ ہوتے ہیں تو طباعت واشاعت کے لیے متعدد لوگوں سے رابطہ کیا جاتا ہے ۔ہر کوئی اس میں حسب مرضی حصہ لیتا ہے ۔اگر ایک ہی آدمی طباعت کا مکمل صرفہ ادا کردے ،اس کے بعد بھی دوسروں سے مطالبہ کا واقعہ درپیش ہوتو یہ ضرور قابل گرفت بات ہوگی ۔الحاصل بد گمانیوں سے پرہیز کیا جائے

یہ بھی خیال رہے کہ کسی کتاب کی طباعت پر صرف وہی رقم قابل شمار نہیں ہوسکتی جو پریس والے کو دی جاتی ہے،بلکہ کتاب کی کمپوزنگ ،ایڈیٹنگ وغیرہ پربھی رقم خرچ ہوتی ہے۔اسی طرح طباعت کے بعد مختلف مقامات پرکتاب بھیجنے کے واسطے ڈاک خرچ کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔الحاصل ارباب قلم کی حوصلہ شکنی سے پر ہیز کیا جائے ،کیوںکہ ہمارے یہاں تحریر وقلم کا شعبہ انتہائی کس مپرسی اوربے اعتنائی کا شکار ہے۔ محررین کو ہمت و حوصلہ دیا جائے ،تاکہ تلافی مافات ہوسکے ۔

مؤلفین ومصنفین نے ہی اسلامی تعلیمات کو نسل مابعد تک پہنچایا ہے ۔انسانی ذہن ودماغ قوی بھی ہوتو بھی اس میں خلل کے وقوع سے انکار نہیں کیا جاسکتا ،اسی لیے حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے قرآنی آیات کے نزول کے بعد اس کی کتابت کا اہتمام فرماتے۔عہد صحابہ کرام میں گرچہ ممانعت کے سبب احادیث طیبہ تحریر میں نہ آسکیں ،لیکن عہد تابعین میں خلیفہ راشد حضرت عمربن عبد العزیز رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حکم سے احادیث مبارکہ کی تدوین وکتابت کا اہتمام شروع ہوا ،پھر احادیث مقدسہ کے عظیم مجموعات جمع کیے گئے۔

امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فقہ کی تدوین فرمائی اور فقہی مسائل کو دفتروں اور رجسٹروں میں لکھوایا ۔رفتہ رفتہ حدیث وفقہ کے ساتھ دیگر علوم وفنون میں بھی تصنیف وتالیف کا سلسلہ شروع ہوا ،جوآج تک جاری ہے۔آج بھی محررین وقلمکاران خدمت دین ہی کے نیک جذبہ سے سرشار ہوکر دینی علوم وفنون اور مذہبی مسائل پر تحقیق وتدقیق اور تصنیف وتالیف کا فریضہ انجام دیتے ہیں ۔ان کا مقصداصلی رضائے الٰہی کا حصول ہی ہوتا ہے۔

ہاں ،یہ بات بھی سچ ہے کہ بعض لوگ محض نام آوری اور شہرت وجاہ پانے کے واسطے قرطاس وقلم سے مراسم استوار کرتے ہیں ۔اس حقیقت کے باوجود ہم کسی پر اسی وقت انگشت نمائی کرسکتے ہیں ،جب ہمیں کم ازکم ظن غالب حاصل ہوجائے کہ ان کا مقصد رضائے الٰہی کے علاوہ کچھ اور ہے۔

خدمت قومی اور خدمت دینی کے جذبہ سے سرشار قلمکاروں کی پذیرائی ہونی چاہئے ۔ان کی قابل قدر تصانیف وتالیفات پر انہیںانعام واکرام سے نوازنا چاہئے ۔عہد حاضر میں بعض صاحبان تحریر کو مختلف ایوارڈ سے سرفراز کیا گیا ،ساتھ ہی بہت سے ایسے محررین ہیں جو انعام یافتگان سے بھی زیادہ عمدہ تحریری کارنامے کر دکھائے ،لیکن وہ اعزاز واکرام سے سرفرا ز نہ کیے گئے ۔تاہم وہ دل برداشتہ نہ ہوئے اور اپنی راہ پر مسلسل رواں دواں ہیں۔

کیا بہتر ہوتا کہ ان فراموش کردہ اصحاب قلم کی بھی پذیرائی اور حوصلہ افزائی کا سامان مہیا کیا جاتا ۔ملک بھر کے قلم کاروں کی فہرست مرتب کی جاتی ۔ان میں جو انعام واعزاز کے اہل ہوتے ،انہیں ان کی عمدہ خدمات پر حوصلہ افزائی کی جاتی ۔اس طرح نسل مابعد کوترغیب ملتی اور اصحاب قلم کو مزیددینی وقومی خدمات کا شوق جاگتا ۔

ہمارے یہاں ہر طبقہ کے لیے معاش کے ذرائع موجود ہیں، مثلاً مدرسین کے لیے درس گاہیں موجود۔خطباوشعراکے لیے اسٹیج فراہم ،لیکن قلم کاروں کے لیے کوئی مستقل روز گار نہیں ۔اس بے توجہی کے سبب کام اس قدر نہیں ہوپاتا ،جتنا ہونا چاہئے تھا ۔

ہم آج شکایت کرتے ہیں کہ سنی علما نے کتابوں پر حواشی اورشروح نہ لکھے ۔اسلامی تاریخ پراردو زبان میں کوئی کتاب نہیں ۔فلاں موضوع پر کام نہ ہوسکا ۔اگر ماہر قلم کاروں کوفارغ البال کر دیا جاتا اور ان سے ان علوم وفنون کی تحریری خدمات حاصل کی جاتیں ،جن فنون میں وہ بطرز احسن تصنیف وتالیف کی اہلیت وقابلیت رکھتے ہیں توآج ہمیں یہ دن نہ دیکھنا پڑتا ۔اصحاب قلم کو اپنی معیشت کی فکر خود کرنی ہوتی ہے۔ ایسی صورت میں کام کتنا ہوگا ،یہ کسی سے پوشیدہ نہیں ۔

امام اہل سنت اعلیٰ حضرت قدس سرہ العزیز نے بھی فروغ اہل سنت کے دس نکاتی پروگرام میں اس جانب خاص توجہ دلائی ہے۔اگراس دس نکاتی منصوبہ پر عمل کیا جاتا توآج ملک ہند میں اہل سنت وجماعت کی کیفیت، موجودہ حالات سے بہت مختلف ہوتی۔ہم نے حقائق پرغور نہیں کیا اور اس پوزیشن میں آگئے ۔

امام اہل سنت علیہ الرحمۃوالرضوان نے تحریر فرمایا

۔(الف) حمایت مذہب ورد بد مذہباں میں مفید کتب ورسائل مصنفوں کونذرانے دے کر تصنیف کرائے جائیں۔

۔(ب) تصنیف شدہ اور نوتصنیف رسائل عمدہ اور خوش خط چھاپ کر ملک میں مفت تقسیم کئے جائیں۔

(ج) جو ہم میں قابل کار اور اپنی معاش میں مشغول ہیں ،وظائف مقررکرکے فارغ البال بنائے جائیں اورجس کام میں انہیں مہارت ہو،لگائے جائیں۔(ماخوذاز فتاویٰ رضویہ :جلد۱۲ص۱۳۳-رضا اکیڈمی ممبئی)

ملک ہند میں اہل سنت وجماعت کے یہاں قلم کاروں کا نہ کوئی اسٹیج ہے ،نہ کوئی ان کی کفالت کرنے والا ۔جس طرح قومی رقم مختلف امور میں خرچ کی جاتی ہے،اسی طرح اس مدمیں بھی خرچ کی جائے ۔اہل قلم بھی دینی ومذہبی خدمات ہی انجام دیتے ہیں ۔تاہم اس بے سروسامانی کے عالم میں بھی جو مخلصین میدان قرطاس وقلم میں جمے ہوئے ہیں ،وہ یقینا قابل مبارکباد ہیں۔

دینی ومذہبی کتابوں سے جتنے لوگ مستفید ہوتے ہیں ،اس کا اجر وثواب مؤلفین کو عطا کیا جاتاہے۔یہ بھی صدقہ جاریہ کی ایک قسم ہے۔جب تک وہ تصانیف موجود ہوتی ہیں ،ان کے مؤلفین کا تذکرہ اور ان کی یاد زندہ رہتی ہے۔گر چہ وہ دنیا میں موجود نہ ہوں ،لیکن ان کی تحریری خدمات انہیں زندئہ جاوید بنا دیتی ہیں۔

تحریری کاموں کے لیے اصحاب قلم کا فارغ البال اورمعاشی طورپر مطمئن ہونا ضروری ہے۔ ہرایک قلم کار ارباب ثروت سے منسلک نہیں ہوتے ،اس لیے ان کی تصانیف وتالیفات کی طباعت واشاعت بھی نہیں ہوپاتی ۔قابل قدر کتابوں کی تفتیش کے بعد اس کی اشاعت کا بھی نظم ہونا چاہئے ۔الحاصل ملک ہند میں اہل سنت وجماعت کے ذمہ دارافراد کو اس جانب توجہ دینے کی سخت ضرورت ہے ۔تصنیف وتالیف کا ایک مستقل شعبہ قائم ہونا چاہئے ،اور ماہرقلم کاروں کی جماعت سے ضروری موضوعات پرتصنیف وتالیف کی خدمات حاصل کی جائیں۔

 اعلیٰ حضرت امام احمدرضا قادری قدس سرہ العزیزکی تحریری خدمات بہت زیادہ ہیں۔ماضی قریب میں اتنا عظیم مصنف نظر نہیں آتا ۔آپ کی تصانیف وتالیفات کی تعداد ایک ہزار ہے۔مذہب اسلام میںامام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے تلمیذرشید امام محمد بن حسن شیبانی اور خاتم الحفاظ امام جلال الدین سیوطی شافعی کی تصانیف کی تعداد بھی قریباً ایک ہزار ہے۔یہ سب رب تعالیٰ کی رحمت اور حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی عطا تھی ۔اس کے ساتھ کچھ ظاہری اسباب بھی ہوتے ہیں۔

امام احمدرضا قادری فارغ البال تھے ۔معاش کی فکر انہیں بالکل نہیں تھی ۔ان کے والد گرامی امام العلما حضرت علامہ مفتی نقی علی خاں علیہ الرحمۃ والرضوان نے انہیں اپنی جائیداد سے ایک بڑا حصہ عطا فرمایا تھا ،تاکہ اعلیٰ حضرت قدس سرہ العزیز یک سوئی اور انہماک کے ساتھ دین متین کی خدمت انجام دیتے رہیں۔جاگیر وجائیداد کی نگرانی اور گھریلو امور کی دیکھ بھال اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کے منجھلے بھائی استاذزمن حضرت علامہ حسن رضاخاں قدس سرہ العزیز سرانجام دیتے تھے۔اس طرح اعلیٰ حضرت قدس سرہ القوی بے فکر ہوکر دینی خدمات سرانجام دیتے رہے۔

اگر اسی طرح ارباب قلم کی کفالت کی جائے تو بہت سے تحریری کارنامے سرانجام پا سکتے ہیں۔اکثر قلم کار اپنی معاش کے لیے کسی تعلیمی ادارہ سے منسلک ہوتے ہیں اور مدارس میں اتنی ذمہ داریاں ہوتی ہیں کہ انہیں تحریری خدمات سرانجام دینے کی مہلت کم ہی ملتی ہے۔ درسی اوقات کے علاوہ بھی مدرسین کو طلبہ کی نگرانی ،زیردرس کتابوں کا مطالعہ اور دیگر احکام کی بجا آوری کرنی ہوتی ہے۔ ایسی صورت میں ان سے بہت زیادہ قلمی خدمات کی امید وابستہ کرنا مشکل نظر آتا ہے۔ مدرسین ہی میں بعض مخلصین کسی طرح محنت ومشقت برداشت کرکے کچھ تحریری خدمات انجام دیتے ہیں۔کیا ہی بہتر ہوتا کہ اصحاب لوح وقلم کی کفالت کی جاتی اور وہ مکمل انہماک کے ساتھ تحریری خدمات سرانجام دیتے ۔

ملک ہند میں اہل سنت وجماعت کے درجنوں میگزین اور رسالے جاری ہوتے ہیں ۔ بعض ماہانہ ہیں ،بعض دوماہی اور بعض سہ ماہی ۔ملک بھرمیں کوئی میگزین ایسا نظرنہیں آتا،جو ممبرشپ کی رقم سے اپناخرچ نکال سکے ۔ہرایک میگزین کو اپنا صرفہ مکمل کرنے کے واسطے دوسرے وسائل کوبروئے کار لانا ہوتا ہے۔یہ قارئین کی بے توجہی کی ایک بڑی مثال ہے۔

ہمارے اکثر میگزین اردو زبان میں ہوتے ہیں۔ان رسالوں کے ذریعہ اردو زبان وادب کوبھی فروغ حاصل ہوتا ہے۔اگر علم دوست حضرات اور قارئین ان رسالوں کا تعاون کرتے ،ممبر شپ حاصل کرتے تو ذمہ داروں کی حوصلہ افزائی بھی ہوتی اور یہ رسالے بھی طویل مدت تک جاری رہتے۔اگر ماضی قریب کے دوتین عشروں کو دیکھا جائے تواس مدت میں بہت سے رسالے جاری ہوئے ،پھرچند سال یا چندماہ بعد ہی وہ دم توڑگئے۔ بعض ماہناموں نے دو ماہی یاسہ ماہی کی شکل اختیار کر لی۔سہ ماہی کو ششماہی یا سالنامہ بنا دیا گیا ۔

امام اہل سنت اعلیٰ حضرت قدس سرہ العزیز نے دس نکاتی منصوبہ میں تحریر فرمایا ’’ آپ کے مذہبی اخبارشائع ہوں،اور وقتاً فوقتاً ہرقسم کے حمایت مذہب میں مضامین تمام ملک میں بقیمت وبلاقیمت روزانہ یا کم سے کم ہفتہ وار پہنچاتے رہیں‘‘۔(فتاویٰ رضویہ جلد ۱۲ص۱۳۳-رضا اکیڈمی ممبئ)۔

امام اہل سنت نے یومیہ اخبار شائع کرنے کی ہدایت فرمائی ۔ ہمارا حال تویہ ہوچکا ہے کہ ماہانہ اور دوماہی وسہ ماہی نہیں سنبھال پارہے ہیں۔ایسی صورت میں کس قدر فروغ سنیت کی امید رکھی جائے ۔ یہ حقیقت بالکل واضح ہے کہ ہمیں قوم کی ذہن سازی کرنی ہوگی ۔ ذمہ داروں نے بھی اس جانب توجہ نہیں دی ۔

کیرلا میں سنی جمیعۃ العلما (سمستھا کیرلا)کی جانب سے ملیالم زبان میں ایک پندرہ روزہ اخبار پچاس ہزار کی تعداد میں شائع ہوتا ہے، حالاںکہ کیرلا ایک چھوٹی سی ریاست ہے ،نیز کیرلا سے باہر ملیالم زبان جاننے والوں کی تعداد بھی نظرنہیں آتی ،بلکہ ملیالم ریاست کیرلا کی ریاستی زبان ہے۔اس کے باوجود پچاس ہزار کی تعداد میں کسی پندرہ روزہ کی اشاعت اورعوام وخواص میں اس کی مقبولیت مسلمانان کیرلا کے حساس ہونے کی ایک واضح دلیل ہے۔ 

اردو زبان کا دائرہ ملک ہند میں بہت وسیع ہے۔اردو بولنے اور پڑھنے والوں کی تعداد کئی کروڑ ہے،پھر بھی ہمارے اسلامی ماہنامے ،دوماہی اورسہ ماہی وغیرہ صرف تین ،چار ہزار کی تعداد میں شائع ہوتے ہیں،نیزماہناموں اوررسالوں کی ایک بڑی تعداد قارئین کو بلا معاوضہ دینا ہوتا ہے،کیوں کہ لوگ سو، دوسوروپے کی ممبرشپ بھی حاصل نہیں کرتے۔یہ وقت کا بڑا المیہ ہے۔

 امام اہل سنت قدس سرہ العزیز نے مدرسین کے بارے میں تحریر فرمایا تھا کہ انہیں اچھا مشاہرہ دیا جائے ،تاکہ وہ یکسوئی کے ساتھ تدریسی خدمات میں منہمک ومشغول رہیں،لیکن مدارس اسلامیہ کا حال یہ ہے کہ آمدنی کا زیادہ حصہ تعمیراتی کاموں پر خرچ کیا جاتا ہے ۔مدرسین کا لحاظ ہی نہیں کیا جاتا ۔چونکہ اساتذئہ کرام قلت تنخواہ کے سبب قلبی طورپرمطمئن نہیں ہوتے ،اس لیے تعلیمی معیار بھی متأ ثر ہوتا ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ اعلیٰ حضرت قدس سرہ القوی نے فروغ اہل سنت کے لیے جوکچھ منصوبہ بندی فرمائی تھی ۔اب ہم لوگ اس کے برعکس جار ہے ہیں۔ یہ سوچنے کا مقام ہے۔ ہمیں مل بیٹھ کربھی غوروفکر کرنا چاہئے اور خود اپنی تنہائیوں میں اس پر غور کرنا ہوگا۔امام اہل سنت نے تحریر فرمایا : ’’ مدرسین کی بیش قرار تنخواہیں ان کی کاروائیوں پردی جائیں‘‘۔(فتاویٰ رضویہ جلد ۱۲ص۱۳۳-رضا اکیڈمی ممبئ)۔

امام اہل سنت علیہ الرحمۃ والرضوان کے دس نکاتی پروگرام کوبروئے کار لایا جائے ،اور فروغ اہل سنت کی عملی کاوش کی جائے۔خاص کر اہل سنت وجماعت شعبہ دعوت وتبلیغ کو بالکل نظر انداز کردیا ہے۔ دعوت وتبلیغ کی کچھ خدمت اپنے اپنے ذوق کے مطابق ائمہ مساجد اور خطبا ومقررین سرانجام دیتے ہیں۔ہمارے یہاںعالی شان مساجد اور عظیم الشان مساجد کی تعمیر ہورہی ہے ،لیکن شعبہ دعوت وتبلیغ سے بے اعتنائی کے سبب عوام مسلمین رفتہ رفتہ دیگر جماعتوں کے قریب ہورہے ہیں ،اور بہت سے لوگ گمراہ فرقوں سے منسلک بھی ہوچکے ہیں۔اب ہم ہندوستان میں اسی فیصد ہیں ،یا چالیس فیصد ؟اس پر غور کرنا چاہئے۔

شمس العلما حضرت علامہ قاضی شمس الدین جونپوری ( ۱۹۰۵؁ء- ۱۹۸۱؁ء) مؤلف ’’ قانون شریعت ‘‘جب جامعہ حمیدیہ بنارس میںصدرالمدرسین تھے تو رابعہ و خامسہ کے طلبہ کی دستاربندی کرکے انہیں مختلف مقامات پر بھیج دیتے ۔ایک مرتبہ کمیٹی والوں نے عرض کیا کہ حضور! رابعہ وخامسہ کے بچوں کی دستار بندی کا راز سمجھ میں نہ آ سکا ۔ آپ نے فرمایاکہ اگر ہم ان بچوں کو مدارس میں تعلیم دیتے رہ گئے تو بدمذہب فرقے تمام مساجد و مقامات پرقابض ہوجائیں گے

اورلوگوں کو گمرہی میں مبتلا کر دیں گے ،پھر ہم ان بچوں کوعالم وفاضل بنا کر کیا کریں گے،اس لیے ضروری تعلیم دے کر پہلے جگہوں پرقبضہ کرلیا جائے ،پھر کچھ بچوں کو اعلیٰ تعلیم سے آراستہ کیا جائے ،تاکہ بوقت ضرورت وہ کام آسکیں۔

الحاصل ہمیں دس نکاتی پروگرام ( امام اہل سنت امام احمد رضا خاں قادری قدس سرہ کے دس نکاتی پروگرام کو پڑھنے کے لیے کلک کریں) کے ہرحصے پر غور وفکر کرنا چاہئے ،اور فروغ اہل سنت کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہئے۔اب ملک ہند میں قوم مسلم کے حالات ایسے بدتر ہوچکے ہیں کہ اب اسلام وشریعت کے تحفظ کے ساتھ مسلما نوں کی حفاظت اور ان کے حقوق کی حصولیابی کے لیے بھی ہمیں قانونی لڑائی لڑنی ہوگی۔

ملک کوآزاد ہوئے ستر سال ہوچکے ،لیکن قوم مسلم کی حالت رفتہ رفتہ خراب سے خراب تر ہوتی جارہی ہے۔ مختلف قسم کی تنظیم وتحریک اور کمیٹی تشکیل دی جائے ،اور ایک تنظیم وتحریک کو اسی قدر ذمہ داری دی جائے کہ جس کو وہ بحسن وخوبی انجام دے سکے

از  قلم   محمد اشرف رضا قادری 

چیف ایڈیٹر ’’امین شریعت‘‘ (سہ ماہی)۔

نوٹ آن لائن خریداری کرنے کے لیے نیچے  دیے گیے لنک پر کلک کریں

afkareraza
afkarerazahttp://afkareraza.com/
جہاں میں پیغام امام احمد رضا عام کرنا ہے
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments

قاری نور محمد رضوی سابو ڈانگی ضلع کشن گنج بہار on تاج الشریعہ ارباب علم و دانش کی نظر میں
محمد صلاح الدین خان مصباحی on احسن الکلام فی اصلاح العوام
حافظ محمد سلیم جمالی on فضائل نماز
محمد اشتیاق القادری on قرآن مجید کے عددی معجزے
ابو ضیا غلام رسول مہر سعدی کٹیہاری on فقہی اختلاف کے حدود و آداب
Md Faizan Reza Khan on صداے دل
SYED IQBAL AHMAD HASNI BARKATI on حضرت امام حسین کا بچپن