از : محمد ایوب مصباحی مراد آباد تحریر براے مشق مضمون نگاری قسط دوم مقالہ نگاری: اصول و ضوابط قسط اول کے لیے کلک کریں
تحریر براے مشق مضمون نگاری
عزیزانِ گرامی! آج یہ مشقِ مضمون نگاری کے متعلق دوسری تحریر ہے جس میں ہم “مقالہ نگاری” کے بابت بعض ضروری چیزیں، کچھ اہم قواعد اور اور “مضمون نویسی“سے متعلق اربابِ لوح و قلم کی اسما اور ان کی کتابوں کا ذکر کریں گے۔ مقالہ نگاری میں دلچسپی رکھنے والے حضرات ان تمام باتوں کو خوب ذہن نشین کرلیں۔
ابتدائی طلبہ و طالبات جب کوئی مضمون لکھنا چاہتے ہیں تو اکثر انھیں ان چند باتوں کا سامنا ہوتا ہے، اولا انھیں یہ سمجھ نہیں آتا کہ کہاں سے شروع کریں؟ پھر دوسری پریشانی ان کے سامنے یہ آکر کھڑی ہوجاتی ہے کہ لکھتے لکھتے ان کے پاس الفاظ ختم ہوجاتے ہیں اور وہ اس الجھن سے سر کھجلاتے ہیں یااپنا قلم دانتوں میں دبا لیتے ہیں، اس سے ایک نقصان تو یہ ہوتا ہے کہ جب تھوڑی دیر سوچنے کے بعد وہ لکھنا شروع کرتے ہیں تو بسا اوقات ان کے مضمون میں سطروں کا باہمی ربط ٹوٹ جاتا ہے، ایک ڈر انھیں یہ بھی ستاتا ہے کہ ہم نے جو لکھا اسے پڑھ کر کہیں کوئی غلطی نہ نکالے۔
اس لیے جب ہم کوئی مضمون ترتیب دینا چاہیں تو چند باتیں ضرور خیال رکھیں
احساسِ کمتری اور احساسِ برتری کا شکار نہ ہوں کہ یہ کچھ کرنے نہیں دیتا، اگر ہم احساسِ برتری کا شکار ہیں تو اپنے سامنے دوسرے کو کچھ سمجھیں گے نہیں، اپنی تحریر کو سب سے بہتر اور خود ایک اچھا قلم کارکی خوش فہمی میں مبتلا رہیں گے تو اپنے اندر سدھار کی کوشش نہیں کرپائیں گے
اور اگر احساسِ کمتری کا شکار ہیں تو ہر وقت یہ رونا روئیں گے کہ ہم سے کچھ آتا نہیں یہ دونوں ہی فکر انسان کے لیے مضر ہیں بلکہ یہ ذہن بنا کر رکھیں کہ ہم اگربہت بڑے قلم کار بھی نھیں ہیں تو یہ سیکھنا ہمارے قبضے سے باہر بھی نہیں ہے۔ اگر یہ فکر دامن گیر رہی تو جلد ہی ان شاء اللہ عزوجل کامیابی قدم چومے گی۔
سب سے پہلے آپ کو جو کچھ لکھنا ہے اسے ذہن میں مستحضر کیجیے! نہ یہ کہ لکھتے جائیں اور سوچتے جائیں، اگر مواد کی کمی ہو تو اس سے متعلق کتابوں سے مواد فراہم کیجیے! ان کا مطالعہ کیجیے! اور پھر لکھتے وقت پوری توجہ اپنے مضمون پر مرکوز رکھیں
اگر آپ ابتدائی مضمون نگار ہیں یا صرف ابھی یہ پہلا مضمون ہے تو الفاظ کے داو پیچ، بیان کے نشیب و فراز اور محاورات و استعارات کے استعمال سے گریز کریں کہ اس سے ایک نئی مشکل کھڑی ہوسکتی ہے بلکہ آپ اپنے اوپر اعتماد رکھ کر کامل یکسوئی کے ساتھ ایسے لکھتے جائیں جیسے کسی دوست سے باتیں کررہے ہیں۔
قدیم “انشا پردازی” کا طریقہ یہ تھا کہ اصل مضمون سے پہلے ایک دو پیرا گراف کی تمہید ہوتی تھی لیکن اب اس سے احتراز کیا جارہاہے جس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ انسان کے پاس اب اتنا وقت نہیں کہ وہ آپ کی صفحہ دو صفحہ کی تمہید پڑھے بلکہ اب ہر کوئی اصلِ مقصود تک پہنچنا چاہتاہے، اس لیے زیادہ مناسب یہ ہے کہ آپ سطرِ اول ہی سے یا زیادہ سے زیادہ سطر دو سطر کی تمہید کے بعد اصل بات بیان کرنے کی کوشش کریں۔
اصول و قواعد
قاعدہ : ایک لفظ اردو زبان میں “لیے” ہے اور اس کے بارے میں اکثر لوگ متفکر ہیں کہ اسے “یاء” کے ساتھ”لیے“یا ہمزہ کے ساتھ”لئے” لکھا جائے اس سلسلے میں قاعدہ یہ ہے کہ اگر یاء سے پہلے والے حرف پر کسرہ(زیر) ہو تو اس کے بعد دو یا آئیں گی جیسے دیے، پیے،سیے،جیے وغیرہ۔
اور اگر “یاء“سے پہلے “زبر” یا “الف“یا “واوِ ساکن آئے تو “ہمزہ“سے لکھا جائے گا۔جیسے گئے، نئے، جائے، کھائے، پائے،سوئے روئے، دھوئے وغیرہ۔
قاعدہ :جن لفظوں کے آخر میں “ے“ہو اور اس سے پہلے الف یا واو ہو تو اس “ے“پر ہمزہ نہیں آئے گا۔جیسے گاے، چاے، پاے، واے، واسراے، تنگناے، بوے، سوے، کوے وغیرہ۔ اگر اس پر ہمزہ داخل کردیا جائے تو اس کا معنی ہی بدل جائے گا۔
قارئین !چند مثالیں ملاحظہ کریں۔”گاے” بغیر ہمزہ کے ایک جاندار کا اسم ہے اور ہمزہ کے ساتھ فعل مصدر(گانا) سے ہے۔اسی طرح لفظِ “جاے” بمعنی جگہ اسم ہے اور “جائے“(جانا) مصدر سے فعل ہے۔
چند ماہر قلم کار اور ان کی کتابیں
۔ “انشا پردازی” کے ایک ماہر قلم کار جنہیں دنیا رئیس القلم کے نام سے جانتی ہے علامہ ارشد القادری قدس سرہ کی ذات ہے۔” مشقِ مقالہ نگاری” کے خواہاں آپ کی کتاب “لالہ زار” کا مطالعہ کرسکتے ہیں
لالہ زار پڑھنا چاہتے ہیں تو آڈر کریں گھر تک کتاب پہنچ جاے گی
۔ 22/ج، اس میں سرِ فہرست جن کی زبان پر آنے کے لیے الفاظ ترستے ہیں سابق رکنِ پارلیمنٹ علامہ عبید اللہ خان اعظمی ہیں موصوفِ مذکور کا روزنامہ انقلاب میں مضمون شائع ہوتاہے جس سے آپ خوب استفادہ کرسکتے ہیں، اسی روزنامہ میں رئیس القلم علامہ ارشد القادری کے فرزندِ ارجمند غلام زرقانی صاحب کا مضمون بھی پیہم آتاہے، ابتدائی طلبہ و طالبات مسلسل مولانا نفیس احمد مصباحی صاحب کی تالیف “مصباح الانشاء “میں دیے گئے مضامین سے بہت ساری چیزیں سیکھ سکتے ہیں۔
اس کے علاوہ اور بھی عصرِ حاضر کے ماہر قلمکار ہیں اگر آپ ان کی تحریروں سے استفادہ کرنا چاہتے ہیں تو اسلامی پورٹل ویب سائٹس جیسے “ہماری آواز” ” ہماری فکر ” ” افکارِ رضا “وغیرہ پر ان کے مضامین کثرت سے آپ پڑھ سکتے ہیں، جس سے آپ کو بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا۔
علامہ سید تارب الحق قادری کی کتاب کے لیے کلک کریں
کتبہ : محمد ایوب مصباحی
استاذ دار العلوم گلشنِ مصطفی، بہادرگنج
مراداباد ،یوپی۔
اس مضمون کو بھی پڑھیں ہمارے لیے آئیڈیل کون ہیں