از قلم وزیر احمد مصباحی (بانکا) مسلم معاشرے میں قولِ لین سے بڑھتی ہوئی دوریاں؛ کیا یہ المیہ نہیں ہے؟
مسلم معاشرے میں قولِ لین سے بڑھتی ہوئی دوریاں
{موجِ خیال}
کہتے ہیں کہ جب کبھی کوئی غریب طبیعت یا ٹھاٹ باٹ و جاہ و حشمت سے عاری کوئی ادنی سا گمنام بندہ ہی اگر اخلاقی اقدار، امن و آشتی، پیار و محبت، شیریں کلامی، خندہ پیشانی اور قول لین و فراخ دلی جیسی تحسین بخش پونجیوں سے مالا مال ہو جائے تو پھر اسے ایک سنجیدہ اور انسانیت پسند معاشرے میں کبھی بھی غریب و نادار نہیں سمجھا جاتا. نیک طبیعتیں اسے عزت و تکریم ہی کی نگاہ سے نہارتی ہیں، قطع نظر اس سے کہ وہ اس کی ادنی سی کوتاہی اور لغزش پر اپنی انا کی پیاس بجھانے کے لئے تحقیر و تذلیل کا قلادہ اس کے گلے میں ڈال دے. نہیں، میرے خیال میں تو ایسا ہرگز نہیں ہوتا ہے. جی ہاں! خندہ پیشانی کا یہی تو وہ کرشمہ ہے، جو بڑے بڑوں کو بھی مذکورہ بالا اوصاف سے اتصاف و اتصال کے خاطر ان کے دلوں میں تحریک کی لو پھونک دیتا ہے
مگر جب ان ساری چیزوں کے برخلاف کوئی بندہ جنگ چھیڑ دے اور سرے عام دن کے اجالے میں کسی وسیع و عریض گزرگاہ پر اس کی دھجیاں اڑانے میں دیر نہ کر کے مکمل اس کے تار و پود بکھیر دے تو پھر ایک عام سا انسان بھی اسے قبیح اعمال کے سرد خانے میں ڈال دیتے ہیں اور اس کی طرف نظر الطفات ڈالنے سے ہمہ وقت گریز کرتا رہتا ہے، اگرچہ وہ شہرت و معرفت میں ڈوبی ہوئی شخصیت اور اپنے وقت کا ساہوکار ہی کیوں نہ ہوں.
مذہب اسلام میں بھی کرخت لہجے اور ترش انداز کلام سے انحراف کی بات کہی گئی ہے. وہ کسی بھی اینگل سے بندہ مومن کو اس بات کی قطعی اجازت فراہم نہیں کرتا کہ آپ کسی انسان سے (چاہے وہ آپ کا شناسا ہو یا نہ ہو) بغیر کسی سبب و رنجش کے دوران گفتگو اتاولے ہو جائیں اور آدابِ کلام سے تجاہل عارفانہ کا مظاہرہ کر کے اس کے خوبصورت حدود و ضوابط کی رسیاں توڑ کر بلکل اس طرح کوسوں دور نکل جائیں کہ افہام و تفہیم کی ساری ممکنہ راہیں بھی مسدود نظر آنے لگ جائیں. ایک مسلمان کو قطعی اس بات کی اجازت نہیں کہ وہ کسی فرد سے بھی عام بول چال میں ترش روئی کا مظاہرہ کریں.
محترم قارئین! یہ ساری باتیں صرف اس لئے تحریر ہوتی چلی گئی ہیں کہ بیتے چند برسوں میں جب میں دس روزہ چھٹیاں گزار کر وطن مالوف سے مادرِ علمی کے لیے عازم سفر تھا. جسیڈیہ (جھارکھنڈ) سے محمد آباد گہنہ (یوپی) تک مجھے بذریعہ ریل سفر کرنا تھا. ٹرین کی متعینہ وقت پر آمد سے قبل ہی میں اسٹیشن پہنچ چکا تھا. پلیٹ فارم بلکل مسافروں سے پر تھا اور میرے گمان کے مطابق تقریباً اکثر افراد اسی ٹرین سے آغازِ سفر کرنے والے تھے.۔
خیر میں نے بھی کچھ اوقات بطورِ انتظار ان کے ساتھ کاٹی اور پھر ٹرین آنے پر جیسے تیسے جلدی بازی میں اپنی جگہ ناپ لی. چند روز پہلے ہی ٹکٹ بنوانے کی بنا پر میری سیٹ
R. A. C. ( Reservation Against Cancellation )
ہو گئی تھی
جنرل ٹکٹ والے کچھ مسافروں کے ریزرویشن ڈبہ میں سوار ہو جانے کی بنا پر بھیڑ زیادہ ہو گئی تھی اس لیے اپنی جگہ تلاشنے میں کچھ دیر سی لگ گئی. آخر کار جب میں نے اس میں کام یابی حاصل کر لی تو دیکھا کہ ایک غیر مسلم معمر شخص اپنے مذہبی لباس زیب تن کیے ہوئے میری جگہ پر وراجمان تھے
اس لیے قریب جاتے ہوئے میں نے اس سے استفسار کیا کہ “انکل جی! یہ سیٹ آپ کی ہے کیا؟ اس پر اس نے جواب دیا” نہیں بیٹا! یہ سیٹ میری نہیں ہے. خیر آپ کا سیٹ نمبر کیا ہے؟ میں نے جب اس کی نشان دہی کر دی تو پھر وہ جھٹ سے کھڑے ہو گئے اور یہ کہتے ہوئے جگہ چھوڑ دی کہ “آئیے بیٹا! یہی آپ کی سیٹ ہے اس پر بیٹھ جائیے، میں سامنے والی سیٹ پر کسی طرح اڈجسٹ کر لوں گا “۔
خیر میں نے اپنا سامان رکھنے کے بعد اپنی جگہ پکڑ لی
. R. A. C
ہونے کی بنا پر رفیق سفر بننے والا شخص ابھی تک نہیں آیا تھا. اس لیے اس کی جگہ پر کوئی اور دوسرے صاحب وراجمان ہوئے اپنے انڈروائڈ سیٹ میں مصروف تھے. مختلف موضوعات پر لوگ باتیں بھی کرتے چلے جا رہے تھے اور اس وقت رات کے تقریباً آٹھ بج رہے تھے. ہندی تہذیب کے مطابق تو عام طور سے اس وقت یہاں کے باشندے کھانے پینے اور سونے کی تیاری وغیرہ کرتے ہیں
ہاں! اگر کہیں زیادہ سے زیادہ ہوتا بھی ہے تو میری دانست کے مطابق معمر افراد اور ٧٠،٦٠کی دہائی پار کر چکنے والے ضعیف حضرات بیڑی و کھینی کی محفل جمائے بطورِ داستان گوئی اپنے دن بھر کی کارکردگی سے ایک دوسرے کو باخبر کرتے رہتے ہیں.
خیر؛ گفتگو کا یہ رخ تو بڑا ہی دلچسپ ہونے کے ساتھ ساتھ کرکٹ میچ کی مقبولیت کو خوب خوب اجاگر کرتا ہے. جب میں نے سامنے والے بوگی میں بڑی بڑی مونچھوں والے ایک کڑیل نوجوان سے (جو اس وقت ہو رہے انڈیا اور آسٹریلیا کے درمیان کرکٹ میچ میں دونوں ٹیموں کی کارکردگی کو اپنے بڑے سے موبائل کی اسکرین پر دیکھ رہا تھا) بینائی سے محروم تقریباً اپنی زندگی کی ٧٠، کی بہاریں دیکھ لینے والی بڑی بڑی سفید مونچھ والی نحیف جان کو اپنے داہنے ہاتھ کی کپکپاتی ہوئی ابہامی انگلی سے بایاں ہاتھ کی ہتھیلی پر کھینی کی مالش کرتے ہوئے بڑی شدت کے ساتھ لاغر آواز میں دونوں ٹیموں کی کارکردگی کے متعلق استفسار کرتے دیکھا.۔
پھر چند ہی لمحے بعد اس نے کچھ نامور کھلاڑیوں کے نام پر گفتگو کی چھور کاٹ دی. خیر جو بھی ہو، مگر ایک بات تو ضرور ہے، اور وہ یہ کہ اس بابا کے چہرے کا جغرافیہ اس حقیقت کی بھر پور ترجمانی کر رہا تھا کہ نہیں، یہ میاں تو کرکٹ سے عاشق دھتورا کی حد تک لگاؤ رکھتا ہے
جی! گفتگو سنتے ہوئے اسی اثنا پھر مجھے اپنے رختِ سفر کے سہارے کب نیند نے دبوچ لیا کچھ کہ نہیں سکتا. رات کے کچھ پہر گزر جانے کے بعد تو میرے ساتھ ایک ایسا عجیب واقعہ پیش آ گیا جو نیند کی ساری خمار توڑ دینے کے لیے کافی تھا. قلب و روح اچانک اضطراب کے شکار ہو کر رہ گئیں اور خانہ عقل میں وہ ہیجان سا برپا ہو گیا جو اس غریب وجود کو جھنجھوڑ دینے کے لیے کافی تھا. رات کے تقریباً ١٢،بج رہے تھے. پورے ڈبہ میں لائٹ آف کیے تمام مسافر محو آرام تھے. اسی درمیان ایک کڑیل نوجوان سیٹ سے برخاستگی کو لے کر میرے پاس اس طرح آ دھمکا کہ مانو جیسے کوئی حادثہ فاجعہ پیش آ گیا ہو اور اب بس تمام مسافر پلک جھپکتے ہی اس کی چپیٹ میں آ کھڑے ہوں گے. جوں ہی نیند سےآنکھیں کھلی تو دیکھا کہ ایک دیوہیکل شخص غصے میں شرابور مجھے اپنی جگہ سے اٹھنے کی اس طرح پر زور درخواست کر رہا ہے
. (حالانکہ میں اپنی جگہ پر بیٹھا تھا) کہ اگر کہیں چند لمحے کی بھی تاخیر ہوئی تو پھر خیریت نہیں ہے. اور شومئی قسمت تو دیکھیے کہ اس پرخطر وقت میں مجھے دور دور تک کوئی ایسا چہرہ بھی نظر نہیں آ رہا تھا جو فی الوقت وطنِ عزیز کی فرقہ پرستی اور نفرت بھرے ماحول میں میری طرف سے دو بول ہی بول سکے. محض یہی سوچ سوچ کر دل بلکل بیٹھا سا جا رہا تھا کہ اس وقت تو ویسے ہی مسلمانوں کے خلاف ملک بھر کی فضا فرقہ پرستوں و شرپسندوں نے اس قدر مکدر کر دیا ہے کہ انھیں دن کے اجالے میں بھی گھر سے باہر قدم رکھتے ہوئے ڈر سا لگتا ہے، میں تنہا ہی سفر پر ہوں؛کہیں ایسا نہ ہو کہ اسی وقت ہی زندگی سے ہاتھ نہ دھونا پڑ جائے
میں نے بجھے بجھے ایک دبے ہوئے لہجہ میں اس شخص اجنبی سے بھیا کہ کر گفتگو کرنے کی جرآت کی اور اس سے نرم کلامی کی بھیک مانگنا چاہی کہ کسی طرح معاملہ رفع دفع ہو جائے. لیکن وہ اس طرح تلخ تیور کے ساتھ سینہ تانے بلکل ڈٹ کر میرے سامنے کھڑا تھا کہ مانو اب جنگ کی ابتدا ہی ہونے والی ہے
جی! وہ تو بس پھر پھر اپنی ہی باتیں کہے جا رہا تھا اور میری تو ایک بھی سننے کے لیے تیار نہیں ہو رہا تھا. پھر اسی درمیان بلکل اس طرح چلا کر اس نے مجھ سے ٹکٹ دکھانے کی حکم کر ڈالی کہ بوگی میں سوئے اکثر مسافر کی آنکھیں کھل گئیں اور ہر ایک کی نظریں ہم دونوں ہی کی طرف جم گئیں. اب تک میں بلکل خاموش تھا کہ کب یہ تھمے اور کچھ گزارش کروں. لیکن وہ رکنے کا بلکل ہی نام نہیں لے رہا تھا
جب یہ ناجائز زیادتی اس ضعیف غیر مسلم شخص (جو ابتدا ہی میں میری جگہ سے اٹھ کر سامنے والی سیٹ پر بیٹھ گیا تھا) نے دیکھی تو پھر اس سے واقعی رہا نہ گیا اور اپنی انسانیت نوازی و بھائی چارہ کا مکمل ثبوت پیش کرتے ہوئے اپنی خاموشی توڑ دی اور اس کی بھر پور خبر لی. میری طرف سے اس معمر شخص نے اس طرح کرارا جواب پیش کیا کہ پھر وہ بلکل تھم سا گیا. سچ پوچھیں تو اس انسانیت نوازی کے جوش میں اس ضعیف شخص کا چہرہ بلکل سرخ ہو گیا تھا اور ایسا لگ رہا تھا کہ اب یہ چچا اس کی چونچلی منہ نوچ لیں گے اور ساری رہی سہی کسر تو نکال ہی دیں گے.
یہ دیکھ کر میری طبیعت اور مزید ہلکان ہونے سے بچ گئی کہ چلیں اس غریب وقت میں کوئی تو ہے جو بھائی چارہ اور انسان دوستی کا مظاہرہ کر رہا ہے. وہ بھی ایک ایسے وقت میں جب کہ پلوامہ حملہ کو لے کر نفرتوں کے بازار کچھ زیادہ ہی گرم ہیں. یقین مانیں تو دل ہی دل سے اس ضعیف شخص کے خاطر بےشمار دعائیں نکل رہی تھیں کہ آج ہندی گنگا جمنی تہذیب کا وہ خوبصورت منظر جو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا. جس کی بنا آزادی کے وقت ہمارے پروجوں اور مجاہدین جنگ آزادی نے بڑی امید سے رکھی تھی
چند ہی لمحے کی گفت و شنید کے بعد جب ماحول کچھ شانت ہوا اور تمام مسافروں نے ہماری طرف سے نگاہیں پھیر لیں تو پھر میں نے چپکے سے دبے لہجے میں اس شخص سے اسم گرامی کے ساتھ ساتھ منزل مقصود اور وطن مالوف کے متعلق سوال کر دیا. دوران گفتگو اس نے آگاہی دلائی کہ وہ سمستی پور سے آ رہا ہے اور کچھوچھہ مقدسہ کے لیے عازم سفر ہے. نام پوچھنے پر اس نے کسی اسلامی نام سے آگاہ کیا. مزید استفسار پر معلوم ہوا کہ اس کے ساتھ ایک خاتون بھی ہے جو اسلامی نقاب پہنے بازو والی سیٹ پر بیٹھی ہے
سچ پوچھیں تو اتنی حقیقت سامنے آنے اور اسلامی تشخصات کے عیاں ہو جانے پر خانہ عقل و دانش ایک عجیب کشمکش اور غیر شعوری طور پر منتج ہونے والے بےشمار سوالات کے گھیرے میں بندھ گیا. ایک ایسا حصار قائم ہو گیا کہ جہاں صرف سوالات و شبہات ہی نظر آ رہے تھے.وہ بھی محض یہ سوچ سوچ کر کہ آخر ایک مسلمان بندہ مقام مقدسہ کی حاضری اور مخدوم اشرف سمناں کی نگری میں اپنی حاجت روائی کی بھیک مانگنے کے لیے جانے والا ابھی چند ہی لمحے قبل اس طرح ترش روئی اور قول لین کے بجائے بلکل ڈھٹائی کے ساتھ حسن اخلاق کی دھجیاں کیوں کر اڑا رہا تھا؟ ۔
کیا اسے سرورِ کائنات صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا یہ خوبصورت فرمان یاد نہیں؟ جس میں آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے اس بات کی خبر دی ہیں کہ “لوگوں میں سب سے زیادہ محبوب اور آخرت میں مجھ سے سب سے زیادہ قریب اچھے اخلاق والے لوگ ہوں گے”. (الترغيب و الترتیب،٤/٣٦)۔
اسی طرح قرآن کریم میں خود اللہ رب العزت نے بھی قول لین سے لیس ہونے کا حکم صادر فرمایا ہے. پرور دگار عالم نے دو غظیم پیغمبر حضرت موسی و ہارون علیھما السلام کو نرم کلامی سے مزین ہونے کے متعلق ارشاد فرمایا ہے کہ :” تم دونوں فرعون سے نرمی سے گفتگو کرو تا کہ وہ نصیحت پکڑے یا خوف کھائے”۔
آپ ذرا دیکھیں اور حقیقت حال جاننے کی کوشش کریں کہ کیا یہ امراور واضح فرمان ہم جیسے ایک عام انسان پر لاگو نہیں ہوتا؟ کیا ہمیں اس بات کی ضرورت نہیں ہے کہ ہم ترش روئی کے بجائے قول لین سے اپنا رشتہ ناطہ جوڑ لیں؟ جب کہ یہ خصلت تو بلکل سراہے اور حسن اخلاق کی بلند و بالا کسوٹی پر فائز کیے جانے لائق ہے
جی ہاں! آج کے اس زوال پذیر معاشرے اور اخلاقی انحطاط و حسن کردار کی سخت قحط سالی میں جب کہ عیش و تنعم کی لالہ زار میں اپنی شبشتان حیات کاٹنے والے غرور و گھمنڈ سے چور افراد اس سے متصف ہونے میں اپنی قصرِ شان اور بلکل کھلی توہین تصور کرتے ہیں،اس طرح کے فرامین خدا و رسول ﷺ سے خود کو بھی سنوارنے اور اسے عام و تام کرنے کی سخت حاجت ہے
اسلام اپنے ماننے والوں سے اس بات کی درخواست کرتا ہے کہ اس کے متبعین میں سے جاننے والے افراد نہ جاننے والوں کو اچھی اور قیمتی باتیں بتائیں،تا کہ ایک خوشگوار معاشرہ وجود پا سکے اور ہادی و عامل دونوں رب کی بارگاہ میں سرخرو ہو سکیں. واقعی؛ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ اگر ہم کوئی دینی پروگرام اور محفل منعقد کر رہے ہیں تو عوام الناس کو حسن اخلاق کے فضائل و خصوصیات سے متعلق کچھ نا کچھ ضرور باتیں بتائیں، تا کہ وہ اس کی اہمیت و افادیت کا درست اندازہ کرکے اسے اپنی زندگی کا ایک اٹوٹ حصہ بنا سکے.
آج عوامی چندے کے بل بوتے بڑی بڑی کانفرنسیں اور ملکی سطح پر جلسے جلوس بڑی دھوم دھام سے منعقد کیے جاتے ہیں،بے شمار بازارو خطبا اور ممبر رسول پر بے جا جھوٹی نام و نمود کے خاطر گلا پھاڑ پھاڑ کر نعت پڑھنے والے نعت خواں حضرات بھی تو شریک ہو جاتے ہیں
مگر افسوس کہ وہ حسن اخلاق، شیرنی گفتار، اور خوبصورت انسانی عادات و اطوار پر ہرگز لب کشائی کرنے کی زحمت برداشت نہیں کرتے اور ایک رات کی موٹی و اچھی خاصی رقم اینٹھ کر اپنی جیب گرم کر لے جاتے ہیں. جی جناب! ایسے وقت میں ضرورت اس بات کی ہے کہ کچھ پڑھے لکھے افراد درسگاہوں سے نکل کر کانفرنسوں کی دنیا میں بھی قدم رکھیں اور دینی جلسوں کا وہ مجاز جو ان مال و زر کے محبین نے استوار کیا ہے، اسے تبدیل کریں،اس کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لیں اور چندے کے نام پر موصول ہونے والی عوامی دولت کو درست مصرف میں صرف کریں
یاد رکھیں! اگر ایسا ہو گیا اور خاص طور پر مدارس کے طلبہ و فارغین نے اپنے فارغ اوقات کو اس نہج پر عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی تو پھر ضرور ایک نا ایک دن ہمارا معاشرہ اس طرح کی اخلاقی انحطاط سے پرے اٹھ کر امن و امان اور سلم و سلامتی کا خوبصورت گہوارہ بن جائے گا. بس، اے کاش! اگر کسی طرح شاعر مشرق کا یہ خوبصورت قیمتی پیغام خانہ دل میں اتر جائے تو شاید بات ہی بن جائے کہ..
یہی ہے رختِ سفر میر کارواں کے لیے | نگہ بلند، سخن دلنواز، جاں پرسوز |
(مضمون نگار: جامعہ اشرفیہ مبارک پور کے ریسرچ اسکالر ہیں)