تحریر : غلام جیلانی مرکزی( قسط دوم) اردو ادب کےفروغ میں مدارس اسلامیہ کاکردار قسط اول پڑھنے کے لیے کلک کریں
اردو ادب کےفروغ میں مدارس اسلامیہ کاکردار
مدارس کےاردوادب کی خدمات کاایک روشن پہلو یہ ہےکہ ان اداروں کےپروردہ فضلاءنے اپنی تحریراورتقریرسےنہ صرف ہندوپاک اورنیپال بلکہ سات سمندرپاربھی اس اردو کوپہونچادیےہیں اورآج عرب وعجم کےبیشترجگہوں میں لوگ اس زبان کی حلاوت سےلطف اندوزہوتےہیں
اس کےفروغ میں بادشاہان وقت اورصوفیائےکرام کےعلاوہ خطیبوں، شاعروں ادیبوں اورفنکاروں نےکلیدی کرداراداکیاہےبادشاہ اورنگ زیب سےلے کرصوفی سید محمد حسینی المعروف بہ خواجہ بندہ نوازاوراحمدرضابریلوی کےبعدآج جنہیں اردوکےاساطین کہاجاتا ہے یعنی سرسیداحمدخان، علامہ شبلی نعمانی اورخواجہ الطاف حسین حالی وغیرہ کتنےایسےفضلائے مدارس ہیں جن کےذکرکےبغیراردوادب ناقص ہےـ
احمدرضابریلوی کی اردوشاعری سےکسےمجال انکارہےاصناف شاعری کاوہ کون ساصنف ہےجوان کی شاعری میں موجود نہیں؟۔
حقیقت تویہ ہےکہ آج کےشعراء انکی شاعری سے نئےنئےاستعارات ،کنایات اوربحریں نکال ریے ہیں ان کی اردوشاعری کی مقبولت کااندازہ اس سےلگایاجاسکتاہےکہ ابھی حال ہی میں ترکیوں نے ان کی شاعری کواپنی زبان میں ٹرانسلیٹ کرکےاپنے ملک میں متعارف کرایا کیایہ اردوادب کی مقبولیت نہیں؟اس کے علاوہ سینکڑوں فضلائےمدارس ایسےہیں جن کی اردوخدمات کاایک عالم معترف ہےـ
اگران کی اردوخدمات دیکھنی ہوتوکوئ بھی قدیم یاجدیداردواخباریارسالہ اٹھاکردیکھ لیجیےان کےقیمتی مضامین ومقالات پہلی نظرمیں مل جائینگےان کی ایک بڑی تعداد اردوادب ،اردوشاعری اورصحافت سےوابستہ ہےظاہرسی بات ہےان کی ان خدمات کا کریڈٹ مدارس اسلامیہ کوہی ملےگا جس نےان کی ایسی پرورش کی ہے ـ
اردو زبان کےفروغ میں مدارس اسلامیہ اور اس کےفضلا کا جو نما یاکردارہے اس کےاعتراف میں ڈاکٹر شکیل احمد لکھتےہیں کہ:۔
۔”اردوکی قبولیت اور اثرپذیری کےصدیوں طویل ارتقائی سفر میں دربار، دبستان، خانقاہ اور بازارسبھی کچھ آئے لیکن جس گروہ اور جس اکائی نےاردوزبان وادب کوبہت زیادہ فیض پہنچایا اور متاثر کیاوہ علمائے دین و مدارس و مکاتیب اسلامیہ ہیں۔“۔ (سہ ماہی دعوت حق ص223جون 2004تامئ2005خصوصی شمارہ)۔
اس کتاب کو خریدنے کے لیے کلک کریں اور آڈر کریں کتاب آپ کے گھر تک پہنچ جاے گی
ہندوستان میں جو مدارس اور ان کے فضلااس میدان میں سرگرداں ہیں ان افراد کا نام لیے بغیرچند مدارس کا ذکرکرتا ہوں کیوں کہ اہل علم ان کے فضلاسےبخوبی واقف ہیں جامعہ رضویہ منظراسلام بریلی، جامعہ اشرفیہ مبارک پور،جامعہ فاروقیہ بنارس،جامعہ نظامیہ حیدرآباد،جامعہ نعیمیہ مرادآباد
دارلعلوم دیوبند اور لکھنؤ وسہارنپور کے چندمشہور مدارس کےاسماء سرفہرست ہیں جہاں مختلف ملکوں کےطالبان علم داخلہ لیکراردوسیکھتے ہیں اور پھر اپنے ملکوں جیسےنیپال، بنگلہ دیش،مارشیش، عمان افریقہ وغیرہ ممالک میں اس کی اشاعت کرتے ہیں
مگر افسوس ہے کہ آج تک ہم نےان مدارس اوران کے فضلا کوان کی خدمات کے مقابل مقام نہیں دیا۔( قسط اول کے لیے کلک کریں )۔
تحریر: غلام جیلانی مرکزی گلبرکہ کرناٹک
رکن تحریک فروغ اسلام شعبۂ نشرواشاعت