تحریر : شاہ خالد مصباحی سدھارتھ نگری قوم سے حاصل ہوئی کیا کیا پشیمانی مجھے
قوم سے حاصل ہوئی کیا کیا پشیمانی مجھے
گزشتہ چند سالوں سے فسطائی طاقتوں نے مسلم دشمنی کی بنا پر جو بھی زہر آلود حربے ہمارے خلاف آزمانہ چاہیں ہیں ۔۔ %/99 یہ سب کے سب اپنے مقصد میں کام یابی سے ہم کنار ہوتے ہوئے نظر آئے ہیں بلا کسی اصل وجہ کے ساری آزمائشوں کا توڑ قوم مسلم پر دھڑلے سے کرتے ہوئے نظر آنے میں بھی عالم کا کوئی سا خطہ بھی ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اعتراضات قائم کرنے کی جسارت نہیں کرتا ۔
اس لیے اب وہ وہ جان چکے ہیں کہ اس کا کوئی پائیدار جواب ، ہماری طرف سے سوائے خاموشی کے کچھ نہیں آئے گا ! ۔۔۔ اور ہمارے یہاں تو چند روز شوشل میڈیا کے بہتے ہوئے دریا میں ایک قطرہ آنسو ڈال کر اپنے فرائض سے سبک دوشی کا ٹھپا تو مل ہی جاتا ہے آخر کیا غرض جہد مسلسل اور پیہم کوششوں کے قربانیوں کو پیش کرنے کی۔۔؟
میں نہیں سمجھتا کہ ظالم دستوں اور ان کے تسلط والے آنے ممالک میں کہیں ایسا نہ ہوتا ہو جہاں ہر روز سو سے زائد مسلمانوں کا دھڑللے سے قتل نہ کیا جاتا ہو۔۔۔۔ ( بی بی سی رپورٹ)۔
عالم پر مسلمانوں کے قتل عام کی ایک الگ فضا برپا ہے ۔۔
لیکن ایک سادہ سیمپل سوال ہے کہ کسی بھی امن کے حامی کے اندر اس کے خلاف آواز اٹھانے کی جسارت پیدا کیوں نہیں ہوتی ۔۔۔؟
آج یہ اسلام اور مسلمانوں کے دشمن ہمارے معاشی اقتصادی نظام کو جہاں بحران و تباہی کا شکار بنانا چاہتے ہیں ۔۔۔۔۔وہیں پر ہند اور بیرون ہند میں ہمارے وجود کو مٹانے کی باتیں بھی کی جارہی ہیں ۔۔۔ جس کی عمل خیزی میں دن بہ دن اضافہ ہوتا ہوا ہماری شجاعت پر داغ و دھبا لگتا ہوا چلا جا رہا ہے۔۔۔!
جو یقینا حساس مند طبقوں کے لیے قابل افسردہ ہے ۔۔۔ اور ضرور قوم مسلم کے ہر ایک فرد کو اس معاملے کو لے کر پورے سنجیدگی سے غور وفکر کرنی چاہئیے __۔
ہر روز یہ اسرائیلی ہمارے خلاف منصوبوں کو بناکر اپنے مفکرین کے فکر کی ایک الگ الگ سی دستاویز بناتے ہیں ۔۔۔ لیکن افسوس۔۔! ہم نے صرف آپسی اتحاد کو پھانسی کے پھندے پر لٹ کر روز بروز امت مسلمہ کو ایک نئے تنازع سے دو چار کیا ہے __۔
طارق انور مصباحی ( ایڈیٹر ماہنامہ پیغاز شریعت دہلی) کا یہ خوبصورت مضمون ضرور پڑھیں
ہم خود کو سنبھالیں اور قوم کی صالح رہ نمائی فرمائیں
قارئین کرام ۔۔!۔
اب انٹرنیٹ کے سب سے بڑے سرچ انجن گوگل نے بھی ہمارے اوپر ظلم و ستم کی ایک الگ سی گھڑی لا کر کھڑا کی کہ دنیا کے نقشے سے فلسطین کا وجود ہی مٹا دیا ہے اور نئے نقشے میں جغرافیائی اعتبار سے فلسطین کو اسرائیل کا حصہ دکھایا گیا ہے۔ جو کہ قوم مسلم کے لیے ایک مکمل مجسمات بربادی کا پتہ دیتی ہے_۔
ہماری ذات کی شناخت و پہچان ایک وسیع الظرف ویب سائٹ سے ہٹانے کیں۔۔۔ آخر گوگل کو کیا ضرورت پڑ گئی۔۔؟
لیکن سوشل میڈیا پر میری قوم کا ایک طبقہ ابھی سر گرم ہوا جب ساری داستان رامائڑ ختم ہوگئی ۔۔۔ یہ واقعہ آج 25 / جولائی 2016 کا ہے کہ گوگل نے فلسطین کی تاریخی اور جغرافیائی حیثیت کو پس پشت ڈالتے ہوئے نیا نقشہ جاری کیا تھا جس میں فلسطین کا وجود ہی موجود نہیں تھا
اگر گوگل کے سرچ بار میں فلسطین لکھ کر سرچ کیا جائے تو آج بھی فلسطین کے بجائے اسرائیل دکھائی دیتا ہے اور غزہ اور فلسطین کی حدود کو اسرائیل کا حصہ دکھایا جاتا ہے۔
اس سے فلسطینیوں میں غم و غصہ کی ایک مضبوط لہر دوڑی تھی ۔احتجاجات بھی باعتبار عادت قائم تھا ۔۔
مگر یہ عادت و فطرت جب اسی چیزوں کی عادی ہوچکی ہیں تو اس کا رزلٹ کتنے محاذ تک کامیابی کے راستوں کو طے کرے گا اسے ہم سب بخوبی سمجھ سکتے ہی_۔
عالم کا ایک بڑا طبقہ ، کل بھی خاموش تماشائی بنا ہوا تھا جب ہزاروں فلسطینوں کی جانیں اسرائیلیوں کے ہاتھوں سے لقمہ اجل بن رہیں تھیں ۔۔۔
اور آج تک بھی سراپا خاموشی کا پیکر بنے ہوئے ہیں
جب گوگل کی دنیا سے نقشہء فلسطین مٹایا جا چکا ہے
کچھ تو بیدار ہوئے مولا تو سہی ۔۔۔! لیکن اب بہت دیر ہو چکی جاگنے والے ۔۔۔! ۔
وقت جب دینے لگا تعلیم نادانی مجھے | عقل سے حاصل ہوئی کیا کیا پشیمانی مجھے |
سماجی کارکن زیک مارٹن نے گوگل کے اس اقدام کے خلاف اسی وقت آن لائن پٹیشن کا سلسلہ شروع کیا تھا جو آج بھی جاری ہے ۔۔۔۔ جس میں گوگل سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ فلسطین کو دنیا کے نقشے پر دکھایا جائے جب کہ پٹیشن میں کہا گیا ہے کہ دنیا کے نقشے سے فلسطین کو مٹانا وہاں کے لاکھوں عوام کے جذبات سے کھیلنے کے مترادف ہے۔
قارئین کرام۔۔۔!۔
گوگل نے یہ جان بوجھ کر کیا ہے یا کسی اور وجہ سے تاہم یہ بات واضح ہے کہ گوگل اسرائیلی حکومت کی جانب سے فلسطین کی نسل کشی کی سازش میں شریک ہورہا ہے۔ پٹیشن میں عوام سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ آن لائن پٹیشن پر دستخط کریں اور گوگل کو پیغام دیں کہ اسرائیلی حکومت فلسطین کی زمین پر قابض ہے اس لئے دنیا کے نقشے پر فلسطین کو دوبارہ دکھایا جائے۔۔۔۔۔
بات نکلی تو ہر ایک بات پر رونا | کبھی خود پر کبھی حالات پر رونا |
مولا ہم سب کی حفاظت فرما آمین
از قلم : شاہ خالد مصباحی سدھارتھ نگری