ڈاکٹر کفیل کی رہائی کیوں نہیں؟ ۔۔✍ غلام صمدانی رضوی علیمی رکن:تحریک فروغ اسلام(شعبہ نشر و اشاعت
ڈاکٹر کفیل کی رہائی کیوں نہیں
یوپی کے متھرا جیل میں بند “ڈاکٹر کفیل خان” ان بے گناہ مظلوموں میں سے ایک ہے جسے یوپی کی طاغوتی سرکار نے اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے مشق ستم بنایا ہے۔
جی!ہاں! ۱۲/دسمبر ۲۰۱۹ء کو اے ایم یو(علی گڑھ مسلم یونیورسٹی) میں سی اے اے اور این آر سی کے خلاف بیان دینے والے ڈاکٹر کفیل خان کو یہ کہ کر سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا کہ انہوں نے اپنے بھڑکاؤ بھاشن سے علی گڑھ کے ماحول کو خراب کیا ہے
انہوں نے پروگرام میں موجود ۶۰۰ طلبہ میں ہندو،سکھ،عیسائی اور پارسی قوموں کے لیے نفرت اور دشمنی پیدا کی ان کے بھڑکاؤ بھاشن سے متاثر ہو کر یونیورسٹی کے ۱۰/ہزار طلبہ نے شہر میں کوچ کرنے کی کوشش بڑی مشکل سے پولیس انھیں روک پائ ورنہ شہر کا امن و چین بگڑ جاتا۔الزامات میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ۱۵/دسمبر کو طلبہ نے پولیس کو جان سے مارنے کی نیت سے فائرنگ کی جس میں کئی آفیسر اور پولیس والے گھائل ہوے۔طلبہ نے سرکاری سمپتی کو نقصان پہنچایا ہے۔
۔۲۸/دسمبر ۲۰۱۹ء کو یوپی اس ٹی ایف(اسپیشل ٹاسک فورس) کی ٹیم نے ڈاکٹر کفیل خان کو ممبئی ائیرپورٹ سے گرفتار کیا۔پہلے تو انھیں علی گڑھ جیل میں لایا گیا پھر کچھ دیر بعد ایمرجنسی متھرا جیل ٹرانسفر کر دیا گیا۔۱۰/ فروری کو عدالت نے ڈاکٹر کفیل خان کو یہ کہ کر ضمانت دے دی کہ ان کا بھاشن بھڑکاؤ بھاشن نہیں تھا اور ساتھ ہی یہ بھی آدیش دیا کہ وہ اس طرح کی سرگرمیوں میں شرکت نہیں یں گے۔
عدالت کے آدیش کے بعد بھی جب ڈاکٹر کفیل خان کو رہا نہیں کیا گیا تو ۱۳/فروری کو ان کے بھائی عدیل خان پھر کورٹ گئے عدالت نے پھر سے رہائی کا حکم دیا۔عدالت کے دوبارہ آدیش آنے کے بعد فسطائ طاقت نے اپنی سفاکی کا اظہار کرتے ہوے ڈاکٹر کفیل خان کو رہا کرنے کی بجاے ان کو این اس اے(نیشنل سکیورٹی ایکٹ) کے تحت دوبارہ جیل میں بند کروا دیا۔
ڈاکٹر کفیل خان پر این اس اے لگنے کے بعد یوگیندر یادو (سوراج ابھیان) نے تشویش ظاہر کرتے ہوے کہا کہ “میں علی گڑھ یونیورسٹی کے اس پروگرام میں موجود تھا۔ڈاکٹر کفیل خان نے اپنے بیان میں کوئی ایسا لفظ استعمال نہیں کیا جو دیش کے خلاف ہو یا سمویدھان کے خلاف یا پھر دو سماجوں میں جھگڑا پیدا کرنے والا ہو۔
لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ یوپی سرکار کی ڈاکٹر کفیل خان سے اس قدر دشمنی کیوں؟کیا وجہ ہے کہ یوپی سرکار ڈاکٹر کفیل خان کو رہا کرنا نہیں چاہتی؟ ڈاکٹر کفیل خان پر این اس اے کیوں لگایا گیا؟کیا ان کا جرم وکاس ڈوبے جیسا ہے؟کیا انھوں نے بی جی پی نیتا کپل مشرا کی طرح پولیس ادھیکاری کے سامنے بھیڑ اکٹھا کر کے دنگے کروانے کی دھمکی دی تھی؟کیا ڈاکٹر کفیل خان تبریز انصاری کے قاتلوں جیسا مجرم ہے؟
نہیں!ڈاکٹر کفیل خان تو بی آر ڈی میڈیکل کالج گورکھ پور میں آکسیجن کی کمی کے باعث مرنے والے بچوں کی جان بچانے والا ایک مسیحا ہے،جس نے چھٹی پر رہنے کے با وجود ہاسپیٹل میں آکر ۵۰۰/آکسیجن سلینڈر کا اہتمام کروایا۔
ڈاکٹر کفیل خان تو ایک ایسا جانباز انسان ہے جس نے بہار میں سیلاب جیسے حالات میں بھی گھر گھر جا کر بچوں کو چمکی بخار سے نجات دلائی۔ایک ایسا بے گناہ شخص ہے جس کے سینے میں دیش کی خدمت کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔
ڈاکٹر کفیل خان کی غلطی صرف اتنی ہے کہ اس نے حکومت کی ناکامیوں کو لوگوں کے سامنے پیش کیا۔ڈاکٹر کفیل خان ان ۷۰/بچوں کے والدین کو جنھوں بی آر ڈی میڈیکل کالج میں اپنے ننھوں کو گنوا دیا تھا انصاف دلانے کے لیے حکومت سے جنگ لڑ رہے تھے۔
ایسے بے گناہ انسان کو ضمانت ملنے کے باوجود جھوٹے الزامات میں پھنسا کر جیل کی قید و بند میں رکھنا دیش کی شبیہ کو خراب کرتا ہے۔دیش کے وقار کو مجروح کرتا ہے۔
یوپی سرکار سے میری گزارش ہے کہ وہ اپنے انتقام کی آڑ میں دیش کی شبیہ کو خراب ہونے سے بچائیں۔
کفیل صاحب سے متعلق آپ مزید اس تحریر کو بھی پڑھ سکتے معلومات میں اضافے کے لیے ازقلم ۔۔ احمد حسن سعدی امجدی
نوٹ :۔۔۔ اگر آپ آن لائن خرید داری کرتے ہیں تو نیچے لنکوں پر کلک کرکے کرسکتے ہیں بس گزارش یہ ہے کہ حلال اشیاء ہی خریدیں