تبصرہ نگار✍️ وزیر احمد مصباحی (بانکا) غلام زرقانی کی کتاب نقش خیال ایک علمی فکری جائزہ
غلام زرقانی کی کتاب نقش خیال ایک علمی فکری جائزہ
{موجِ خیال}
ڈاکٹر مولانا غلام زرقانی کی زیر تبصرہ کتاب “نقشِ خیال” کی ظاہری آرائش و زیبائش ہی پرکشش نہیں ہے بلکہ اس کے درون میں صاحب ذوق کے لیے وہ وافر خزانہ موجود ہے جو ہر لمحہ ان کے پریشان دلوں کو چین و سکون فراہم کرتا ہے۔ ڈاکٹر موصوف کی جن دو چند کتابوں سے میری آنکھوں کا گہرا رشتہ رہا ہے ان سے کہیں زیادہ ان کی علمی و فکری تحریروں سے عقل و دل وابستہ ہیں۔
بیتے پانچ چھ برسوں سے ہر ہفتہ روزنامہ انقلاب کے ادارتی صفحہ پر “پس پردہ” کے تحت مرقوم باتیں ذوق و شوق سے پڑھتا ہوں، اور اب تو ان کی کتابوں سے قلبی لگاؤ اور انھیں پڑھنے میں جو دلچسپی پیدا ہوتی ہے وہ ان ہی معیاری تحریروں کی طلسماتی رنگ و آہنگ کا نتیجہ ہے۔
ہاں! یہ بات میں پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ جب جب میں نے ان کے گراں قدر مضامین اور ان کی کتابوں کے مابین ہم آہنگی کا پیمانہ دراز کیا ہے تب تب میں نے اپنے محدود عقلی و علمی ظرف کے مطابق سب کو ہر جہت سے کامیاب پایا ہے۔ ہر مقام پر وہی پرکشش اندازِ بیان، حسن و مستی میں اٹکھیلیاں کرتی ہوئیں قیمتی تعبیرات، دلکش لب و لہجہ، خوبصورت پیرائیہ بیان اور قاری کو اپنی گرفت میں لے لینے والا ایسا سحر طراز اسلوب نظر آتا ہے جن میں ندرت بھی ہے اور کمال کی جدت بھی۔
ڈاکٹر موصوف جہاں سربراہ اعلی، جنرل سکریٹری، امیر جامعہ، سرپرست اعلی، مدرس، مدیر اعلیٰ اور بحیثیت اسسٹنٹ پروفیسر جیسے درجنوں ذمہ داریاں بحسن و خوبی نبھا رہے ہیں وہیں درجن بھر سے زائد انگریزی، عربی اور اردو زبان میں گراں قدر کتابوں کے مصنف و مؤلف بھی ہیں، اور یہ سلسلہ مسلسل تیزگامی کے ساتھ قائم بھی ہے۔ میں تو کبھی کبھی حیرت زدہ رہ جاتا ہوں کہ آخر ہمارے ہی طرح دو ہاتھ اور دو آنکھوں والا انسان مذکورہ تمام ذمہ داریاں ادا کرنے کے باوجود کس طرح اتنی تیزی سے بصیرت و بصارت کی رفاقت میں قلم چلاتا ہے کہ وہ اپنے نوک قلم سے قوم مسلم کی رہنمائی کی خاطر بروقت رہنما مضامین اور متعدد مفید کتابیں بھی منصہ شہود پر لے آتا ہے؟
زیر تبصرہ کتاب “نقش خیال” بھی ایک ایسا ہی علمی گلدستہ ہے، جسے آپ علمی، فکری، ادبی، اصلاحی اور تربیتی دستاویز کا مشترکہ نام دے سکتے ہیں۔ یہ ان مضامین کا مجموعہ ہے جنھیں آپ نے انقلاب میں “پس پردہ” کے تحت تحریر فرمایا ہے۔ یہ کتاب پانچ ابواب پر مشتمل ہے اور ہر باب کے تحت مندرج مضامین علمی، عملی اور فکری تہذیب کے لیے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔
آپ کی قلمی لیاقت و صلاحیت کا جادو اس قدر توانا ہے کہ وہ قارئین کو واقعات و مشاہدات اور تاثرات و انقلابات، یعنی ہر ممکنہ جہات سے سوچنے اور سمجھنے پر مجبور کرتا ہے۔ کتاب ہذا کے سطر سطر سے زبان و بیان کی ایسی روانی نظر نواز ہوتی ہے کہ قاری ان لہروں میں احساسات و جذبات کے ساتھ بہتا چلا جاتا ہے۔
دنیائے اسلام کے حوالے سے جس قدر پچاس مسائل پر بے لاگ تبصرہ و تجزیہ پیش کیا گیا ہے وہ اپنے ہر قاری سے وقت مطالعہ سنجیدگی و متانت کا مطالبہ کرتا ہے۔ کتاب میں شامل شدہ مضامین کی ترتیب و تہذیب سے ہی ان کی دقت نظر کا پتہ چلتا ہے۔ کتاب پڑھنے پر اس حقیقت سے خود بخود نقاب سرکتا چلا جاتا ہے کہ ڈاکٹر موصوف کو قلمی طاقت کے اوٹ میں سازشوں کا سفینہ بنانے کا ہنر تو نہیں آتا
پر ہاں! وہ وقار و تمکنت کے سانچے میں عدل و انصاف کا علم بلند کرنے کے نشیب و فراز سے خوب واقف ہیں۔ زیر نظر کتاب سے پہلے بھی اسی نوعیت کی آپ کی ایک اور کتاب بنام ” فکر و نظر کے دریچے” منصہ شہود پر جلوہ گر ہو کر اہل علم و خرد سے خوب خوب خراج وصول کر چکی ہے۔ مصنف موصوف زیر تبصرہ کتاب کے حوالے سے بقلم خود لکھتے ہیں
۔ ” پچھلی کتاب کی طرح، زیرنظر مضامین بھی کسی فصل بندی کے مستحق نہ تھے، تاہم سہولت کے لیے انھیں مختلف فصلوں میں بانٹ دیا گیا ہے۔ پہلی فصل دینیات کے پس منظر میں ہے، دوسری فصل میں ہندو پاک کے حوالے سے گفتگو کی گئی ہے، جب کہ تیسری فصل یورپ وامریکہ، چوتھی عالم عرب اور پانچویں فصل زبان اردو کے حوالے سے مختص ہے۔ لیکن ان تمام مضامین کا مرکز بہرحال “اسلام اور مسلمان” ہی ہے، جس کے حالات، مشاہدات اور واقعات کے اردگرد بات گردش کرتی رہتی ہے”۔
ڈاکٹر موصوف کی تحریروں میں واقعی طلسمی کیفیت پائی جاتی ہے۔ آپ نوع بنوع جملوں کے زیر و بم سے اپنے نثری اسلوب میں وہ غضب کی چاشنی بھر دیتے ہیں کہ جس کی وجہ سے لہجہ پُردم و پُرتاثیر ہو جاتا ہے اور پھر قاری اسے اخیر تک سانس روکے پڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔ الفاظ کے چناؤ میں اس بیدار مغزی کا ثبوت پیش کرتے ہیں کہ قاری کے ذوق لطیف کو کہیں بھی ٹھیس نہیں لگتی ہے اور وہ نثر میں موجود موجِ رواں جیسی کیفیت میں گم ہو کر رہ جاتا ہے۔
آپ لکھتے ہیں اور بے تکان لکھتے ہیں۔ بطور مثال، تحریری جاہ و جلال کی قوت سے پُر مندرجہ ذیل پیراگراف دیکھتے چلیں کہ ان کا قلم تحریری ریگستان میں کس طرح بگٹٹ دوڑتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ ص: ۲۹/ پر مضمون” دینی اجلاس میں اسلامی آداب کا فقدان” کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے آخر میں بطور نصیحت یہ دل پذیر باتیں لکھتے ہیں:۔
۔” صاحبو! خیال رہے کہ ایک اچھی بات شور شرابے میں دب کر اپنی کشش و جاذبیت تو کھو سکتی ہے، لیکن وہ بلندی آواز کے سہارے مزید پرکشش نہیں ہو سکتی۔ افکار و خیالات کی ترسیل کے لیے ماحول جس قدر سنجیدہ ہوگا، اسی قدر بات باوزن بھی ہوگی اور کارگر بھی۔ اب اگر دینی اجلاس سے مقصود اصلاح و تبلیغ ہے، اور ہے بھی یہی، تو بہر حال ذمہ داران کو چاہیے کہ وہ خارجی ماحول بھی ایسے بنائیں کہ افہام و تفہیم بہتر سے بہتر ہو سکے”۔
ڈاکٹر موصوف کا یہ انداز بیان اس وقت واقعی دل و دماغ موہ لیتا ہے جب وہ اپنے مضامین کے آخر میں خلاصہ کلام کے طور پر “صاحبو!” کی رفاقت میں دل نشین باتیں رکھتے ہیں اور دلیلوں سے مبرہن ہو کر لب لباب کی قالب میں روح افزا تجزیہ پیش کرتے ہیں۔ قارئین کی طمانیت قلب کی خاطر کتاب ہذا کے ابتدائی صفحات میں ہی ڈاکٹر موصوف کی شخصیت کا ایک مختصر، مگر جامع خاکہ بھی شامل ہے۔ کتابی فہرست کے ساتھ ساتھ” ابتدائے سخن” کے تحت موٹی اور بنیادی باتیں تحریر کی گئی ہیں۔
ص:٥ تا ١٢ عنوان ” بے باک تحریر” اور “مغربی افکار کے اندھیروں میں مشرقی اقدار کا نمائندہ قلم” کے تحت بالترتیب سینئر صحافی محمد نواز خرم (مرکزی سیکرٹری اطلاعات، جماعت اہل سنت پاکستان) اور علامہ مقبول احمد سالک مصباحی (دہلی، انڈیا) کے تاثراتی کلمات مرقوم ہیں۔ کتاب میں شامل شدہ اول ترین مضمون {اسلام دنیا میں تیزی سے پھیلنے والا مذہب ہے؟} ہی میں جس کمال دانش مندی کی رفاقت میں اختصار و جامعیت کے ساتھ معلوماتی باتیں تحریر کی گئی ہیں
حضور مجاہد ملت حیات و خدمات اور اعترافات کا ایک جائزہ اس کو بھی پڑھیں
سیرت سیدنا غوث اعظم کو خریدنے کے لیے کلک کریں
وہ آپ کی وسعت علمی کو خوب اُجاگر کرتی ہیں۔ آپ نے کئی ایک چونکانے والے اہم رازوں سے پردہ اٹھایا ہے اور بڑے ہی واضح لفظوں میں یہ بیان کیا ہے کہ” مسیحیت” اپنے بل پر زندہ نہیں ہے، بلکہ خارجی عوامل کے سہارے اسے زندہ رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے، جب کہ دنیا جوں جوں علمی و معاشی اعتبار سے ترقی کرے گی مذہب اسلام کی حقانیت اسی اعتبار سے لوگوں کے دلوں پر حکومت کرتی ہوئی نظر آئے گی۔
اسی طرح بھاگلپور تاریخی فساد پر بھی منصفانہ جائزہ پیش کیا ہے اور مشہور زمانہ گستاخ رسول، سلمان رشدی کی بھی اچھی خبر لی گئی ہے۔ تمام تر مضامین ڈاکٹر موصوف کی فکری بلندی اور وسعت نظری کی گواہی دیتے ہیں۔ انھیں سُرمہ نگاہ بنانے کے بعد یہ اندازہ ہوتا ہے کہ آپ عالمی سطح پر اٹھنے والے مسائل سے باخبر رہتے ہیں اور آپ کے خیالوں کا سمندر بہت گہرا ہے۔
اسی لیے جس موضوع پر بھی خامہ فرسائی کرتے ہیں اس کا حق ادا کر دیتے ہیں اور تدبر و تفکر سے رشتہ ہموار کرتے ہیں تو پوری جماعت بن کر سوچتے ہیں۔ اب چاہے وہ مسائل عرب ممالک سے تعلق رکھتے ہوں یا یورپ و امریکہ سے، یا پھر ان کا لگاؤ ہندوپاک سے ہو۔
کتاب میں شامل آخری باب “اردوستان” کے تحت شیریں اور پیاری زبان اردو پر بھی روشنی بکھیری گئی ہے اور اس ضمن میں چار مضامین شامل اشاعت ہیں۔ ان مضامین میں جہاں نام نہاد اردو خادمین پر اصلاحی نشتر چلائے ہیں اور ان کی تساہل و تغافل پر اظہار افسوس کیا گیا ہے وہیں ان خطرناک بیماریوں سے علاج و معالجے کے طور پر بہترین طریقہ کار سے بھی پردہ اٹھایا گیا ہے۔ آپ لکھتے ہیں:۔
۔” صاحبو! یہ کیسی عجیب بات ہے کہ جب اردو جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ رہی تھی، تو اسے بانہوں میں لینے کے لیے دونوں ہاتھ پھیلا دیے، اور اس کی زلفیں سنوارتے رہے، پھر جب اس نے اپنے آپ کو پوری طرح ہماری گود کے حوالے کردیا، تو ہم نگاہیں پھیر لیں! خدارا ایسی بے وفائی تو نہ کریں، جب اپنا لیا ہے، تو اپنانے کا حق بھی ادا کریں”۔
ڈاکٹر موصوف کی یہ جرأت و بے باکی بھی بڑی اچھی لگی کہ انھوں نے جہاں پوری شدومد کے ساتھ اردو کی تعمیر و ترقی کے لیے “اردو اکادمیوں” کی ناکامیوں کو آڑے ہاتھوں لیا ہے وہیں ببانگ دہل مدارس اسلامیہ، طلبا اور علماے کرام کی بےانتہا اردو خدمات کو سراہا ہے اور انھیں فراموش نہ کرنے کی پرزور اپیل کی ہے۔
اس مجموعہ میں شامل تمام مضامین بمشکل دو سے تین صفحات پر مشتمل ہیں۔ کتاب کے بیک ٹائٹل پر ” بین الاقوامی تاثرات” کے تحت تقریباً ٢٣/ اہل علم و دانش کے جذبات دل اس قدر اختصار کے ساتھ مرقوم ہیں کہ کتاب کی خوبصورتی مزید دو بالا ہو جاتی ہے۔
محترم قارئین! میں سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹر موصوف کی نثری اسلوبِ تحریر اور زیر تبصرہ کتاب کی خوبی و جمال پر مشتمل متذکرہ بالا تمام باتیں پڑھ لینے کے بعد اب مزید اس امر کی وضاحت کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی ہے کہ علم دوست، اردو زبان و ادب پر مشتمل کتب بینی کے شائقین اور باذوق افراد کے مطالعاتی میز کی زینت میں اضافہ کرنے کے لیے اس کتاب کا ہونا کتنا ضروری ہے۔
راقم الحروف کے مطالعاتی میز پر اس کی پہلی ایڈیشن موجود ہے، جو کہ ٢٧٦/ صفحات پر مشتمل ہے اور دارالکتاب دہلی سے یہ کتاب جولائی، ٢٠١٤ء میں پبلش ہوئی ہے۔ خواہش مند حضرات اسے مکتبہ جام نور و کتب خانہ امجدیہ،مٹیامحل، جامع مسجد دہلی، قادری کتاب گھر، بریلی یوپی اور رضوی کتاب گھر دہلی وغیرہ سے حاصل کر سکتے ہیں۔
(تبصرہ نگار: جامعہ اشرفیہ مبارک پور کے ریسرچ اسکالر ہیں)
رابطہ نمبر:6394421415
عشق مصطفیٰ ﷺ کو حاصل کرنے کے لیے کتاب پر کلک کریں
وزیراحمد مصباحی کے اس مضمون کو بھی پڑھیں مسلم معاشرے میں قول لین سے بڑھتی ہوئی دوریاں
آن لائن شاپنگ کے لیے کلک کریں