شاہ خالد مصباحی سدھارتھ نگری یہ سرخ خون ہے کہ جس پر حرف حرف ہوں میں!۔
یہ سرخ خون ہے کہ جس پر حرف حرف ہوں میں
تاریخ شاہد ہے کہ ہر ایک قوم کا تعلق قربانیوں سے تھا۔ اور جس نےجتنا زیادہ قربانیوں کا نذرانہ مقصد حیات کے لیے عملی منصوبوں کے ساتھ پیش کیا۔ ۔۔ وہ اتنا ہی جلد شاہراہ ترقی کے مسافر بنے اور اقتدار بے خودی سے نکل کر مالک خودی سے اپنا رستہ جوڑ نے میں کامیاب ہوئے ۔۔۔
اور کسی بھی قوم نے جب تک معاملات کی ابتدا اور انتہا کو قربانیوں سے جوڑ رکھا۔۔ تب تک وہ معاملات مقاصد کے ساتھ اپنے منزل مقصود تک پہنچتےرہیں ہیں ۔۔۔اور جوں ہی اس سلسلے کی ایک بھی کڑی ٹوٹی تو اس جہت کی ساری کامیاب تعبیریں اس قوم کو ترقیاتی وسائل سے دوچار کرتے ہوئے پستی ازل میں ڈھکیل کر صفحہ ہستی سے اس قوم کو مٹاکر رکھ دیا _۔
قارئین کرام۔۔!۔ حالیہ قربانی جسے ہم نے ایک محدود سوچ کے ساتھ خاص کر رکھا ہے کہ لفظ قربانی کو سنتے ہی ذہن اس چیز کی طرف مائل ہونے لگتا ہے ۔۔اور حقیقت تو یہ ہے کہ وہ ایک لا محدود سوچ کے ساتھ تمام جہتوں سے قوم کو قربانی پیش کرنے کی تمثیلات کو اس کے ذریعہ بجا لایا گیا ۔۔جس میں عالم کی حقیقتوں کا راز پنہاں ہے۔۔۔
لیکن افسوس ۔۔! کامیابی کے جملہ اسرار رموز و نکات پر مشتمل اس قربانی کو ہم نے صرف ایک خواہش ، آرزو اور دکھاوے تک محدود کر رکھا۔۔۔ اور مابقیہ رسم قربانی ادا کرنے سے پہلے ہی اس پر اور جہتوں سے سوچ و فکر کرنے سے پہلے ہی خود پر ان ساری جہتوں سے قدغن لگاکر قربانی کے دائرہ کو ہم نے محیط کر رکھا۔۔
میں مانتا ہوں کہ آج قربانی کا شہرہ آفتاب عروج شمشی پر عقابی پہرہ ڈالے ہوئے ہے۔۔۔لیکن جس چیز کی قربانیاں ہمیں ہر دم اپنے رب کے سامنے پیش کرنی تھی ۔ اس کو ہم نے فراموش کردی اور اس پر عمل در کنار ۔۔۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اس پر سوچ و فکر کرنے سے ہم جہاں ذہنی معذور ہیں وہیں پر عمل کی رو سے لنگڑے اور لولے بنے بیٹھے ہوئے ہیں ۔۔
اور آئیے دیکھیے اپنی قربانیوں کا رزلٹ جس کے لیے ہم دن و رات محنت کرتے ہیں۔۔ کہ اللہ اکبر! آج کے ہمارے اس معاشرہ میں اخلاقیات ، تہذیب و تمدن اور تربیت و تادیب کے آثار ہی نہیں پائے جاتے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہم قوموں میں رسواء اور زوال پذیر ہو رہے ہیں اور بگاڑ کا گھن ہمیں دیمک کی طرح کھا رہا ہے۔۔۔۔
اور میں بتا دوں کہ یہ وہ دین جس کی حقیقی پہچان اخلاقیات کا عظیم باب تھا اور جس کی تکمیل کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث کیے گئے تھے وہ دین جس نے معاملات کو اصل دین قرار دیا تھا
اس کو بھی پڑھیں مسلم معاشرے میں قول لیں کی بڑھتی ہوئی دوریاں از قلم وزیر احمد مصباحی
آج اسی دین کے ماننے والے اخلاقیات اور معاملات میں اس پستی تک گر چکے ہیں کہ عدالتوں میں مقدمات کی بھرمار ہے، جیل خانہ جات میں جگہ تنگ پڑرہی ہے، گلی گلی، محلہ محلہ ، جگہ جگہ لڑائی جھگڑا، گالی گلوچ، ظلم و زیادتی، فساد، کینہ ، حسد، حق تلفی اور مفاد پرستی عام ہے۔
منشیا ت کے بازار، ہوس کے اڈے ، شراب خانے ، جوا ، چوری، ڈاکہ زنی، قتل وغارت گری،زنا کاری، رشوت خوری، سود و حرام خوری، دھوکہ دہی، بددیانتی، جھوٹ،خوشامد، دوغلے پن، حرص، طمع، لالچ، ملاوٹ، ناپ تول میں کمی آخر وہ کون سی قربانی ہے جس کو ہم نے ادا نہیں کی ۔۔۔اور حد جرم تو یہ ہے کہ جس کے ادا کرنے کے اثرات بھی اب ہم میں کیوں نہیں جھلکتے؟ اے میری قوم کے فرزندوں سوچوں ذرا۔۔۔۔کہ ہم کہاں غلطی کر رہے ہیں ؛ ہم نے اپنی کس داستان قربانی کو بھو لا رکھی ہے ۔۔۔!۔
مجھے بالکل اس بات سے انکار نہیں کہ آپ نے قربانیوں کا نذرانہ پیش نہیں کیا ۔ میں مانتا ہوں! مگر اپنی دینی غیرت و حمیت کو مٹانے کے لیے اور اپنی تہذیب و ثقافت کو مغربی رنگ و روپ میں ڈھالنے کے لیے ۔۔۔!۔
فضا نہیں ہے ابھی کھل کر بات کرنے کی
بدل رہے ہیں زمانے کوہم اشاروں سے
اور سچ بات تو یہ ہے کہ شرم آرہی ہے اس قوم کی قربانیوں کا نقشہ کھینچنے میں ۔۔! کہ خود غرضی اور بد عنوانی و کرپشن کا ایسا کون سا طریقہ ہے جو ہم نے ایجاد نہیں کیا؟ دھوکہ دہی اور مفاد پرستی کی ایسی کونسی قسم ہے جو ہمارے یہاں زوروں پر نہیں ہے ؟ ۔۔۔ یقین جانیں یہ ساری کی ساری بیماریاں ہماری قربانیوں ہی کی بدولت ہمارے معاشرے میں رنگ پارہے ہیں۔! لیکن ہمیں اس کی قطعی پرواہ نہیں ہے ۔
اور جرائم کے اس نقطہ پر بھی نظر ڈالتے ہوئے چلیں کہ تشدد، تعصب، عصبیت اور انسان دشمنی کے ایسے کون سے مظاہر ہیں جو ہمارے اسلامی معاشرہ میں دیکھنے کو نہیں ملتے؟ مگر پھر بھی ہم اس رائج معاشرے کو نیست و نابود کرنے اور اپنی تہذیب و ثقافت کی بقا کے خاطر قربانیوں کو پیش کرنے کی جسارت پیدا نہیں کرتے اور حد تو یہ ہے خود کو مسلمان کہلوانے میں ذرا سا بھی شرم و عار محسوس نہیں کرتے۔
صبح ہوتے ہی نکل آتے ہیں بازاروں میں لوگ
گٹھریاں سر پہ اُٹھائے ہوئے ایمانوں کی
قارئین کرام ۔۔!۔اب وقتی ضرورت ہے کہ معاشرے میں پنپتے ہوئے برائیوں کے خلاف ہر طرح کی قربانیوں کو پیش کریں۔۔۔ جس کے حقیقی مقاصد دیکھنے کی منتظر آج روح اسلام صدیوں سے ہے ۔اسی میں پائیدار وفا دین و دنیا ہے_ ورنہ پھر آرزوں کا بلاگ اور زندگی کی مٹر گستیاں ، جو ہر صبح ہمیں امید نو فزا کے ساتھ جگاتی ہے لیکن اس روایت پر چل کر ہر مسا خجالت و رسوائی ہی دامن گیر ہوتی ہے ۔
مولا ہمیں جزبہ ایمانی اور جذبہ قربانی سے سرفراز فرما ۔۔۔۔آمین
از قلم: شاہ خالد مصباحی سدھارتھ نگری
رابطہ 9564633547