از 📝 محمد ھاشم رضا مصباحی پب جی گیم اور اس کے نقصانات
پب جی گیم اور اس کے نقصانات
انٹر نیٹ اور ٹکنالوجی کے اس دور جدید میں آئے دن نئے سے ویڈیو گیم اور مخرب اخلاق ایپلیکیشن لونچ ہوتے رہتے ہیں جن کے ذریعہ نو جوان اور بچے اپنے وقت عزیز کو ضائع کرکے اپنے مستقبل کو تابناک بنانے کے بجایے تاریک کرتے ہوئے نظر آرہے
ایسا ہی ایک گیم ہے پب جی جو اس وقت دنیا بھر میں بڑے پیمانے پر کھیلا جارہا ہے بچے ہوں کہ بڑے سبھی اس کے جنون میں مبتلا نظر آرہے ہیں جس کو اس کی لت لگ جاتی ہے وہ دن ہو کہ رات شام ہو کہ سحر سفر ہو کہ حضر گھر ہو یا باہر بس بپ جى ہی کی دنیا میں مست و مگن رہتا ہے اور اسی کو اپنی دنیا سمجھتا ہے
اس سے پہلے سپر ماریو اور بلیو وہیل جیسے گیمز بھی اپنے جادو کا اثر دکھا چکے ہیں
(Player Unknown’s Battle Grounds)
گیم ہندوستان میں سب سے زیادہ کھیلی جاتی ہے۔ دسمبر ۲۰۱۷ میں آئیر لینڈ کے گیم ڈیزائنر برینڈن گرین نے یہ گیم متعارف کرائی
۔۲۰۱۸ء میں کمائی کے معاملے میں یہ گیم پہلے نمبر پر رہی اس گیم میں 100 کھلاڑی ہوتے ہیں جو اپنے مشن کو مکمل کرنے کےلیے لوٹ مار کرکے اسلحہ اور دیگر اشیاء حاصل کرتے ہیں اور پھر اپنے ٹارگٹ کو حاصل کرنے کےلیے ایک جزیرے میں یہ ایک دوسرے کو قتل کرنے کی کوشش کرتے ہیں
آخر میں جو ٹیم بچ جاتی ہے وہ اس گیم کی فاتح کہلاتی ہے
مکمل گیم آخر تک کھیلنے والے کو فرضی چکن ڈنر کا انعام بھی ملتا ہے
پب جى کی تباه کارياں اور نقصانات
پب جی گیم کے نقصانات میں وقت کی بربادی کے ساتھ ساتھ ذہنی و نفسیاتی امراض میں مبتلا ہونا بھی ہے عالمی ادارہ صحت نے ویڈیو گیمز کی لت کو با قاعدہ ذہنی بیماری تسلیم کیا ہے
چنانچہ ملک بھر میں ایسے کئ واقعات سامنے آئے ہیں جن میں پب جی کھیلنے والے شخص کی دورہ دل پڑنے سے موت ہوگئی یا پب جى گیم کی لت میں مبتلا شخص نے دوسروں کو موت کے گھاٹ اتار دیا
پہلا واقعہ
کرناٹک کے بیل گاوی ضلع میں ایک اکیس سالہ لڑکے نے اپنے باپ کی گردن کاٹ کر اسے قتل کردیا جس کا سبب یہ تھا کہ اس لڑکے کے باپ نے اسے موبائل پر پب جی کھیلنے سے روکا تھا
دوسرا واقعہ
مدھیہ پردیش میں ملسسل 6 گھنٹے پب جى گیم کھیلنے کی وجہ سے فرقان قریشی نامی لڑکے کی موت ہوگئی دوران گیم ہلاک ہونے والے لڑکے کے والد کا کہنا تھا کہ ان کا بیٹا فرقان قریشی مسلسل 6 گھنٹے سے پب جی گیم کھیل رہا تھاکہ اس دوران اسے مبینہ طور پر دل کا دورہ پڑا اور وہ ہلاک ہو گیا
نوجوان کے والد نے میڈیا کو بتایا کہ حادثے سے قبل فرقان قریشی اپنے اسمارٹ فون پر پب جی گیم کھیل رہا تھا کہ اچانک کہنے لگا دھماکہ کر دو، دھماکہ کر دو۔
اْن کا کہنا تھا کہ میرا بیٹا انتہائی چست تھا اور وہ ہفتہ کی رات کو شروع کیا گیا گیم اتوار کی صبح تک کھیل رہا تھا۔انہوں نے بتایا کہ فرقان قریشی نے رات کو کچھ گھنٹے کی نیند کی اور صبح اٹھنے کے بعد بمشکل ناشتہ کر کے دوبارہ گیم کھیلنا شروع ہو گیا فرقان کو دل کا دورہ پڑنے کے بعد فوری طور پر اسپتال لے گئے تھے تاہم وہ جانبر نہ ہو سکا
ان جیسے دیگر کئ واقعات ہیں جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ پب جی گیم کھیلنے والا ذہنی اور نفسیاتی مریض بن جاتا ہے اور اس کا دماغی توازن بگڑ جاتا ہے۔
اس لیے کہ اس گیم میں گروپ کی شکل میں دوسروں پر حملہ کیا جاتا ہے مار دھاڑ اور جرائم کے نئے سے نئے طریقے معلوم ہوتے ہیں قتل و غارت گری کی جاتى ہے ہتھیار و بندوق کے نام گیم کھیلنے والے کو اچھی طرح زبانی یاد ہو جاتے ہیں تشدد اس کی رگ رگ میں بھر جاتا ہے جذبات میں شدت پیدا ہوتی ہے اور اس طرح یہ ذہنی و نفسیاتی مرض کا سبب بن جاتے ہیں
دن رات پب جی میں لگے رہنے والے ہمارے بچے اور نوجوانوں کو یہ معلوم ہی نہیں کہ یہ بلا صحت انسانی کے لیے کس قدر نقصان دہ ہے
گیم بنانے والی کمپنی فن لینڈ کی فرم سپرسیل کی جانب سے بتایاگیا ہے کہ اس گیم میں موجود اینی میشن کی روشنی سے نکلنے والی شعاعیں ان لوگوں کو مرگی کے عارضہ کا شکار بناتی ہےجو یہ گیم کثرت سے کھیلتے ہیں
نیز ہر طرح کے ویڈیو گیم کھیلنے والوں کے ہاتھوں میں رعشہ پیدا ہوتا ہے نیز گیم میں برق رفتاری کا مظاہرہ کرنے سے ہڈیوں اور عضلات کا مرض لاحق ہوجاتا ہے ویڈیو گیمز سے آنکھیں بھی متاثر ہوتی ہیں
کیوں کہ اس میں آنکھوں کی حرکت تیز ہوجاتی ہے اور موبائیل اسکرین سے مقناطیسی لہروں کا نکلنا بھی آنکھوں کے لیے مضر ثابت ہوتا ہے
اس موبائل یا اس طرح کے دوسرے موبائل خریدنا چاہتے ہیں تو کلک کریں
تعلیمات حضرت سیدنا غوث اعظم رضی اللہ عنہ کے لیے کلک کریں
لمحہ فکریہ
مندرجہ بالا سطور سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پب جی اور اس جیسے ویڈیو گیمز کس قدر نقصان رساں اور ہلاکت خیز ہیں
لیکن ہمارے بچے اور نوجوانوں کو اس کی ذرا بھی فکر نہیں اور نہ ہی والدین کو احساس ذمہ داری ہے والدین کو معلوم ہونا چاہئے کہ پب جی گیم بچوں کی جسمانی اور اخلاقی صحت کےلئےانتہائی مضر ہے نیز ان کی تعلیم و تربیت پر اس کے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں تشدد کا رجحان ان کے اندر اسی قسم کے گیمز کے سبب بڑھتا جا رہا ہے
لہذا والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کے ہاتھ میں ہر گز موبائل فون نہ دیں اور ان کے اندر زیادہ سے زیادہ دینی و دنیوی تعلیم کا شوق پیدا کریں تاکہ وہ اپنے روشن مستقبل کا سامنا کر سکیں اسی طرح ہمارے نوجوان بھائیوں کو بھی چاہیے کہ وہ اس قسم کے فضول و لا یعنی اور مضر صحت گیمز میں اپنی زندگی تباہ وبرباد نہ کریں
افسوس کہ ہمارے معاشرے کے نوجوانوں کو دین کی بنیادی باتوں کا تو علم نہیں
اللہ و رسول کے بارے میں کیسے عقائد رکھنے چاہئے نہیں معلوم
غسل کس طرح کیا جاتا ہے نہیں معلوم
وضو کے کتنے فرائض ہیں نہیں معلوم
نماز کی کیا کیا شرطیں ہیں نہیں معلوم وغیرہ وغیرہ
لیکن پب جی میں کس طرح دشمن کو مارنا ہے
کس طرح بندوق لینی ہے
چکن ڈنر کیسے ملے گا
نیز کس کس ٹیم کے درمیان میچ چل رہا ہے کتنے رن ہوگئے کتنے آؤٹ
یہ سب فضولیات معلوم ہوتی اور اسی میں دلچسپی بھی ہے
پیارے اسلامی بھائیو !!! ابھی آپ کو وقت کی قدر و قیمت کا اندازہ نہیں ہے یاد رکھو وقت بڑی قیمتی چیز ہے
یہ تلوار کی مانند ہے اگر تم اس کو اچھے کاموں کے ذریعہ نہیں کاٹو گے تو یہ تم کو کاٹ دے گا اور اوپر آپ نے پڑھ ہی لیا ہے کہ پب جی کس قدر نقصان دہ گیم ہے جس میں آپ دن و رات اپنے قیمتی وقت کو برباد کرتے ہیں
لہذا آئیے آج ہی اور اسی وقت اس گیم کو اپنے فون سے ختم کیجیے جو آپ کی نیند کا دشمن آپ کے وقت کا دشمن آپ کی صحت کا دشمن آپ کے مستقبل کا دشمن بلکہ آپ کی زندگی کا دشمن ہے
اس کتاب کو خریدنے کے لیے کلک کریں
آن لائن شاپنگ کے لیے ان کمپنیوں کا انتخاب کر سکتے ہیں