از قلم : محمد ایوب مصباحی مرادآبادی تحریر مشق براے مضمون نگاری
مشق براے مضمون نگاری
“رموزِ اوقاف“
۔(١)استفہامیہ (؟) یہ علامت سوالیہ جملے کے آخرمیں لگائی جاتی ہے۔جیسے:کیا آپ بیمار ہیں؟۔
۔(٢)ندائیہ (!)یہ علامت منادی کے آخر میں لگائی جاتی ہے۔جیسے:بزرگو اور دوستو!، پیارےبچو!، معزز اساتذۂ کرام! وغیرہ۔
۔(٣)فجائیہ(!) یہ علامت اس جملے کے اختتام پر لگائی جاتی جہاں جذبات، دل کی کیفیت یا کسی حیرت انگیز چیز کا اظہار ہو۔جیسے:افسوس صد افسوس! آپ کے بال سفید ہوگئے تب بھی آپ دنیا کی رنگینیوں میں منہمک ہیں۔افوہ! آج تو آپ محبوب سے ملنے جارہے ہیں۔آہ! ایک اور آسمانِ علم کا ستارہ ٹوٹا۔وغیرہ۔
۔(٣)متساویہ(=) یہ علامت دو عدد کو جوڑنے کے بعد لگاکر پھر کل عدد لکھ دیتے ہیں۔جیسے:٢+٢=۴، یہاں آپ غور کرسکتے ہیں کہ ہم نے دو کو دو میں ضم کیا پھر اس کے بعد برابر کی علامت (=)لگاکر کل عدد ۴ لکھ دیا۔یوں ہی اگر اس کے برعکس کرنا ہو۔جیسے:۴=٢+٢،مطلب یہ ہے کہ جہاں منکسر اعداد کو جوڑا جائے تو وہاں جوڑنے کے بعد کل عدد لکھنے سے پہلے متساویہ یعنی برابری کی علامت(=)لگائی جائے گی ۔
۔ (۴)قوسین (())یہ علامت جملہ معترضہ یا کسی توضیحی جملے کے شروع و آخر میں آتی ہے جس کی پہچان یہ ہے کہ قوسین کے درمیان کے الفاظ چھوڑ کر پڑھا جائے تو معنی میں کوئی خلل نہیں ہوتا بلکہ ایک دوسرے سے ایسا ربط ہوتا ہے کہ مفہوم بآسانی سمجھ میں آجاتاہے۔جیسے:مجددِ الفِ ثانی(جو دورِ اکبری کےایک مثالی رہنما تھے) کی کتاب مکتوبات امام ربانی بہت مشہور ہے۔
۔(۵)واوین (” “)یہ علامت کسی اقتباس یا مقولے کے اول و آخر میں لگائی جاتی ہے ۔ جیسے:حافظِ ملت علیہ الرحمہ نے فرمایا:”زمین کے اوپر کام زمین کے نیچے آرام”۔ ،اللہ تعالیٰ نے فرمایا:”انما المؤمنون اخوۃ”۔اور نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا:”اول ماخلق اللہ نوری” وغیرہ۔
کتبہ:محمد ایوب مصباحی
استاذ دار العلوم گلشنِ مصطفی، بہادر گنج، مراداباد، یوپی