پر تو مہرت بذرہ می کند بدر منیر لطف فرما بر پریشانی حالم اے شہا ۔۔کا پس منظر
پر تو مہرت بذرہ می کند بدر منیر
شاہ من سلطان عالم سید احمد کبیر خاطر من جمع کن یا غوث اعظم دستگیر
یہ شعر ہندوستان میں بہت قدیم الایام سے حضرت سیدی احمدالکبیر معشوق اللہ الرفاعی کی شان میں پڑھا جاتا ہے، “الجوھر الفرید” میں سید محمد کمال الدین صوفی الحسینی الرفاعی استنبولی (ترکی) رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں۔
کہ یہ ایک ندا،صدا، پکار اور ورد ہیں، مرید عقیدت و محبت میں وجد کے عالم میں اپنے مرشد اعظم پیر کبیر السید احمد الکبیر الرفاعی معشوق اللہ کو بے خودی اور جذبات میں والہانہ پکارتا ہے ، آواز دیتا ہے ، تاکہ حضرت غوث الرفاعی اس پر نظر کرم فرمائیں اور اس مرید کی رہبری و رہنمائی ہو
یعنی ہدایت،علم و حکمت،احکامات خداوندی اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع حاصل ہو، ساتھ ساتھ دنیاوی معاملات اور مشکلات سے نجات اور نفع حاصل ہو،
ہمارے جد امجد مرشد اعظم شاہ من سلطان عالم پیر کبیر السید احمد کبیر الرفاعی معشوق اللہ نے اپنی پوری حیات جاوِداں صرف سنت اور اتباع رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں بسر کی اور آپ سرخرو و سرفراز ہوے، اس طرح آپ حضرت والا غوث الرفاعی کو عظیم تر اعزاز و اکرام سے نوازہ گیا اور وہ یہ کہ آپ حضرت غوث الرفاعی کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دست اطہر کا بوسہ مرحمت فرمایا گیا۔
یہ واقعہ نورانی پوری دنیا خوب جانتی ہیں اور بڑے بڑے جید و نامور علمائےاکرام نے اپنی کتابوں میں بڑے مفصل انداز میں اس عظیم واقعۂ بے مثال و لاثانی کا ذکر کیا ہے۔
یہ ۵۵۵ھ کا سال ہیں بروز جمعرات بعد نماز عصر یہ عظیم واقعہ حضرت سیدنا غوث الرفاعی معشوق اللہ کے لیے تھا اور انہی کے ساتھ پیش آیا، بلکہ بعض معتبر و مستند کتابوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ انعام و اکرام آپ سیدی احمد الرفاعی کے لیے پہلے ہی سے تیار رکھا تھا اور اس کے لیے حضور رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ سیدنا رفاعی کو باقاعدہ اذن فرمایا تھا اور اپنی بارگاہ بابرکت و رحمت میں طلب فرمایا۔
مختصر یہ کہ یہ شعر اولاد رفاعی اور دیگر مریدان و عقیدت مندان رفاعی کے وردوں میں شامل ہے اور ہمارے دادا حضور حضرت مولانا مفتی سید ابوالحسن شاہ جہاں المعروف سید نورالدین سیف اللہ رفاعی رحمتہ اللہ علیہ (متولد ١٢٧١ھ/ متوفی ١٣٣۵ھ ) نے اس شعر سے متاثر ہوکر اس پر رباعی کا اضافہ فرمایا
پرتو مہرت بذرہ می کند بدر منیر
لطف فرما بر پریشانی حالم اے شہا
اور اس پر ایک پورا قصیدہ جو کتاب “راتب رفاعیہ” میں داداجان نورالدین رفاعی نے لکھا ہے۔ معلوم ہو کہ داداجان نورالدین رفاعی ایک بہترین شاعر بھی تھے اور نور تخلص فرماتے تھے۔
اس پوری رباعی یعنی چار مصرع کا پڑھنا باعث اطمینان قلب اور توجہ مرشد اعظم ہیں۔۔۔۔۔تقریبا دو صدیوں سے یہ بیت شہرہ آفاق ہیں، اور بزرگان رفاعی اس کو پڑھتے آے ہیں،مرشد اعظم شیخ السید احمد الکبیر الرفاعی کے نام نامی اسم گرامی کی یاد قلب میں تازہ رکھنے کے لیے یہ شعر ہمیشہ پڑھا جا سکتا ہے۔
بعض اہل عقیدت حضرات نے اس کے ساتھ وہ مشہور شعر جو حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی شان میں پڑھا جاتا ہیں وہ بھی شامل کرتے ہیں اور اکثر پڑھتے ہیں۔
شاہ مرداں شیر یزداں قوت پروردگار
لا فتی الا علی لا سیف الا ذوالفقار
شاہ من سلطان عالم سید احمد کبیر
پرتوے مہرت بذرہ می کند بدر منیر
لطف فرما بر پریشانیء حالم اے شہا
خاطر من جمع کن یا غوث اعظم دستگیر
کامل یقین بھر پور اعتماد لازم و ضروری ہے پھر منزل سہل و آسان ہوگی۔
نیز اس وظیفے کو روزانہ پڑھنے کی عادت ڈالیے،اسے بعد نماز عشاء ١١١ مرتبہ پڑھنے سے ضرور کامیابی حاصل ہوگی اور ان شاءاللہ حضرت سید احمد کبیر رفاعی رحمتہ اللہ علیہ کی خصوصی عنایت ہوگی۔ پڑھنے سے پہلے ١١ مرتبہ اول آخر درود شریف پڑھ لیجیے۔
از قلم: حضرت سید بدرالدین محبت اسراراللہ رفاعی
سجادہ نشین مسند رفاعیہ، کراچی، پاکستان
نوٹ : واضح رہے کہ یہ تحریر آپ نے سید حسام الدین ابن سید جمال الدین رفاعی،خانقاہ رفاعیہ، بڑودہ، گجرات،ہند کے استفسار پر قلم بند فرمائی
اس کتاب کو خریدنے کے لیے کلک کریں
گھر بیٹھے خریداری کرنے کا سنہرا موقع