Friday, October 18, 2024
Homeشخصیاترفیق ملت درس و تدریس کے عظیم شاہ کار

رفیق ملت درس و تدریس کے عظیم شاہ کار

تحریر: ملک محمد نازش المدنی مرادٓبادی رفیق ملت درس و تدریس کے عظیم شاہ کار

رفیق ملت درس و تدریس کے عظیم شاہ کار

شہر مرادآباد  کو برتن کی صنعت کاری کے لحاظ سے لوگ جس طرح  پیتل نگری  کے نام سے جانتے ہیں اس سے کہیں زیادہ اہل علم و دانش اس کو مرکز علوم وفنون سے جانتے اور پہچانتے ہیں

 کہیں علامہ کفایت علی کافی علیہ الرحمہ جنگ آزادی میں اپنی جان کی قربانی دیکر زبان حال سے کہ رہیں ہیں کہ سر کٹ گیا ہے میرا لیکن جھکا نہیں ہے  تو کہیں فیضان صدرالافاضل سے گلستان مہک رہیں ہیں تو کہیں فخر ملت علامہ نذیر الاکرم مرادآبادی علیہ الرحمہ جیسے مرد قلندر افریقہ و یورپ کی سرزمین پر مسلک اعلی حضرت کا پیغام عام کرتے ہوئے نظر آ رہیں ہیں

تو ایک طرف حافظ ملت جیسی شہرہ آفاق شخصیت “الجامعہ الاشرفیہ” کی شکل میں تشنگان علوم نبوییہ کو سیراب کر رہی ہے تو کہیں مفتی اعظم راجستھان کے فیضان سے راجستھان کی دھرتی نور علم سے جگمکا رہی ہے

 الحاصل اس اس سرزمین مرادآباد نے امت مسلمہ کو ایسے لعل و گوہر دیئے جو بر صغیر ہند و پاک ہی میں نہیں بلکہ پورے آفاق عالم میں بڑی اہمیت کی نظر سے دیکھے اور سمجھے جاتے ہیں انہیں فرزندان مرادآباد میں سے ایک عظیم علمی روحانی شخصیت تلمیذ حافظ ملت رفیق ملت نمونہ اسلاف مفتی محمد رفیق عالم  مصباحی علیہ الرحمہ کی ہے

آپ  حافظ و قاری اور مبلغ اسلام ہونے کے ساتھ ساتھ ایک منجھے ہوئے تجربہ کار مدرس بھی تھے آپ علیہ الرحمہ کی زندگی کا بیشتر حصہ تدریسی و تعلیمی خدمات انجام دیتے ہوئے بسر ہوا تقریبا باسٹھ سال کی طویل مدت تک آپ نے درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھا جس کی ابتدا شوال ۱۳۶۹ھ سے اور انتہا ربیع الاول ۱۴۳۱ ھ مطابق مارچ ۲۰۱۰ پر ہوتی ہے

اس کتاب کو خریدنے کے لیے کلک  کریں

 اس مدت میں آپ نے متعدد مدارس میں رہ کر طلبہ کو علمی شہہ پاروں سے بہرہ وہ فرمایا ابتدا آپ نے اپنے ہی آبائی گاوں ڈھکیا ضلع مرادآباد میں مدرسہ عزیریہ میں حفظ و ناظرہ اور قرات کی تعلیم دی یہاں آپ نے تین سال تک تعلیمی خدمات انجام دیں اس کے بعد جس پور ضلع اتراکھنڈ میں مدرسہ بدر العلوم میں تعلیم دی

اور یہاں حفظ و قرات کے علاوہ  درس نظامی کا آغاز فرمایا اور محنت و جانفشانی سے جماعت رابعہ تک تعلیم دی اور یہاں آپ کا قیام چھ سال رہا جس پور  کے بعد حضور حافظ ملت کے آبائی گاوں بھوج پور ضلع مرادآباد میں جامعہ فاروقیہ عزیز العلوم میں صدر مدرس کی حیثیت سے تشریف لائے

یہاں بھی تعلیمی معیار حفظ و ناظرہ تک محدود تھا  بیرونی طلبہ بھی نہیں تھے آپ نے اس مدرسہ میں بڑی جد وجہد اور محنت و لگن کے ساتھ درس نظامی کا آغاز  کرایا اور تعلیمی ترقی یہاں تک ہوئی کہ درجہ فضیلت تک تعلیمی معیار بلند ہوا کم و بیش بارہ سال رہا

 پھر اس کے بعد مدینہ المرشد بریلی شریف میں دارالعلوم مظہر اسلام میں تشریف لائے اور اس جامعہ میں  چار پانچ سال تعلیمی خدمات انجام دیں اور ساتھ ساتھ کچھ وقت رضا مسجد میں نماز پنج گانہ اور جمعہ کی امامت فرمائی

پھر فخر ملت علامہ نذیر الاکرم مرادآبادی قدس سرہ العزیز کی خواہش پر جامعہ نعیمیہ مرادآباد تشریف لائے ایک سال تک علوم و معارف کے جام پلا کر مدرسہ مفتاح العلوم رام نگر چلے گئے اس طرح بعد میں بھی کئی بڑی بڑی درس گاہوں میں علوم وفنون کے گل کھلائے

تدریس ایک اہم اور مشکل کام ہےخود کتاب کے مضامین کو کما حقہ سمجھنا اور پھر طالب علم کو اس طرح سمجھا دینا کہ واقعی سمجھ لےاتنا مشکل کام ہے کہ اسکی تعبیر کے لیے الفاظ نہیں تدریس کا کمال یہ ہے کہ دقیق اور مغلق مسائل کو بھی اس پیرائے میں سمجھایا جائے جو طالب علم کو سمجھ آ جائے یہ آسان کام نہیں ہے اگر کسی مدرس میں یہ کمال ہے کہ تو اس کے تلامذہ کا پرھنے لکھنے کا ذوق و شوق ہوگا

ایک ماہر استاد کا یہ کام ہے کہ وہ طالب علم کے غیر مربوط جملوں سے یہ اخذ کر لے کہ اسکو کھٹک کیا رہا ہے اور یہ کہنا کیا چاہ رہا ہے جس مدرس میں یہ کمال ہے تو وہی حقیقت میں منصب تدریس کا اہل ہے اس تناطر میں جب ہم مفتی صاحب علیہ الرحمہ کی ذات کو دیکھتے ہیں تو آپ کے باکمال مدرس و معلم نظر آتے ہیں

آپ کا انداز تدریس انتہائی سادہ و سہل ہوتا اس طور پر درسی تقریر فرماتے کہ کند سے کند ذہن طالب علم بھی سبق کو سمجھ جاتا

دوران درس اگر طالب علم  کوئی اعتراض کرتا تو آپ توجہ سے سنتے پھر اس کا جواب عطا فرماتے اسی طرح طالب علم یہ کہتا کہ سبق میری سمجھ میں نہی  آیا تو بغیر کسی اظہار ناگواری کے دوبارہ بلکہ سہ بارہ بھی سمجھاتے  غیر تعلیمی اوقات میں بھی طلبہ کچھ پوچھنے سمجھنے  آ جاتے تو خندہ پیشانی سے ان کو سمجھاتے کسی طرح ناراض نہ ہوتے 

حضور تاج الریعہ قدس سرہ کی مقبولیت کا راز اس کو بھی پڑھیں

آپ کا مقصد تدریس ہی یہ تھا کہ جو علم میرے پاس ہے اسے اپنے شاگردوں کے سینوں میں انڈیل دوں اور ایک مدرس کی یہ ذمہ داری ہونی بھی چاہیے کہ وہ ہر طرح سے طلبہ کی تعلیم کی مضبوطی پہ توجہ دےچنا ں چہ اسی بات کو سمجھاتے ہوئے شارح بخاری فقیہ اعظم ہند مفتی شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں مدرسین میں تین قسمیں ہیں

پہلی قسم  وہ ہیں جو صرف تنخواہ وصول کرنے کے لئے مدرسہ میں حاضری دیتے ہیں اور کسی طرح خانہ  پوری کرتے ہیں

دوسری قسم وہ جو مدرسہ میں تو حاضری دیتے ہیں کہ تنخواہ وصول ہو لیکن پڑھاتے بھی ہیں

تیسری قسم  وہ ہیں جن کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ جو کچھ بھی میرے سینے میں ہے وہ سب اپنے شاگردوں کے سینوں میں انڈیل دوں ان کو اس کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی کی تنخواہ مل رہی ہے یا نہیں 

در حقیقت مدرس یہی تیسری قسم کے لوگ ہیں پہلی اور دوسری قسم کے لوگ تو مزدور ہیں (مقالات شارح بخاری ج اول ص ۳۵۵)۔

یقینا حضور رفیق ملت کاشمار تیسری قسم کے مدرسین میں ہے کیوں کہ آپ نے بغیر کسی طمع و لالچ کے خالصتا لوجہ اللہ تدریسی و تعلیمی خدمات انجام دیں

اللہ جل مجدہ رفیق ملت علیہ الرحمہ  کی تربت پر رحمت و نور کی بارشیں نازل فرمائے اور انکے صدقے ہماری مغفرت فرمائے

۔(ملخصا مفتی رفیق مصباحی علیہ الرحمہ کی حیات و خدمات)۔

گھر بیٹھے خریداری کرنے کا سنہرا موقع

  1. HAVELLS   
  2. AMAZON
  3. TATACliq
  4. FirstCry
  5. BangGood.com
  6. Flipkart
  7. Bigbasket
  8. AliExpress
  9. TTBazaar

 

 

afkareraza
afkarerazahttp://afkareraza.com/
جہاں میں پیغام امام احمد رضا عام کرنا ہے
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments

قاری نور محمد رضوی سابو ڈانگی ضلع کشن گنج بہار on تاج الشریعہ ارباب علم و دانش کی نظر میں
محمد صلاح الدین خان مصباحی on احسن الکلام فی اصلاح العوام
حافظ محمد سلیم جمالی on فضائل نماز
محمد اشتیاق القادری on قرآن مجید کے عددی معجزے
ابو ضیا غلام رسول مہر سعدی کٹیہاری on فقہی اختلاف کے حدود و آداب
Md Faizan Reza Khan on صداے دل
SYED IQBAL AHMAD HASNI BARKATI on حضرت امام حسین کا بچپن