از قلم : آصف جمیل امجدی علمی ستارے کیا ٹوٹے دل کا دھڑکن بند ہی نہیں ہوتا
علمی ستارے کیا ٹوٹے دل کا دھڑکن بند ہی نہیں ہوتا
۔ (موجِ فکر)۔
۔ 2020غم و الم کے سال میں راقم الحروف اپنی حیاتِ مستعار کی ٢٨ ویں بہار میں داخل ہوچکا ہے۔ 2020 شب و روز پُرنم داستانیں لے کر آیا شاید اس سے قبل کبھی ایسا سنا تھا نہ ہی دیکھا تھا ۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ گاؤں گھر کے معمر افراد سے سنا کرتا تھا کہ فلاں فلاں مہلک بیماری میرے دور میں آئی تھی جو اپنے زہریلے وائرس سے کافی تعداد میں لوگوں کو موت کے آغوش تک پہنچادیا تھا۔ لیکن یہ سننے میں کبھی نہ آیا کہ فوت ہونے والوں میں کثیر تعداد علماء کی تھی ۔ ٠٢٠٢ء کا ایک نیا کیلنڈر خون کے آنسوں کی روشنائی سے تیار ہوچکا ہے؎
رحلت شہزادہ شارح بخاری مولانا ڈاکٹر محب الحق صاحب علیہ الرحمہ گھوسی 29جولائی 2020
رحلت اشرف الفقہا مفتی مجیب اشرف صاحب علیہ الرحمہ 6اگست2020
رحلت مولانا عبد اللطیف اشرفی ناگپور علیہ الرحمہ 7اگست2020۔
رحلت فقیہ عصر علامہ مفتی معراج القادری صاحب علیہ الرحمہ 10اگست2020
رحلت علامہ مولانا عالمگیر نظامی صاحب علیہ الرحمہ امرڈوبھا 11اگست2020
رحلت مولانا غلام مرتضٰی صاحب علیہ الرحمہ کرناٹک 12 اگست 2020
رحلت مفتی ہاشم علی رضوی صاحب علیہ الرحمہ مالدہ ،بنگال 12 اگست 2020
رحلت مفتی ظہیر حسن قادری علیہ الرحمہ ادری 12اگست 2020
موت در حقیقت احساسات کے اس زمرے کا نام ہے جس کا تصور ہی انسانی وجود کو لرزہ بر اندام کردیتا ہے خواہ وہ کیسا بھی ہو۔اسی ماہ اگست کی یکم تاریخ سے دس تاریخ تک راقم الحروف بیماری سےجوجھ رہا تھا یہی وجہ ہے کہ اس دوران سوشل میڈیا خاص کر فیس بک سے کافی دوری بنا کر رہا۔
ایسی صورت حال میں طبیب کے مشورے کو بہت اہمیت دیتا رہا۔ ماہ اگست کی 10 تاریخ تھی سورج مشرقی دریچے سے نکل کر دھیرے دھیرے دنیا کو منور کررہاتھا اس دوران میری طبیعت میں کچھ افاقہ محسوس ہوا۔ روزمرہ کی طرح اس دن بھی سوشل میڈیا سے دنیا میں ہونے والے واقعات و حادثات کی جانکاری حاصل کرنے کے لیے جیسے ہی اپنے آپ کو منسلک کیا
متعدد فیس بک آئی ڈی پر بس ایک ہی غم کی داستاں گردش کر رہی تھی کہ ” جامعہ اشرفیہ مبارک پور ” کے ایک عظیم المرتبت عالم باعمل مفتی معراج القادی صاحب ہم سبھی کو ہمیشہ کے لیے داغِ مفارقت دے گیے ۔ یہ کوئی اکیلا داستاں نہیں ہے بلکہ حقیقت تو یہ ہےکہ ٠٢٠٢ء کے آغاز ہوتے ہی جید علماۓ کرام نے بھی سفر اخرت کا آغاز کردیا۔
اب تک درجن بھر سے زاید علماۓ کرام ہم سبھی کو روتا بلکتا چھوڑ گیے۔ لیکن ان تمام میں سب سے گہرا داغ اگر کسی رحلت پر لگا تو وہ حضرت مفتی معراج القادری مصباحی رحمتہ اللہ علیہ ہیں۔ بے شک آپ گوناگوں علمی صلاحیت سے مکمل لیس تھے؎ مجھے یاد آتا ہے جب ٨٠٠٢ء میں “جامعہ اشرفیہ مبارک پور” میں فقیر کاداخلہ ہوا تھا
اس وقت مجھے ظاہری و باطنی جو خوشی نصیب ہوئی تھی گویا ایسا لگتا تھا کہ کسی نے میری زندگی کے ہر زاویے پر خوشیوں کی قندیل منور کرکے معلق کرگیا ہو۔ اس کی وجہ شاید یہی ہوسکتی ہے کہ فیضانِ حافظِ ملت علیہ الرحمہ و جامعہ اشرفیہ کی تعلیم و تربیت کے زلف عنبری کا سایہ دنیا کے بیشتر حصے پر کل تھی اور آج بھی ہے۔
میری دیرینہ خواہش کیا پوری ہوئی تھی گویا زندگی کا معراج کررہاتھا۔ لیکن نوشتۀ تقدیر تو “حضور صدالشریعہ علیہ الرحمہ کے روحانی فیضان اور استاذی الکریم سلطان الاساتذہ حضور محدث کبیر علامہ ضیاءالمصطفٰے قادری امجدی اطال اللہ عمرہ و اعظم اللہ عزتہ کے علمی و تربیتی فیضان سے مالا مال ہونا تھا” ۔ (اس فیضان کے ساتھ اپنے نصیبے پر جتنا ناز کروں کم ہے) ۔
ان تمام کے باوجود آج بھی “جامعہ اشرفیہ” سے قلبی و کلی لگاؤ ہے جو مجھے اپنے اساتذہ سے ورثہ میں ملا ہے اب یہ تاحیات رہے گا ان شاءاللہ العزیز، اس ورثے کی حفاظت کی ذمہ داری کسی اور کی نہیں بلکہ میری خود ہے
اس کتاب کو خریدنے کے لیے کلک کریں
ONLINE SHOPPING
گھر بیٹھے خریداری کرنے کا سنہرا موقع