از قلم :محمد سلمان رضا امجدی مختصر سوانح حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ
حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ
حضرت ابو سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان چند خوش نصیبوں میں سے ہیں جو فتح مکہ کی رات میں ایمان لائے
اپ کا نام صخر بن حرب بن امیہ کنیت ابو سفیان عام الفیل سے دس سال قبل مکہ میں پیدا ہوۓ قبیلہ قریش کی شاخ اموی کے سردار تھے حضرت ابو سفیان کا شمار بڑے تاجروں میں ہوتا تھا قبول از اسلام مشرکین کے گروہ میں رہ کر اسلام کے خلاف متحرک رہے
اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہچانے میں ہمیشہ گرم جوشی سے کام لیتےرہے آپ کی اسلام دشمنی کسی سے ڈھکی چھپی چیز نہیں تھی حضور ﷺ کو سخت سے سخت اذائیں دینا، مسلمانوں پر حملہ کرنا، کفارِ مکہ کو اکسانا، حضور ﷺ کے قتل کی بار بار شازیشیں کرنا یعنی حضور ﷺ سے عداوت ودشمنی میں کوئی کسر باقی نہ رکھی مگر ان کی تقدیر میں ایمان لکھا تھا ۔ فتح مکہ کے دن جب حضور ﷺ نے عام معافی کا اعلانمشفقانہ فرمایا تو حضرت ابو سفیان اور آپ کی بیوی ہندہ
جنہوں نے غزوہ احد میں حضور ﷺ کے چچا حضرت امیر حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا کلیجا چبایا تھا- دونوں نے اسلام قبول کر لیا۔ اور نبی اکرم صلى الله عليه وسلم نے ان دونوں کی ساری خطاؤں کو معاف فرمادیا-
حضور ﷺ نے ابوسفیان کے گھر کو بیت الامن قرار دیا تھا جو شخص ان کے گھر چلا جائے مامون ہے۔ آپ کی ایک بڑی فضیلت یہ بھی ہے کہ زوجۂ رسول ﷺ ام المومنین حضرت ام حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آپ کی بیٹی ہیں۔
حضرت ابوسفیان نے حضور ﷺ کی ظاہری حیات اور پردہ فرمانے کے بعد بھی دین اسلام کی تائید و تقویت کے لئے مساعی جمیلہ و عظیمہ انجام دینے میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں کی ۔
غزوۂ طائف میں شریک ہوئے دشمن کے تیر سے ایک آنکھ نکل گئی – حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ملی تو ان کے پاس تشریف لائے دیکھا کہ آنکھ کا ڈھیلا ہاتھ میں لیے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہاری یہ آنکھ راہ خدا میں گئ ہے اگر کہو تو دعا کردوں آنکھ ٹھیک ہوجائے یا کہو تو دعا کردوں اس کے عوض جنت ملے حضرت ابو سفیان رضٰ اللہ عنہ نے عرض کیا جنت اختیار کرتا ہوں۔
دوسری آنکھ جنگ یرموک میں جو حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ خلافت میں رومیوں سے ہونے والی لڑائیوں میں جو سب سے بڑی اور فیصلہ کن ہوئی ، پتھر لگنے سے راہ خدا میں قربان ہوگئی – یہ اسلام ہی سے محبت تھی کی آپ نے اپنی دونوں آنکھیں دین اسلام کے لیے قربان کر دیں۔
آخری ایام مدینہ منورہ میں گزاری ۔ اٹھاسی سال کی عمر پا کر وصال فرمایا – حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے نماز جنازہ پڑھائی جنت البقیع میں مدفون ہوۓ۔ آپ نے اسلام کے لئے بڑی قربانیاں دیں ہیں۔ آج کچھ بد بخت حضرت ابو سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شان میں بدگمانی اور بد زبانی کرتے ہیں یہ طریقہ روافض کا ہے اھل سنت کے نزدیک ان کا شمار کبار صحابہ میں ہوتا ہے سارے صحابہ جنتی ہیں چاہے وہ فتح مکہ سے پہلے ایمان لائے ہوں یا فتح مکہ کے بعد ۔
ایمان کی سلامتی اسی میں ہے کہ صحابہ کی شان میں گستاخی کرنے سے بچیں سارے صحابہ واجب الاحترام ہیں اللہ تعالیٰ ہم سب کو صحابہ کے نقش قدم پر چلاۓ آمین۔
تحریر : محمد سلمان رضا امجدی
واپی ،گجرات