از قلم محمد ایوب مصباحی مقالہ نگاری اصول و ضوابط قسط ہشتم قسط ہفتم پڑھنے کے لیے کلک کریں
مقالہ نگاری اصول و ضوابط قسط ہشتم
محترم قارئین: آج یہ ہماری مشقِ مضمون نگاری کے متعلق آٹھویں تحریر ہے۔جس میں ایک ایسے قاعدہ کا تفصیل سے ذکر ہوگا جس سے واقفیت ہر مقالہ نگار کے لیے بےحد ضروری ہے۔اب تک کی تمام قسطوں میں رموزِ اوقاف، اقسامِ مضمون اور مقالہ نگاری کے کچھ قواعد کا ذکر ہوچکا۔
اردو زبان میں میں مضمون نویس کو ایک الجھن یہ ہوتی ہے کہ “ابتداء“”املاء“”علماء” جیسے الفاظ کا صحیح املا کیا ہے آیا یہ ہمزہ کے ساتھ لکھے جائیں گے یا بغیر ہمزہ کے؟ اس سلسلے میں اردو انشاء و املا کے قواعد کی بعض کتابوں میں یہ ضابطہ ملتا ہے کہ عربی کے متعدد مصادر، جمعوں اور مفرد الفاظ کے آخر میں الف یا واو کے بعد ہمزہ ہوتاہے
لیکن وہ ہمزہ تلفظ میں نہیں آتا تو انھیں بغیر ہمزہ کے لکھا جائے گا۔جیسے:ابتداء سے ابتدا، املاء سے املا، علماء سے علما اور سوء سے سو وغیرہ۔
اس کتاب کو خریدنے کے لیے کلک کریں
لیکن ہم نے اس قاعدہ میں جب تفکر کیا تو اس نتیجہ پر پہونچے کہ در اصل اس قاعدے میں کئی قاعدوں کو ضم کردیاگیاہے اگر ان سب کو الگ الگ سمجھا جائے تو اس کی کئی صورتیں ہوسکتی ہیں اور درسِ نظامی سے وابسطہ حضرات کے لیے جس کا سمجھنا اور یاد کرنا آسان تر ہوجاتاہے۔
مذکورہ بالا قاعدے کی تفصیل کچھ اس طرح کی جاسکتی ہے
۔(١)بابِ افتعال و افعال کا ہر وہ مصدر جس کے آخر میں ہمزہ ہو تو وہ اردو املا میں بغیر ہمزہ کےلکھا جائے گا۔جیسے:ارتقا، ابتدا، انتہا، املا، انشا،اعطا وغیرہ۔
۔(٢)ہر وہ جمع جو فعلاء کے وزن پر آئے تو وہ بغیر ہمزہ کے لکھا جائے گا۔جیسے:علما، خطبا، شعرا، نجبا، شرفا، عقلا وغیرہ۔
۔(٣)ہر وہ لفظِ مفرد جو فعال یا فَعلاء کے وزن پر آئے تو وہ بغیر ہمزہ کے لکھا جائے گا۔جیسے:ندا، ضیا، حرا، صحرا، خضرا، زہرا، صفرا، حمرا وغیرہ۔
ہماری اس تحریر کو پڑھنے والے حضرات جو طریقہ آسان سمجھیں اسے محفوظ کرلیں پہلا طریقہ زیادہ جامع ہے کہ اس میں لفظِ سوء وغیرہ بھی آجاتے ہیں اور دوسرا طریقہ (جو راقم کا اختراع ہے) عربی زبان سے واقفیت رکھنے والوں کے لیے از روے حفظ زیادہ آسان ہے۔
کتبہ:محمد ایوب مصباحی
دارالعلوم گلشنِ مصطفی بہادرگنج، سلطان پور
مراداباد، یو-پی-ہند
مقالہ نگاری تمام قسطوں کو پڑھنے کے لیے افکار رضا کو وزٹ کریں
ONLINE SHOPPING
گھر بیٹھے خریداری کرنے کا سنہرا موقع