از قلم: محمد ہاشم اعظمی مصباحی اسلامی سال کا آغاز کب اور کیوں ؟
اسلامی سال کا آغاز کب اور کیوں
اس دنیائے فانی کے اندر مختلف قسم کے سن تقویم رائج ہیں مثلاً بکرمی سن ، عیسوی سن اور نیپالی سن وغیرہ ہم آج کی اس گفتگو میں اسلامی سن کے آغاز و محرکات اور اس کے اسباب کو جاننے کی کوشش کریں گے۔
اولاً تو یہ بات ذہن نشیں کرلیں کہ تمام سالوں پر اسلامی سال کو ٹھیک ایسے ہی اہمیت و فضیلت حاصل ہے جیسے کہ گلاب کو تمام پھولوں پر میرا یہ دعویٰ اس لیے ہے کہ تغیر وتبدل کی شاہ راہ سے گزرنے والی اس دنیا میں جتنے بھی سن کی شروعات ہوئی ہے اس کے پیچھے کسی نہ کسی بڑی شخصیت یا راجا کی پیدائش، وفات یا تخت نشینی کے دن کے محرکات کار فرما ہیں۔
جس سے اس شخص کی شخصیت تو متعارف ہوتی ہے لیکن اس سے عام لوگوں کو کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا لیکن جب ہم اسلامی سال کی ابتداء پر نظر ڈالتے ہیں اور یہ معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ آخر اس کے پچھے کون سے اسباب و محرکات کارفرما ہیں تو ایک بہت ہی دلچسپ بات معلوم ہوتی ہے کہ ۔
خلیفہ دوم امیرالمومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے خلافت کے زمانے میں دو شخص کا آپس میں کچھ لین دین کے معاملے میں اختلاف ہوگیا اب یہ معاملہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی عدالت میں پہنچا عدالت فاروقی میں مقدمہ پیش کیا گیا تو مدعی نے کہا کہ ہم نے اس کو کچھ پیسے دیئے تھے لیکن اس نے نہیں لوٹایا مدعی الیہ کا کہنا تھا کہ ہم نے اس کا پیسہ واپس کردیا ہے
چناں چہ ان دونوں کے درمیان معاہدے کے جو کاغذات مرتب کئے گئے تھے انہیں منگوایا گیا جب کاغذات لاۓ گئے تو اس میں تاریخ ہی درج نہیں تھی کہ کب پیسہ لیا اور کب دیا
اس کتاب کو خریدنے کے لیے کلک کریں
دوسری بات یہ بیان کی جاتی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے زمانۂِ خلافت میں حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ یمن کےگورنر تھے،ان کے پاس حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پیغامات آتے تھےجن پرتاریخ درج نہیں ہوتی تھی
اس لیے کہ اس کا چلن ہی نہیں تھا چناں چہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی توجہ اس جانب مبذول کرائی کہ اس کا اہتمام و انصرام کیا جائے
مذکورہ بالا واقعات کی وجہ سے امیرالمومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پردۂِ ذہن و دماغ پر ایک تاریخ ساز بات نمودار ہوئی کہ کیوں نہ اسلامی سال کی شروعات کی جائے جس سے آیندہ لین دین اور خط و کتابت کی تاریخ بھی متعین ہوگی اور اسلامی سال کی شروعات بھی ہوجائے گی
آپ نے صحابہ کرام کی مجلس شوریٰ قائم فرمائی اور تمام حضرات سے اس کے متعلق مشورہ طلب فرمایا اس مشاورتی میٹنگ میں مختلف قسم کی رائے سامنے آئی جیسے نبوت ملنے ،پہلی وحی، غار حرا اور غار ثور کی تاریخ سے اسلامی سال کی ابتداء کی جائے
لیکن حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی رائے یہ تھی کہ ہجرت مدینہ سے اسلامی سن کا آغاز کیا جائے صحابہ کرام کی اکثریت بھی اس بات پر متفق ہوگئی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بھی یہی رائے تھی مزید برآں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے یہ مشورہ دیا کہ ہجرت مدینہ کے ساتھ محرم الحرام کے مہینے سے سال کا آغاز کیا جائے چوں کہ سال کے بارہ مہینے پہلے ہی سے موجود تھے
جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے : اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کی کتاب میں مہینوں کی گنتی بارہ ہے، اسی دن سے جب سے آسمان و زمین کو اس نے پیدا کیا ہے۔ ان میں سے چار مہینے ادب و احترام کے لائق ہیں، یہی درست دین ہے لہٰذا ان مہینوں میں تم اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو (التوبہ:۳۶)۔
حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے محرم الحرام کے مہینے سے اسلامی سال شروع کرنے کا مشورہ اس لیے دیا تھا کہ ہجرت اگرچہ ربیع الاول کے مہینے میں ہوئی لیکن ذی الحجہ کے بالکل آخر میں مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کا منصوبہ طے کرلیا گیا تھا اور اس کے بعد جو چاند طلوع ہوا وہ ماہِ محرم الحرام کا تھا
چناں چہ باتفاق راۓ سن 17 ہجری میں ہجرت مدینہ سے منسوب ماہِ محرم الحرام سے اسلامی سال کا آغاز ہوا (شرح باب التاریخ ومن أین أرّخوا التاریخ ؛ ج 7 ، ص 268 ملخصاً)۔
ہجرت مدینہ سے اسلامی سال کی ابتداء کرنے کے پیچھے ایسے اسباب و محرکات کارفرما ہیں جو مسلمانوں کے لیے مشعل راہ ہدایت ہیں ہجری سال کے آغاز سے مسلمانوں کے ذہن و دماغ میں ہجرت نبویﷺ کی یاد تازہ ہو جاتی ہے کیوں کہ یہ ہجرت اسلام کی سربلندی اور اعلائے کلمتہ اللہ کے لیے تھی
قربان جائیے ان پاک باز نفوس پر جنہوں نے اسلام کی حفاظت اور کلمۂِ حق کی سرفرازی کے لیے تن، من دھن کی بازی لگا دی، نہ مال دیکھا، نہ گھربار کی پرواہ کی ،نہ آباء و اجداد کی محبت اسلام پر غالب آسکی، بس اللہ اور اس کے رسولﷺ کی محبت سے سرشار ہو کر اسلام کی سربلندی کے لیے سب کچھ چھوڑ ایک آواز محمدیﷺ پہ لبیک کہتے ہوئے مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت اختیار کیا
اس کتاب کو خریدنے کے لیے کلک کریں
جب مہاجرین کا یہ قافلہ مدینہ پہنچا تو انصار و مہاجرین کی اخوت و محبت قابل دید تھی، دنیا کی تاریخ میں کسی بھی قوم میں انصار و مہاجرین جیسی اخوت و بھائی چارگی کی مثال ملنا ناممکن ہے انصاریوں میں اپنے مال و جائداد اور گھربار بلکہ زندگی کی ہر ایک چیز میں مہاجرین کو شریک و شامل کیا
نئے اسلامی سال کی آمد پہ کفر سے اسلام کی ہجرت کی یاد تازہ ہونے کے ساتھ انصاریوں کا اپنے مہاجرین بھائیوں کی دل کھول کر مدد کرنا اور خود پہ انہیں ترجیح دینا بھی خوب یاد آتا ہے، آج اگر مسلمان اسلام کی سربلندی کے لیے اسی طرح قربانی دینے پر آمادہ ہو جائیں اور اپنے مظلوم و مجبور بھائیوں کی امداد کرنے لگیں
تو دنیا کے کسی خطہ میں مسلمان کمزور نہیں رہیں گے اور ان پر کبھی بھی دشمنانِ اسلام ظلم نہیں کر سکیں گے، دشمنوں کے دلوں میں جیسے پہلے ہمارا رعب و دبدبہ قائم تھا پھر سے قائم ہو جائے گا مگر افسوس کہ آج مسلمان ہی اپنے دوسرے مسلمان بھائی کو مٹانے، کمزور کرنے اور ٹکڑوں میں تقسیم کرنے پہ تلا ہواہےیہی وجہ ہے کہ آج ہم ہر جگہ پسپا ہورہے ہیں اور کفار سے ڈرے سہمے ہوئے ہیں
اللہ تعالیٰ ہماری حالت زار پہ رحم فرمائے اور ہمارے درمیان اخوت و محبت، امن و سلامتی اور بھائی چارگی کو پھر سے بحال فرمائے.آمین یا رب العالمین بجاہ النبی الکریم ﷺ
تحریر: محمد ہاشم اعظمی مصباحی
نوادہ مبارکپور اعظم گڈھ یو پی
رابطہ: 9839171719
Hashimazmi78692@gmail.com
ONLINE SHOPPING
گھر بیٹھے خریداری کرنے کا سنہرا موقع