تبصرہ نگار:✍️ وزیر احمد مصباحی (بانکا) مژدۂ رحمت سلسلہ نعت و منقبت کی ایک سنہری کڑی
مژدۂ رحمت سلسلہ نعت و منقبت کی ایک سنہری کڑی
۔ (موج خیال) ۔
نعت گوئی کا فن حمد لکھنے اور کہنے کے بالمقابل خاصا مشکل اور توجہ طلب ہے۔ میرے اپنے خیال میں نعت رقم کرنا پل صراط پر چلنے کے مترادف ہے۔
جس طرح یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ اگر آپ نے پل صراط چلتے ہوئے تھوڑی بہت بھی اپنی کوتاہی و تغافلی کو راہ دی تو جہنم کے بھیانک گڑھے آپ کا مقدر ٹھہریں گے ٹھیک اسی طرح نعت گوئی حبیب ﷺ کے باب میں بھی اگر آپ نے نوک قلم کو بے لگام چھوڑ دیا تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ آپ کا قلم حدود شرع پھلانگ جاے اور تیرہ بختی آپ کی قسمت بن جائے۔
اہل دانش کہتے ہیں “با خدا دیوانہ باش و با محمد ﷺ ہوش یار” یعنی نعت گو شعرا کو اس بات کی اجازت ہے کہ وہ اللہ رب العزت کے ساتھ دیوانہ ہو جائیں، خدا کی تعریف میں وہ جس حد تک زمیں و آسمان کے قلابے ملا سکتے ہیں، ملائیں اور جہاں تک ممکن ہے وہ اپنے شعری فن و کمال کا مظاہرہ کرکے خالق دو جہاں کی بارگاہ میں اپنی بندگی کا اظہار کریں۔
پر ہاں! اللہ کے حبیب ﷺ کی مدح و ثنا کرتے ہوئے آپ جس وقت بھی رطب اللسان ہونا چاہیں، ہمیشہ ہوش یار رہنے کے ساتھ ساتھ دل و دماغ بھی حاضر رکھنا ہوگا، متانت و سنجیدگی، حزم و احتیاط اور اعتدال و توازن سے آپ کا رشتہ ہر آن استوار رہنا چاہیے۔ ورنہ تو یہ ممکن الوقوع ہے کہ آپ رسول گرامی وقار ﷺ سے متعلق عالمِ بے خیالی میں کوئی ایسی بات رقم کر جائیں جو از روئے شرع ممنوع و متصادم ہو۔
عہدِ نبوی ﷺ سے لے کر آج تک نعت گوئی کا حسنِ سلسلہ کہیں بھی ماند نہیں ہوا ہے، بلکہ ہر اگنے والی نئی سحر اس کے لیے ایسی روشنی لاتی ہے جس سے قوام و دوام کی تازہ غذا ہی حاصل ہوتی ہے۔ اُس وقت حضرتِ حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ جیسے اجلہ صحابہ آپ ﷺ کی نشان عظمت کا خطبہ پڑھتے تھے تو آج آپ کی روشن ضمیر امتی نعت خوانی و گوئی میں مصروف عمل ہیں۔
بلکہ یوں کہ لیں ہر لمحہ کائنات کی ہر شئی آپ ﷺ کی مدح و سرائی میں مصروف ہیں۔ ہاں! کچھ لوگوں کا یہ کہنا کہ” نعت گوئی بالکل آسان ہے”میں سمجھتا ہوں ہوا میں تیر چلانے کے مترادف ہے۔ نعت کی دنیا جس قدر وسیع ہے اسی طرح یہاں۔ چلنا بھی مشکل ہے۔ اس ضمن میں عاشق رسول (ﷺ) فاضل بریلوی الشاہ امام احمد رضا قدس سرہ کا یہ قول کس قدر اہم ہے اندازہ لگائیں۔ آپ لکھتے ہیں
۔” حقیقتاً نعت شریف لکھنا نہایت مشکل ہے، جس کو لوگ آسان سمجھتے ہیں۔ اس میں تلوار کی دھار پر چلنا ہے۔ اگر بڑھتا ہے تو الوہیت میں پہنچ جاتا ہے اور کمی کرتا ہے تو تو تنقیص ہوتی ہے۔ البتہ حمد آسان ہے کہ اس میں راستہ صاف ہے، جتنا چاہے بڑھ سکتا ہے۔ غرض ایک جانب اصلاً حد نہیں اور نعت شریف میں دونوں جانب سخت پابندی ہے”۔ (قدسی فن اور شخصیت،ص:۲۱۱،از: مولانا رحمت اللہ صدیقی)۔
نعت گوئی کے لیے جہاں عنایات ربی ضروری ہیں وہیں مشق و ممارست، اخلاص و للہیت اور قوانین و ضوابط سے آشنائی بھی سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔جب تک علم و ادب سے لیس نہیں ہوں گے اس وقت تک آپ کا کلام وسعت و ہمہ گیری کے وصف سے کما حقہ متصف نہیں ہو سکتا ہے۔ ہاں! عروض و قوافی کا علم بھی بےحد ضروری ہے۔
اوہ؛ معاف دارید! در اصل یہ ساری باتیں اس لیے صفحہ قرطاس پر نمودار ہو گئیں ہیں اور اسے لاشعور نے ذہن کے عقبی حصے سے آج شعور میں اس لیے دھکیل دیا کہ اس وقت راقم الحروف کے مطالعاتی میز پر جو کتاب اپنی روشنی بکھیرنے کے ساتھ ساتھ عقل و روح کو تازگی بخش رہی ہے وہ اسی نوعیت کی ہے۔
محترم قاری اخلاق احمد فتح پوری کی طرف سے بطور تحفہ نعتیہ مجموعہ کی صورت میں ارسال کی گئی یہ کتاب “مژدۂ رحمت” ابھی چند ہی روز قبل کسی نئی نویلی دلہنیاں کی طرح ٹھمک ٹھمک چلتی ہوئی ہمارے مطالعہ کی میز تک پہنچی ہے۔ یہ مجموعہ چند ماہر شعرا کے معیاری کلام کا انتخاب ہے۔ سید محمد نور الحسن نور نوابی عزیزی نے مرتب کی ذمہ داری نبھائی ہیں اور آستانۂ عالیہ نوابیہ قاضی پور شریف، فتح پور(یوپی،انڈیا)کے عقیدت کیش شعرا میں سے جن کے نعتیہ کلام زیر نظر مجموعہ میں شامل اشاعت ہیں ان میں سے ایک آپ بھی ہیں۔ بخوفِ طوالت گیارہ گیارہ نعتیہ کلام کے انتخاب کے ساتھ آپ نے صاحب کلام کا ایک مختصر سا تعارف ابتدائے کلام میں منسلک کر دیا ہیں تا کہ قارئین بوقت مطالعہ صاحب کلام سے بھی روشناس ہو لیں۔خود مرتب موصوف”ابتدائیہ” کے تحت ص:۱۰/ پہ تحریر فرماتے ہیں
۔”وابستگانِ سلسلۂ نوابیہ عزیزیہ میں کئی شعراے کرام اپنی نعت و مناقب گوئی میں بر صغیر ہندوپاک میں منفرد مقام رکھتے ہیں لہذا یہ مجموعہ انھیں شعراے کرام کی گیارہ گیارہ نعتوں کے انتخاب پر مشتمل ہے”۔
مجموعے میں شامل ہر ایک کلام جہاں عمدہ، قیمتی اور کوثر و تسنیم سے دھلے ہوئے معلوم ہوتے ہیں وہیں مرتب موصوف کا حسن ذوق اور فکری بالیدگی بھی خوب ابھر کر سامنے آتی ہیں۔ٹائٹل پیج کے بناؤ و سنگھار میں اس طرح عمدگی و جدت کا مظاہرہ کیا گیا ہے جو قارئین کے ذوق جمال کے لیے باعثِ تسکین بھی ہے اور عمدہ سامانِ نظر بھی۔
شروع میں فہرست کتاب بھی شامل ہے اور مرتب موصوف کی طرف سے “ابتدائیہ” و حسیب احمد محبوبی، اسلام آباد پاکستان کی طرف سے “مژدۂ رحمت، ایک فیض اثر انتخاب” کے تحت بنیادی و مفید باتیں بھی مرقوم ہیں۔ اہمیتِ کتاب اور اس میں شامل شدہ تمام مشمولات کے پیشِ نظر حبیب احمد محبوبی کی یہ باتیں مجھے حقیقت بر مبنی معلوم ہوتی ہیں:۔
۔”مژدۂ رحمت بھی ایسے ہی نعت گو شعرا کی کہی ہوئی نعوت کا عمدہ انتخاب ہے جن کے دل عشق رسول ﷺ سے منور ہیں۔ نعوت کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ شعرا سیرتِ طیبہ اور تاریخ اسلام کے گہرے مطالعے کے ساتھ ساتھ فنِ شاعری پر بھی کمال دسترس رکھتے ہیں۔ الفاظ کا چناؤ، مصرع سازی،تلمیح اور بالخصوص شعر کی روانی کو بھی ملحوظ رکھا گیا ہے۔ حضور ﷺ کی سیرت مطہرہ کے اہم گوشوں کو بھی نعت کے ذریعے نمایاں کرنے کی کوشش کی گئی ہے، جو نعت کا خاصہ ہے۔ ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ تمام شعرا کی نسبتِ روحانی سلسلۂ جہانگیریہ کی ذیلی شاخ ‘نوابیہ عزیزیہ’ سے ہے”۔
زیر نظر کتاب میں شامل شعرا میں سب سے پہلا نام صوفی سید محمد عزیز الحسن شاہ نوابی کا ہے۔ بعدہٗ سید محمد نورالحسن نور نوابی عزیزی، سید محمد مجیب الحسن نوابی عزیزی، شیخ محمد الیاس انجم نوابی، یاور وارثی عزیزی نوابی، حبیب سرور عزیزی نوابی، کفیل احمد عزیزی نوابی اور شمائلہ صدف عزیزی نوابی کے کلام بالترتیب شامل اشاعت ہیں۔
کتاب ہذا سے جب میں نے اپنی آنکھوں کا رشتہ استوار کیا تو اس حقیقت سے واقفیت ہوئی کے قطب الاقطاب حضرت الحاج صوفی سید نواب علی شاہ رحمتہ اللہ تعالٰی علیہ کے خانقاہ کا ہر ایک فرد، ہر عقیدت کیش نعت گوئی اور شہنشاہ بطحا کی رضا جوئی کو حرزِ جاں تسلیم کرتے ہیں ۔ خود بانی خانقاہِ نوابیہ عزیزیہ ایک سچے عاشق رسول تھے۔ کیا سفر اور کیا حضر؟ ہر جگہ ان کے لبوں پر نعت رسول ﷺ کے نغماتِ ہی حاوی رہتے۔عشقِ حبیب ﷺ کی بھٹی میں تپ کر کندن بن جانے ہی کا یہ کمال تھا کہ آپ اپنے مریدین و متوسلین سے فرمایا کرتے :” اگر مجھے خوش کرنا چاہتے ہو تو مجھے نعت سناؤ”۔
خانقاہی نظام کی اسی عمدہ روش کا کمال ہے کہ یہاں تصوف و معرفت کے ساتھ ساتھ شعر و سخن کے بھی بازار گرم ہے اور اکثر افراد فن نعت گوئی میں بامِ عروج پر جا پہنچے ہیں۔ بقول مولانا طفیل احمد مصباحی ” جس خانقاہ میں نعت رسول سے ایسی وابستگی پائی جاتی ہو، وہاں” نعت گوئی” کے پودے کا تناور درخت کی شکل اختیار کر لینا ایک فطری امر ہے”۔(کلام نور کے ادبی محاسن،ص:۱۷)۔
سید محمد نور الحسن نور نوابی عزیزی زیر نظر کتاب میں شامل “ابتدائیہ” کے تحت لکھتے ہیں
۔”یہاں تزکیۂ نفس اور تصفیۂ قلب یعنی اصلاح ظاہر و باطن کے ساتھ ساتھ عشق رسول ﷺ کے جامِ کرم خوب بھر بھر کے پلائے جاتے ہیں، نیز وابستگان خانقاہ نوابیہ عزیزیہ کا یہ امتیاز و انفراد بھی ہے کہ ذوقِ نعت اور سخن شناسی کی دولت انکو خوب خوب ارزاں ہوئی ہے”۔ (ص:۹)۔
متذکرہ بالا حقیقت کی روشنی میں اگر ہم مترجم موصوف ہی کی ذات بابرکات کا مشاہدہ کرتے ہیں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ شعر و سخن کی دنیا میں منفرد شناخت رکھتے ہیں، اہل علم و ادب کے یہاں نگاہ تکریم سے دیکھے جاتے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ آپ”شاعر جدت طراز” کے لقب سے بھی یاد کیے جاتے ہیں۔
خیر؛ ص:۱۵/ پر حضرت صوفی سید محمد عزیز الحسن شاہ نوابی (صاحب سجادہ،آستانۂ عالیہ نوابیہ قاضی پور شریف) کا ایک مختصر سا تعارف پیش کیا گیا ہے، جس میں تعلیم و تربیت کے ساتھ ان کے مشاغل و مصروفیات بھی مختصراً بیان کر دئیے گیے ہیں تا کہ قارئین نعتیہ اشعار مطالعہ کرنے سے قبل آپ کی شخصیت سے بھی واقف ہو جائیں۔ اس کے بعد ہی آپ کے گیارہ اہم و چنندہ کلام شامل ہیں اور یہ سلسلہ ص:۲۷ تک محیط ہے۔ آپ کے اشعار میں دیار رسول ﷺ پر حاضری کی تڑپ، مضمون آفرینی، زور بیانی اور اظہارِ بندگی و غلامی کے ساتھ ارواحنا فدا ﷺ پر ہزار جان سے عاشق ہونے کی تمنا کا اظہار واضح طور پر دستیاب ہے۔ بطور مثال یہ اشعار دیکھیں:
دیارِ عشق ہو سجدوں میں صبح و شام کروں
زمانہ کچھ بھی کرے بس یہی میں کام کروں
یہ مختصر سے مہ و سال کی بساط ہے کیا
ہزار جان خدا دے تمھارے نام کروں
اپنی بخشش کے لیے ہم نے بہانہ چن لیا
ان لبوں نے ان کی نعمتوں کا ترانہ چن لیا
عزیز ہیچ ہے سب رنگ و حسن دنیا کا
نگاہ عشق میں روشن ہیں خد و خال رسول
ص: ۲۸ تا ۴۳ خود مرتب موصوف کے کلام کا ایک جال سا پھیلا ہوا ہے۔ آپ کی نعت گوئی پر مزید کچھ کہنے کے بجائے جناب یاور وارثی کا یہ قول نقل کر دینا کافی سمجھتا ہوں، آپ لکھتے ہیں:
۔ “حضرتِ نور کو عشق رسالت اور نعت گوئی کی سعادت ارزانی نے فن کی ان بلندیوں پر پہنچا دیا ہے، جہاں دیکھنے میں اہل نظر کی ٹوپیاں زمین پر آ جاتی ہیں”۔ (قلزم نور، ص:۳۲، بحوالہ کلام نور کے ادبی محاسن)۔
یہ اشعار دیکھیں کہ آپ نے حقیقت نگاری کو کس طرح اچھوتے اور دلنشین اسلوب کا جامہ فراہم کیا ہیں
جو دل سے مدحت خیرالانام کرتے ہیں
انھیں ادب سے فرشتے سلام کرتے ہیں
متاع عشق نبی جن کے پاس ہوتی ہے
غزال نفس کو وہ لوگ رام کرتے ہیں
ابھی کرم کے اترتے ہیں قافلے اے نور
ابھی درود کا ہم اہتمام کرتے ہیں
آئینہ چیز ہے کیا، چاند نہ ہم سر ہوتا
کاش میں کوچہ سرکار کا پتھر ہوتا
راحتیں پاؤں مرے چومنے آتیں اے نور
سایۂ گنبد خضریٰ جو میسر ہوتا
آپ کی شاعرانہ کمال اور فکر و فن کی روشنی کو اہل علم و دانش نے بجا طور پر تسلیم کیا ہے۔ اس ضمن میں پروفیسر بدرالدین شبنم بھاگلپوری، پروفیسر فاروق احمد صدیقی اور پروفیسر ڈاکٹر ریاض مجید وغیرہ اہم ہیں۔
تیسرے نمبر پر آپ کے برادرِ اصغر یعنی سید مجیب الحسن کے کلام شامل ہیں۔ آپ کی پیدائش ۹۰، کی دہائی میں ہوئی ہے اور دنیوی علوم کے اعتبار سے سوفٹویر انجینئر ہیں۔ اب تک آپ کی دو کتابیں (بامِ ایجاب اور سخن درسخن) منظر عام پر آ گئی ہیں۔ آپ کے یہاں بھی حضور اکرم ﷺ سے عشق و عقیدت کی خوشبو عروج پر ہے۔ آدابِ فن کے التزام کے ساتھ معنوی گہرائی، صفائی بیان اور معنی آفرینی کی تمام تر جلوہ سامانیاں واضح طور پر نظر آتی ہیں۔ الفاظ کا چناؤ بڑی بیدار مغزی سے کرتے ہیں اور اس کے پیچ و خم میں الجھنے کے بجائے سہل پسندی کے قائل نظر آتے ہیں۔ تفصیل و حقیقت شناسی کے لیے زیر تبصرہ کتاب کا ص: ۴۵ تا ۵۷ کا مطالعہ کریں۔
ص: ۵۸ تا ۷۲ شیخ محمد الیاس کے کلام شامل ہیں۔آپ کا تخلص “انجم“ہے۔ آلہ باد آبائی وطن ہے اور صوفی نواب علی شاہ سے ہی آپ کو شرفِ بیعت بھی حاصل ہے۔مجموعہ کلام بنام” آتش گل” منصہ شہود پر جلوہ گر ہو کر اہل علم سے خراج وصول کر چکا ہے۔ شاعر موصوف کے یہ دو شعر مجھے بےحد پسند آئے
کسی بنجر پہ جو لکھ دیں تو بنے رشک جناں
ایسا رکھتے ہیں اثر سید کونین کے نام
جو اپنے نانا کے اک اشارے پہ ہنس کے سر کو کٹا دے انجم
نہ بزم عالم میں کوئی دیکھا امام عالی مقام جیسا
ص: ۲۳/ پر میدان نعت و غزل کا ایک معروف نام ” غلام اسمعیل” نمودار ہوتا ہے۔ تخلص ” یاور وارثی” ہے۔ آپ کا رشتۂ ولدیت جناب افسر ناروی( غلام ابراہیم) سے منسلک ہے۔ شعری میدان میں آپ کی اعلی لیاقت و صلاحیت اور سیال قلم کی اس سے بڑھ کر اور دوسری کیا دلیل ہو سکتی ہے کہ نعت و منقبت اور غزل کی دنیا میں آپ کے نوک قلم سے اب تک تقریباً ۹، جواہر پارے وجود پا چکے ہیں۔ آپ مضمون نگاری بھی کرتے ہیں۔ اب بطور نمونہ کچھ اشعار دیکھیں اور عشقِ مصطفیٰ ﷺ سے سرشار ہو کر سر دھنتے جائیں
مرے آقا کی مسجد کے منارے داد دیتے ہیں
کبوتر نعت پڑھتے ہیں نظارے داد دیتے ہیں
اے دل مدینہ آ گیا باہر نکل کے آ
ممکن نہیں ہے آنا تو اشکوں میں ڈھل کے آ
یاور بلا رہا در مصطفے تجھے
گھر ٹھوکروں پہ مار کے رستہ بدل کے آ
چھٹا نام حبیب سرور عزیزی کا ہے۔”سرور” تخلص فرماتے ہیں۔ آپ اپنے مرشد کے دیار کے ہی باسی ہیں۔ سن ۱۹۵۸ء سے میدان نعت گوئی میں جو قدم رکھا ہیں، وہ سلسلہ اب تک دراز ہے۔ ایک مجموعہ”رحمت تمام” (نعتیہ دیوان) کی صورت میں بھی ظہور پذیر ہو چکا ہے۔ بطور نمونہ مشاہدہ کلام کے لیے زیر نظر کتاب کا ص: ۸۹ تا ۱۰۱ کی روگردانی مفید ہوگی (ان شاءاللہ عزوجل)۔
ص:۱۰۲/ پر کفیل احمد کا نام ہے۔ آپ بھی خانقاہ نوابیہ عزیزیہ کے عقیدت کیش ہیں، بڑے عالم و فاضل ہونے کے ساتھ پیشہ تدریس سے بھی وابستہ ہیں۔ تخلص ۔”کفیل” سے شعری دنیا میں منفرد شناخت رکھتے ہیں۔ اب تک آپ کی کوئی سنہری کاوش تو منظر عام پر نہیں آئی ہے، البتہ دو مجموعہ کلام ” مدحتیں، رنگ زار” زیر طبع ہیں۔ جب کہ کتاب میں آخری نعت گو کی صورت میں محترمہ شمائلہ فاطمہ کا نام شامل ہے۔ “صدف” تخلص ہے اور آپ فیصل آباد (پاکستان) سے تعلق رکھتی ہیں، تا حال آپ کی متعدد اہم کاوشیں شائع ہو کر اہل علم و دانش سے پسندیدگی کا خراج وصول کر چکی ہیں۔ نعت و مناقب کے علاوہ تنقیدی و تحقیق مضمون نگاری سے بھی اچھی دلچسپی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ جب محترم قاری اخلاق احمد فتح پوری سے پہلی دفعہ بذریعہ فون سلام و کلام ہوا تھا تو آپ نے محترمہ شمائلہ صدف عزیزی ہی کی کسی ایسی کتاب پر تبصرہ نگاری کی فرمائش کی تھی جسے جلد ہی منظر عام پر آنا تھا، مگر افسوس کہ کسی تکنیکی خرابی کے پیش نظر موصوف کی یہ آرزو رنگ نہ لا سکی۔
یہ بات مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ زمانہ اشرفیہ میں جب میں پابندی کے ساتھ ہر ماہ “ماہنامہ اشرفیہ” سے آنکھیں ملاتا تو مجھے بسا اوقات نعتیہ کالم میں شمائلہ صدف عزیزی کے بھی نعتیہ اشعار پڑھنے کو ملتے، مگر آج جب زیر نظر کتاب سے اپنی آنکھوں کا رشتہ بحال کیا تو اس حقیقت کا سراغ لگا کہ نہیں! آپ تو ایک پُرگو اور زود نویس شاعرہ ہیں۔ نعت گوئی سے آپ کو عشق کی حد تک لگاؤ ہے۔
تا حال بنام”موجِ کرم” ایک نعتیہ مجموعہ بھی شائع ہو کر اہل نظر کے مابین مقبول ہو چکا ہے۔ آپ جس طرح عشق نبی ﷺ میں ڈوب کر نعت نبی رقم کرتی ہیں، پڑھتے وقت واقعتاً کیف آگیں لمحات سے شادکام ہو کر قارئین کے عقل و خردجھوم جاتے ہوں گے۔ آپ کی نعت میں فن، زبان اور عشق تینوں کا ایسا خوبصورت مثلث ہے جس نے ہر شعر کو ستاروں کی انجمن بنا دیا ہے۔ آپ کی شاعری میں الفاظ کی بازیگری کے بجائے فکر کا عنصر ملتا ہے اور یہی چیز آپ کو اوروں سے امتیاز و شناخت عطا کرتی ہے۔ آپ لکھتی ہیں:
ہے تبسم آپ کا سارے جہاں کی روشنی
ورنہ کیا ہے ماہ و مہر ضوفشاں کی روشنی
جا نہیں سکتا کبھی قعر مذلت کی طرف
اسوۂ محبوب ہے اس کارواں کی روشنی
کوئی دن ہو، کوئی ساعت ہو، کوئی لمحہ صدف
ہو زباں پر نام پاک مصطفے آٹھوں پہر
اس طرح اگر تمام شعرا کے نعتیہ کلام کا آپ تخمینہ لگائیں تو یہ تعداد ۸۸/ تک پہنچ جاتی ہے۔ کتاب کے آخری صفحہ پر جہاں دبستان نوابیہ عزیزیہ پبلیکیشنز کی فہرستِ مطبوعات شامل ہے وہیں میں آستانہ عالیہ نوابیہ عزیزیہ قاضی پور شریف، فتح پور کی ایک دلکش تصویر بھی ثبت ہے۔ ٹائٹل پیج اور کتاب ہذا میں شامل تمام کلام کے ساتھ اندرونی کاغذی صفحات بھی عمدہ ہیں، کہیں سے بھی لچر پن کا دخول نہیں ہوا ہے۔
ترتیب و تہذیب میں وہ تمام ضروریات و لوازمات بہتر طور پہ برتے گیے ہیں، جن کی کمی قارئین کے ذوق لطیف پر خار بن کر گرتے ہیں۔ اس خوبصورت گلدستہ کی اشاعت پر ہم مرتب موصوف کو قلبی مبارک باد پیش کرتے ہیں۔
مجھے امید ہے کہ نعت و منقبت کی دنیا میں یہ گلدستہ بنظر استحسان دیکھا جائے گا اور اہل ذوق اسے سراہنے کے ساتھ ساتھ اپنے مطالعاتی میز کی زینت بھی بنائیں گے۔(ان شاءاللہ عزوجل) ہاں! اتنی باتیں ہو چکنے کے بعد اگر کوئی صاحب اس کتاب کو حاصل کرنا چاہتے ہیں تو وہ ۱۵۰/ روپے کی قیمت ادا کرکے آستانہ عالیہ نوابیہ عزیزیہ قاضی پور شریف، فتح پور(انڈیا) سے حاصل کر سکتے ہیں۔
(تبصرہ نگار: جامعہ اشرفیہ مبارک پور کے ریسرچ اسکالر ہیں)
تبصرہ نگار کے اور دوسرے تبصروں کو پڑھنے کے لیے کلک کریں
اس کتاب کو خریدنے کے لیے کلک کریں
ONLINE SHOPPING
گھر بیٹھے خریداری کرنے کا سنہرا موقع