Wednesday, November 20, 2024
Homeمخزن معلوماتمقالہ نگاری اصول و ضوابط قسط نہم

مقالہ نگاری اصول و ضوابط قسط نہم

        از قلم: محمد ایوب مصباحی مقالہ نگاری اصول و ضوابط قسط نہم

مقالہ نگاری اصول و ضوابط قسط نہم

        معزز قارئین ! گزشتہ قسط میں آپ نے یہ ملاحظہ کیا کہ متعدد جمعیں، مصادر اور وہ مفرد کلمات جن کے آخر میں ہمزہ اور اس سے پہلے الف ہو تو اردو املا میں ہمزہ لکھنے میں نہیں آئے گا۔اب ایک قدم آگے بڑھ کر اسی قاعدہ کو اور سمجھو!

       اگر ایسی جمعوں، مصادر اور مفرد الفاظ جن کے آخر میں ہمزہ اور اس سے پہلے الف ہو اگر یہ کسی عربی ترکیب کا حصہ ہوں تو ہمزہ جوں کا توں لکھا جاے گا جیسے: ان شاءاللہ، ثناء اللہ،فداء المصطفی، خطباء العرب، ذکاء اللہ،عطاء الرحمٰن وغیرہ

       اس سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ ایسے الفاظ کا املا “واو” یا “واو کے اوپر ہمزہ” لٹکا کر لکھنا غلط ہے۔ جیسے:ثناواللہ، فداو المصطفی/ثناؤاللہ، فداؤ المصطفی وغیرہ۔

       ایسے الفاظ کی اگر اضافت کردی جائے یا موصوف بنادیا جاے تو ان کا املا “یاے مجہول” کے ساتھ ہوگا۔جیسے:عطاے رسول، انشاے عربی، املاے اردو، ارتقاے ملک، شعراے عظام، علماے کرام، فقہاے کوفہ ،قراے مصر وغیرہ۔

       لہذا واضح ہوگیا کہ ان الفاظ کو ترکیبِ اضافی یا توصیفی میں “یاے مجہول کے اوپر “ہمزہ” بناکر لکھنا غلط ہے۔اور اس کے غلط ہونے کی دو وجہیں ہوسکتی ہیں ایک کا تو ابھی ذکر ہوا اور دوسری وجہ-جس کا ذکر گزشتہ قسطوں میں بھی ہوچکاہے- یہ ہے کہ یہ سب اسم ہیں وہ ہمزہ فعل پر آتاہے۔ جیسے:جائے (مصدر جانا سے) اگر اس کا اسم (بمعنی جگہ) لکھنا ہو تو اس کی صورت یہ ہوگی: جاے پیدائش وغیرہ۔ 

    قاعدہ :ایسا لفظ جس کے وسط میں الفِ مفتوح ہو تو اسے الف پر زبر کے ساتھ لکھا جائے گا۔ جیسے:تاَثر، متاَخر، تواَم، جراَت، تاَسف، متاَمل وغیرہ۔ لیکن اس قائدہ کو ہم یوں بھی سمجھ سکتے ہیں کہ بابِ تفعل کی علامت الفعام ازیں کہ مصدر ہو یا اسمِ فاعل و مفعول وغیرہ پر فتح(زبر) آئے گا۔

ماسبق میں جو مثالیں مذکور ہوئیں اگر ان میں غور کیاجائے تو اس نتیجے پر بآسانی پہونچا جاسکتاہے۔اگرچہ “الف”کے اوپر “ہمزہ” بناکر لکھنے کا بھی چلن ہے لیکن وہ نامناسب ہے لہذا طریقۂ اول کو اپنانے پر زور دیا جائے۔لیکن اگر یہی الفاظ بابِ تفعیل سے آجائیں تو پھر الف کی جگہ “واو” اور پھر اس کے اوپر “ہمزہ” بناکر لکھے جائیں گے لیکن اس میں یہ شرط ہے کہ اس واو کا ماقبل مضموم ہو۔اس سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ واو یہاں ماقبل کے ضمہ کی مناسبت سے ہے ۔جیسے:مؤرخ، مؤنث، مؤدب، مؤرخہ، مؤثر، مؤقر، مؤجل وغیرہ ۔

       لہذا ان کو بغیر ہمزہ کے ساتھ (مورخ، مونث، مودب، مورخہ، موثر، موقر، وغیرہ لکھنا غلط ہوگا کیوں کہ بغیر ہمزہ سے لکھنے میں بعض کے متعلق بابِ افعال سے ہونے کا وہم ہوگا۔اسی طرح الف کے ساتھ جیسے:مُاَرخ، مُاَنث، مُاَدب وغیرہ لکھنا غلط ہے۔کہ اس سے مادہ کی طرف رہنمائی دشوار ہوگی بلکہ اس کا صحیح اور رائج املا “واو”کے اوپر “ہمزہ”کے ساتھ ہے تاکہ مادہ کی طرف رہ نمائی بھی ہوجاے۔

      کتبہ: محمد ایوب مصباحی

استاذ دار العلوم گلشنِ مصطفی بہادر گنج، مراداباد، یو۔پی۔ہند

قسط اول کے لیے کلک کریں

قسط دوم کے لیے کلک کریں 

قسط سوم کے لیے کلک کریں

قسط چپارم کے لیے کلک کریں

قسط پنجم کے لیے کلک کریں

قسط ششم کے لیے کلک کریں

قسط ہفتم کے لیے کلک کریں

قسط ہشتم کے لیے کلک کریں

ONLINE SHOPPING

گھر بیٹھے خریداری کرنے کا سنہرا موقع

  1. HAVELLS   
  2. AMAZON
  3. TATACliq
  4. FirstCry
  5. BangGood.com
  6. Flipkart
  7. Bigbasket
  8. AliExpress
  9. TTBazaar
afkareraza
afkarerazahttp://afkareraza.com/
جہاں میں پیغام امام احمد رضا عام کرنا ہے
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments

قاری نور محمد رضوی سابو ڈانگی ضلع کشن گنج بہار on تاج الشریعہ ارباب علم و دانش کی نظر میں
محمد صلاح الدین خان مصباحی on احسن الکلام فی اصلاح العوام
حافظ محمد سلیم جمالی on فضائل نماز
محمد اشتیاق القادری on قرآن مجید کے عددی معجزے
ابو ضیا غلام رسول مہر سعدی کٹیہاری on فقہی اختلاف کے حدود و آداب
Md Faizan Reza Khan on صداے دل
SYED IQBAL AHMAD HASNI BARKATI on حضرت امام حسین کا بچپن