ہندو کا تاریخی پس منطر اور ہندو کا لغوی معنیٰ (از. محمد اویس رضا قادری کشن گنجوی)۔
ہندو کا تاریخی پس منطر اور ہندو کا لغوی معنیٰ
ہندو دھرم کا مختصر تعارف
ہندو کسی ایک مذہب کا نام نہیںہے بلکہ ہندو دھرم کا الگ الگ کتابوں ،خداؤں،عبادت کرنے کے طریقوں،رہن سہن، کھانے پینے، اوررسم و رواج کے مجموعہ کا نام ہے اور کسی ایک شخص کا بنایا ہوا دھرم بھی نہیں بلکہ مختلف جماعتوں اور اس کے نظریات کا مرکب ہے۔ یعنی دہریت،بت پرستی، شجر پرستی، حیوان پرستی، وغیرہ سب اس میں شامل ہے۔
اور ان تمام معاملات میںسب کے لیے ایک اصول و قانون نہیں ہے بلکہ جدا جدا ہے۔
لفظ ہندو کا تاریخی پس منظر کیا ہے؟
لفظ ہندو کا تاریخ میں یا ہندو مت کی کسی کتاب میں ذکر نہیں ہے اٹھارویں صدی سے پہلے ہندو کی جگہ سناتن دھرم یا ویدک دھرم کا لفظ استعمال ہوتا تھا ۔سب سے پہلے راجہ موہن راے نے۱۸۱۶ءمیں سناتن کی جگہ میں ہندو لفظ کا استعمال کیا اور اس کے بعد انگریز اسکالر
john Crwford
نے اپنے ریسرچ پیپر میں لفظ ہندو کا استعمال کیا اور اس کے بعد کئی انگریز مصنفوں نے سناتن دھرم کی جگہ ہندو ازم کااستعمال کیا اور تب جاکر۱۸۵۸ء میں آکسفورڈ ڈکشنری میں لفظ ہندوسناتن کی جگہ لے لیا۔
لفط ہندو کی تحقیق
قدیم ہندوستان میں دریاے سند ھ کے پار رہنے والے لوگوں کو ہندو کہا جاتا تھا۔ جس کا ثبوت ایران کا قدیم ترین مذہب زرتشتیت کی مذہبی کتاب زنداوستا میں ملتا ہے ۔ اس کتاب میں ایک جگہ
hapta hindu
کا لفظ استعمال ہوا ہے کیوں کہ فارسی زبان میں س ہ سے بدل جاتا ہے جو کہ اصل میں سنسکرت کا
sapta sidhu
تھا جو فارسی میں
hapta hindu
ہوگیا اور تاریخی اعتبار سے یہ دریاے سندھ کا نام تھا۔
اور آج بھی ہندو محققین و مفکرین کا ماننا ہے کہ ہندو کا سناتن یا ویدک دھرم نام ہی زیادہ مناسب ہے۔اس لیے ہندو دھرم کے محققین لکھتے ہیں کہ جن جن سنسکرت کے گرنتھوں،مذہبی کتابوں میں لفط ہندو آیا ہے انہیں بھی جدید ہی سمجھا جاے کیوں کہ اگر یہ قدیم سنسکرت کے لفظ ہوتے تو ویدوں میں نہ سہی کم سے کم اسمرتیوں،پرانوں، رامائن، مہابھارت اور پرانے لغات میں ضرور پایا جاتا۔اور تو اور ہمارے قدیم لغت مرکوش بھی اس لفظ ہندو سے پوری طرح ناواقف ہے۔( اسلام اور ہندو دھرم کا تقابلی مطالعہ۔ج 1 ص 92)۔
اسی طرح پنڈت نہرو لکھتے ہیں ” ہمارے قدیم مذہبی ادب میں تو ہند لفظ کہیں آتا ہی نہیں ۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ اس لفظ کا حوالہ ہمیں جو کسی ہندوستانی کتاب میں ملتا ہے وہ آٹھویں صدی عیسوی کے ایک تانترک گرنتھ میں اور وہاں ہندو کا مطلب کسی خاص دھرم سے نہیں بلکہ خاص لوگوں سے ہے لیکن ظاہر ہے کہ یہ لفظ بہت قدیم ہے اور اویستا میں اور قدیم فاسی میں آتا ہے( ہندوستان کی کہانی ، ص ۷۸۔ بحوالہ اسلام اور ہندو دھرم کا تقابلی مطالعہ)۔
اس سے پتہ چلا کہ قدیم و تاریخی اعتبار سے ہندو ستان کے لوگ اس ہندو لفظ سے ناواقف تھے اس لفظ کا استعمال سب سے پہلے ایران اور عرب کے لوگ کیے تھے لیکن کسی مذہبی شناخت رکھنے کی وجہ سے نہیں بلکہ جغرافیائی اور مخصوص قوم و آبادی کے ترجمان کی حیثیت سے کیا تھا۔
ہندی کے مشہور قومی شاعر رام دھاری سنگھ دِنکر لکھتے ہیں
ہندو لفظ ہمارے قدیم ادب میں نہیں ملتا ہے بھارت ورش میں اس کا سب سے پہلا ذکر آٹھویں صدی عیسوی میں لکھے گئے ایک تنتر گرنتھ میں ہے جہاں اس لفظ کا استعمال مذہبی معنی یا مذہبی اس کے طور پر نہیں کیا گیا ہے بلکہ ایک گروہ یا زات کے معنی میں کیا گیا ہے۔
ہندو جاتی کااتھان اور پتن نامی کتاب کے مصنف ہندو دھرم کے مشہور و معروف محقق رجنی کانت شاستری لکھتے ہیں ۔
بعض اہل علم کا خیال ہے کہ ہند لفظ جوکہ غیر ملکیوں بالخصوص پارس والوں کے ذریعے اس ملک کا نام رکھا گیا ہے سندھو لفظ سے جو پنجاب کی ندی کا نام ہےپھر اسی ہند لفظ سے ہندو اور ہندی ان دونوں لفظوں کا اشتقاق ہوا۔ ہند لفظ سے پارس والوں کا مطلب سندھوی کے پار والے ملک سے ہے۔ ہندو لفظ سے ہند کے باشندے اور ہندی لفظ سے ہند کے باشندے کی زبان سے تعلق و مقصود تھا ۔ پارس والے جہاں س بولتے ہیں وہاں اکثر ہ کا استعمال کرتے ہیں جیسے سپت ہفت اسراھر سرسوتی ہرہوتی اور سپت سندھوہفت ہندو وغیرہ اس سے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ سندھو سے ہند ہوا اور ہند سے ہندو اور ہندی یہ دو لفظ پیدا ہوے۔ ( اسلام اور ہندو دھرم کا تقابلی مطالعہ)۔
لفظ ہند و کا اصطلاحی معنیٰ و مفہوم
دنیا میں اس وقت جتنے بھی مذاہب ہیں ان تمام مذہبوں کی تعریف
Definition
ہے لیکن ہندو دھرم ایک ایسا دھرم ہے جس کی کوئی جامع تعریف نہیں ہیں ہے ۔ہندو دھرم کے بہت سارے محققین نے اپنی علمی و فکری لیاقت پر ناز کرتے ہوے اس کی تعریف کرنی کی ناقص کوشش کی لیکن جب ارباب علم و دانش تحقیقی نظر سےاس پر غور و فکر کریں گے تو یہ تعریف ناقص و نامکمل نظر آے گی۔ اس کی سب سے بڑی وجہ ہے کہ ہر مذہب کا کوئی نہ کوئی بنیادی عقیدہ ہوتا ہے لیکن ہندو دھرم ایسا دھرم ہے جس کا کوئی بنیادی عقیدہ نہیں ہےکیوں کہ ہندو دھرم کا نہ کوئی رسول ہے اور نا ہی کوئی مذہبی کتاب ہے جس پر سب لوگوں کا اتفاق ہو۔
ہندو دھرم کے احکام ، اصول و ضوابط اور معاشرتی طور طریقے میں بہت ہی زیادہ اختلاف ہے ۔ چند مثالیں درج کر رہا ہوں ملاحظہ فرمائیں
۔۱ ایک ایشور کی پوجا کرنے والے بھی ہندو اور ۳۳ کروڑ دیوی دیوتاوں کی پوجا کرنے والے بھی ہندو
۔۲۔مورتی ہوجا کرنے والے بھی ہندو اور مخالفت کرنے والے بھی ہندو
۔۳۔ مندوروں میں بے روک ٹوک جانے والے بھی ہندو اور مندروں سے مار کر بھگاے جانے والےشودر بھی ہندو
۔۴۔گاے ، سانپ وغیرہ کے پجاری بھی ہندو اوران کو ختم کرنے والے بھی ہندو
۔۵۔پیاز ،لہسننہ کھانے والے بھی ہندو اور انتہائی ناپسندیدہ چیزیں جیسے سانپ،کتا،سور،بندر وغیرہ کو کھانے والے بھی ہندو
ہندو دھرم کے یہ اور اس طرح کےبہت سارے اختلافات ہیں اور انہیں اختلاف کی وجہ سے ڈاکٹر رادھا کرشن نے لکھا ہے کہ ۔ ہندو کوئی دھرم نہیں ہے بلکہ زندگی گزارنے کا طریقہ ہے اسی طرح کی باتیں ار ایس ایس کے ایک محقق کرتے ہوے نظر آتے ہیں وہ لکھتے ہیں ۔حقیقت میں ہندو کوئی دھرم نہیں ہے بلکہ ایک کلچر ہے۔( اسلام اور ہندو دھرم کا تقابلی مطالعہ)۔
دور جدید میں لوگ اہل مغرب کی تحقیق کو اہمیت دیتے ہیں اس لیے
world Civilization
کے دو مصنفین نے جو ہندو دھرم کے بارے میں لکھا اس کو بھی پڑھ لیں۔
اہل مغرب کی اصطلاح کے مطابق ہندو دھرم کو دھرم نہیں کہا جاسکتا کیوں کہ یہ ہر طرح کے عقائد کو تسلیم کےلیے تیا ر ہوجا تا ہے تمام رسم و رواج کو اپنا لیتا ہے چاہیے وہ قدیم زمانے کے گھناؤنےرسم و رواج ہو یا دورِ جدید کے ارفع و اعلیٰ رسم و رواج ۔ ہندو مت کے کوئی متعین اصول و عقائد نہیں ۔ لیکن برہمنوں کی پیروی سب کے لیے ضروری ہے نہ کہ کسی اور دیوتا کی۔
ان مذکورہ حوالہ جات سے صاف طور پر ظاہر ہوگیا کہ ہندو دھرم کا کوئی قانون و اصول و ضوابط نہیں تو پھر ہندو دھرم کا صحیح تعریف بیان کرنا مشکل ہے پھر بھی جن ہندو مفکرین نے اپنی ناقص تعریف کی اس کو درج کرنے کی کوشش کرتا ہوں ملاحظہ فرمائیں۔
سوامی وویکانند کہتے ہیں ۔ جو اپنے کو ہندو سمجھے وہ ہندو ہے۔
کسی مفکر نے کہا کہ جو گاے کا گوشت نہ کھاے وہ ہندو ہے ۔کسی نے کہا کہ جو گاے کی پوجا کرے وہ ہندو ہے
کسی نے کہا جو طلم و ستم کو دور کرے وہ ہندو ہے۔ اور کسی مفکر نے کہاکہ جوذات پات سے اوپر اٹھ کر قصوروار کو سزا دے وہ ہندو ہے
اور گاندھی جی نے ہندو دھرمی کی تعریف کرتے ہوے لکھا کہ اگر مجھ سے ہندو مت کی تعریف کرنے کو کہا جاے تو میں صرف یہ کہوں گا کہ یہ غیر متشددانہ و غیر ظالمانہ ذرائع سے سچ کی کھوج ہے۔ آدمی چاہے خدا میں یقین نہ رکھے پھر بھی وہ خود کو ہندو کہہ سکتا ہے ۔ ہندو دھرم سچ کی مسلسل کھوج ہے ۔ ہندو دھرم سچ کو ماننے والا دھرم ہے۔ سچ ہی ایشور ہے ۔ہم اس بات سے متعارف ہیں کہ ایشور سے انکار کیا گیا ہے ۔ہم نے سچ سے کبھی انکار نہیں کیا ہے۔
گاندھی جی کی اس تعریف پر تبصرہ کرتے ہوے پنڈت نہرو کیا لکھتے ہیں اس کو بھی ضرورپڑھیں۔ پنڈت نہرو لکھتے ہیں گاندھی جی ہندو دھرم کو سچ اور عدم تشدد بتاتے ہیں لیکن بہت سے خاص لو گ جن کے ہندو ہونے میں کوئی شک نہیں یہ کہتے ہیں کہ عدم تشددجیسا اس کو گاندھی سمجھتے ہیں ۔ ہندو مت کا ضروری حصہ نہیں ہے۔ ایسی صورت میں ہندو مت کا واحد ترجمان سچ رہ جاتا ہےا ورظاہر ہے کہ یہ کوئی تعریف نہیں ہے۔
اور آخر میں لوکمانے تلک نے جو ہندو مت کی مضحکہ خیز تعریف کی اس کو بھی پڑھ لیں۔ لکھتے ہیں ۔ ویدوں کو ثبوت ماننا ذرائع ووسائل کے اختلاف میں یقین رکھنا اور عبادت و بندگی میں کسی ایک دیوتا کا اصول و ضابطہ نہیں رکھنا یہ دھرم کی علامت ہے۔
( اسلام اور ہندو دھرم کا تقابلی مطالعہ)
حاصل کلام
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے-( جسے خود ہندووں نے خود لکھا ہے) – کہ ہندو دھرم کی کوئی بنیاد نہیں، کوئی قانون نہیں، کوئی منظم طریقۂ کار نہیں، نہ ہی کوئی صحیح تعریف ہے۔غرض کی جس کو جو سمجھ آیا وہ اختیار کر اپنے آپ کو ہندو بنا لیا
تحریر: محمد اویس رضا قادری کشن گنجوی
ONLINE SHOPPING
گھر بیٹھے خریداری کرنے کا سنہرا موقع