تحریر: سید نور اللہ شاہ بخاری ذکر الہی اور اس کی برکتیں
ذکر الہی اور اس کی برکتیں
ذکر کس کو کہتے ہیں ؟ذکر کےمعنیٰ ہیں یاد رکھنا ،یاد کرنا،چرچاکرنا وغیرہ ،یہ ایک نہایت ہی چھوٹا سا لفظ ہے لیکن یہ مشہور مقولہ و کہاوت “کوزہ میں سمندر “کی طرح اپنے اندر تمام عبادات و معاملات کو سموئے ہوئے ہیں جس کو یوں بھی بیان کیا جا سکتا ہے کہ ہر وہ عمل جو اللہ رب العزت اور اس کے پیارے محبوب ﷺ کے حکم کی تعمیل میں ان کی رضا و خوشنودی کے لیے کیا جائے وہ ذکر ہے ۔جیسے نماز،روزہ،حج و زکوٰۃ وغیرہ ،یا وہ معاملات سے متعلق ہوں جیسے والدین کی خدمت، پڑوسیوں ،رشتہ داروں،یتیموں اور محتاجوں سے حسن سلوک اور حُصول معاش کے لئے حلال و حرام کا امتیاز کرتے ہوئے محنت و مشقت کرنا وغیرہ وغیرہ یہ سب ذکر میں شامل ہیں ۔
ذکر کی دو قسمیں ہیں (۱) زبان کا ذکر (۲) دل کاذکر، ذکر میں وہ ذکر افضل و نفع بخش ہے جو زبان ودل دونوں سے ہو،اگر ان میں سے کسی ایک پر اکتفا کرنا ہوتودل کا ذکر افضل ہے، مگر ایک انسان صحیح معنوں میں زبان کے ذکر ذریعہ ہی دل کے ذکرکو قائم و دائم رکھ سکتا ہے،کسی کے دل ودماغ میں یہ خیال نہ آئے کہ ذکر صرف اللہ اللہ کرنے ،نمازیں قائم کرنے، تلاوت قرآن میں مصروف رہنے اور تسبیح و تہلیل ہی کا نام ہے ،علم اور دوسرے نیک کاموں کا تعلق اس سے نہیں ہے،
بلکہ ذکر جس طرح اللہ اللہ کرنے سبحا ن اللہ اور الحمد لللہ کرنے کا نام ہے ،اسی طرح علوم شرعیہ کا پڑھنا پڑھانا بھی ذکر میں داخل ہے ،جیسا کہ حضرت شیخ عبد اللہ وہاب متقی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جو شخص اچھے کام میں مشغول ہے وہ گویا ذکر الٰہی میں مشغول ہے، ہمارے سلف کا یہی قاعدہ رہا کہ وہ تمام اچھے کام جیسے تہذیب ِاخلاق ،اشاعتِ علوم اور خدمتِ خلق وغیرہ میں ہمیشہ لگے رہتے تھے (اخبار الاخیار اردو ص/۵۴۸)۔
ذکر کی اہمیت و مقام: قرآن مقدس میں اللہ رب العزت نے مختلف مقامات پر ذکر کی اہمیت اور اس کے مقام کو واضح فرمایا جیسا کہ ارشاد ربانی ہے ترجمہ:اے ایمان والو اللہ کو بہت یاد کرو اور صبح و شام اس کی پاکی بولو(کنز الایمان سورۂ احزاب آیت /۴۲)اور سورۂ اعراف میں ہے کہ “یاد کرو اپنے رب کو اپنے دل میں عاجزی کرتے ہوئے اور ڈرتے ڈرتے اور غافلوں میں سے نہ ہونا “(آیت /۲۰۵) اور ارشاد باری تعالیٰ ہے “پس تم مجھے یاد کرو میں تمہیں یاد کیا کروں گا اور شکر ادا کیا کرو میرا اور میری نا شکری نہ کیا کرو ” (سورۂبقر ہ پارہ /۲ آیت ۱۵۲)
ان مذکورہ آیتوں کے علاوہ قرآن مقدس کے دیگر مقامات پر بھی ذکر الٰہی کا با قاعدہ تذکرہ پایا جاتا ہے ،اب آئیے ہم ذکر الٰہی کے تعلق سے رسول گرامی وقار نبی رحمت ﷺ کی چند حدیثیں درج کردیں جن کے ذریعہ یہ بات بخوبی واضح ہوجائے گی کہ ذکر الٰہی کی برکتیں اور نعمتیں کیا کیا ہیں ؟اور ذاکرین پر رب کریم کے کیسے کیسے انعامات ہوتے ہیں ؟
ذکر الٰہی حدیثیوں کی روشنی میں
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا :یا رسول اللہ !قیا مت کے دن اللہ تعالیٰ کے یہاں کس کا درجہ سب سے بلند ہوگا ؟ آپ نے فرمایا :کثرت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کو یاد کرنے والے مرد اور عورتوں کا ،میں نے عرض کی :یا رسول اللہ !اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے سے بھی زیادہ ؟ارشاد فرمایا : اگر چہ وہ کافروں اور مشرکوں پر اس قدر تلوار چلائے کہ وہ تلوار ٹوٹ جائے اور خون سے خوب رنگین ہوجائے پھر بھی اللہ کا ذکر کرنے والے اس سے افضل ہیں ۔(مسند احمد ج/۳ص۷۵ ،دُر منثور ج/۵ ص/۳۸۷)۔
حضرت ابو درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :کیا میں تمہیں سب سے بہتر، سب سے پاکیزہ اور سب سے بلند درجے کا عمل نہ بتاؤں ؟جو اللہ کے یہاں سونا چاندی خیرات کرنے سے بھی افضل ہو اور اس سے بھی افضل ہو کہ تمہاری مُٹھ بھیڑ دشمن سے ہو جس میں تم ان کی گردنیں مارو وہ تمہاری گردنیں ماریں ؟صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! وہ کون سا عمل ہے ؟فرمایا اللہ کا ذکر (مشکوٰۃ ص/۱۹۸ ،ابن ماجہ ج/۲ص/۱۲۴۵)۔
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :اس قدر بہ کثرت اللہ کو یاد کرو کہ لوگ تمہیں دیوانہ کہنے لگیں (مسند احمد ج/۳ ص/۶۸،دُر منثور ج/۵ص/۳۸۷)۔۔
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا :اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے اے ابن آدم !اگر تو نے مجھے اپنے دل میں یاد کیا تو میں بھی تمہیں یاد کرتا ہوں ،اگر تو مجھے مجمع عام میں یاد کرے تو میں تمہیں فرشتوں کے مجمع میں یاد کرتا ہوں،اگر تو مجھ سے ایک بالشت نزدیک ہو تو میں ایک ہاتھ تیرے قریب ہو جاتا ہوں اگر تو میری طرف چل کر آئے تو میں دوڑ کر تیری طرف آتا ہوں۔
حضرت عبد اللہ بن عمر العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :جس طرح لوہے پر زنگ لگتا ہے اسی طرح دلوں پر بھی زنگ لگ جاتا ہے ،آپ سے عرض کی گئی: یا رسول اللہ! وہ زنگ کس طرح صاف ہوگا ؟فرمایا :قرآن کی کثرت کے ساتھ تلاوت کرنے اور اللہ تعالیٰ کو بہت یاد کرنے سے (کنز العمال)۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا جو لوگ کسی مجلس میں بیٹھیں اور اس میں اللہ تعالیٰ کا ذکر نہ کریں تو یہ مجلس قیا مت کے دن ان کے لیے حسرت و افسوس کا سبب ہوگی (مسند احمد ج/۲ص/۲۲۴ مشکوٰۃ ص۱۹۸)۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :جب جنت کے باغ سے گزرو تو کچھ چن لیا کرو ،صحابہ نے عرض کیا :یا رسول اللہ!جنت کا باغ کیا ہے ؟آپ نے فرمایا حلقۂ ذکر (مشکوٰۃ ص/۱۹۸)۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :کہ شیطان انسان کے دل سے چمٹا رہتا ہے جب انسان اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتا ہے توشیطان ہٹ جاتا ہے اور جب غافل ہو جاتا ہے تو شیطان وسوسہ ڈالتا ہے (ایضا ص/۱۹۹)۔
حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :اپنے رب کا ذکر کرنےوالے اور نہ کرنے والے کی مثال زندہ اور مردہ کی ہے (بخاری ج/۵ص/۲۳۵۳،مسلم ج/۱ص/۵۳۹ ،ابن حبان ج/۳ص/۱۳۵)۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا :اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا دوزخ سے اس شخص کو نکال دو جس نے ایک دن بھی مجھے یاد کیا یا کبھی کسی مقام پر مجھ سے ڈرا (ترمذی ج/۴ص/۷۱۲،مستدرک ج/۱ص/۱۴۱)۔
حضرت ابو درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :قیا مت کے دن اللہ تعالیٰ کچھ ایسے لوگوں کو اٹھائے گا جن کے چہرے نور سے جگمگا رہے ہوں گے،وہ موتیوں کے ممبروں پر ہوں گے، لوگ انہیں دیکھ کر رشک کریں گے ،نہ تو وہ انبیا ہوں گے اور نہ ہی شہدا
حضرت ابو دردہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک اعرابی اپنے گھٹنے کے بل بیٹھ کرعرض کرنے لگا :یا رسول اللہ !آپ ہمارے سامنے ان کا حلیہ بیان فرمائیں تاکہ ہم انہیں جان لیں ،آپ نے فرمایا :کہ یہ وہ لوگ ہیں جو مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے کے باوجود اللہ تعالیٰ کے خاطر ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں اور اکٹھے ہو کر اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے ہیں (الترغیب والترہیب ج/۲ص/۲۶۲،مجمع الزوائد ج/۱۰ص/۷۷ )۔
حضرت ابو دردا ء رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :جن لوگون کی زبانیں ہمیشہ ذکر الٰہی سے تر رہتی ہیں وہ مسکراتے ہوئے جنت میں داخل ہوں گے (مصنف ابن ابی شیبہ ج/۷ص/۱۱۱ ،دُر منثور ج/۱ص/۳۶۶)۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا :کہ جو لوگ صرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے اکٹھے ہو کر اس کا ذکر کرتے ہیں تو آسمان سے ایک منادی آواز دیتا ہے کھڑے ہو جاؤ تمہاری مغفرت کردی گئی ہے ،بے شک تمہارے گناہ نیکیوں میں بدل دیئے گئے ہیں (مسند احمد ج/۳ص/۱۴۲،شعب الایمان ج/۱ص/۴۰۱ ،الترغیب و الترہیب ج/۲ص/۲۰۷)۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آسمان والے ذکر کرنے والے گھروں کو ایسے روشن دیکھتے ہیں جیسے زمین والے ستاروں کو روشن دیکھتے ہیں (دُر منثور ج/۱ص/۳۶۷)۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا :جس نے اللہ تعالیٰ کو یاد کیا اور اس کے خوف سے اس کی آنکھوں سے اس قدر آنسوں جاری ہوئے کہ زمین تک اس کے آنسو پہنچ گئے تو اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن عذاب نہیں دےگا (مستدرک ج/۴ص/۲۸۹ ،الترغیب و الترہیب ج/۴ص/۱۱۳)۔
اب آئیے آخر میں بخاری شریف جلد دوم ص/۹۴۸ کی ایک تفصیلی حدیث درج کر دی جائے جس سے اور مزید اندازہ لگ جائے گا کہ ذکر الٰہی کے فائدے کیا ہیں ؟
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نےفرمایا :اللہ تعالیٰ کے کچھ فرشتے ایسے ہیں جو ذکر کرنے والوں کی تلاش میں راستوں اور گلیوں کا چکر لگا تے رہتے ہیں ،جب وہ ذاکرین کی کسی جماعت کو پا لیتے ہیں تو ایک دوسرے کو آواز دیتے ہیں ادھر آؤ !یہاں ہے وہ چیز جو تم چاہتے ہو
پھر یہ فرشتے ان کے ارد گرد حلقہ بنا کر ان ذاکرین کو اپنے پَروں سے سایہ کرتے ہیں، پھر بارگاہ مولیٰ تعالیٰ میں حاضر ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان سے پوچھتا ہے حالانکہ اللہ اپنے بندوں کا حال جانتاہے لیکن فرشتوں سے اپنے ذاکر بندوں کی تعریف سننا پسند فرماتا ہے، اے فرشتو !تم نے میرے بندوں کو کس حال میں پایا ؟
فرشتے عرض کرتے ہیں وہ تیری تسبیح بیان کررہے تھے، تیری بڑائی اور تعریفیں کر رہے تھے، تیری بزرگی اور حمد بیان کر رہے تھے، تیرے کرم اور علو مرتب کے گن گا رہے تھے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : کیا نہوں نے مجھے دیکھا ہے ؟
فرشتے : نہیں ،مولیٰ انہوں نے تجھے نہیں دیکھا۔
اللہ تعالیٰ : اگر وہ مجھے دیکھ لیتے تو ان کے ذکر و شکر کا کیا عالم ہوتا ؟
فرشتے :اگر وہ تجھے دیکھ لیتے تو تیری عبادت و ریاضت میں اور زیادہ سر گرم ہوتے، تیرے عفو و کرم اور بزرگی کے اور بھی گن گاتے، تیری تسبیح و تقدیس میں اور زیادہ مصروف رہتے۔
اللہ تعالیٰ :وہ مجھ سے کیا چاہتے ہیں ؟
فرشتے : وہ تجھ سے جنت کے طالب ہیں۔
اللہ تعالیٰ : کیا انہوں نے جنت دیکھی ہے ؟
فرشتے :نہیں خدا ،ان لوگوں نے جنت کو نہیں دیکھی ہے۔
اللہ تعالیٰ : اگر وہ لوگ جنت دیکھ لیتے تو ان کےطلب اور شوق و تجسس ،عبادت و ریاضت کا کیا عالم ہوتا ؟
فرشتے :اگر وہ جنت کو دیکھ لیتے تو اس پر اور زیادہ فریفتہ و حریص ہو جاتے، اور اس کے اور زیادہ طالب و شائق بن جاتے۔
اللہ تعالیٰ :وہ کس چیز کی ہولناکیوں سے پناہ مانگ رہے تھے ؟
فرشتے :جہنم کی حولناکیوں سے۔
اللہ تعالیٰ :کیا انہوں نے جہنم کو کبھی دیکھا ہے ؟
فرشتے :نہیں خدا ،اے رب !انہوں نے جہنم کو کبھی نہیں دیکھا۔
اللہ تعالیٰ : اگر وہ جہنم کو دیکھ لیتے تو ان کا کیا حال ہوتا ؟
فرشتے: اگر وہ جہنم کو دیکھ لیتے تو وہ اس سے اور بھی زیادہ دور بھاگتے اور اس سے اور زیادہ ڈرتے۔
اللہ تعالیٰ : اے میرے فرشتو !میں تمہیں گواہ بناتا ہوں میں نے ان سب کو بخش دیا۔
فرشتے : ان میں ایک شخص ایسا بھی تھا جو حقیقت میں ان میں شامل نہیں تھا (یعنی وہ ذکر نہیں کر رہا تھا بلکہ اپنی کسی ضرورت کے لیے ان کےپاس آیا تھا )۔
اللہ تعالی ٰ : ان کے پاس بیٹھنے والا بھی محروم نہیں رہتا یعنی یہ ایسے لوگ ہیں کہ ان کی صحبت کی وجہ سے ان کا ہم نشیں بھی نا کام و بد بخت نہیں رہے گا
تحریر : سید نور اللہ شاہ بخاری
مہتمم و شیخ الحدیث ، دار العلوم انوار مصطفیٰ
(سجادہ نشین :خانقاہ عالیہ بخاریہ ، سہلاؤ شریف ،باڑمیر(راجستھان
اس کو بھی پڑھیں: خوف خدا: اللہ کے قریب ہونے کا ذریعہ
ONLINE SHOPPING
گھر بیٹھے خریداری کرنے کا سنہرا موقع