Tuesday, November 19, 2024
Homeشخصیاتجو بادہ کش تھے پرانے وہ اٹھتے جاتے ہیں

جو بادہ کش تھے پرانے وہ اٹھتے جاتے ہیں

تحریر: انصار احمد مصباحی جو بادہ کش تھے پرانے وہ اٹھتے جاتے ہیں

جو بادہ کش تھے پرانے وہ اٹھتے جاتے ہیں

اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت مولانا محمد حسین ابو الحقانی صاحب (علیہ الرحمہ) بڑے عالم دین تھے۔ حضرت کی زیارت اور پہلی تقریر سننے کا شرف 2004ء میں، شاہی مسجد، ناسک میں حاصل ہوا، اس کے بعد مسلسل برسوں تک حضرت میری نظر میں بھارت کے سب سے بڑے خطیب رہے

۔ 2007ء میں غازی پور کے دار العلوم قادریہ میں پھر سے حضرت کا جامع خطاب سننے کا موقع ملا، پوری تقریر اتنی علمی اور دلچسپ تھی کہ میں متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا، بلکہ بعد میں ریکارڈنگ سن سن کر پوری تقریر تحریر کر ڈالی، جو ابھی تک بطور سرمایہ میرے پاس موجود ہے۔ اس کے بعد اشرفیہ، مبارک حاضر ہوا تو صاحبزادے حضرت مولانا تحسین رضا مصباحی صاحب سے ملنے تشریف لایا کرتے، یوں زیارت ہوتی رہتی۔ اب، جب کہ حضرت ہمارے درمیان نہیں ہیں، یادوں کے یہ مختصر سے نقوش وسیع ہوتے چلے جا رہے ہیں۔

اس کو بھی پڑھیں: محمد حسین صدیقی کیسے بنے ابو الحقانی ؟ؕ

اسی مناسبت سے، ترمیم اور نظر ثانی کے بعد میری ایک پرانی تعزیتی تحریر ہدیہ قارئین ہے۔


اہل علم کا کثرت سے انتقال، عبرت ناک

یہ فلک بوس عمارتیں، یہ عالی شان بنگلے، یہ تیز رفتار دن دنا تی سواریاں، پہاڑ کی چوٹیوں پر بنے دراز اور دیو قامت پل، یہ سیاروں کی سیر، یہ مشینیں، یہ آلات، یہ ایجادات، یہ نت نئی تکنیکیاں، یہ سب ہماری ترقی نہیں……، ہماری انتہا کی دلیلیں ہیں، یہ ترقیاں اصل میں زوال کی نشانیاں ہیں۔
موجودہ سال کی طرح، اتنی کثرت سے اہل علم کا کبھی انخلا نہیں ہوا۔ 2020ء دوسری چھوٹی بڑی آفتوں کے ساتھ اس لئے بھی ”برے دور“ کے طور پر یاد رکھا جائے گا کہ اس سال کثرت سے علماے اہل سنت غرباے اسلام کو نہتا چھوڑ کر مالک حقیقی سے جا ملے۔
إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رٰجِعون
بچا کھچا وقت خود احتسابی کا ہے، اپنے گریبان میں جھانکنے اور لائحہ عمل تیار کرنے کا ہے، رجوع الی اللہ کا ہے۔

یاد رکھیے ! اللہ کی رحمت جب کسی قوم سے روٹھتی ہے، وہ علماے دین سے محروم کر دی جاتی ہے۔ آج دنیا کی معاشی زوال پر سب کی نظر ہے، غربت و افلاس کی بڑھتی تعداد پرسبھی تشویش میں مبتلا ہیں، دنیا کی ہیجانی کیفیت کا سب علاج ڈھونڈ رہے ہیں؛ لیکن علماے امت اور اہل اللہ کی کثرت انتقال سے، جو علم کی لازوال دولت سے دنیا محروم ہوتی جا رہی ہے، اس کی کسی کو فکر نہیں۔

یاد رکھیے ! زوال کا آغاز ہو چکا ہے۔

قوت و فکر و عمل پہلے فنا ہوتی ہے
جب کسی قوم کی شوکت پہ زوال آتا ہے

اکابر علما، مشائخ کرام اور مفتیان کرام کی کثرت وفات سے علمی دنیا جو خلا پیدا ہو رہا ہے وہ تو ہے، اس کے علاوہ مندرجہ ذیل انمٹ خسارے ہوئے ہیں

خوف خدا میں کمی : با عمل علما اٹھتے جا رہے ہیں، لوگ گناہ میں بے لگام ہو رہے ہیں۔ جو صحیح معنی میں علما تھے، وہ گناہ ہوتے دیکھتے یا سنتے تو بغیر رعایت ڈانتے، ”امر بالمعروف“ اور “نہی عن المنکر“ کا فریضہ انجام دیتے۔ دنیا ”از دل خیزد، بر دل ریزد“ کا عملی نمونہ دیکھتی، ان راسخ علما کی پوری حیات مستعار خوف خدا کا عملی نمونہ ہوتی تھی، انھیں لوگوں کے بارے میں آیا ہے: ”إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ “ (الفاطر: 28) بے شک اللہ سے علما ہی ڈرتے ہیں

خوف خدا اور شرم نبی کے جذبے کے ساتھ خدمت دین کرنے والے علما سے روے زمین محروم ہوتا جا رہا ہے، ان مخلص علما کی جگہوں پر دنیا پرست، لالچی، کم علم اور چاپلوس علما قابض ہوتے جا رہے ہیں؛ یہی وجہ ہے کہ علما اور عوام کا رشتہ حضور رحمت عالم ﷺ، صحابہ کرام اور ادلاف سے کمزور سے کمزور ہوتا جا رہا ہے۔

ان کے جو ہم غلام تھے،خلق کے پیشوا رہے
ان سے پِھرا، جہاں پھری، آئی کمی وقار میں

ذلت و رسوائی
علماے اسلام کا شیوہ رہا ہے، وہ ہر زمانے میں معزز رہے ہیں، تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے؛ جب شاہان وقت کے دربار میں علما کا قافلہ حاظر ہوا، سطوت و کرّ و فر، رعب و دبدبہ اور قوت شاہی کے با وجود سلاطین وقت، علما کی عزت و وقار کے سامنے بے بس و بے حس نظر آنے لگے، وقت کے سارے بڑے فیصلے علما کیے ہیں، تاریخ کے سارے اَن سلجھے اور لا ینحل گتھیاں علما کی بیٹھکوں میں سلجھے ہیں، نہایت ظالم و جابر بادشاہوں کو بس میں کرنے کی جرأت علما کی ٹیم کر سکی ہے؛ لیکن افسوس کی بات ہے، نسل نو کے فارغین کی اکثریت ایسی ہے کہ 

عالم کہ کامرانی کہ وتن پروری می کند
او خویشتن گمست کرا رہبری کند

جو علما ہم سے رخصت ہو رہے ہیں، وہ اپنے خوشہ چیں، متعلم اور فیض یافتہ چھوڑجاتے ہیں، ان کا بدل اور ان کی نظیر نہیں ملتی، نو فارغین میں اہلیت گھٹ رہی ہے، کمیت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، معیار گرتا جاتا رہا ہے، با عمل اور مخلص علما کی پیداوار میں بہت کمی واقع ہو رہی ہے۔ آج کے نو فارغین ”أَتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنسَوْنَ أَنفُسَكُمْ“ کی عملی تفسیر بنتے جا رہے ہیں۔ اخلاص، عمل، زہد و ورع، مجاہدہ، مطالعہ و انہماک کے فقدان نے مدارس میں علمی فیضان کی روح کو یکسر ختم کردی ہے، بے علم، دولت پرست اور فاسق سجادگان نے روحانی تصور اور عرفانی جاذبیت کی روح کو فنا کر دی ہے۔ ڈاکٹر  اقبال کی دور اندیشی نے بہت پہلے کہا تھا۔ 

اُٹھا میں مدرسہ و خانقاہ سے غم‌ ناک
نہ زندگی، نہ محبّت، نہ معرفت، نہ نگاہ!

مادہ پرستی کی کثرت
امام ابو الحسن الشاذلی علیہ الرحمہ فرمایا کرتے تھے: أَرْبَعٌ لَا يَنْفَعُ مَعَهُمْ عِلْمٌ: حُبُّ الدُّنْيَا، وَنِسْيَانُ الْآخِرَةِ، وَخَوْفُ الْفَقْرِ وَخَوْفُ النَّاسِ
ترجمہ: چار چیزوں کے رہتے ہوئے علم فائدہ نہیں دیتا: دنیا کی محبت، آخرت کو بھول جانا، تنگ دستی کا خوف اور لوگوں کی ملامت کا ڈر۔ (الطبقات الکبرٰی للشعرانی: 309)۔
جب ان خوبیوں کے پیکر علما اٹھ گئے تو دھیرے دھیرے ساری صفتیں بھی رخصت ہونے لگیں؛ آخر کار دنیا ہوا پرست، مفادی اور ذلیل لوگوں کے ہاتھوں میں آ گئی۔

شرافت میں کمی
قرآن کریم میں آیا: ”هَلْ يَسْتَوِی الَّذِيْنَ يَعْلَمُوْنَ وَالَّذِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ“۔ (الزمر، 39) ترجمہ : علم والے اور بے علم برابر ہیں!۔

اہل علم اپنے ساتھ شرافت، عزت و وقار اور اسلامی وجاہت بھی ساتھ لے جا رہے ہیں۔ سچ ہے۔

ان کے جو ہم غلام تھے، خلق کے پیشوا رہے
ان سے پھرا، جہاں پھری، آئی کمی وقار میں

اسباب  : موت بر حق ہے، جو پیدا ہوا ہے، اسے جانا ہے؛ لیکن اتنی کثرت سے اہل علم و معرفت سے محرومی یقینا قابل ماتم ہے۔ ان شاہا ن زمانہ کی صحبت سے محرومی کے چند اسباب ہیں:۔

پہلے لوگ ایک ایک حدیث کے لیے دور دراز مقامات کا سفر کرتے تھے، آج سب سے بڑی درس گاہ یوٹیوب ہے، ہماری درس گاہیں خالی پڑی ہیں، علم و فن کے چاند ستارے موجود ہیں، کوئی نہیں آتا، یہی نا قدری زوال امت کا اصل سبب ہے۔

دوسرا سبب یہ ہے کہ آج علم دین بھی دنیا طلب کرنے کے لیے حاصل کیا جانے لگا۔ جب خلوص ہی نہیں رہا تو علم حلق سے اترے گا کیسے!۔

شوسل میڈیا نے بھی ہمیں علمی ہستیوں سے دور کرنے میں اہم رول نبھایا ہے، ان کی شایان شان قدر کرنے سے سد راہ بنا ہے۔

وقت سے پہلے ان بزرگ ہستیوں کی قدر کریں، اکابر کی خدمات کو سر چشم سے قبول کرکے انھیں وسعت بھر سراہنے کی کوشش کریں!۔

چند بچی کھچی شخصیات کو بھی خواہ مخواہ کے اختلافات کی بھینٹ چڑھا کر، انھیں خانوادوں، مشربوں اور حلقوں میں بانٹ دینا بہت بڑی غلطی کے ساتھ ساتھ اللہ کی عظیم نعمتوں سے محرومی ہوگی۔

تحریر: انصار احمد مصباحی
رکن جماعت رضاے مصطفٰی اتر دیناج پور

9860664476

aarmisbahi@gmail.com

ONLINE SHOPPING

گھر بیٹھے خریداری کرنے کا سنہرا موقع

  1. HAVELLS   
  2. AMAZON
  3. TATACliq
  4. FirstCry
  5. BangGood.com
  6. Flipkart
  7. Bigbasket
  8. AliExpress
  9. TTBazaar

 

afkareraza
afkarerazahttp://afkareraza.com/
جہاں میں پیغام امام احمد رضا عام کرنا ہے
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments

قاری نور محمد رضوی سابو ڈانگی ضلع کشن گنج بہار on تاج الشریعہ ارباب علم و دانش کی نظر میں
محمد صلاح الدین خان مصباحی on احسن الکلام فی اصلاح العوام
حافظ محمد سلیم جمالی on فضائل نماز
محمد اشتیاق القادری on قرآن مجید کے عددی معجزے
ابو ضیا غلام رسول مہر سعدی کٹیہاری on فقہی اختلاف کے حدود و آداب
Md Faizan Reza Khan on صداے دل
SYED IQBAL AHMAD HASNI BARKATI on حضرت امام حسین کا بچپن