از قلم : مفتی خبیب القادری مدنا پوری آج لوگ نصیحتوں پر عمل کیوں نہیں کرتے علماے کرام سے معذرت خواہ ہوں
آج لوگ نصیحتوں پر عمل کیوں نہیں کرتے
اثر کـرے یا نہ کـرے سـن تو لـے میـری فریـاد
ہـر انسـان چاہتا ہے کہ وہ اچـھا رہے،اچھےکام کرے؛اچھے سے زندگی گزارے اور آخرت میں اس کو کچھ حصہ نصیب ہو مگر یہ سب ہو نہیں پاتا معلوم ہے اس کی کیا وجہ ہے؟ اس کی وجہ ہے اوروں کو اچھائی کا مشورہ دینا، اچھائی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا
پر اس پر خود عمل نہ کرنا،جب انسان اوروں کو اچھائی کا حکم دیتا ہے اور خود عمل نہیں کرتا ؛تو ایسے انسان کی مثال شیخ سعدی شیرازی رحمتہ اللہ علیہ نے گدھے سے دی ہے
فرماتے ہیں:علم چنداں کہ بیشتر خوانی، چوں عمل در تو نیست نادانی : نہ محقق بود نہ دانشمند چارپائے بروں کتاب چند (گلستان)۔
علم چاہے تو کتنا ہی پڑھ لے اگر تجھ میں عمل نہیں ہےتو تو نادان ہے
نہ محقق ہوگا نہ عقل مند ہوگا ایسا ہوگا جیسے گدھے پر چند کتابیں لدھی ہیں
ماضی میں علماے کرام تقریر کرتے تو اس کا ایسا اثر ہوتا تھا کہ لوگ اس پر عمل کرتے تھے، اپنے گناہوں کو یاد کرکے زاروقطار روتے تھے ، کچھ تو ایسے بھی تھے کہ گھر جاتے ہوئے راستے ہی میں مر جاتے تھے
ان کے دل میں ایسا خوف خدا پیدا ہوجاتا تھا کہ بعض لوگ تو تقریر کے مابین ہی فوت ہو جاتے تھے بعض لوگ مجلس سے اٹھ کر کے گھر جاتے تو وہی انتقال کر جاتے تھے
چناں چہ غوث الاغواث، قطب الاقطاب، فرد الافراد؛ سرکار غوث الاعظم دستگیر رضی اللہ تعالی عنہ جب بزم واعظ میں تقریر فرماتے تھے تو تقریر کے درمیان کئی لوگ مر جاتے تھے کیونکہ انکے دل میں ایسا خوف خدا پیدا ہو جاتا تھا
ہندل ولی،عطائے رسول،خواجہ خواجگا، شہنشاہ ہندوستان،حضرت خواجہ غریب نواز حسن سجزی اجمیری رضی اللہ تعالی عنہ ایسی تقریر فرماتے تھے کہ لوگ آپ کے دیوانے ہو جاتے اور آپ کے ہاتھوں پر اپنے گناہوں سے توبہ کرکے مذہب اسلام میں داخل ہوجاتے تھے
حضور حجۃ الاسلام حضرت علامہ مولانا حامد رضا خاں رحمۃ اللہ علیہ جب اسٹیج پر تشریف لے جاتے تو لوگ آپ کے چہرہ انور کو دیکھ کر ہی متاثر ہو جاتے تھے اور جب آپ تقریر فرماتے تھے تولوگوں پر آپ کے تقریر کا ایسا اثر ہوتا تھا کہ لوگ اپنے گناہوں سے توبہ کرکے مذہب اسلام کے احکام پر عمل کرنے لگ جاتے تھے
حضور مفتی اعظم ہند مصطفی رضا خان شہزادہ اعلی حضرت رحمتہ اللہ علیہ کے تقوی کا یہ عالم تھا کہ لوگ آپ کا تقویٰ دیکھ کر کے اپنے گناہوں سے توبہ کرکے صاحب تقویٰ بن جاتے اور پرہیزگاری اختیار کرلیتے تھے
اور آج بھی علماے کرام مقررین ،واعظین ۔خطابات اور تقریریں کرتے ہیں مگر لوگوں پر کوئی اثر نہیں ہوتا لوگ سنی کی ان سنی کر دیتے ہیں
بعض جگہ مشاہدے میں آیا ہے کہ عوام الناس اس قدر ناقص العقل ہو گئے ہیں کہ وہ چوراہوں پر بیٹھ کر علماے کرام و مفتیان عظام کی ہنسی،مذاق اڑاتےاور ان کی توہین کرتے ہیں
ایسے لوگوں کے ایمان کا خطرہ ہے کیونکہ قاعدہ کلیہ ہے “عالم کی توہین کرنے سے انسان کافر ہو جاتا ہے” (فتاوی رضویہ)۔
پیارے آقا ﷺ ارشاد فرماتے ہیں” کہ عالم کا چہرہ دیکھنا عبادت ہے ایک اور مقام پر آقا ﷺ کا ارشاد ہے العلماء ورثۃ الانبیاء
عالم انبیاے کرام علیہم السلام کے وارث ہیں
ایک حدیث پاک میں آپ فرماتے ہیں علما امتی کانبیا بنی اسرائیل میری امت کے علمابنی اسرائیل کے نبیوں کی طرح ہیں
لب لباب اور خلاصہ یہ ہوا کہ احکام شریعت کے قوانین پر خود بھی عمل کریں اور دوسروں کو بھی نصیحت کریں
دوسروں کو نصیحت کرنے سے پہلے اپنے اعمال کی اصلاح فرمائیں اعمال جب صالح ہوجاتے ہیں تو زبان میں بھی تاثیر پیدا ہوجاتی ہے
شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات
ایسا مت کہنا
ناصح مت کر نصـیحت دل میـرا گھبـرائے ہے
میں اس کو دشـمن جانتـا ہوں جو مجـھے سمجھـائے ہے
تحریر: مفتی خبیب القادری ،مدنا پوری
بریلی شریف یوپی
7247863786
ONLINE SHOPPING
گھر بیٹھے خریداری کرنے کا سنہرا موقع