Wednesday, November 20, 2024
Homeمخزن معلوماتعید الفطر رب کی عبادت اور غریبوں کی اعانت کا دن

عید الفطر رب کی عبادت اور غریبوں کی اعانت کا دن

تحریر نعیم الدین فیضی برکاتی عید الفطر رب کی عبادت اور غریبوں کی اعانت کا دن

عید الفطر رب کی عبادت اور غریبوں کی اعانت کا دن

          آج عید کا دن ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل وکرم اور نبی کریم ﷺ کے طفیل رمضان المبارک جیسارحمت ومغفرت والا مہینہ ہم سب کو عطا فرمایا۔ جس نے اپنے رب کے لیے رمضان کے روزے رکھے،سحری کیا اورنمازوں کی پابندی کی تو ان سے اللہ راضی ہو گیا اور عید سعید کا انعام ان کو عطا فرمایا۔

اسی لیے نبی رحمتﷺ نے عید کی رات کو ’لیلۃ الجائزۃ‘فرمایا ہے یعنی انعام واکرام پانے کی رات اور رحمت ومغفرت کا دن۔

جیسا کہ الترغیب و الترہیب میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے ایک طویل حدیث مروی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرما یا:اللہ تعالیٰ عید کے دن عام اعلان فرماتا ہے کہ اے میرے بندو!جو سوال کرنا ہے کرو؟میں اس کو پورا کروں گا،میری عزت وجلال کی قسم!۔

آج کے دن اپنی آخرت کے بارے میں مجھ سے سوال کروگے تواس کو بھی پورا کروں گا اور دنیا کی بھلائی چاہوگے تو اس کو بھی عطا کروں گا۔

میری عزت وجلال کی قسم! جب تک تم میرے حکم پر عمل کرتے رہوگے،میں تمہاری خطاؤں اور لغزشوں پر پردہ ڈالتا رہوں گا۔

میری عزت وجلال کی قسم!میں تمہیں ظالموں کے سامنے رسوا نہ کروں گا اور تم اس حال میں نماز عید سے فارغ ہوکر اپنے گھروں کو لوٹوگے گویا کہ تم رحمت ومغفرت پا چکے ہو گے۔

تم نے اللہ کو راضی کیا اور اللہ تم سے راضی ہو گیا۔(غنیۃ الطالبین،ص:372)۔

حقیقت میں عید کا دن کس کے لیے ہے

کرونا مرض کی وجہ سے اس سال رمضان المبارک کے موقع پر پورے ملک میں لاک ڈاون اور کرفیو جیسے حالات رہے،جس کی وجہ سے مساجد اور دیگر مذہبی مقامات کے اجتماع پر حکومت کی طرف سے پابندی لگا دی گئی۔

جس کی وجہ سے جہاں مسلمان پنج وقتی تماز باجماعت مسجد میں ادا کرنے سے محروم رہے وہیں پر سال میں ایک مرتبہ رمضان کے مہینہ میں پڑھی جانے والی تراویح کی نمازادا کرنے سے بھی قاصر رہے۔

اس سال اس وبا نے رمضان کی رونقوں اور بہاروں پر گرہن لگانے کے ساتھ ساتھ عید کی خوشیوں میں بھی پھیکا پن ڈالنے کا کام کیا ہے۔جس کی وجہ سے مسلمانوں میں نئے نرالے کپڑے سلوانے اور خریدنے میں کم دل چسپی دیکھنے کو مل رہی ہے۔

چوں تک نے ضد کرنا چھوڑ دیا ہے۔ وہیں دوسری طرف اس زبوں حالی اور کس مپرسی کے حالات کو دیکھتے ہوئے علماے کرام،دانش وران ملت اورذمہ داران قوم مسلمانوں سے یہ اپیل کر رہے ہیں۔

 کہ اس مرتبہ سادگی کے ساتھ عید منائیں اوربچے ہوئے پیسوں سے غریبوں اور مزدوروں کی مدد کریں۔مگر اب بھی بہت سارے بھائیوں اور بہنوں کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے۔وہ بازاروں اور مارکیٹوں کی زینت بننے سے باز نہیں آرہے ہیں۔ انہیں عید کے حقیقی مفہوم اور فلسفہ سے کون روسناش کروائے؟۔

کیا مہنگے اور بہترین نئے کپڑوں کے پہنے کا نام عیدہے یامخلوق کی مدد اور رب کی عبادت وریاضت کر کے اسے راضی کرنے کا نام عید ہے؟سوئیاں اور دیگر لذیذ مطعومات ومشروبات سے خود کو محظوظ کرنے کا نام عید ہے یا غریبوں اور محتاجوں کے گھر بھی خوشی کا سامان مہیا کرانے کانام عید ہے؟ آئیے اس کو جاننے کے لیے بزرگوں کے اقوال اور ان کی تعلیمات پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

          امیر المومنین حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ عید کے دن جو کی بھوسی کی بنی ہوئی روٹی کھا رہے تھے۔ایک شخص آیا اور آپ سے پوچھنے لگا کہ آج تو عید کا دن ہے اور آپ جو کی بھوسی کی روٹی تناول فرمارہے ہیں؟۔

آپ نے جواب دیا کہ آج عید کا دن ہے اس نیک بخت انسان کے لیے ہے جس کا روزہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قبول ہو گیا ہو اور اس کے گناہ بخش دیئے گیے ہوں۔آج کا دن عید کا دن ہے اور ہر وہ دن عید کا دن ہے جس دن ہم گناہ نہ کریں۔(غنیۃ الطالبین۔377)۔

          امیر المومنین حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے عید کے دن اپنے بیٹے حضرت عبد اللہ کو پرانی قمیص پہنتے دیکھا تو رو پڑے،بیٹے نے عرض کیا ابا جان!آپ کس لیے رو رہے ہیں؟۔

حضرت عمر نے فرمایا میرے بیٹے!مجھے اندیشہ ہے کہ آج عید کے دن جب لڑکے تجھے اس لباس میں دیکھیں گے تو تیرا دل ٹوٹ جائے گا۔

بیٹے نے جواب دیا۔ابا! دل تو اس کا ٹوٹے گا جو اللہ کی رضا نہ حاصل کر سکا یا جس نے ماں باپ کی نا فرمانی کی ہو۔مجھے امید ہے کہ آ پ کی رضامندی کے صدقے اللہ مجھ سے بھی راضی ہو گا۔ یہ سن کر حضرت عمر فاروق اعظم رو پڑے،بیٹے کو گلے لگا یا اور ان کے لیے دعا کی۔(مکاشفۃ القلوب،710)۔

          سلطان الاولیا حضرت عبد القادر جیلانی بغدادی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:اللہ کی مخلوق کہہ رہی ہے۔ کل عید ہے،کل عید ہے اور سب بہت خوش ہیں۔لیکن میرا خاتمہ جس دن ایمان پر ہوگا وہی دن میرے لیے عید کا دن ہوگا۔ نماز عید سے پہلے کھجور کھانا سنت ہے

          حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ عید الفطر کے دن کچھ کھا کر نماز کے لیے تشریف لے جاتے اور عید الاضحی کے دن کچھ نہ کھاتے،جب تک نماز نہ پڑھ لیتے۔(ترمذی)۔

بخاری شریف کی روایت میں ہے کہ نبی کریمﷺ عید الفطر کے دن تشریف نہ لے جاتے جب تک چند کھجوریں تناول نہ فرما لیتے اور وہ طاق ہوتیں۔(بخاری)۔

عید کے دن کی سنتیں

          ۔(1)حجامت بنوانا(2)ناخن کٹوانا(3) غسل کرنا (4)مسواک کرنا (5)  اچھے کپڑے پہننا نیا ہو چاہے پرانا (6) انگوٹھی پہننا (7)خوشبو لگانا (8)فجر کی نماز محلے کی مسجد میں پڑھنا (9) نماز سے پہلے صدقہ فطر ادا کرنا (10)عید گاہ پیدل جانا(11) خوشی ظاہر کرنا (12)مصافحہ اور گلے ملناوغیرہ۔

صدقہ فطر روزوں کی پاکی کا ذریعہ ہے

          حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ پیغمبر اسلام ﷺ نے فرمایا:جب تک صدقہ فطر ادا نہیں کیا جاتا،بندے کا روزہ آسمان و زمین کے درمیان معلق رہتا ہے(بہار شریعت)۔

          حضرت عبد اللہ بن عباس سے روایت ہے کہ نبی رحمت ﷺ نے زکوۃ اور صدقہ فطر اس لیے مقرر فرمائی تاکہ بیکار اور بے ہودہ باتوں سے روزوں کی طہارت اور مسکینوں کے لیے کھانے کا انتظام ہو جائے۔(ابوداؤد)۔

          سدقہ فطر ادا کرنے کا بہتر طریقہ یہ کہ عید کی صبح صادق ہونے کے بعد عید کی نماز سے پہلے ادا کرے۔اگر کسی نے رمضان میں ادا کیا تب بھی جائز ہے۔

عید کے دن غریبوں کا بھی خیال کریں

          عید کے دن جہاں بہت ساری برکتیں ہیں وہیں عید کے دن سب سے عظیم فلسفہ یہ ہے کہ یہ امیر اورغریب کے لیے یکساں خوشی کا دن ہے۔اس لیے ہمیں عید کی خوشی میں دوسروں کا بھی بھر پورخیال کرنا چاہئے۔صدقہ فطر کی مشروعیت کا مقصد بھی یہی ہے۔عید کا دن،غریب کی اعانت اور ان کی عملی دل جوئی کا دن ہے۔

اس لاک ڈاون میں کتنے بے روزگار اور یتیم لوگ ہیں جو صدقہ فطر کے محتاج ہیں۔کاروبار نہ ہونے کی وجہ سے کتنے افراد ایسے ہیں جو فاقہ کشی کے شکار ہیں۔اپنے گھر سے دور،بے یارومددگاراورپیدل چلتے سڑکوں پر مزدوروں کودیکھیں

جو کل اپنی محنت اور پسینے سے اپنا اور اپنے پریوار کا پیٹ بھرنے کا کام کرتے تھے،آج وہ خود اپنوں سے دور،روٹی،کپڑا اور مکان کے لیے ترس رہے ہیں۔

عید کے دن ان کے لیے راحت وضرورت کا سامان مہیا کراناہی حقیقی عید ہوگی۔عید کا پیغام بھی یہی ہے کہ ہم غریبوں اور بے کسوں کا تعاون کریں،تبھی صحیح معنوں میں عید کے تقاضے پورے ہوں گے۔

          مگر آج کے مسلمانوں کی تمام تر توجہ اپنے جسم، کپڑے اور مکان پر ہوتی ہے کہ آج عید کا دن ہے،جسم خوب صورت ہونا چاہیے،کپڑے کی کوالٹی بہترین ہونی چاہئے اور مکان بھی دور سے چمکنا چاہیے یعنی ہماری نظر صرف اورصرف ظاہر پر ہوتی ہے،جس کی کوئی قدروقیمت نہیں ہے۔

یہ بات ہمیں ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ باطن کو دیکھتا ہے اورباطن صاف ہوتا ہے حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی سے۔ لہذا ہمیں عید کے دن دونوں کی ادائیگی کو یقینی بنانا چاہیے۔اللہ کا فرمان ہے:کامیاب وہ انسان ہے جس نے اپنے دل کو ستھرا کیا اور رب کا نام لے کر نماز پڑھی۔

نعیم الدین فیضی برکاتی

رانی پور،پورندر پور مہراج گنج(یوپی)۔

mohdnaeemb@gmail.com

afkareraza
afkarerazahttp://afkareraza.com/
جہاں میں پیغام امام احمد رضا عام کرنا ہے
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments

قاری نور محمد رضوی سابو ڈانگی ضلع کشن گنج بہار on تاج الشریعہ ارباب علم و دانش کی نظر میں
محمد صلاح الدین خان مصباحی on احسن الکلام فی اصلاح العوام
حافظ محمد سلیم جمالی on فضائل نماز
محمد اشتیاق القادری on قرآن مجید کے عددی معجزے
ابو ضیا غلام رسول مہر سعدی کٹیہاری on فقہی اختلاف کے حدود و آداب
Md Faizan Reza Khan on صداے دل
SYED IQBAL AHMAD HASNI BARKATI on حضرت امام حسین کا بچپن