حسان الھند امام احمد رضا خاں قادری بریلوی رضی اللُّہ تعالیٰ عنہ کے مبارک دیوان حدائق بخشش سے یہ خوبصورت نعت مصطفی صلی اللّہ علیہ وسلم ہیں
کس کے جلوے کی جھلک ہے یہ اجالا کیا ہے
ہر طرف دیدئہ حیرت زدہ تکتا کیا ہے
مانگ من مانتی منھ مانگی مُرادیں لے گا
نہ یہاں نا ہے نہ منگتا سے یہ کہنا کیا ہے
ہند کڑوی لگے ناصح سے ترش ہواے نفس
زہر عِصیاں میں سِتمگر تجھے میٹھا کیا ہے
ہم ہیں ان کے وہ ہیں تیرے تو ہوئے ہم تیرے
اس سے بڑھ کر تِری سمت اور وسیلہ کیا ہے
ان کی امت میں بنایا انھیں رحمت بھیجا
یوں نہ فرماکہ ترا رحم میں دعوی کیا ہے
صدقہ پیارے کی حیا کا کہ نہ لے مجھ سے حساب
بخش بے پوچھے لجائے کو لجانا کیا ہے
زاہد اُن کا میں گنہگار وہ میرے شافع
اتنی نِسبت مجھے کیا کم ہے تو سمجھا کیا ہے
بے بسی ہو مجھے پرسش اعمال کے وقت
دوستو! کیا کہوں اُس وقت تمنّا کیا ہے
کاش فریاد مری سُن کے یہ فرمائیں حضور
ہاں کوئی دیکھو یہ کیا شور ہے غوغا کیا ہے
کون آفت زدہ ہے کِس پہ بلا ٹوٹی ہے
کِس مصیبت میں گرفتار ہے صدمہ کیا ہے
کِس سے کہتا ہے کہ للّہ خبر لیجئے مِری
کیوں ہے بیتاب یہ بے چینی کا رونا کیا ہے
اس کی بے چینی سے ہے خاطِرِ اقدس پہ ملال
بے کسی کیسی ہے پوچھو کوئی گزرا کیا ہے
یوں ملائک کریں معروض کہ اِک مجرم ہے
اس سے پرسش ہے بتا تو نے کیا کیا ہے
سامنا قہر کا ہے دفترِ اعمال ہیں پیش
ڈر رہا ہے کہ خدا حکم سناتا کیا ہے
آپ سے کرتا ہے فریاد کہ یا شاہِ رُسل
بندہ بے کس ہے شہا رحم میں وقفہ کیا ہے
اب کوئی دَم میں گرفتار بلا ہوتا ہے
آپ آ جائیں تو کیا خوف ہے کھٹکا کیا ہے
سن کے یہ عرض مِری بحرِ کرم جوش میں آئے
یوں ملائک کو ہو ارشاد ٹھہرنا کیا ہے
کس کو تم موردِ آفات کِیا چاہتے ہو
ہم بھی تو آکے ذرا دیکھیں تماشا کیا ہے
ان کی آواز پہ کر اٹّھوں میں بے ساختہ شور
اور تڑپ کر یہ کہوں اب مجھے پَروا کیا ہے
لو وہ آیا مِرا حامی مِرا غم خوار امم
آگئی جاں تنِ بے جاں میں یہ آنا کیا ہے
پھر مجھے دامنِ اقدس میں چھپالیں سرور
اور فرمائیں ہٹو اس پہ تقاضا کیا ہے
بندہ آزاد شدہ ہے یہ ہمارے در کا
کیسا لیتے ہو حساب اس پہ تمھارا کیا ہے
چھوڑ کر مجھ کو فرشتے کہیں محکوم ہیں ہم
حکم والا کی نہ تعمیل ہو زہرہ کیا ہے
یہ سماں دیکھ کے محشر میں اٹھے شور کہ واہ
چشمِ بد دور ہو کیا شان ہے رتبہ کیا ہے
صدقے اس رحم کے اس سایئہ دامن پہ نثار
اپنے بندے کو مصیبت سے بچایا کیا ہے
اے رضا جانِ عنادِل تِرے نغموں کے نثار
بلبلِ باغِ مدینہ تِرا کہنا کیا ہے