جھوٹے انسان کا سماج و معاشرہ میں کوئی عزت و مرتبہ نہیں رہتا اس گیڈریا کی طرح جو جھوٹ بول بول کر لوگوں کو بے وقوف بنا رہا تھا اور ایک روز سچ میں بھیڑیا نے اسے نقصان پہنچا دیا موجودہ دور بھی اسی طرح کا ہے لھذا یقیناً ان جھوٹوں کا حال اسی چرواہے کی طرح ہوگا۔آج کا مضمون ہے جھوٹوں کا بول بالا سچوں کے منھ پے تالا
جھوٹ کا بول بالا
مضمون نگار :—– الحاج حافظ محمد ہاشم قادری مصباحی
آج کے معا شرے میں زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جس میں جھوٹ کا بول بالا نہ ہو،خاص کر سیاسی زند گی میں اس کا گراف بہت ہائی ہے۔ جھوٹ ایک انتہائی برا کام ہے،معاشرے میں اس کو برا فعل سمجھا اور مانا جا تا تھا! ’’اب نہیں‘‘۔
جھوٹ کی سخت مذمت مذہب اسلام میں آئی ہے۔’’ جو جھوٹا ہو اس پر اللہ کی لعنت ہو‘‘(القرآن،سورہ،3:آیت،61) مرنے کے بعد سزا کا خوف بھی دلایا گیا ہے۔
سچائی بہترین خصلت ہے جس سے ایمان اور اسلام کی تکمیل ہوتی ہے،سچا انسان سماج کا باوقار اور عزت دارانسان جانا مانا جاتا ہے۔
جھوٹ ایک فریب ایک دھوکہ ہے، جھوٹ ایک نہایت بری بیماری ہے جھوٹا انسان سماج میں اچھا نہیں سمجھا جاتا لوگ اس پر اعتماد نہیں کرتے وغیرہ وغیرہ۔
جھوٹ گناہ یا فن؟
جھوٹ کسی شخص یاکسی گروہ کا کسی گروہ کے متعلق جان بوجھ کر، کسی بات کو حقیقت اور سچائی کے خلاف بیان کر نا۔ جھوٹ کو ہمیشہ برا ہی سمجھا گیا لیکن اب جھوٹ ایک وبا۔(virus) کی طرح پھیل گیا ہے،اور اس میں زبردست ترقی ہو رہی ہے جو کی انتہائی شرم اور فکر کی بات ہے کہ اس موذی مرض میں سماجی کار کنان اور سیاستداں حضرات بری طرح ملوث ہیں الکشنی وعدوں سے لیکر پار لیمنٹ و راجیہ سبھا تک سبھی پارٹیوں کے نیتا حضرات بے دھڑک بول رہے ہیں، کہاں جھوٹ بول رہے ہیں اس کابھی خیال نہیں رکھتے،اور موجودہ صاحب بہنوں بھائیوں،متروں نے تو سارے ریکارڈ پار کر دیئے ہیں ۔(العیاذ بااللہ) ۔
سبھی (چند) کو چھوڑ کر سبھی اس بیماری میں مبتلا ہیں،اور پھر بھی اپنے کو پارسا بتاتے ہیں جیسے گنگا نہا کر آئے ہوں، سارے پاپ دھل گئے ہوں 1985کی مشہور فلم ’’رام تیری گنگا میلی ‘‘ کے مشہور موسیقار رویندر جین کے بقول’’ رام تیری گنگا میلی ہو گئی پا پیوں کے پاپ دھوتے دھوتے‘‘ اور اب تو وقعی میں پولشن سے گنگا میلی ہوگئی ۔(ایک رپورٹ کے مطابق صرف کانپور میں ڈھائی لاکھ گیلن گندہ پانی گنگا جیسی بڑی ندی کے پانی کو گندہ کر رہاہے۔ )۔
ایک زمانہ تھا کہ لوگ جھوٹ بولتے ہوئے ہچکچاتے اوشر ماتے تھے اور اب تو لوگوں نے اور خاص کر نیتائوں نے ساری حدیں پار کر دی ہیں جو چاہیں بولیں کوئی شرم و حیا نہیں بلکہ ڈھٹائی سے اپنے جھوٹ پر اڑے رہتے ہیں اور زر خرید میڈیا اس کو بڑھاوا دیتی ہے جس سے سماج میں خلفشار پھیلتا ہے اور لا اینڈ آڈر کی خطر ناک صورت حال پیدا ہوجاتی ہے جو آپ سب دیکھ رہے ہیں۔
جھوٹ پھیلانے کا ذمہ دار کون،میڈیا یا حکومت؟
جھوٹ سے معاشرے پر برے اثرات ہورہے ہیں ذمہ دار لوگ بے ڈھڑک جھوٹی باتیں،جھوٹے وعدوں سے سماج کے اندر زبر دست بگاڑ پیدا ہورہا ہے۔صحافت،ذرائے ابلاغ(media)جمہوریت کا چوتھا ستون ہےpillar ہے جمہوری اقدار کی بر قراری میں میڈیا کا بہت اہم رول ہو تا ہے دنیا میں آج قوموں، گروہوں اور انسانوں کے درمیان مقابلہ کافی تیز ہوگیا ہے، اس مقابلہ آرائی میں کامیابی کا سہرا اسی کے سر بندھتا ہے جس کے پاس ذرائے ابلاغ،میڈیا زیادہ ہوں۔
بد قسمتی سے ہندوستان کے مسلم اقلیت نے اخبارات والکٹرانک میڈیا زیادہ ہوں، بد قسمتی سے ہندوستانی مسلم اقلیت نے اخبارات ودیگر میڈیا کی طاقت کا صحیح اندازہ نہیں لگایا،اور آج کے اس ترقی یافتہ دور میں بھی اس طرف توجہ نہیں دے رہے ہیں،سوائے رونا رونے اور اپنی کمی و کمزوری کی ذمہ داری دوسروں پر تھوپنے کے سوا ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھیں ہیں۔
یہودیوں نے، بر ہمن وادنے،آر ایس ایس نے، فاسٹس نظریات والے(جارحانہ،آمریت، جمہوریت دشمن نظریہ والے) نے اس راز کو پالیا اور اس پر پوری قوت سے قابض ہو گئے ،ہندوستان ہو یا امریکہ سب جگہ میڈیا انکی مٹھی میں ہے صحیح معنوں میں اقلیت میں ہونے کے باوجودآج ذرائے ابلاغ کے تمام شعبوں پر ان کا قبضہ ہے پورے ملک کی سیاست ان کے ارد گرد گھومتی ہے۔
جھوٹ سے متعلق پڑھیں ویکیپیڈیا میں
ہندوستانی مسلمانوں کو یہ شکایت تو بہت ہے کہ ملک میں ان کی آواز سنی نہیں جاتی، کسی بھی معاملہ میں انھیں کو ملزم بناکر کھڑا کر دیا جاتا ہے،حکومت اور قانون ساز اداروں میں ان کی نمائندگی بہت کم ہوگئی ہے، سر کاری ملازمتوں میں دن بدن وہ نہ کے برابرابر پہنچتے جا رہے ہیں ان کی زبان اور تہذیب کو منصوبہ بند طریقے سے ختم کیا جا رہا ہے،اور سب سے بڑھ کر ملک کی میڈیا کا رویہ مسلمانوں کے تئیں ہمدردانہ نہیں ،اب تو بل کل واضع طور پر مخالفانہ رویہ ہو گیا ہے۔
اور حکومت کے کیا کہنے مسلمانو ں کی آواز اس کے کانوں تک جاتی ہی نہیں،جاتی بھی ہے تو سنا ان سنا کر دیتی ہے، کیا مسلمانوں نے کبھی یہ سوچا کہ ایک سو دس پندرہ کروڑ کی آبادی والے اس ملک ہندستان میں اپنی آواز پہچانے کے لیے خود انھوں کیا کیا؟۔
میڈیا کا کردار
ماہرین اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ حکومتوں کی پالیسیوں کو میڈیا کے’’پروپیگنڈہ‘‘ کے ذریعہ اپنے حق میں بڑی آسانی سے کیا جاتا ہے۔
موجودہ دور میں پریس کا کردار یہ ہے کہ ان جذبات کو ابھار نا ہوا دنیا جو حکومت کے اور ان کے مقصد کے لیے ضروری ہوتا ہے اور جو ان کی جماعت یا ہمنوا لوگ ہیںانکی خود غرضانہ مقاصد کو پورا کرتا ہو، طاقت، دولت کے ذریعہ میڈیا کو اپنے لیے استعمال کرنا کہ ہماری اجازت کے بغیر کوئی خبر عوام تک نہ پہنچے،آج کل یہی مقصد اسی طرح حاصل کیا جارہاے، چونکہ تمام خبریں چند خبر رساں ایجنسیوں کے ذریعہ ہی ملتی ہیں۔
جن دفتروں میں یہ ساری دنیا سے آکر جمع ہوتی ہیں، اس وقت یہ سارے خبر رساں ادارے حکومت کی ملکیت میں ہیں اور حکومت کہتی ہے کہ ہم جس خبر کو شائع کر نے کی اجازت دیں گے وہی شائع ہو گی نشر ہوگی جیسے ابھی کشمیر اس کی زندہ مثال ہے۔
پروپیگنڈہ کے ذریعہ دشمنوں کے خلاف نفرت عداوت کے زہر کو پھیلانا، اپنے ہمنوائوں کے لیے خبروں کو توڑمروڑ کر اپنے مطابق نشر کرناصحافت، میڈیا کے ذریعے عوام کا ذہن تیار کرنا اپنا ہمنوا بنانا اور عوام کو اس کاشبہ تک نہ ہونے دینا،پروپیگندہ کو کامیاب بنانے کے لیے طاقتور سیاسی پارٹیوں، ان کے قائدین ان کی عوام سے ربط ضبط رکھنا یہ سب کیوں؟ اس لیے کی میڈیا اور قتصادیات و معا شیات(Economics) جیسے دو مضبوط ومستحکم ستون پر ان کا اور حکومت کا قبضہ قائم رہے۔
با الفاظِ دیگر ہم یہ پورے وثوق واعتماد سے کہہ سکتے ہیں کہ اس وقت پنچانوے فیصد%95 میڈیا پر حکومت کا پوری طرح سے قبضہ ہے اور وہی پوری دنیا کی ذہن سازی کا کام کرہاہے۔
حالیہ دنوں میں کشمیر اس کی زندہ مثال ہے جموں میں بقرعید کی پڑھی گئی نماز کی تصویر کو دکھا کر کشمیر میں نماز اداکرتے ہوئے بتایا گیا ہےall is wellسب اچھا ہے، ؎خرد کانام پڑگیا جنوں کاخرد٭ جوچاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔
مایوس ہونے کی ضرورت نہیں تجربات سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ عام طور پر قارئین وسامعین ومشا ہدین اپنی دلچسپی اور ذوق کی چیزوں سے ہی تعلق رکھتے ہیں جو ان کے ذوق اور دلچسپی سے میل نہ کھائے اس کو وہ قبول نہیں کرتے۔
کامیاب میڈیا کی بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ وہ اپنے قارئین وسامعین(listeners) کا اعتمادحاصل کریں یعنی خبریں اور مضامین اس انداز سے تیار کئے جائیں کہ وہ مبالغہ آرائی سے خالی ہوں،انھیں پیش کرنے میں سچائی کا دامن نہ چھوڑے وغیرہ ۔
وغیرہND TV انڈین ایکسپریس اور چند ذرائے ابلاغ ہیں جو اس اعلیٰ میعار کو قائم کئے ہوئے سچائی ہی اصل ہے ،جھوٹ تمام برائیوں کی جڑ ہے۔
سچائی ایک حقیقت ہے اس کو دباسکتے ہیں، ختم نہیں کرسکتے ہیں ،گر چہ جھوٹ تمام برائیوں کی جڑہے لوگ اور حکومتیں جھوٹ کیوں بولتی ہیں جھوٹ کیوں پھیلا تی ہیں اس کی بہت سی وجو ہات ہیں۔( مقالہ طویل ہونے کا خوف غالب ہے)۔
صحیح بات اور بڑی بات یہ ہے کہ اپنے کئے ہوئے غلط کاموں کو چھپانے کے لیے جھوٹ کا سہارا لیتی ہیں ان کو ڈر ہوتا ہے کہ ان کے غلط کام کو لوگ جان جائیں گے تو ان کی عزت نہیں بچے گی موجودہ ملکی حالات آپ دیکھ رہے ہیں۔
جھوٹوں کے سرداروں کا بول بالاہے،سچوں کے منھ پے تالا پڑا ہے۔پر ہمیشہ کسی کے سر تاج نہیں رہتا بد دل نہ ہوں خود سچائی پر قائم رہیں سچائی کے لیے اپنی کوشش جاری رکھیں۔
اللہ تعالیٰ نے جھوٹ کو گناہ کبیرہ قرار دیا ہے،نبی رحمت ﷺ کے پاس ایک شخص آیا اور کہنے لگا کہ میں’’اسلام‘‘ لانا چاہتا ہوں لیکن مجھ میں بہت سی برائیاں ہیں جنھیں میں چھوڑ نہیں سکتا آپ مجھے فر مائیے کہ میں کوئی ایک برائی چھوڑ دوں تو وہ میں چھوڑ دوں گا آپ نے اس شخص سے فرمایا کہ جھوٹ بولنا چھوڑ دو۔
اس شخص نے وعدہ کر لیا اور جھوٹ بولنا چھوڑ دیا تو اس کے جھوٹ بولنے کے چھوڑنے کے سبب اس کی تمام برائیاں چھٹ گئیں،اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ جھوٹ بولنا تمام برائیوں سے سب سے بڑی برائی ہے۔
ہم آپ یہ کوشش کریں کہ برائیوں کی ماں جھوٹ کو چھوڑ یں سچ کو پکڑیں سچ پر قا ئم رہیں فتح سچ کی ہی ہوتی ہے جھوٹ کی دیوار گر کر رہتی ہے جھوٹ کا گھڑا ایک نہ ایک دن پھوٹ ہی جاتا ہے
اندھا وہ نہیں جو باہر کی دنیا نہیں دیکھ سکتا
اندھا وہ ہے جسے اندر کی دنیا دکھائی نہیں دیتی
ہمارے ویب سائٹ کو وزٹ کرتے رہیں اور اسی طرح کے دیگر مضامین پڑھتے رہیں
اللہ ہم سب کو جھوٹ سے بچنے اور سچ پر قائم رہنے کی تو فیق عطا فر مائے آمین ثم آمین-
حافظ محمد ہاشم قادری صدیقی مصباحی خطیب و امام مسجد ہاجرہ رضویہ اسلام نگر کپا لی وایا مانگو جمشیدپور
جھاڑکھنڈ
پن کوڈ831020,
رابطہ927999622