تحریر: جاوید اختر بھارتی حافظ ملت کا عرس بھی تمام عرس کے لیے سبق آموز
حافظ ملت کا عرس بھی تمام عرس کے لیے سبق آموز
عرس کا معنیٰ ہے سالانہ فاتحہ ، جو کسی مخصوص شخصیت کے نام سے کیا جاتا ہے اب ظاہر بات ہے کہ سالانہ پروگرام تو ایسے ہی لوگوں کا ہوتا ہے جن کے اندر کچھ خوبیاں ہوتی ہیں اور کچھ کمالات ہوتے ہیں
اور ان کے کمالات اور صاحب کمالات کی روشنی نظر آتی ہے اور اس روشنی سے لوگ جوق در جوق استفادہ حاصل کرتے ہیں اور ایسے ہی لوگ باحیات ہوتے ہیں تب بھی توجہ کا مرکز رہتے ہیں اور مرنے کے بعد بھی مرکز عقیدت بن جاتے ہیں
اور ایسے ہی لوگوں کے نام سے سالانہ تقاریب کا انعقاد ہوتا ہے چادر چڑھائی جاتی ہے اور ان کی حیات و خدمات پر تفصیلی روشنی ڈالی جاتی ہے اور ٹھیک انتقال کا جو وقت ہوتا ہے اس وقت فاتحہ خوانی ہوتی ہے اور صاحب مزار کے لئے رحمتوں کے نزول کی دعا ہوتی ہے اور ساتھ ہی اس میں شرکا ، زائرین اور جمیع مومنین و مومنات جو اس دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں
ان کی مغفرت اور زندوں کے جان و مال، عزت و آبرو کی حفاظت کے لئے اللہ ربّ العالمین سے رقت آمیز دعائیں کی جاتی ہیں- یوں تو ہندوستان میں بے شمار مزارات ہیں، بے شمار خانقاہیں ہیں، بے شمار پیر و مریدین ہیں، بے شمار جانشین و سجادہ نشین ہیں جس کے نتیجے میں خود ہندوستان میں بے شمار عرس لگتے ہیں اور بہت زیادہ ایسے بھی عرس لگتے ہیں جہاں نہ کسی بزرگ کے آنے کا ذکر ملتا ہے
اور نہ ہی کوئی قبر ہے بس کھانے کمانے کا ایک ذریعہ ہے،، لیکن ہاں کچھ ایسے بھی عرس لگتے ہیں جہاں پر بزرگان دین کے آنے کا، دین کی تبلیغ کرنے کا اور وہیں پر داعی اجل کو لبیک کہنے کا ذکر ملتا ہے اور مستند طور پر ملتا ہے
مگر عرس کے نام پر ایسا ایسا طریقہ اپنایا جاتا ہے کہ وہاں جاکر سمجھ میں نہیں آتا کہ اسے عرس کا نام دیا جائے یا میلہ کہا جائے، یا سیر و تفریح کا ذریعہ کہا جائے نہ اللہ کا خوف نہ رسول اللہ کی شریعت کا پاس و لحاظ،، عورتوں کا ہجوم، جھومنا ، سروں کو پٹکنا
اور اسی محفل میں سر پر پگڑی اور بدن پر جبہ زیب تن کر کے بیچو بیچ یعنی درمیان میں بیٹھنا، ہاتھوں کو ہرکسی سے چوموانا اور بار بار یہ اعلان کرنا کہ جسے جنت میں جانا ہے وہ بابا کے لنگر خانے میں چندہ دے ، بابا سے جو کچھ بھی مانگنا ہے
وہ خانقاہ کی پہلی سیڑھی پر ہم رجسٹر لئے کھڑے ہیں یہاں لکھاؤ ہم تمہاری عرضی بابا کی بارگاہ میں پیش کریں گے اور تمہارا بیڑا پار ہو جائے گا حقیقت تو یہ ہے کہ ایسے نقلی پیر اور روٹی توڑ فقیر جہاں ہیں
جس خانقاہ میں ہیں وہ خود اس بزرگ کی توہین کررہے ہیں ایسے مجاور حقیقت میں ڈاکو ہیں رب کے قرآن اور نبی کے فرمان کے دشمن ہیں وہ اپنے پیٹ کی توند کو بڑھانے کے لئے شریعت کی دھجیاں اڑاتے ہیں اور یہ بھی بیحد افسوسناک پہلو ہے کہ ایسی بھی خانقاہیں ہیں
جہاں بڑے بڑے علماے کرام موجود ہیں اور ان کے سامنے یہ ساری خرافات اور بدعات اور عریانیت کا کھلے عام مظاہرہ ہوتا ہے مگر وہ ایک لفظ بھی بولنے کے روادار نہیں ہیں بلکہ وہ خود ان خرافات کو ذریعہ معاش سمجھتے ہیں،،۔
ہندوستان میں ایسے بھی علاقے اور خانقاہیں ہیں جہاں پر کسی ایک بزرگ کا آستانہ ہے تو اس بستی کے سارے لوگ اپنے کو انہیں بزرگ کے خاندان کا بتاکر لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہیں
اور اپنی زندگی میں ہی یعنی مرنے سے پہلے ہی صرف قبر کے لیے زمین خرید لیں تو چلئیے ٹھیک ہے مگر یہاں تو جیتے جی اپنا عالی شان مقبرہ تک بنوایا جارہا ہے اور خوب ڈینٹ پینٹ کرایا جارہا ہے آخر کیوں؟۔
مقصد تو یہی ہوگا کہ میرے مرنے کے بعد لوگ میرا عرس لگائیں، چادر چڑھائیں جیسے میری ہی بستی میں دیگر لوگوں کا عرس لگتا ہے تو ویسے ہی میرا بھی عرس لگے اور میرے بھی عرس کی خوب شہرت ہو۔
عرس کا تقدس:
قابل تعریف و قابل احترام ہے امین میاں، محدث کبیر اور عزیز ملت جیسی مایہ ناز ہستیاں جن کی قیادت میں مارہرہ، مبارک پور اور گھوسی میں عرس کا انعقاد ہوتا ہے اور انہیں عرسوں سے لفظ عرس اور عرس کی تقریبات کا تقدس باقی ہے نہ یہاں پر عورتوں کا ہجوم لگتا ہے، نہ کوئی عورتوں کو جھوماتا ہے، نہ کوئی بھوت پریت چھڑاتا ہے، نہ ڈھول تاشہ بجتا ہے، نہ قوالیاں ہوتی ہیں اور نہ ہرمونیم و شہنائی بجتی ہے،،۔
بلکہ خود ابھی 4 اور 5 جنوری 2022 کو عزیز ملت کی قیادت میں استاذ العلماء جلالۃ العلم حضور حافظ ملت علامہ عبد العزیز محدث مرادآبادی رحمۃ اللہ علیہ کا عرس منعقد ہوا جس میں ملک و بیرون ملک سے ہزاروں علما و مشائخ نے شرکت کی،،۔
صبح میں قرآن خوانی، پھر حلقہ ذکر، بعد نماز ظہر سے مغرب کے وقت تک جلوس و چادر اور جلوس میں حمد و ثنا، نعت رسول، منقبت بزرگان دین پر مشتمل انجمنوں نے کلام پیش کیا،،
وقت نماز ساری تقاریب بند،،۔ جیسے ہی عزیز المساجد کے مینارے سے اذان کے کلمات بلند ہوتے تو اللہ کے نیک بندوں کا ایک گروہ یہ صدا لگانے لگتا کہ عرس حافظ ملت کا پیغام،، نماز باجماعت کا اہتمام،، اور اس کا اثر یہ ہوتا کہ تمام دکانوں پر پردے لٹکنا شروع ہوجاتے اور لوگ نماز کے لیے چل پڑتے،،۔
بعد نماز عشاء حمد باری تعالیٰ، نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم اور منقبت بزرگان دین کے ساتھ ساتھ علما و مشائخ کا بصیرت افروز خطاب شروع ہوجاتا اور دوسرے دن سیکڑوں افراد کے سروں پر دستار فضیلت باندھی گئی اور جبہ و سند سے نوازا گیا
واضح رہے کہ جب سے الجامعۃ الاشرفیہ کی بنیاد پڑی ہے تب سے آج تک ہر سال سینکڑوں علما، قرا، حفاظ اور مفتیان کرام کا ایک قافلہ وجود میں آتاہے،، اور ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر اپنی آنکھوں سے یہ روح پرور منظر دیکھتا ہے،،۔
غرض کہ حافظ ملت نے مبارک پور کی سرزمین پر علم کا ایسا درخت لگایا کہ ہر سال اس میں سے شاخیں اور پتیاں اور پھل نکلتے ہیں،،
حافظ ملت نے یونیورسٹی کی ایسی بنیاد رکھی کہ اینٹ رکھتے ہی ایک مینار بلند ہونا شروع ہوا اور آج وہ علم کا مینار اتنا بلند ہے کہ اس مینار کی اونچائی سے چہار جانب دنیا کے کونے کونے میں فرزندان اشرفیہ اور برادران اشرفیہ درس و تدریس کے فرائض انجام دیتے ہوئے نظرآتے ہیں اور حق و صداقت کا پرچم لہراتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
وہ حافظ ملت جنہوں نے غربت بھی دیکھی، فاقہ بھی کیا مگر ان کے سینے میں ایک تڑپ تھی کہ علم کی شمع روشن کرنا ہے ان کا مشن اور ان کی تحریک کام یابی کے ساتھ آج بھی آگے بڑھ رہی ہے
جس کی اصل وجہ یہ ہے کہ اس مرد مجاہد کی نیت نیک تھی تبھی تو ان کے شاگردوں میں کوئی رئیس القلم ہوا، کوئی محدث کبیر ہوا، کوئی خطیب الہند ہوا، کوئی مفکر اسلام ہوا، کوئی مجاہد ملت ہوا، کوئی عزیز ملت ہوا، کوئی مقرر اعظم ہوا اور کوئی مناظر اسلام ہوا
غرض کہ شاگردوں کے شاگرد ہونے کا ایسا سلسلہ شروع ہوا جو تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے اور اللہ کرے کہ یہ سلسلہ کبھی نہ تھمے اور اسی طرح ہر سال سینکڑوں افراد کے سروں پر العلماء ورثۃ الانبیا کا زریں تاج سجنے کا سلسلہ جاری رہے
اس عظیم المرتبت شخصیت کا حال یہ تھا کہ اپنی زندگی میں بار بار منع کرتے تھے کہ میرے مرنے کے بعد میرا عرس نہ لگانا لیکن شاگرد، محبین، متعلقین بھی بضد تھے کہ آپ جیسی شخصیت کا عرس نہیں لگے گا تو کس کا عرس لگے گا،، بہت زیادہ اسرار پر اجازت ملی مگر شرائط کے ساتھ کہ ایک بھی غیر شرعی امور نہیں ہونا چاہیے
چناں چہ آج بھی حافظ ملت کی وصیت پر عمل درآمد ہو رہا ہے کوئی بھی غیر شرعی امور انجام نہیں دیا جاتا ہے بلکہ ہر سال یہ پیغام دیا جاتا ہے کہ جسے بھی عرس اور میلے میں فرق دیکھنا ہو تو وہ عرس حضور حافظ ملت میں آکر دیکھے زمین کے اوپر کام نیچے آرام حضور حافظ ملت کا قول ہے کہ زمین کے اوپر کام اور زمین کے نیچے آرام
یہ کتنی بڑی بات ہے کہ زمین کے اوپر تمہیں کام کرنا ہے اور تمہیں کو فیصلہ بھی لینا ہے کہ کون سا کام کرنا ہے اس لیے کہ اللہ کے نزدیک جزا اور سزا دونوں کا انتظام ہے،،۔
حافظ ملت کے قول پر گہرائی سے غور کرنے پر اس بات کا یقین ہوتا ہے کہ نیک نیتی کے ساتھ اللہ کا نام لے کر زمین پر کام کیا جائے تو الجامعۃ الاشرفیہ جیسا علمی مرکز قائم ہوسکتا ہے جس کے نتیجے میں زمین کے نیچے آرام مل سکتا ہے
اور حافظ ملت نے نیک نیتی کے ساتھ زمین پر کام کیا تو آج مرنے کے بعد بھی انہیں آسمان خطابت کے بدر منیر بھی، فصاحت و بلاغت کے ماہ مستنیر بھی، مقرر بے نظیر بھی، خطیب شہیر بھی، بڑی بڑی خانقاہوں کے پیر بھی سب خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے آتے ہیں اور مجبور ہو کر تسلیم کرتے ہیں کہ حافظ ملت کا عرس بھی سبق آموز ہے تمام عرس کے لیے۔
آخر میں دعا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ عرس عزیزی کو ہمیشہ پاکیزہ رکھے اور حافظ ملت کی قبر پر انوار و رحمت کی بارش فرمائے اور اس بارش سے فیض یاب ہوکر ہر زمانے میں ایسے لوگ پیدا ہوں
جو شارح بخاری، رئیس القلم، محدث کبیر، بحر العلوم،رہ نمائے ملت، عزیز ملت، سراج الفقہاء، مقرر اعظم، خطیب الہند، خیر الاذکیا، فخر ملت بن کر پوری دنیا میں حافظ ملت کے اس گلشن کا تعارف کراتے رہیں
ان مضامین کو بھی پڑھیں
مشن حضور حافظ ملت کی عصری معنویت
حافظ ملت زہدو تقوی کے عظیم پیکر تھے